میں نے کل اپنی 1962ء کی ڈائری کا ایک ورق شائع کیا تھا ۔ ڈائری پرانی ہونے کے باعث کچھ لکھائی مدھم پڑ چکی تھی جسے میں نے تصویر میں سے کاٹ دیا تھا ۔ بعد میں احساس ہوا کہ میں نے تو ”نادر کاکوروی کی اس نادر نظم“ کا حُلیہ بگاڑ دیا ہے ۔ سو آج پوری نظم شائع کر رہا ہوں ۔ یہ نظم میں نے پہلی بار 1953ء کی گرمیوں میں سُنی تھی اور راوی کی مہربانی سے اپنی ایک کاپی پر لکھ لی تھی ۔ اسے دوبارہ 1962ء میں اپنی ڈائری پر نقل کیا تھا ۔ 1964ء میں راولپنڈی جھنگی محلہ سے سیٹیلائیٹ ٹاؤن منتقلی کے وقت میری وہ کاپی میرے چھوٹے بھائیوں کی لاپرواہی کا نشانہ بن گئی ورنہ وہیں سے تصویر لیتا ۔ ڈائری بھی بُرے حال کو پہنچی تھی مگر موجود رہی
اکثر شبِ تنہائی میں ۔ ۔ ۔ کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں ۔ ۔ ۔ بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ زندگی ۔ ۔ ۔ اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دلِ صد چاک پر
وہ بچپن اور وہ سادگی ۔ ۔ ۔ وہ رونا اور ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے ۔ ۔ ۔ وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق ۔ وہ عہدِ و فا ۔ ۔ ۔ وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزمِ طرب ۔ ۔ ۔ یاد آتے ہیں اِک ایک سب
اور ڈالتے ہیں روشنی ۔ ۔ ۔ میرے دلِ صد چاک پر
دل کا کنول جو روز و شب ۔ ۔ ۔ رہتا شگفتہ تھا سو اب
اس کا یہ اَبتَر حال ہے ۔ ۔ ۔ اِک سبزۂ پا مال ہے
اک پھو ل کُملایا ہوا ۔ ۔ ۔ سُوکھا ہوا ۔ بِکھرا ہوا
رَوندا پڑا ہے خاک پر
یونہی شبِ تنہائی میں ۔ ۔ ۔ کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں ۔ ۔ ۔ بیتے ہوئے دن رَنج کے
بنتے ہیں شمعِ بےکسی ۔ ۔ ۔ اور ڈالتے ہیں روشنی
اُن حسرتوں کی قبر پر
جو گرد شِ ایام سے ۔ ۔ ۔ اور قسمتِ ناکام سے
یا عیشِ غم انجام سے ۔ ۔ ۔ اور مرگِ بتِ گلفام سے
جو دِل میں رہ کر مر گئیں ۔ ۔ ۔ ناشاد مجھ کو کر گئیں
کس طرح پاؤں میں حزیں ۔ ۔ ۔ قابو دلِ بےصبر پر
لے دیکھ شیشے میں میرے ۔ ۔ ۔ ان حسرتوں کا خون ہے
جو آرزوئیں پہلے تھیں ۔ ۔ ۔ پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دو ستو ں کے فوت کا ۔ ۔ ۔ اُن کی جواناں موت کا
آہ اُن احباب کو ۔ ۔ ۔ میں یاد کر اُٹھتا ہوں جو
جو مجھ سے پہلے اُٹھ گئے ۔ ۔ ۔ جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پھول اور پتیاں ۔ ۔ ۔ گِر جائیں سب قبل از خزاں
اور خشک رہ جائے شجر
اُس وقت تنہائی میری ۔ ۔ ۔ بن کر مجسم بےکسی
کر دیتی ہے پیشِ نظر ۔ ۔ ۔ ہُو حق سا اک ویران گھر
برباد جس کو چھوڑ کے ۔ ۔ ۔ سب رہنے والے چل بسے
ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں ۔ ۔ ۔ چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں ۔ روزن نہیں ۔ ۔ ۔ یہ ہال ہے ۔ آ نگن نہیں
پردے نہیں ۔ چلمن نہیں ۔ ۔ ۔ اِک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی ۔ ۔ ۔ جھا نکے نہ بھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل ۔ ۔ ۔ پو چھے نہ جس کو دیو بھی
اُجڑا ہوا ویران گھر
یوں ہی شب تنہائی میں ۔ ۔ ۔ کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں ۔ ۔ ۔ بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ زندگی ۔ ۔ ۔ اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر