Yearly Archives: 2005

اور اس کی کایا پلٹ گئی

سب نام فرضی ہیں ۔ آج سے پنتالیس چھیالیس برس پہلے کا واقعہ ہے جب میں انجنئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا۔ ولید ایک لاپرواہ لڑکا تھا۔ سلام کرنا یا شکریہ ادا کرنا اس کا شیوا نہیں تھا ۔ کسی سے کوئی چیز لیتا تو واپس لینے کے لئے اس کے پیچھے پھرنا پڑتا۔ اتنا لاپرواہ کہ بعض اوقات کتاب اس وقت واپس کرتا جب پھٹ جاتی۔ پھر اچانک اس میں تبدیلی آئی جس نے سب کو شش و پنج میں ڈال دیا۔ جب ملتا تو حلیم طبع میں سلام کرتا۔ وہ چیز عاجزی سے مانگتا اور ملنے پر شکریہ ادا کرتا۔ جلدی خود آ کر شکریہ کے ساتھ واپس کرتا۔وقت گزرتا گیا مگر عقدہ نہ کھلا۔ آخر ایک دن ولید کے کچھ دوستوں نے تبدیلی کی وجہ پوچھ ہی لی ۔ ولید کہنے لگا والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے باعث خاندان کے سب افراد میری ہر خواہش پوری کرتے تھے جس سے میں حیوان بن گیا تھا۔ مجھے جمیل نے انسان بنا دیا۔ جن دنوں اچھی ڈرائینگ شیٹس نہیں مل رہی تھیں مجھے معلوم ہوا کہ سینئر جماعت کے جمیل کو ایک دوکان کا پتہ ہے جہاں سے شیٹس مل سکتی ہیں۔ میں جمیل پاس گیا تو میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا اور کہا میرا سائیکل کوئی لے گیا ہے اس لئے کل چلیں گے۔ میں نے واپس آ کر ایک دوست کا سائیکل لیا اور پھر جمیل کے پاس گیا تو وہ بیٹھا پڑھ رہا تھا مگر میرے ساتھ چل پڑا ۔

سائیکل پر چڑھتے ہی اتر کر کہنے لگا کہ اس کے پہیئے میں ہوا بہت کم ہے اس لئے سائیکل خراب ہو جائے گا۔ میں نے کہا سائیکل میرے دوست کا ہے تم کیوں فکر کرتے ہو ؟ چلو میرا نیا سائکل تم لے لو اور دوسرا میں چلاتا ہوں مگر جمیل نہ مانا اور کہنے لگا دوسروں کی چیز کی اپنی چیز سے زیادہ دیکھ بھال کرنا چاہیئے۔ خیر ایک کلومیٹر پیدل چل کر سائیکل مرمت کی دکان آئی ہوا بھروائی اور روانہ ہوئے۔ میں سارا راستہ کڑہتا اور دل میں جمیل کو کوستا رہا کہ خواہ مخوا ایک کلومیٹر پیدل چلا دیا۔ واپس آئے اور میں اپنے کمرہ میں آ گیا۔

جمیل کا رویہ بالخصوص اس کے الفاظ ” دوسروں کی چیز کی اپنی چیز سے زیادہ دیکھ بھال کرنا چاہیئے”۔ میرے دماغ پر سوار ہو گئے”۔ میں سوچ میں پڑھ گیا اور کچھ دن بعد احساس ہوا کہ جمیل انسان ہے اور میں جانور ۔ سو میں جمیل کا پیروکار بن گیا تا کہ میں بھی انسان بن جاؤں۔

استقلال کامیابی کی چابی ہے

آج آپ بھلائی کریں
ہو سکتا ہے وہ کل کلاں بھلا دی جائے
پھر بھی بھلائی کرتے رہیئے

آپ کے بھلائی کرنے پر
ہو سکتا ہے لوگ الزام لگائیں کہ اس کا محرّک خودغرضی اور پوشیدہ عزائم ہیں
پھر بھی بھلائی کرتے جائیے

دیانت داری آپ کو مخدوش کر سکتی ہے
پھر بھی آپ دیانت دار ہی رہیئے

آپ نے جو سالوں میں بنایا وہ لمحوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے

پھر بھی آپ بناتے جائیے

ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج ۔ حکومت بے بس یا قانون اور اسلامی قوانین ۔ چھٹی اور آخری قسط

اس موضوع پر پچھلی تحریر پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے

23-05-2005
11-06-2005
14-06-2005
20-06-2005
23-06-2005
26-06-2005

انصاف کا اسلامی نظام

انصاف کے اسلامی نظام اور مغربی جسٹس سسٹم (جو کہ پاکستان میں بھی رائج ہے) میں ایک بہت اہم فرق ہے وہ یہ کہ انصاف کے اسلامی نظام میں انصاف مہیا کرنا قاضی یعنی جج کا فرض ہوتا ہہے اور ماہر شریعت و شریعی قانون انصاف کرنے میں جج کی مدد کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں جو مغربی سسٹم رائج ہے اس میں سچ جھوٹ ثابت کرنا مدعی اور مدعا علیہ کے وکلاء کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جن کیسوں میں پولیس کا عمل دخل ہو ان میں پولیس بھی کرتب دکھاتی ہے ۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے مذہبی عالموں کو اگر حاکم وقت چیف جسٹس کا عہدہ پیش کرے اور عالم کے خیال میں وہ حاکم منصف نہ ہو تو وہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے تھے خواہ انکار پر سزا بھگتنا پڑے ۔ امام ابو حنیفہ کو چیف جسٹس ببنے سے انکار پر حاکم وقت (عبّاسی خلیفہ منصور) نے قید سخت کی سزا دی ۔ چار پانچ سال بعد امام صاحب قید ہی میں وفات پا گئے ۔

ہمارا کردار اور مصائب کا حل
ذرا اپنے کردار پر بھی نظر ڈالتے ہیں ۔ ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمیں قانون شکنی میں مزہ آنے لگا ہے ۔ چوراہے میں بتی سرخ ہو گئی ہے مگر ہم متواتر ہارن بجاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ سڑک پر اگر داہنی طرف جگہ نہ ہو تو ہم گاڑی بائیں طرف سے نکال کر لے جاتے ہیں ۔ جہاں حد رفتار 80 کلومیٹر فی گھینٹہ ہو وہاں 120 کلو میٹر یا زیادہ تیز گاڑی چلانے میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں ۔ انتہائی تیزی سے گاڑی آگے نکال کر دوسری گاڑیوں کے آگے بریک لگانے میں ہمیں لطف آتا ہے ۔ یہ سب اسلام آباد کی روئداد ہے جہاں بڑے پڑھے لکھے اور بڑے بڑے آفیسر رہتے ہیں ۔ تہذیب کا عمدہ نمونہ دیکھنا ہو تو یوم آزادی کو مغرب کے بعد خیابان قائد اعظم بلیو ایریا چلے جائیے اور دیکھئے کہ کوئی خاتون یا شریف آدمی بڑے گھرانوں کے نوجوانوں کی کان پھاڑنے والی موسیقی کے علاوہ ان کے غلیظ جملوں اور پٹاخوں سے محفوظ
نہیں ۔ اس کاروبار میں لڑکیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں ۔

اگر کسی جگہ قطار لگی ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح آگے پہنچ جائیں ۔ دوسروں کا حق مارنا تو ہمارا پیدائشی حق ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد احساس جرم کی بجائے ہمارے سینے فخر سے پھول جاتے ہیں ۔ بااصول لوگوں کو ہم نہ صرف بیوقوف گردانتے ہیں بلکہ اگر کوئی ہمیں سمجھانے کی کوشش کرے تو اسے گالی گلوچ کے علاوہ دو گھونسے رسید کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب ملاحظہ ہوں سینکڑوں میں سے صرف دو خط ۔

News Post, Thursday June 16, 2005– Jamadi Al Awwal 08, 1426 A.H.Road brats
Driving in any large city in Pakistan one cannot help notice the proliferation of “road brats”: kids in their teens who have been given a long leash by their parents. These teens — in p-caps, tee-shirts and oversized jeans, and playing loud music, and in general doing everything to look “hip” — drive around in “Dad’s multimillion-rupees automobile.” The result, rash driving, distraction for other motorists and fatal accidents. Just like the fifteen year old who was trying to take a photo from his mobile phone of the car’s speedometer while doing 140 km/hour on a residential highway. The car went out of control and hit a tree and he died. I appeal to the parents of such teen drivers to induce some discipline in their kids.
Shehzad Ahmed Mir Islamabad

Unless we change course
A country where the Constitution is treated as waste paper, where the law of necessity (read law of the jungle) enjoys precedence over the rule of law, where personalities are placed above principles, where justice is hostage to the power of the gun, where politicians are bought and sold like a bunch of bananas, where the opposition to the government is dubbed anti-state activity, where electoral results are known long before polling day, where Parliament is a rubberstamp and where hypocrisy rules — such a country cannot survive indefinitely. The only way to avert the impending disaster is grand national reconciliation to heal the wounds of the nation and give the nation a fresh start. If General Musharraf cannot unite the nation behind him, he should make way for those who know the job. If the ship of state continues to sail on its present suicidal course it is going to sink.
B. A. Malik Islamabad

یہاں کلک کر کے ایک اور رپورٹ ملاحظہ کریں ۔

ہم ظلم ہوتا دیکھیں تو بجائے روکنے کے وہاں سے کھسک جاتے ہیں یا بڑے شوق سے نظارہ کرتے ہیں ۔ البتہ سٹیج پر چڑھ کر ظلم کے خلاف لمبی تقریریں کرتے ہیں ۔

اب تک اس موضوع پر جو کچھ میں لکھ چکا ہوں اس کا ہرگز یہ مدعا نہیں کہ ہمارے ملک میں سب لوگ خراب ہیں ۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ۔ میرے اندازہ کے مطابق ایک تہائی لوگ ٹھیک ہیں مگر ان میں کچھ جاگ رہے ہیں باقیوں کو جگانے کی ضرورت ہے ۔ دوسری تہائی اچھائی کی حوصلہ افزائی سے ٹھیک ہو سکتے ہیں اور تیسری تہائی کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ جب پہلی تہائی پوری جاگ اٹھے گی اور دوسری تہائی کی حوصلہ افزائی کرے گی تو یہ دو تہائیاں مل کر تیسری تہائی کو ٹھیک کر سکتی ہیں ۔

اللہ سے محبت رکھنے یا جن کے دل انسانیت سے لبریز ہیں ظلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ ایک واقعہ سنیئے ۔ سیالکوٹ کے محلہ سلہریاں میں دو جوانوں میں تکرار ہوئی بات یہاں تک پہنچی کہ ایک جوان خنجر لے کر آ گیا ۔ محلے کے لوگ (مردوں سمیت) جو کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے خنجر دیکھ کر گھروں میں گھس گئے ۔ ایک خاتون نے شور سن کر کھڑکی سے جھانکا تو اسے خجر لے کر آتا ہوا جوان نظر آیا ۔ وہ بھاگ کر گلی میں پہنچی ۔ اتنی دیر میں وہ جوان بھرپور وار کرنے کے لئے اپنا خنجر والا ہاتھ بلند کر چکا تھا ۔اس جری خاتون نے دونوں جوانوں کے درمیان پہنچ کر خنجر والے ہاتھ کی کلائی پکڑ کر ایسا جھٹکا دیا کہ خنجر ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا اور جوان بھی اس غیر متوقع حملے سے دہل گیا ۔ خاتون کی اس بہادری کو دیکھ کر محلہ والوں کو حوصلہ ہوا اور انہوں نے دروازوں کے پیچھے سے نکل کر دونوں جوانوں کو قابو کر لیا ۔ وہ صرف اللہ سے ڈرنے والی خاتون اب اپنے اللہ کے پاس جا چکی ہے ۔ میرے ساتھ آپ بھی دعا کیجئے کہ اللہ اس نیک خاتون کو جنّت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین ۔

ہمارے کردار کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ۔ ہم باتوں میں تو تعلیم کے شیدائی ہیں لیکن اگر کوئی سکالر کسی موضوع پر عمدہ تقریر کرنے والا ہو اور ہال میں داخلہ کا کوئی ٹکٹ بھی نہ ہو تو ہال آدھا خالی رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی ناچنے والی نے نیم برہنہ ناچ کرنا ہو یا کسی پاپ موسیقی کے ٹولے نے اپنے کرتب دکھانے ہوں تو لوگ ٹکٹ خریدنے بھی اتنے زیادہ پہنچ جاتے ہیں کہ ٹکٹ گھر اور ٹکٹ بیچنے والوں کو بچانے کے لئے پولیس بلانا پڑتی ہے ۔

موجودہ ظالمانہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے سب سے پہلے ہمیں خود اپنا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ اس کے بعد حکومت یعنی اسمبلیوں اور سینٹ سے اوباش لوگوں کو نکالنا ہو گا چاہے وہ سردار ہوں ۔ وڈیرے ہوں یا جنرل ۔ یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب الیکشن کے وقت ہم سب یعنی عوام ۔ ذاتی فائدوں کی بجائے اجتمائی بہتری کا سوچتے ہوئے ۔ ۔ ۔

اول ۔ سچے اور دیانت دار امیدوار نامزد کریں ۔
دوم ۔ اپنے نامزد کردہ امیدواروں کا روپیہ خرچ کرائے بغیر رضاکارانہ طور پر بھاگ دوڑ کر کے انہیں کامیاب کرائیں ۔ کیونکہ دیانت دار شخص نے اسمبلی کا ممبر بن کے حرام مال کمانا نہیں ہوتا تو پھر وہ کیوں اپنی حلال کی کمائی الیکشن پر ضائع کرے ۔ اسی وجہ سے عام طور پر اچھے لوگ الیکشن میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں ۔
وما علینا الالبلاغ ۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے اور اجتمائی بہتری کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

آج کا دن میرے والد محترم کے نام

میں لیبیا میں پونے سات سال قیام کے بعد واپسی پر عمرہ کرکے یکم فروری 1983ء کو پاکستان پہنچا ۔ ان دنوں ہماری رہائش سیٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں تھی ۔ والدہ ماجدہ 1980 میں وفات پا گئی تھیں اور والد صاحب میرے چھوٹے بھائی کے پاس سعودی عرب میں تھے مگر ہم سے دو دن پہلے راولپنڈی پہنچ چکے تھے ۔ ہم نے والد صاحب کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔ اور میں روزانہ واہ میں اپنے دفتر راولپنڈی ہی سے جاتاآتا رہا ۔

والد صاحب کے حکم پر ہم اکتوبر 1984 میں واہ سرکاری کوٹھی میں چلے گئے اور میری سب سے چھوٹی بہن اپنے خاوند اور بچوں سمیت والد صاحب کے ساتھ رہنے لگی ۔ہم ہر ہفتہ وار چھٹی والد صاحب کے ساتھ راولپنڈی میں گذارتے اور روزانہ ٹیلی فون پر والد صاحب کی خیریت دریافت کرتے ۔ جون 1987ء میں ایک دن میں نے والد صاحب سے بات کی تو مجھے ان کی آواز میں معمولی سی لڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی ۔ میں نے اسی وقت اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اور واہ ہی میں رہتی ہیں کو ٹیلیفون کیا اور تیار ہونے کو کہا ۔ میں میری بیوی اور باجی راولپنڈی گئے اور والد صاحب کو زبردستی واہ لے گئے (بوڑھوں کے لئے اپنا گھر چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے) ۔

میرا اندازہ ٹھیک تھا والد صاحب کو ہلکا سا سٹروک (برین ہیموریج) ہوا تھا ۔ علاج سے الحمدللہ وہ ٹھیک ہو گئے ۔ 1988ء میں میری ایک اور چھوٹی بہن جو اسلام آباد میں رہتی ہے خدمت کے جذبہ میں والد صاحب کو اپنے گھر لے گئی ۔ کچھ ماہ بعد والد صاحب کو پہلے سے زیادہ شدّت والا سٹروک ہوا اور میں پھر انہیں اپنے پاس واہ لے گیا ۔

ان دنوں واہ میں کوئی نیوروسرجن نہ تھا اس لئے علاج کے لئے میں انہیں ہفتہ میں ایک بار اسلام آباد لے کر آتا ۔ حالانکہ میری کار بہت آرام دہ تھی پھر بھی آنے جانے سے والد صاحب کو تھکاوٹ ہو جاتی تھی ۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جو سرجن ہے وہ ان دنوں سکاٹ لینڈ میں تھا ۔ میں نے 1990 کی گرمیوں میں اسے ٹیلیفون کر کے ساری بات بتائی اور کہا کہ کمائی کافی ہو گئی اب آؤ اور اسلام آباد والے مکان میں رہو اور والد صاحب کو اپنے پاس رکھ کر ٹھیک طرح سے علاج کراؤ چنانچہ وہ اگلے ہی ماہ آ گیا اور سیٹیلائیٹ ٹاؤن سے سامان اسلام آباد شفٹ کر کے والد صاحب کو اسلام آباد لے آیا ۔

جون 1991 میں وہ کہنے لگا بھائی جان میں تو اسی طرح چھوڑ چھاڑ کر آ گیا تھا میری نئی گاڑی بھی وہاں ایسے ہی کھڑی ہے میں جاکر تین ماہ میں سب کچھ کلیئر کر کے آ جاؤں گا ۔ سو میں والد صاحب کو پھر واہ لے گیا ۔ والد صاحب کی صحت کافی کمزور ہو چکی تھی ۔ کھانا ہم ان کو اپنے ہاتھ سے ہی کھلاتے تھے ۔ 2 جولائی کو صبح میری بیوی ان کو ناشتہ کرانے لگی انہوں نے ناشتہ نہ کیا ۔ میں دفتر جانے کے لئے کار میں بیٹھا ہی تھا کہ میری بیوی بھاگتی ہوئی آئی اور مجھے بتایا ۔ میں والد صاحب کے کمرہ میں پہنچا ۔ مجھے والد صاحب بہت کمزور محسوس ہوئے چنانچہ میں دفتر نہ گیا اور والد صاحب کے پاس ہی رہا ۔

بارہ بجے کے قریب میں نے ہسپتال میں کئی جگہ ٹیلیفون کر کے اپنی بڑی بہن کو تلاش کیا اور والد صاحب کے متعلق بتایا ۔ ایک بجے وہ ہمارے گھر پہنچ گئیں ۔ سب جتن کئے گئے مگر والد صاحب بعد دوپہر دو بج کر بیس منٹ پر اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔

چھوٹا بھائی سکاٹ لینڈ ۔اس سے بڑا سعودی عرب اس سے بڑا ابو ظہبی اور ایک بہن لاہور میں تھی سب کو اسی وقت ٹیلیفون کئے ۔ ایک بھائی دوسرے دن صبح سویرے پہنچا باقی سب اسی رات پہنچ گئے ۔ تین جولائی کی صبح والد صاحب کے جسد خاکی کو نیو کٹاریاں قبرستان میں ان کی وصیّت کے مطابق سپرد خاک کر دیا کیونکہ میری والدہ ماجدہ کا جسد خاکی بھی وہیں مدفون ہے ۔

والد صاحب نے اسلام آباد والے پلاٹ پر چار ملحقہ مکان بنوائے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ ہم چاروں بھائی اکٹھے رہیں سو الحمدللہ ہم نے ان کی خواہش پوری کی اور ماشاءاللہ چاروں بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں اتفاق میں برکت ہوتی ہے ۔

چھٹی حِس یا ٹیلی پیتھی

آج سے پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں حکومت پاکستان کی طرف سے لیبیا کی حکومت کے ایڈوائزر (انڈسٹریل پلاننگ) کی حیثیت سے طرابلس میں متعین تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا فوزی اس وقت سوا پانچ سال کا تھا۔26 جون 1980 بروز بدھ فوزی سکول سے واپس آیا تو کھانے پینے سے انکار کر دیا اور ایک کونے میں قالین پر بیٹھ کر آنسوؤں کے ساتھ رونا شروع کر دیا کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس وقت لبیا میں لگ بھگ ساڑھے تین (پاکستان میں ساڑھے پانچ) بجے بعد دوپہر کا وقت تھا ۔ میں نے بہلانے کی کوشش میں کہا اچھا کل دفتر جا کر چھٹی لوں گا اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ لے کر آؤں گا پھر پاکستان چلیں گے۔ لیکن فوزی نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں نے ابھی اور اسی وقت پاکستان جانا ہے۔ ہر طریقہ سے بہلانے کی کوشش کی۔ اس کی مرغوب ترین ملک چاکلیٹ بار۔ میکنٹاش کوالٹی سٹریٹ کا ڈبہ۔ آٹومیٹڈ کھلونے۔ مگر کسی لالچ نے کوئی اثر نہ کیا۔ فوزی رات تک روتا رہا اور تھک کر سو گیا۔

اگلے دو دن سکول سے واپس آ کر پھر پاکستان جانے کا تقاضہ شروع ہو جاتا ۔ روتا بھی مگر زیادہ نہیں ۔ 29 جون کو میرے دفتر سے آتے ہی فوزی نے پہلے دن کی طرح متواتر رونا اور پاکستان جانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہم میاں بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں ۔ ہماری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ فوزی نے کبھی زیادہ ضد نہیں کی تھی ۔ نہ ہی خاص روتا تھا اور ہماری بات مان بھی لیا کرتا تھا ۔

آخر 30 جون کو ہمیں دو تاریں اکٹھی ملیں۔ یہ میرے بہنوئی کی طرف سے تھیں۔ میری دو بہنیں پاکستاں میں تھیں باقی دو بہنیں اور ہم چاروں بھائی ملک سے باہر تھے۔ ایک تار 27 جون کی صبح کی تھی لکھا تھا ماں شدید بیمار ہے جلدی پہنچو۔ دوسری 29 جون کی تھی کہ والدہ فوت ہوگئیں ہیں جلدی پہنچو۔ کسی شخص کی بےوقوفی کی وجہ سے ہمیں یہ دونوں تاریں اکٹھی ملیں ۔ پاکستاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بدھ 26 جون کو سوا پانچ ساڑھے پانچ کے درمیان میری والدہ محترمہ کر سٹروک یعنی برین ہیموریج ہوا تھا اور وہ کوما میں چلی گئیں تھیں اور 29 جون بعد دوپہر فوت ہوئیں ۔

اتنے چھوٹے بچے کے دل میں ہزاروں میل دور کس نے پاکستان جانے کا خیال ڈالا۔ اور کس چیز نے اس کو اتنا رلایا۔ اس سوال کا جواب آج کے بڑے سے بڑے سائنسدان کے پاس نہیں ہے ۔

مختاراں مائی کیس – آج سپریم کورٹ میں کیا ہوا

مختاراں مائی کے مقدمے کی سماعت کے پہلے روز اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان نے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے موقع پر بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مفروضوں پر مبنی تھا۔ اور یہ کہ اجتماعی زیادتی کے واقعات میں صرف زیادتی کا شکار ہونے والی کا بیان ہی ان ملزمان کو سزا دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

عدالت نے اب یہ کارروائی منگل کے روز تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن

اردو بلاگز کے ایک عمدہ اور حقیقت پسند قلمکار کراچی کے ” دانیال ” کی فرمائش پر ذاتی تجربات اور مشاہدات پہلی بار منظر عام پر ۔ ایسے واقعات جو شائد آپ نے نہ پڑھے ہوں گے نہ سنے ہوں گے ۔ یہاں کلک کیجئے اور پڑھئیے ۔ ۔ ۔ میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن ۔

ہمارے ملک میں یہ رواج نہیں ہے مگر پھر بھی میں گوش گذار کر دوں کہ کچھ قسطوں میں ایسے واقعات کا اندراج ہوگا جس کو پڑھنے سے پہلے کمزور دل خواتین و حضرات کسی مقّوی القلب شربت کا گلاس اپنے پاس رکھ لیں تا کہ بوقت ضرورت کام آئے ۔