میں آٹھ نو دِن بلاگ سے غیرحاضر رہا ۔ کچھ حضرات کو میری صحت بارے فکر ہوئی اور اُنہوں نے میری خیریت دریافت کی ۔ ان میں سب سے پہلے دُبئی والے شعیب صاحب نے تشویش کا اِظہار کیا ۔ میں اِن حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور اللہ کا بھی شکرگذار ہوں جس نے مجھے یہ بے لوث چاہنے والے بخشے ۔ اس دوران مجھے 16 سے 19 فروری تک ایک پینٹیم 2 کمپیوٹر کی مرافقت حاصل ہو سکی جس پر آدھی ونڈوز ایکس پی نصب تھی چنانچہ میں صرف انگریزی کی ای میل پڑھ کے جواب دے سکا ۔ اپنے بلاگ پر قارئین کے تبصرے میں نے بغیر پڑھے شائع کئے مگر ان کے جواب نہیں لکھ سکتا تھا ۔12 فروری کو میری بیوی کے بڑے بھائی [میرے خالہ زاد] کے بیٹے کی منگنی تھی ۔ 12 آدمیوں نے جانا تھا ۔ ایک وین کرایہ پر لی گئی ۔ ہم لوگ صبح 7 بجے روانہ ہوئے اور گُوجرانوالہ کے راستے 12 بجے دوپہر سیالکوٹ پہنچے ۔ لڑکے کے ماموں کے گھر جا کر تازہ دم ہوئے اور ایک بجے لڑکی والوں کے گھر پہنچے ۔ کچھ دیر سستانے کے بعد کوٹھی کے پائیں باغ میں سب نے باجماعت نمازِ ظُہر ادا کی پھر کھانا کھایا جس کے بعد رسم ہوئی ۔ میں اور میرے دو ہم زُلف خواتین والے کمرہ میں نہیں گئے اسلئے معلوم نہیں کہ رسم میں کیا ہوا ۔ لاہور سے میری بیوی کی بہن اور بہنوئی بھی آئے ہوئے تھے ۔ لاہور میں 18 فروری کو میری بیوی کے چھوٹے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی چنانچہ ہم واپس اسلام آباد آنے کی بجائے 4 بجے بعد دوپہر اُن کے ساتھ لاہور چلے ۔ راستہ میں گوجرانوالہ میں اُن کی بیٹی کے ہاں قیام کیا اور لاہور ڈیفنس میں اُن کے گھر رات 10 بجے پہنچے ۔
13 فروری کو ہم نے ہونے والی دُلہن اور اُس کے گھر والوں سے کینال ویو جا کر ملاقات کی ۔ وہ لوگ برطانیہ سے آئے ہوئے ہیں اور ہونے والی دُلہن کی خالہ کے گھر ٹھیرے ہوئے ہیں ۔ دوپہر کا کھانا اُن کے ساتھ کھایا پھر گُلبرگ گئے اور میرے بیوی کی بھانجی کے گھر چائے پی پھر رات تک میری بیوی اور اُس کی بہن نے ہونے والی دُلہن اور دولہا کے لئے تحائف خریدے ۔ اس کے بعد ہمیں گُلبرگ میں میری بڑی بہن کے گھر اُتار کر وہ ڈیفنس میں اپنے گھر چلے گئے ۔
14 فروری کی صبح میرے ایک انجنیئرنگ کالج کے ہم جماعت اور دوست کا بیٹا آ کر اپنے گھر رحمٰن پورہ اِچھرہ لے گیا ۔ دوپہر کا کھانا اپنے دوست کے ساتھ کھا کر واپس ہوا ۔ رات کو میرے ایک دوست جو مغل پورہ کے قریب رہتے ہیں نے مدعو کیا ہوا تھا مگر شہر میں توڑپھوڑ اور آگ کا کھیل شروع ہو جانے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا ۔ چنانچہ بہن کے گھر اے آر وائی ٹی وی سے صورتِ حال دیکھتے رہے ۔
15 فروری کی صبح میرے دوست آ کر مغلپورہ لے گئے ۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھلا کے واپس چھوڑ گئے ۔
16 فروری کی صبح ہم پھر ڈیفنس میں میری بیوی کی بہن کے گھر چلے گئے ۔ ہونے والے دولہا کے گھر والے گُلبرگ میں دولہا کی دادی کے بھائی کے گھر ٹھیرے ہوئے تھے جو کہ میرے پھوپھی زاد اور میری بیوی کے چچازاد ہیں ۔ بعد دوپہر دولہا کو ملنے گئے ۔ رات کو دُلہن کے والدین نے کینال ویو میں مدعو کیا ہوا تھا سو وہاں مغرب سے پہلے پہنچ گئے ۔
17 فروری کی رات کو مہندی کے نام سے دُلہن کے والدین کی طرف سے اُن کے اپنے اور دولہا کے مہمانوں کو گُلبرگ کے شادمانی ویڈنگ ہال میں مدعو کیا گیا تھا ۔ وہاں دو ڈھول والے آئے ہوئے تھے جو ہال میں داخل ہو کر پورے شدّومد کے ساتھ ڈھول بجانے لگے ۔ مجھے یوں لگا کہ کانوں کے پردے پھَٹ جائیں گے ۔ میں نے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس دیں تو محسوس ہوا کہ میری پسلیاں تھرک رہی ہیں اور دل پھٹنے کو ہے ۔ میں فوراً ہال سے باہر نکل کر دور جا کھڑا ہوا اور ڈھول بجنا بند ہونے پر 40 منٹ بعد واپس آیا ۔
18 فروری کو شادی گُلبرگ کے قصرِ نُور ویڈنگ ہال میں ہوئی ۔ بارات کا وقت 9 بجے رات کا تھا ۔ لڑکی والے 8 بجے پہنچ گئے ۔ بارات 10 بجے آئی ۔ وہاں بھی ڈھول والے موجود تھے لیکن اُن کو ہال میں گھُسنے نہ دیا گیا ۔
19 فروری کو ولیمہ پھر شادمانی ویڈنگ ہال میں تھا ۔ 16 سے 19 فروری تک ہم لوگ رات کو سونے کی بجائے اگلے دن کی فجر کی نماز پڑھ کر سوتے رہے ۔ 20 فروری کو ساڑھے دس بجے صبح ڈیفنس لاہور سے روانہ ہو کر 4 بجے بعد دوپہر ایف ۔ 8 اسلام آباد اپنے گھر پہنچے ۔