مندرجہ ذیل مضمون میری 17 دسمبر 2007ء اور 14 جنوری 2008ء کی تحاریر کی تیسری اور آخری قسط ہے ۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تمام مخلوقات کے جوڑے بنائے ہیں ۔ اگر ان میں کوئی باہمی کشش نہ ہوتی تو یہ نظام چل نہ پاتا ۔ دیکھا جائے تو پوری کائنات کے نظام کے چلنے کی بنیاد ہی باہمی کشش ہے ۔ اس کشش کا متوازن ہونا پائیداری کیلئے ضروری ہے ۔ بات کریں حضرتِ انسان کی تو یہ کشش ازل سے ہے اور جس دن یہ ختم ہو گی میرا خیال ہے کہ اس وقت یا اس کے بہت جلد بعد قیامت وقوع پذیر ہو جائے گی ۔ اس کشش کا عدم توازن یا تجاوز ارتعاش یا انتشار کا باعث بنتا ہے
میں سوچتا ہوں کہ اگر مجھ میں عورت کی کشش نہ ہوتی تو میں نہ شادی کرتا نہ میرے بچے ہوتے ۔ میں صرف کماتا ۔ سیروسیاحت اور مہم جوئی کرتا اور اس کے علاوہ اپنے کمرہ میں بند نئی سے نئی ایجاد کیلئے سرگرم ہوتا ۔ شائد یہ عمل عجیب محسوس ہو کہ صنفِ مخالف کی کشش کا قائل ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی لڑکی کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے نتیجہ میں اب تک بہت گلے شکوے سننا پڑتے ہیں ۔ عزیز و اقارب خواتین کہتیں ہیں “مانا کہ تم بلندیوں کی طرف نظر رکھتے ہو لیکن کبھی زمین پر بھی نظر ڈال لیا کرو جس پر ہم جیسے غریب چل رہے ہوتے ہیں”۔ یہ شکائت اس دور سے ہے جب میں پیدل یا بائیسائکل پر ہوتا تھا اور اب بھی ہے کہ کار پر ہوتا ہوں ۔ میں کہہ دیتا ہوں کہ اگر اِدھر اُدھر دیکھوں گا تو کسی گاڑی سے ٹکرا جاؤں گا ۔ ایک بار ایک محترمہ [کزن] نے کہا “باتیں مت بناؤ ۔ میں تمہارے سامنے سے گذری تھی”۔ میں نے بھی نہلے پر دیہلا لگا دیا “باجی ۔ میں نظر نیچی رکھ کر چلتا ہوں کہ کسی غیر عورت کو دیکھ کر گناہگار نہ ہو جاؤں”۔
ہر چیز کا طریقہ اور سلیقہ ہوتا ہے جس کے بغیر مضبوط معاشرہ کا قائم ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ عورت مرد کی باہمی کشش کے زیرِاثر تجاوزات آج کی بات نہیں ۔ صرف اس کی مقدار اور پھیلاؤ گھٹتے بڑھتے رہے ہیں اور مختلف معاشروں میں بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ میں نے اس فعل یا عمل کا بہت مطالعہ کیا اور اس میں ملوث ہونے والے کئی لڑکوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا ۔ مجھے اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آئی اور وہ ہے کہ ہر لڑکا جب ایک خاص عمر کو پہنچتا ہے تو وہ خواہش کرتا ہے کہ لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہوں ۔ یہی جذبہ لڑکیوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص عمر کو پہنچ کر لڑکیوں کے دل میں لڑکوں کی ستائش حاصل کرنا چُٹکیاں لینے لگتا ہے ۔ اسی وجہ سے کئی لڑکے لڑکیاں بار بار آئینہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے لگ رہے ہیں ۔ اس خواہش کے زیرِ اثر کچھ لڑکے لڑکیاں غلط راہ پر چل پڑتے ہیں جسے وہ وقتی شغل میلہ قرار دیتے ہیں ۔ اسی شغل میلے میں چند بے راہروی اختیار کر لیتے ہیں ۔ فرعون نے اپنی اسی خواہش کے تحت لڑکوں کے قتل اور خوبصورت لڑکیوں کے زندہ رکھنے کا حکم دیا ۔ کلوپٹرا کی حکومت آئی تو اس نے ہر خوبصورت مرد کو اپنے قریب رکھا ۔
ایک کُلیہ ہے معاشیات کا طلب اور رسد کا جو اس معاملہ میں بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے کہ صنفِ مخالف کی توجہ بھی مل جائے اور بدتہذیبی بھی نہ ہو لیکن اس کیلئے کچھ محنت بھی کرنا پرتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ بغیر محنت کے تو کچھ نہیں ملتا ۔ کوئی نوالا منہ بھی ڈال دے تو چبانا اور نگلنا خود ہی پڑتا ہے ۔ لڑکا اگر سَستی قسم کی بڑھائی کی بجائے اپنے اندر ایسی بڑھائی پیدا کرے جو ہمیش ہو تو وہ ایک لڑکی نہیں بلکہ کئی لڑکیوں کو متوجہ کر سکتا ہے لیکن نیت لڑکی کی توجہ حاصل کرنے کی بجائے اپنے اندر اچھائی پیدا کرنے کی ہو ۔ کیونکہ معاشیات کا کلیہ کہتا ہے کہ طلب زیادہ ہو تو رسد کم ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس رسد زیادہ ہو تو طلب کم ہو جاتی ہے ۔
لڑکے ان طریقوں سے لڑکیوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بال بنا کر ۔ سردیوں میں صرف قمیض پہن کر ۔ مہنگی خوشبو لگا کر ۔ خطرناک طریقہ سے سائیکل یا موٹر سائیکل چلا کر [آجکل کار] ۔ گانا گا کر ۔ قیمتی گھڑی پہن کر جسے بار بار وہ ننگا کرتے ہیں ۔ باڈی بلڈنگ کر کے ۔ مجھے ایسے لڑکوں کی عقل پر ہی شک رہا ۔ ان چیزوں پر میں نے لڑکیوں کو ہنستے تو دیکھا ہے لیکن متاثر ہوتے نہیں دیکھا ۔ گو کچھ لڑکیاں اداکاروں یا کھلاڑیوں پر دل نچھاور کر دیتی ہیں اور بعد میں پچھتاتی ہیں ۔ شادی شدہ مردوں کے اس عمل میں ملوث ہونے کا سبب احساسی کمتری یا احساسِ محرومی ہوتا ہے ۔ مرد ہی نہیں کچھ شادی شدہ عورتیں بھی یہ حرکات کرتی ہیں ۔ اس کی وجہ خاوند کی بے توجہی یا خاوند کا غلط چال چلن ہوتا ہے ۔ جن عورتوں کے خاوند سالہا سال ان سے دور رہتے ہیں ان میں سے بھی چند اس راہ پر چل پڑتی ہیں ۔
بلاشُبہ چہرے یا جسم کی ظاہری خوبصورتی بہت کشش رکھتی ہے مگر یہ دائمی نہیں ہوتی ۔ کچھ عرصہ بعد وہی چہرہ وہی جسم اپنی کشش کھو دیتا ہے یا عام سا لگنے لگتا ہے ۔ سیرت ایک ایسی خوبی ہے جسے قائم کیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کشش بڑھتی جاتی ہے ۔ سیرت کے کئی پہلو ہیں ۔ محنت سے پڑھنا ۔ صاف ستھرا رہنا ۔ لڑکی ۔ خواتین یا بزرگوں سے بات کرتے ہوئے نظریں نیچی رکھنا ۔ بے لوث خدمت یعنی کسی مادی لالچ اور امیر غریب یا چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر ۔ ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کا ساتھ دینا ۔
میں اس دنیا کی مخلوق نہیں ہوں اگر کوئی مجھے اس معاشرے کے حساب سے دیکھے تو میں اُجڈ شخص ہوں ۔ میں ہمیشہ صنفِ مخالف سے کتراتا رہا ہوں ۔ اپنے خاندان میں سوائے دو کے سب لڑکیاں یا مجھ سے بہت بڑی ہیں یا بہت چھوٹی ۔ دوسری لڑکیاں رشتہ دار ہوں یا غیر ہوں جوانی میں ان کے ساتھ میرا رویہ بڑا خشک ہوتا تھا ۔ میرے کچھ قریبی ہمجماعت کبھی کبھار کہہ دیتے “یار اجمل ۔ تم ہم سب کے ساتھ اتنے نرم لہجہ میں بات کرتے ہو ۔ لڑکیوں کے سامنے تمہیں کیا ہو جاتا ہے ؟”کمال یہ ہے کہ میرے خشک رویئے کے نتیجہ میں کسی لڑکی نے میرے ساتھ کبھی بُرا سلوک کرنا تو درکنار کبھی ماتھے پر بل بھی نہ ڈالے ۔ اس خشک رویئے کے باوجود لڑکیاں مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتیں ۔ عشق کو میں ہمیشہ دماغ کا خلل سمجھتا رہا ہوں ۔ لڑکیوں کے پیچھے پھرنا یا صرف دیکھنے کی خاطر ان پر نظریں ڈالنا میری نظر میں ایک انتہائی گھٹیا فعل رہا ۔ بلا تفریق امیر و غریب یا لڑکی لڑکا ہر کسی کی خدمت کرنا میں اپنا فرض سمجھتا رہا ہوں ۔ میں ساری عمر میں زر تو نہ اکٹھا کر سکا لیکن مجھ پر اللہ سُبحانہُ والحَمْدُللہ بعَدَدِ خَلْقِہِ کی بہت کرم نوازی رہی کہ ہر کسی نے مجھے عزت دی ۔
اجمل انکل، آپ کی باتوں سے متفق ہوں۔ اور آپ کے بارے میں پڑھ کر اچھا لگا۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔
ماوراء صاحبہ
یہ سب میری خوبی نہیں میرے خالق و مالک کی خاص مہربانی ہے
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے