خوش قِسمت دادا

سالگرہ مبارک ہماری بہت پياری مِشَّيل
 تم جيؤ ہزاروں سال ۔ ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزارا

للہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری پياری پوتی پر اپنی رحمتيں نازِل کرے ۔ آمين

آج دادا اور دادی کی جان [ابھی تک اکلوتی] پياری پوتی مِشَّيل [زکريا کی بيٹی] ماشاء اللہ دو سال کی ہو گئی ہے ۔
مِشَّيل جب دسمبر 2005 ميں پہلی بار پاکستان آئی تو خيال تھا کہ امريکی ماحول يعنی اکيلا رہنا کی وجہ سے وہ پاکستان کے ماحول اور ہم سے گھبرائے گی ليکن اُس نے ثابت کر ديا کہ “جو کھينچتی ہے تُجھ کو وہ خون کی کشش ہے”۔ اسلام آباد ايئرپورٹ پر سامنے آتے ہی ميں نے آگے بڑھ کر اُسے بُلايا تو ماشاء اللہ مُسکرا کر اُس نے ميری روح تازہ کر دی ۔ گھر پہنچ کر مِشَّيل اپنی امّی کی گود ميں بيٹھی تھی ۔ ميں نے بُلايا تو مُنہ چھُپا ليا ۔ اس پر ميں ہنس ديا تو مِشَّيل نے اِسے کھيل بنا ليا ۔ جب ميں بُلاتا تو عموماً چھُپ جاتی کبھی اپنی امّی کی گود ميں کبھی اپنے ابّو کی ٹانگوں ميں کبھی صوفے کے پيچھے ۔ اگر ميں نہ بلاؤں تو خود مجھے بُلاتی ۔ جب ميں کہتا ” مِشَّيل آ جا” تو چھُپ جاتی ۔ ايک دن دوسری منزل پر جا کر مُجھے بلانے لگ گئی “دادا ۔ دادا” ميں اُوپر گيا تو ہنستی ہوئی کمرے ميں چھُپنے کيلئے بھاگی ۔

مِشَّيل کے واپس امريکہ جانے کے بعد جب ہم ٹيليفون کرتے تو کہتے کہ مِشَّيل کو ٹيليفون دو ۔ مِشَّيل اپنی دادی اور پھُوپھو سے اپنی سپيشل زبان ميں باتيں کرتی ۔ ميرے ساتھ صرف ايک دفعہ بات کی ورنہ ميری آواز سُنتے ہی ٹيليفون اپنے ابّو کو دے کر بھاگ جاتی ۔ 30 جون 2006 کو زکريّا بيٹے کا ٹيليفون آيا کہ مِشَّيل کہہ رہی ہے “دادا فون ۔ دادا فون”۔ اُس وقت ميں موجود نہيں تھا تو اپنی دادی سے باتيں کرتی رہی ۔ چند منٹ بعد ميں پہنچ گيا پھر ميرے ساتھ بھی باتيں کيں جو میری سمجھ ميں نہيں آئيں ۔

اب تو اللہ کے فضل سے يہ حال ہے کہ لَيپ ٹاپ کی طرف اشارہ کر کے مِشَّيل اپنے ابُو سسے کہتی ہے ۔ دادا فوٹو يعنی دادا کی تصوير دِکھاؤ ۔ دس بارہ دن پہلے ہم نے ٹيليفون کيا تو زکريّا نے بتايا کہ مِشَّيل کو زکام اور بخار ہے ۔ ميں نے کہا پھر تو اُس سے بات نہيں ہو سکے گی ۔ ايک منٹ بعد مِشَّيل نے آ کر اپنے ابُّو سے ٹيليفون لے ليا اور ميرے ساتھ باتيں کرنے لگی ۔ وہ مُجھے کچھ بتاتی رہی دادا ۔ ۔ ۔ دادا ۔ ۔ ۔ مُجھے ايک آدھ لفظ سمجھ آيا مثلاً کَيپ ۔ مُجھ سے ميری بيگم نے ٹيليفون پکڑ ليا تو مِشَّيل نے اپنی دادی کی بات نہ سُنی اور کہا دادا فون تو ميری بيگم نے ٹيليفون مُجھے واپس دے ديا اور مِشَّيل پھر ميرے ساتھ باتيں کرنے لگ گئی ۔ بعد ميں مِشَّيل نے اپنی دادی کے ساتھ بھی بہت باتيں کيں ۔ اب تو زکريّا کہتا ہے دادا سے بات کرنی ہے تو مِشَّيل بھاگی ہوئی آتی ہے۔ سُبحان اللہ ۔ چشمِ بَد دُور

This entry was posted in 1 ميرا خاندان on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “خوش قِسمت دادا

  1. امن ایمان

    اجمل چاء۔۔۔آپ کی مشیل سے محبت دیکھ کر بہت اچھا لگا۔۔

  2. اجمل

    امن ایمان صاحبہ
    ہماری ماشاء اللہ ابھی صرف ایک ہی پوتی ہے اور کوئی پوتا یا نواسہ یا نواسی نہیں ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.