کون اور کیوں ؟ ؟ ؟

14 فروری کو میں لاہور میں تھا ۔ مجھے ایک دوست کے گھر جانا تھا ۔ اُسے ٹیلیفون کیا تو اُس نے کہا “ٹیکسی پر مت آؤ ۔ میرا بیٹا کار میں لینے آ رہا ہے ۔ ہم 10 بجے صبح گُلبرگ 3 سے روانہ ہوئے اور چوہدری ظہور الٰہی روڈ ۔ کینال بینک ۔ فیروزپور روڈ اور اِچھرہ سے ہوتے رحمٰن پورہ پہنچے ۔ راستہ میں وزیرِ اعلٰی چوہدری پرویز الٰہی کے گھر کے سامنے کوئی درجن جیپوں اور ایک ٹرک میں سوار اسلحہ بردار پولیس دیکھی ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وزیرِ اعلٰی اُس وقت دفتر جا چکے تھے اور دفتر پر اس سے زیادہ پولیس معمور تھی ۔ دوست کا بڑا بیٹا جو ملتان روڈ پر اپنی دُکان کے پیچھے تعمیراتی کام کروا رہا تھا دوپہر کا کھانا کھانے گھر آیا اور بتایا “لاہور میں مکمل ہڑتال ہے”۔ گڑبڑ کا پوچھا تو کہا ” راستہ میں دو ٹائر جلتے دیکھے ہیں اور کوئی گڑبڑ نہیں تھی ۔ پرائیویٹ گاڑیاں بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہی تھیں”۔ 3 بجے بعد دوپہر دوست کی کار میں واپس گُلبرگ پہنچا ۔ راستہ میں کوئی ایسی چیز نہ دیکھی جس سے کسی گڑبڑ کا شُبہ ہو ۔میرے بہنوئی نے بتایا کہ اُنہیں کسی نے ٹیلیفون پر بتایا ہے کہ کچھ جوانوں نے جن کی تعداد سو ڈیڑھ سو کے درمیان ہے مال پر توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے جبکہ جلوس کا ابھی کچھ پتہ نہیں ۔ پی ٹی وی لگایا تو کوئی خبر نہ تھی ۔ اے آر وائی ٹی وی لگایا تو کچھ جوان ایک کار توڑتے دیکھے ۔ اے آر وائی کے مطابق سو ڈیڑھ سو جوان 2 بجے بعد دوپہر اچانک مال روڈ پر نمودار ہوئے اور توڑپھوڑ شروع کر دی ۔ ان کے پاس کوئی جھنڈا یا پلے کارڈ نہ تھا اور نہ وہ کارٹونوں کے خلاف کوئی نعرہ لگا رہے تھے ۔ اصل جلوس پونے تین بجے مال پر آیا ۔ اُس وقت کچھ گاڑیوں کو آگ لگی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اے آر وائی سب کچھ دِکھاتا رہا ۔ رپورٹرز کا کہنا تھا کہ توڑپھوڑ اور جلانے کے اس عمل میں پولیس نے کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ یہ حقیقت براہِ راست دِکھائے جانے والے مناظر سے بھی واضح تھی ۔

کچھ منظر اے آر وائی والے باربار دِکھا رہے تھے ۔ ان میں سے دو منظر میرے لئے ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ۔
[1] اِس منظر میں ایک جوان کے ہاتھ میں ایک تین چار اِنچ چوڑا اور 2 فٹ لمبا کالے رنگ کا لوہے یا لکڑی کا ٹکڑا ہے اور وہ اِس کی ساتھ اسمبلی ہال کے گِرد 4 فٹ اُونچے ستونوں پر لگے ہوئے شیشے کے گلوب بڑے اِطمنان سے توڑتا جا رہا ہے اور کوئی اُسے روکنے والا نہیں ۔
[2] دوسرے منظر میں چار پانچ موٹر سائیکل نیچے اُوپر گرے پڑے ہیں ۔ نیچے والے دو تین موٹرسائیکلوں کے درمیان والے حصے سے چھوٹے چھوٹے شعلے اُٹھ رہے ہیں ۔ ایک پولیس والا سب سے اُوپر والے موٹر سائیکل کو اُٹھا کر دیکھتا ہے ۔ صاف نظر آتا ہے کہ اسے آگ نہیں لگی ہوئی ۔ پولیس والا اسے گھسیٹ کر جلتے ہوئے موٹرسائیکل کے اُوپر کر دیتا ہے ۔

توڑپھوڑ اور آگ لگانے کا سلسہ بعد دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک بلا روک ٹوک جاری رہا ۔ پولیس کی نفری بہت کم تھی اور جو تھی وہ زیادہ تر تماشائی بنی ہوئی تھی ۔ اِس سے مندرجہ ذیل سوال اُبھرتے ہیں :

[1] متذکّرہ جوان کون تھے ؟
[2] محرّم کے جلوس میں بم دھماکہ کے پیشِ نظر جلوس کے شُرکاء اور سرکاری اور نجّی املاک کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا ؟
[3] پولیس کی اِتنی کم نفری [200 سے کم] کیوں لگائی گئی ؟ جبکہ چند دن قبل مَیراتھان کے وقت دوڑنے والوں کے تمام راستہ کو جس میں مال بھی شامل تھی پولیس نے گھیرے میں لئے رکھا تھا ۔ مال کے تو کوئی انسان قریب بھی نہیں آ سکتا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ مَیراتھان کی حفاظت کے لئے 2500 پولیس والوں کو معمور کیا گیا تھا
[4] مال پر 4 گھینٹے مکمل لاقانونیت رہی ۔ توڑپھوڑ اور آگ لگانے سے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی اور اِس کے لئے فوری طور پر مزید پولیس کیوں نہ بلائی گئی ؟

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “کون اور کیوں ؟ ؟ ؟

  1. Attiq-ur-Rehman

    السلام علیکم : آپ نے جو دیکھا، ہمیں اس میں شریک کیا، شکریہ۔ دراصل درمیان والے لوگ ہی کام خراب کرتے ہیں جیسا کہ لاہور میں ہوا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ حالات کو قابو میں رکھتے لیکن یہاں تو کچھ اور ہی معاملہ نظر آرہا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے اٹھائے گئے سوالات قابلِ غور ہیں۔

  2. اجمل

    عتیق الرّحمٰن صاحب
    تبصرہ کا شکریہ ۔ لاہور میں تمام صحافی یہی سوالات اُٹھا رہے تھے ۔ عام لوگوں میں کچھ مولویوں کو مُوردِالزام ٹھیرا رہے تھے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.