Monthly Archives: April 2008

تمباکو نوشی

ہمارے خاندان میں کوئی بھی تمباکو پیتا یا کھاتا نہیں تھا اور نہ ہے ۔ میں نے بچپن ہی ميں متعلقہ مضامين پڑھنا شروع کئے اور جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تمباکو نوشی کے خلاف پہلا مضمون لکھا ۔ وہ مضمون اپنے ہم جماعت لڑکوں کو دِکھایا ۔ اُنہوں نے پڑھنے کے بعد ہماری جماعت کے اِنچارج ٹیچر کو دے دیا ۔ ٹیچر نے مجھے بُلایا تو میں کانپتا ہوا اُن کے پاس پہنچا ۔ ٹیچر نے مُسکراتے ہوئے میرا کندھا تھپتھپایا اور شاباش کہہ کر ہدائت کی کہ میں مضمون اخبار کو بھیجوں ۔ اُس زمانہ میں راولپنڈی سے صرف اُردو روزنامہ تعمیر شائع ہوتا تھا جو جہلم سے پشاور تک اور آزاد جموں کشمیر میں مقبول تھا ۔ میں نے سکول سے گھر جاتے ہوئے تعمیر کے دفتر جا کر مضمون اُنہیں دے دیا ۔ کچھ دن بعد وہ مضمون تعمیر میں چھپ گیا ۔ مجھے اُس وقت علم ہوا جب مجھے کئی بزرگوں کی طرف سے شاباش ملنے لگی ۔ چند ماہ بعد فروری میں آٹھويں کا مقابلہ کا امتحان اور مارچ میں سکول کا آٹھویں کا سالانہ امتحان دینا تھے اسلئے میں نے مزید مضامین نہ لکھے مگر اپریل میں نویں جماعت میں جاتے ہی پھر مضمون نویسی شروع کی اور میرے مضامین گاہے بگاہے تعمیر اخبار اور بچوں کے رسالہ تعلیم و تربیت میں چھپتے رہے ۔ ميرے سگريٹ کے خلاف حقائق والے مضامين 1956 کے آخر تک چھپتے رہے ۔ اُس کے بعد ميں پڑھائی ميں اتنا مشغول ہوا کہ وقت ہی نہ ملا ۔ اب تو اخبار والے لکھنے والے کا سٹيٹس ديکھ کر کچھ چھاپتے ہيں ۔

تمباکو کے خلاف تو سب بولتے ہيں مگر عمل کی تحريک بہت کم ہے ۔ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور دينی لحاظ سے نشہ ممنوع ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان ميں تمباکو نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ مغربی ممالک جنہوں نے يہ علّت ہندوستان ميں پھيلائی وہاں کم ہو رہی ہے ۔ ايک سروے کے مطابق پاکستان ميں 40 فيصد مرد اور 8 فيصد عورتيں باقاعدگی سے سگريٹ پيتے ہيں ۔ اگر گٹکا ۔ پان اور نسوار کی صورت ميں استعمال ہونے والے تمباکو بھی شامل کر ليا جائے تو شائد پاکستان ميں تمباکو کے استعمال کی شرح دنيا کے تمام مُلکوں سے زيادہ ہو ۔ ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے اندازہ کے مطابق اگلے 20 سال ميں شاید 500 ملين انسان تمباکو نوشی کی وجہ سے پيدا شُدہ بيماريوں سے مريں گے اور ان ميں اکثريت اُن کی ہو گی جو اس وقت نابالغ ہيں ۔

تمباکو نوشی پھيلانے کا سبب اشتہار بازی ہے بالخصوص ٹی وی جو کہ گھر گھر ميں ديکھا جاتا ہے ۔ ٹی وی پر سگريٹ کی مشہوری کيلئے ايسی ايسی فلميں چلائی جاتی ہيں جيسے سگريٹ ہی ميں انسان کی جان ہو ۔ ان اشتہاروں کا زيادہ اثر نابالغ اور کم عمر بچوں پر ہوتا ہے ۔ موجودہ حکومت نے بڑے کرّ و فر سے تمباکو نوشی کے امتناع کا آرڈيننس 2002 جاری کيا تھا مگر اُسے نافذ کرنے کی عملی کوشش آج تک نہيں کی گئی ۔ پچھلے سال ستمبر ميں اسلام آباد ميں ٹريفک پوليس کے ايک آفيسر نے انسانوں سے بھری وين چلاتے ہوئے سگريٹ پينے پر ايک ڈرائيور کے خلاف کاروائی کر کے اس معاملہ ميں پہل کی مگر اس کے بعد کچھ نہ ہوا ۔

چوالیس سال قبل ميں نے اپنے ماتحت ايک آفيسر سے پوچھا کہ آپ کو تمباکو نوشی سے کيا ملتا ہے ؟ اُس نے جواب ديا کہ سَر ۔ سچ بتاؤں تو اِس سے بُری کوئی اور عادت نہيں ۔ آدمی بھوکا ہو تو کسی سے کھانے کی چيز نہيں مانگتا ۔ مگر اپنے پاس سگريٹ نہ ہو تو کِسی بھی اجنبی سے مانگ کر اُس کے منہ سے نکلا ہوا سگريٹ اپنے منہ ميں ڈال ليتا ہے ” ۔

چار دن

بہادر شاہ ظفر نے لکھا تھا
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ۔ ۔ ۔ دو آرزو ميں کٹ گئے دو انتظار ميں

ليکن يہ چار دن کا بيان ہے امام ابراہيم النّخاعی کا ۔ فرماتے ہيں ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں اور مجھے کوئی اپنے سے زيادہ علم رکھنے والا ملے تو ميں اس سے سيکھتا ہوں ۔ يہ دن ميرے فائدے اور نفع کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی اپنے سے کم علم رکھنے والا ملے تو ميں اسے سِکھاتا ہوں ۔ يہ دن ميرے انعام کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے ميرے جتنا علم رکھنے والا کوئی ملے تو ميں اس سے تبادلۂِ خيال کر کے اپنے علم کی تصحيح کرتا ہوں ۔ يہ دن ميرے سبق کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی ملے جس کا علم مجھ سے کم ہو مگر وہ اپنے آپ کو مجھ سے زيادہ علم رکھنے والا سمجھتا ہو تو ميں اس سے بات نہيں کرتااور اس دن کو ميں اپنے آرام کا دن سمجھتا ہوں ۔

تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

میں نے پچھلے سال 16 مئی کو “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی” پر لکھا تھا جسے القمر آن لائین پر اسی ہفتہ دوہرایا گیا ۔ اس پر ایک ہماجہتی تبصرہ کی وجہ سے یہ تحریر ضروری سمجھی ۔

اعتراض کیا گیا ” آپ نے اپنے اردو کے مضمون میں بے شمار خود بھی انگریزی کے الفاط استعمال کئے ہیں ۔جیسے میڈیکل کالج ۔ ریٹائرڈ ۔ جرنیل ۔ میڈیم ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان ۔ کوریا ۔ سکول ۔ ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ آپ جانتے ہیں یہ سب انگلش الفاظ ہیں ۔ جاپانی اپنی زبان میں جاپان نہیں کہتا؟

میں بھی اسی معاشرہ کا ایک فرد ہوں ۔ ساری زندگی معاشرہ کی جابر موجوں کے خلاف لڑتا قریب قریب تھک گیا ہوں اور اُردو میں انگریزی لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے کیونکہ صحیح اُردو لکھوں تو اُردو بولنے والے قارئین کی اکثریت منہ کھولے رہ جاتی ہے اور مجھے برقیے آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ “اُردو سمجھ میں نہیں آئی”۔

بہر کیف متذکرہ الفاظ میں چار ممالک کے نام ہیں جو ہند و پاکستان میں ایسے ہی بولے جاتے ہیں ۔ میڈیکل کالج ۔ کُلیہ طِبی ۔ ۔ ریٹائرڈ۔ سُبک دوش ۔ ۔ جرنیل۔ سالار ۔ ۔ میڈیم ۔ وسیلہ یا ذریعہ ۔ ۔ سکول ۔ مدرسہ ۔ ۔ ٹیسٹ ۔ پرَکھ یا کَسوَٹی یا امتحان یا معیار یا تمیز ۔ ۔ ممالک کے نام یہ ہیں ۔ جرمنی ۔ المانیہ ۔ ۔ جاپان ۔ نپوں ۔

سوال کیا گیا کہ ٹیلی ویذن۔ ریڈیو۔گلاس ۔کمپیوٹر ۔ ریل ۔ بس ۔ وغیرہ وغیرہ کی اردو کرکے تو بتائیں کہ ہم ان کی جگہ کون سے الفاظ استمعال کریں ؟ پھر سائینس ۔ میڈیکل ۔ ٹیکنکل ۔ انجنئیرنگ کی دنیا الگ پڑی ہے وہاں کون کون سے الفاظ لگائیں گے ؟”

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں مترجم نہیں ہوں ۔ دوسری یہ کہ اعتراض کرنے والے کو پہلے متعلقہ مخزن الکُتب یعنی لائبریری سے رجوع کرنے کے بعد ایسے سوال کرنا چاہیئں ۔ خیر میرے جیسا دو جماعت پاس بھی جانتا ہے کہ ریڈیو کا ترجمہ مذیاع ہے ۔ بس کا ترجمہ رکاب ۔ گلاس کی اُردو شیشہ ہے ۔ پانی پینے والا برتن جسے گلاس کہا جاتا ہے اس کا نام آب خورہ ہے ۔ گلاس انگریزی کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ المانی لفظ تھا جو کہ انگریزی میں گلِیس تھا لیکن اس کا مطلب شیشہ ہے ۔ جب شیشے کے آب خورے بننے لگے تو فلاں مشروب کا گلاس یا فلاں مشروب کا گلاس انگریزی میں مستعمل ہوئے کیونکہ مختلف قسم کی شرابوں کے آب خوروں کی شکل مختلف تھی ۔ بعد میں ابتدائیے غائب ہو گئے اور صرف گلاس رہ گیا ۔ اسی طرح کئی لوگ اُردو میں شیشے کی بنی چیز کو شیشہ یا شیشی کہتے ہیں ۔

ٹیکنیکل سے کیا مراد لی گئی ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ٹیکنیکل جس کا اُردو فنّی ہے کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ۔ سائنسی علوم جن میں طِب یعنی میڈیکل اور ہندسہ یعنی انجنیئرنگ بھی شامل ہیں پاکستان میں کم از کم دسویں جماعت تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں اور میڈیکل اور انجنیئرنگ کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین گریجوئیشن تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کے ایک شہر اسلام آباد میں ایک اُردو یونیورسٹی ہے اور ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں عرصہ دراز سے ایک اُردو یونیورسٹی ہے ۔ ان یونیورسٹیوں میں تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔

لکھا گیا کہ “اُردو زبان مکمل زبان نہیں اس میں انگریزی اردو فارسی ہندی عربی وغیرہ وغیرہ زبانیں شامل ہیں “۔

پہلی بات یہ کہ اُردو زبان کی ابتداء براہمی عربی اور فارسی کے آمیزے سے ہوئی تھی ۔ بعد میں تُرکی شامل ہوئی جس کے بہت استعمال ہونے والے الفاظ پلاؤ ۔ کباب اور سیخ ہیں ۔ اُردو میں انگریزی کا بیجا استعمال احساسِ کمتری کے نتیجہ میں ہوا ۔ ہندی کوئی زبان نہیں ہے ۔ اُردو کو ہی ہندی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ہند کی زبان تھی ۔ جب ہند کے مسلمانوں نے الگ وطن کا نعرہ لگایا تو کٹّر ہندوؤں نے ردِ عمل کے طور پر اُردو کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کیا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس میں سنسکرت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے اور بہت سے اُردو الفاظ کا حُلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

اُردو سیکھے بغیر اُردو کو نامکمل کہنا مُستحسن نہیں ۔ اُردو کم از کم انگریزی سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ میں اُردو میں روزمرّہ مستعمل کچھ الفاظ اور افعال درج کرتا ہوں ۔ ان کا مُنفرد انگریزی ترجمہ ڈھونڈنے سے احساس ہو جاتا ہے کہ انگریزی وسیع ہے یا کہ اُردو ۔

تُو ۔ تُم ۔ آپ ۔ جناب ۔ جنابعالی ۔ حضور ۔ حضورِ والا ۔ دام اقبال ۔ روح پرور ۔ روح افزاء ۔ روح قبض ۔ روح دِق ۔ روح فرسا ۔ سوہانِ روح ۔ طالبِ خیریت بخیریت ۔ الداعی الخیر ۔ مُتمنّی ۔ آؤ ۔ آئیے ۔ تشریف لایئے ۔ قدم رنجہ فرمائیے ۔ خیر ۔ احسان ۔ احسانمند ۔ شکر گذار ۔ متشکّر ۔ ممنون ۔ لیٹ جاؤ ۔ لیٹ جائیے ۔ دراز ہو لیجئے ۔ استراحت فرما لیجئے ۔ کھاتا ہے ۔ کھاتی ہے ۔ کھاتے ہیں ۔ کھاتی ہیں ۔ کھاتے ہو ۔ کھا تا ہوں ۔ کھاتی ہوں ۔ کھاؤ ۔ کھائیے ۔ تناول فرمائیے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں ۔ اس سے کم لوگ عربی بولتے ہیں ۔ اس سے کم انگریزی ۔ اس سے کم ہسپانوی اور اس سے کم اُردو بولنے والے ہیں ۔ باقی زبانیں ان کے بعد آتی ہیں ۔

یہ استدلال درست نہیں ہے کہ “دنیا کے کمپیوٹر کسی بھی زبان میں ہوں مگر ان کے نیچے انگلش زبان ہی کی پروگرامنگ ہوتی ہے”۔

کمپیوٹر کی بُنیادی زبان کے حروف ایک قدیم زبان لاطینی سے لئے گئے ہیں جو بڑے سے بڑے انگریزی دان کو بھی سمجھ نہیں آئیں گے ۔ صرف اُسے سمجھ آئے گی جو اس زبان کا ماہر ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں آئین کہا جاتا ہے جلا ہوا یا انگریزی کے آن کو اور آؤس کہا جاتا ہے بجھا ہوا یا انگریزی کا آف ۔ آئین کا نشان یعنی سِمبل ہے جرمن یا انگریزی کا آئی اور آؤس کا نشان ہے اَو ۔ کمپیوٹر صرف یہ دو حرف سمجھتا ہے ۔ باقی جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ وسیلہ ہیں ۔

یہ کسی حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ وسیلہ انگریزی کو بنایا گیا ہے ۔ وجہ عیاں ہے کہ پچھلی ایک صدی سے انگریزی بولنے والوں کا راج ہے ۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایلوگرتھم جس کا اصل نام کُلیہ خوارزم ہے کمپیوٹر کا پیش رو تھا اور اس سے قبل موتی تختہ جسے آجکل ابیکَس کہتے ہیں بھی کمپوٹر کی بنیاد ہے ۔ کمپیوٹر المانیہ کے مہندسین یعنی جرمن انجنیئرز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ایلوگرتھم مسلمان ریاضی دان یعنی مَیتھے مَیٹِیشِیئن کی دریافت ہے جو کہ خوارزم کے رہنے والے محمد بن موسٰی الخوارزمی (وفات 840ء) تھے اور ابیکِس اصحابِ شینا یعنی چینیوں کی دریافت ہے ۔

دلیل پیش کی گئی “پاکستان میں نہ تو ہماری زبان مکمل اور نہ ہی ہم نے سائنس اور ریسرچ پر توجہ دی ۔ معمولی اسپرین بنانے کےلئے ہم یورپ کے محتاج ہیں ۔اب ہم کس زبان میں اپنے فارمولے یا کلیئے استمعال کریں ۔ہم سب مل کر صرف ایک خالص اردو کا مضمون نہیں لکھ سکتے” ۔

اگر میں یا دوسرے پاکستانیوں نے قوم کیلئے حتی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس میں اُردو زبان کا کیا قصور ہے ؟ اگر ہم خالص اُردو میں ایک مضمون نہیں لکھ سکتے تو کیا یہ اُردو کا قصور ہے یا کہ ہماری نا اہلی ؟

یہ خیال بھی غلط ہے کہ پاکستانیوں نے سائنسی تحقیق نہیں کی اور کچھ تخلیق نہیں کیا ۔ نظریں غیروں سے ہٹا کر اپنے ہموطنوں پر ڈالی جائیں تو بہت کچھ نظر آ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحقیق اور تخلیقات کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ۔ ایسے بہت سے محسنِ ملت میں سے صرف کچھ زندوں میں چوٹی کے میٹالرجیکل انجیئر “ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اور گذر جانے والوں میں چوٹی کے ریاضی دان پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر اور مکینیکل انجنیئر پروفیسر سلطان حسین ۔ جن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا نامعلوم پوری قوم مل کر بھی اس کا کوئی کفّارہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں ۔ جو کچھ باقی پاکستانیوں نے کیا اس کی تفصیل میں جاؤں تو کئی دن صرف لکھنے میں لگیں گے ۔

سوال کیا گیا کہ “ہم کس زبان میں اپنے کُلیئے استعمال کریں ؟”

تین دہائیاں قبل مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جس کا کام مفید علوم جو دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں موجود ہیں اُن کا ترجمہ کرنا تھا جو کام اس ادارہ نے خوش اسلوبی سے شروع بھی کر دیا تھا لیکن 1988 میں اس ادارہ کو غیر فعال کر دیا گیا ۔ اُردو میں ترجمہ بہت مشکل نہیں ہے ۔ اللہ کی مہربانی سے عربی اور فارسی میں اکثر تراجم موجود ہیں جہاں سے ایسے الفاظ آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں جن کا اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے ۔

سوال کیا گیا کہ ” آخر انگلش سیکھنے میں نقصان ہی کیا ہے ؟”

میں انگریزی یا المانی یا شینائی یا دوسری زبانیں سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی تاثر اپنی متذکرہ تحریر میں دیا بلکہ میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کا حامی ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی زبان اور اپنے مُلک کیلئے کچھ نہیں کر سکے اُنہیں اپنی زبان اور اپنے مُلک کو بُرا یا ادھورہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔

بچےسب کوپیارے

سُنا کرتے تھے کہ بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں خواہ کسی کے بھی ہوں ۔ یہاں تک کہ خطرناک جانور بھی انسان کے بچوں کو گزند نہیں پہنچاتے ۔ فی زمانہ تو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ کہنے والے انسان بھی انسان کے بچوں کے دُشمن ہی نہیں قاتل بن چکے ہیں اور اسے اپنا کارنامہ گردانتے ہیں ۔ اس وحشت کی مثالیں ہر روز فلسطین ۔ عراق ۔ افغانستان اور پاکستان میں ملتی ہیں ۔ پاکستان کے دو واقعات کی یاد پر تو میرا دل روتا ہے ۔ باجوڑ ایجنسی میں ڈماڈولا کے مدرسہ پر امریکی فوج نے میزائل پھینک کر 5 اساتذہ اور 70 سے زائد طُلباء ہلاک کر دیئے تھے جن میں دو درجن سے زائد 8 سے 15 سال کے تھے ۔ جامعہ حفصہ اسلام آباد میں اپنے ہی ملک کی فوج نے چار پانچ سالہ بچیوں سمیت سینکڑوں نابالغ طالبات کو سفید فاسفورس کے بم پھینک کر بھسم کر دیا تھا ۔

ٹارزن کی کہانیاں اور مووی فلمیں بہت مشہور ہیں ۔ یہ سب ایک کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئیں کہ ایک بچہ کسی طرح جنگل میں رہ گیا تھا ۔ وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ پل کر جوان ہوا تو وہ سب اُس کے دوست بن گئے تھے ۔ شاید دو دہائی قبل کا واقعہ ہے کہ جنگلی مخلوق پر تحقیق کرنے والوں کو ایک جنگل میں انسان کا آٹھ دس سالہ بچہ نظر آیا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ دو تین بار اسی طرح ہوا ۔ آجر ایک دن اس بچے کو پکڑ لیا گیا ۔ اُس کی سب عادات جنگلی بندروں کی سی تھیں ۔ اُس نے پکڑنے والے کو اپنے دانتوں سے کاٹ بھی لیا تھا ۔

پرانے زمانہ یعنی وہ زمانہ جسے آج کے ترقی یافتہ انسان پسماندہ کہتے ہیں کی باتیں ہی کچھ اور تھیں ۔ میری والدہ نے ہمیں سنایا تھا کہ والدہ کی نانی صاحبہ نے اُنہیں بتایا کہ میری نانی بچپن میں بہت بھولی بھالی ہوتی تھیں ۔ میری نانی کی والدہ نے ایک دن میری نانی کو دہی کھانے کیلئے دیا اور خود کام میں مصروف ہو گئیں ۔ کچھ دیر بعد اُنہیں میری نانی کی آواز آئی ۔ وہ کہہ رہی تھیں “تم کھاؤ ۔ میں بھی کھاؤں گی”۔ میری نانی کی والدہ دیکھنے کیلئے دوڑی گئیں کہ بیٹی کس سے باتیں کر رہی ہے ۔ اُنہوں نے دیکھا کہ میری نانی کے پاس ایک لمبا سا اصلی سانپ ہے ۔ وہ سانپ کا سر پکڑ کر دہی میں ڈبوتی ہے اور کہتی ہے “تو بھی کھا”۔ پھر سانپ کو چھوڑ کر کہتی ہے “میں بھی کھاؤں گی” اور خود دہی کھاتی ہے ۔ یہ عمل وہ بار بار کر رہی تھی ۔ میری نانی جان کی والدہ کچھ دیر دم بخود ہو کر دیکھتی رہیں پھر انہوں نے شور مچایا جس سے سانپ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا ۔ بعد میں جب میری نانی کی والدہ کے حواس درست ہوئے تو اُنہوں نے سوچا کہ اُنہیں شور نہیں کرنا چاہیئے تھا اور دیکھتے رہنا چاہیئے تھا کیونکہ سانپ تو بیٹی کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا تھا ۔

نام سےکياہوتاہے

آدھی صدی قبل اُستاذ عموماً اپنے شاگردوں کو بڑے ہو کر نام پيدا کرنے کا کہتے تھے ۔ يہ الگ بات ہے کہ بہت سے بچوں کا نام اُن کی اپنی پيدائش سے پہلے پيدا ہو جاتا ہے ۔ وڈيرے يا صنعتکار يا جرنيل یا فیڈرل سیکریٹری کا بچہ ہو تو اُسے نام پيدا کرنے کی تکليف نہيں اُٹھانا پڑتی ۔ نام خود بخود بن جاتا ہے ۔

کچھ لوگ کہتے ہيں نام سے کيا ہوتا ہے ۔ کردار ہونا چاہيئے ۔ کچھ کہتے ہيں نام بہت اہم ہوتا ہے ساری زندگی کا معاملہ ہے اور کچھ اپنی تسلّی کيلئے نجوميوں يا ہندسوں کا حساب جاننے والوں سے اپنے نام کی پڑتال کرواتے ہيں اور اسے تبديل کر ديتے ہيں ۔

ايک دُکان پر بڑا سا سائن بورڈ لگا تھا اور مالک کا نام لکھا تھا حمِير حسين ۔ حمِير جمع ہے حُمار کی اور حُمار کا مطلب ہے گدھا ۔
صوبہ سرحد کے ايک مشہور سياستدان ہوئے ہيں ۔ جارج سکندر زمان ۔ يعنی دو بڑے فاتح ايک برطانيہ والا اور دوسرا يونان والا اُن ميں سما گئے مگر وہ ہر حکومت کے تابعدار تھے ۔

عام نام ہيں اللہ داد ۔ خُدا داد ۔ يعنی اللہ نے ديا ۔ کچھ لوگوں کا نام زرداد ہوتا ہے مطلب دولت نے ديا ۔ کچھ ایسے بھی نام ہیں جوبدنامِ زمانہ ہوئے ۔ نامعلوم کن وجوہات کی بنیاد پر ان کے نام ہند و پاکستان میں مستعمل ہوئے ۔ مثال کے طور پر مردوں میں پرویز نام عام ہے ۔ یہ پرانے زمانہ میں مجوسیوں کے ایک سردار کا نام تھا جو کہ بہت ظالم اور اللہ کے وجود کا منکر تھا ۔ عورتوں میں زرینہ نام کافی مستعمل ہے ۔ روس کے بادشاہ زار کہلاتے تھے جو کہ اللہ کہ منکر تھے اور اپنی طاقت کے بل بوتے اپنی رعایا کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ درجہ نہ دیتے تھے ۔ زار کی بیوی زارینہ کہلاتی تھی جو بعد میں زرینہ بن گیا ۔

آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ ٹی وی پر کوئی نام کانوں کو بھایا تو آئیندہ آنے والے بچے یا بچی کا رکھ دیا ۔ ٹی وی ڈراموں یا مووی فلموں میں کئی نام فرضی ہوتے ہیں یا کسی نام کا بگاڑ ہوتے ہیں ۔ ثانیہ کو تانیہ کی طرح بُلایا جاتا ہے ۔ نام تانیہ ہی رکھ دیا گیا ۔ جیلانی سے گیلانی بھی اسی طرح بنا لگتا ہے ۔ مصری جیلانی کو گیلانی بُلاتے ہیں ۔

کچھ لوگ شہرت پانے والے یا والی کے نام اپنے بچوں کیلئے پسند کرتے ہیں ۔ یہ آخری استدلال اچھا ہے لیکن اس میں پرویز جیسے کرداروں کی نقل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ نکوکاری مدِنظر ہونا چاہیئے ۔

ايک بچی کا نام رکھا گيا مذبذبين ۔ پوچھا يہ کيا نام ہے ؟ جواب ملا قرآن شريف ميں ہے ۔ کہا گيا کہ قرآن شريف ميں ابليس بھی لکھا ہے تو ناراض ہو گئے ۔ مذبذبين کا مطلب ہے تذبذب ميں رہنے والے ۔ يہ اُن لوگوں کيلئے استعمال ہوا جو دين کے بارے ميں تذبذب ميں رہتے ہيں اور بخشے نہيں جائيں گے ۔

کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ نام انسان کے کردار پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

بلاشُبہ نام اہم ہوتا ہے ۔ والدین کو چاہیئے کہ سوچ سمجھ کر بچی یا بچے کا نام رکھیں ۔ بالخصوص وہ نام نہیں رکھنا چاہئیں جو پہلے کسی جابر یا بدکردار شخص کا رہا ہو یا جس کے معنی اچھے نہ ہوں ۔

دوست نما دشمن

ميں نے يکم مئی 1963 کوپاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ملازمت شروع کی ۔ ہم اس عہدہ پر 9 لوگ بھرتی ہوئے تھے ۔ کام سے شناسائی کيلئے ہميں مختلف فيکٹريوں ميں بھيج ديا گيا ۔ تين ہفتے بعد ايک ساتھی کا ٹيليفون آيا کہ جلدی سے ميرے پاس آؤ ضروری کام ہے ميں خود آ جاتا مگر اس وقت ميرے علاوہ کوئی ميرا کام ديکھنے والا نہيں ۔ ميرے باس اُس وقت موجود نہ تھے سو میں نے دوسرے آفسر کو بتايا اور چلا گيا ۔ جونہی ميں وہاں پہنچا وہ شخص يہ کہہ کر اپنے دفتر سے تيزی سے نکل گيا کہ آپ بيٹھ کر چائے پئيں ميں دو منٹ ميں آيا۔ پانچ منٹ بعد ميں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلايا اور کہا جاؤ ديکھ کر آؤ [نام] صاحب کہاں ہيں ۔ اُس نے واپس آ کر بتايا ساتھ والے دفتر ميں ٹيليفون پر بات کر رہے ہيں ۔ تھوڑی دير بعد وہ صاحب آئے اور ميں ناراضگی کا اظہار کر کے بغير چائے پئے واپس آ گيا ۔

واپس پہنچنے پر پتہ چلا کہ ميرے باس آ گئے ہيں اور ياد فرمايا ہے ۔ ميں گيا تو اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں تھے ؟ ميں نے بتايا کہ بيس منٹ پہلے ايک ساتھی [نام] نے بلايا تھا اُس کے پاس گيا تھا ۔ باس نے کہا کہ ديکھو اجمل اس کو دوست نہ سمجھنا ۔ دس منٹ بارہ پہلے مجھے تمہارے اسی دوست کا ٹیلیفون آيا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ميں ايک گھنٹے سے اجمل کو ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے نہيں ملا ۔ ميں نے اسے بہت ضروری پيغام دينا ہے ” ۔

زندگی کیا ہے ؟

زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے ۔

کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں اور کچھ دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں ۔ ان میں سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ اُن کی صحت ٹھیک رہتی ہے اور وہ اطمینان کی نیند بھی سوتے ہیں ۔

ستم ظریفی دیکھیئے کہ عام طور پر انسان اپنی خوشی تو اپنی محنت کا ثمرہ گِنتا ہے اور دُکھ ملے تو اسے اللہ کی مرضی کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کہ خالق نے اپنی مخلوق کو دُکھ دینے کیلئے پیدا نہیں کیا ۔ دُکھ اور تکلیف انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غلط سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر وقت ایک ہی موسم رہے یا ہر وقت دن یا ہر وقت رات رہے تو زندگی اجیرن ہو جائے ۔ اگر بیماری نہ آئے تو صحت کی قدر نہ ہو ۔ تکلیف نہ آئے تو آسائش کا احساس جاتا رہے ۔ غُربت نہ ہو تو دولت بے قدر ہو جائے ۔ کوئی بے اولاد نہ ہو تو اولاد کی اہمیت نہ رہے ۔ امتحان نہ ہو تو محنت کون کرے ۔

سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے ۔

دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں ۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے “دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو”۔ دولت نہ خوشی خرید سکتی ہے نہ اطمینان اور نہ صحت ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی ۔ دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے ۔

میں نے ایسا آدمی بھی دیکھا ہے جو دولت کے انبار لئے پھر رہا تھا کہ کوئی سب لے لے اور اُس کے بیٹے کو صحت و زندگی بخش دے ۔

عرصہ گذرا میرے ایک واقفِ کار ایک تبلیغی ٹولے کے ساتھ امریکہ گئے ۔ ان لوگوں نے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی انتظامیہ سے شہر سے باہر خیمہ لگانے کی اجازت لی اور بیان و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ مغرب کے بعد جب پورا گروہ خیمے میں اکٹھا ہوتا تو قرآن شریف کی تلاوت اور ترجمہ عشاء کے کافی بعد تک ہوتا ۔ اس دوران روزانہ دو اُدھڑ عمر گورے امریکن پیدل سیر کرتے ہوئے وہاں سے گذرتے ۔ ایک دن اُنہوں نے بیٹھ کر سننے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی ۔ حالانکہ تلاوت عربی میں ہو رہی تھی اور تفسیر اُردو میں لیکن وہ دونوں بڑے انہماک سے سُنتے رہے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لیٹ کر سو گئے ۔ گروہ کے دو آدمیوں نے اپنے سلیپِنگ بیگ ان پر ڈال دئیے اور خود کوٹ وغیرہ پہن کر سو گئے ۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد گروہ کے آدمی اپنے تبلغی دورے پر چلے گئے اور ایک آدمی کو ان دو امریکیوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ گئے ۔ 9 بجے کے بعد جب سورج بلند ہوا اور ان پر دھوپ آئی تو وہ دونوں جاگ اُٹھے اور حیران ہوئے کہ وہ زمین پر سوئے ہوئے تھے ۔ شام کو وہ جلدی آ گئے اور کہنے لگے “یہ جو کچھ تم پڑھتے ہو ہمیں بھی سکھاؤ گے ؟” اُن کو بتایا گیا کہ گروہ میں سے ایک شخص ہے جو انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر کرتا ہے ۔ وہ کہنے لگے “ہم دونوں بِلینیئر [Billionaire] ہیں ۔ آپ ہماری ساری دولت لے لیں اور ہمیں یہ علم سِکھا دیں”۔ اُن سے کہا گیا “سِکھانا تو ہمارا فرض ہے ہم اس کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے مگر آپ اتنی ساری دولت لُٹانے پر کیسے آ گئے ہیں ؟” امریکیوں میں سے ایک بولا ۔ میرے گھر میں ہر آسائش موجود ہے آرام دہ کمرہ اور بہت آرام دہ بستر ۔ موسیقی ۔ سب کچھ مگرہمیں نیند نہیں آتی ۔ ہم ڈاکٹروں سے مشورہ لیتے ہیں ۔ پِلز [Pills] بھی کھاتے ہیں ۔ یہ سیر بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ نیند آ جائے لیکن تقریباً ساری ساری رات جاگتے ہیں اور صبح جسم تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے ۔ رات ہم 11 گھنٹے سے زیادہ سوئے ۔ سردی میں گھر سے باہر اور سخت زمین پر ۔ ہماری دولت کس کام کی جو ہمیں چند گھنٹے روزانہ کی نیند بھی نہیں دے سکتی ؟” وہ امریکن روزانہ تلاوت اور انگریزی ترجمہ سُنتے رہے اور تبلیغی گروہ کے وہاں قیام کے دوران ہی اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام کر دی اور اسلام قبول کر لیا ۔

ساس بہو یا نند بھابھی کا رشتہ بہت اُلجھاؤ والا ہے ۔ کہیں ایک قصور وار ہوتی ہے اور کہیں دونو ۔ اللہ میری بڑی خالہ جو کہ میری ساس بھی تھیں کو جنت میں جگہ دے ۔ میں نے اُنہیں ایک خاتون کو جو اپنی بہو کی بدتعریفی کر رہی تھی کہتے سُنا ۔ دو عورتوں کی کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے اس کے داماد کے متعلق پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ “داماد بہت اچھا ہے دفتر جانے سے پہلے میری بیٹی کیلئے ناشتہ تیار کر کے جاتا ہے پھر دفتر سے آ کر میری بیٹی کے کپڑے استری کرنے کے بعد فٹا فٹ کھانا پکا لیتا ہے اور بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتا ہے ۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور برتن دھو کر سوتا ہے ۔ پھر اس عورت نے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگی “وہ بچارا تو مشکل میں ہے ۔ تھکا ہارا دفتر سے آتا ہے اور بچے سنبھالنا پڑتے ہیں”۔ عورت نے پوچھا “بہو کہاں ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا “کھانا پکا رہی ہوتی ہے”۔ پھر عورت نے پوچھا “تمہارے گھر کا باقی کام کون کرتا ہے ؟” تو منہ بنا کر جواب دیا “بہو کرتی ہے”۔

ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں ۔
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔

سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے میرے دادا جان کو کہا کرتے تھے “جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا”۔

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

محنت کامیابی کی کُنجی ہے ۔ محنت کا پھل مِل کر رہتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر عملی طور پر کرتے کچھ نہیں ۔ ان کی مثال یوں ہے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

خوش فہمی میں رہنا اچھی بات نہ سہی لیکن ہر چیز یا بات کا روشن پہلو دیکھنے سے انسان نہ صرف خود اپنی صحت ٹھیک رکھتا ہے بلکہ دوسرے بھی اُس کو زبان سے نہ سہی لیکن دلی سچائی میں اچھا سمجھتے ہیں ۔ ہاں حسد کریں تو الگ بات ہے مگر حسد سے اپنا خُون جلانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بچپن سے مندرجہ ذیل شعر میرے مدِنظر رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کی روشنی میں جد و جہد کی اور اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہیں رہا ۔

تُندیِٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

یقینِ محکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں
استقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

یہ آخری شعر میں نے علامہ اقبال کے شعر میں ترمیم کر کے بنایا تھا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953]

جو بات کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ ہے کہ پیٹ بھرنا انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت انسان ظُلم ۔ جُرم اور گناہ بھی کرتا ہے لیکن پیٹ سونے ۔ چاندی یا ہیروں سے نہیں بلکہ گندم ۔ چاول ۔ مکئی ۔ سبزی پھل یا گوشت سے بھرتا ہے ۔