مہنگائی کیوں ؟

مہنگائی کا شور شرابا بہت ہوتا ہے لیکن اسے کم کرنے کا سوچنا ہم اپنے ذمہ نہیں سمجھتے
عام آدمی کے متعلق کہا جا تا ہے کہ اُسے روٹی کمانے سے فرصت نہیں مُلک کا کیا سوچے
جنہیں عام آدمی بڑی دھوم دھام سے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اُنہیں مُلک کے سارے حالات کا عِلم ہوتا ہے مگر وہ معیشت کو درست کرنے کی بجائے جھوٹے نعروں اور وعدوں سے اپنے ووٹ زیادہ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں
جو مُنتخب نہ ہوں یا ہو بھی جائیں مگر حکومت میں نہ ہوں اُن کا وطیرہ حکومت کے ہر اچھے یا بُرے کام کی مخالفت ہوتا ہے اور اپنی مخالفت کو زور دار بنانے کیلئے جلسے جلوس اور توڑ پھوڑ کرواتے ہیں کیونکہ اس سے اُنہیں خاص نقصان نہیں ہوتا

معاشی بدحالی کی دوسری بڑی وجہ چوری ہے یعنی ۔ بجلی ۔ گیس اور نہری یا پینے کے پانی کی چوری ۔ ان چوریوں کو روکنا مشکل اسلئے ہے کہ چوری کرنے والے سرکاری اہلکاروں یا عوام کے منتخب کردہ نمائیندوں کے پروردہ ہوتے ہیں

معاشی بدحالی کی تیسری بڑی وجہ ہے ٹیکس چوری یعنی ہم اللہ سے بھی نہیں ڈرتے اور برملا جھوٹ بولتے ہوئے اپنی اصل آمدن سے بہت کم بتاتے ہیں

معاشی بدحالی کی چوتھی بڑی وجہ رشوت ستانی ہے جس کا شور ہم بہت کرتے ہیں لیکن خود رشوت دے کر اپنے غلط کام کرواتے ہیں ۔ حتٰی کہ ایف 8 کے قومی بچت مرکز جہاں آدمی 5 سے 20 منٹ میں پیسے لے کر چلا جاتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ چند سوٹِڈ بُوٹِڈ حضرات چپڑاسی کو پیسے دے کر کام جلدی کرواتے ہیں

معاشی بدحالی کی پانچویں بڑی وجہ ۔ جلوس نکلے ۔ توڑ پھوڑ ہو یا ہڑتال ہو ۔ ان کی وجہ سے جو نقصان ہوتا ہے اُس کا ازالہ کرنے کیلئے حکومت جو اخراجات کرتی ہے وہ ٹیکسوں کے ذریعہ عوام نے ہی دینا ہوتے ہیں

معاشی بدحالی کی چھٹی بڑی وجہ ۔ احتجاجوں ۔ ہڑتالوں وغیرہ کے نتیجہ میں ماضی میں کئی سرکاری اداروں اور حکمرانوں نے غلط مطالبات ماننے کی وجہ سے مُلک اور قوم کو جو لگاتار بھاری نقصان ہو رہا ہے اُس کی مثال تمام سرکاری کارخانے یا کمرشل ادارے ہیں جو کسی زمانے میں فعال ہوا کرتے تھے اور اب سب کے سب نقصان میں چل رہے ہیں ۔ بجائے اس کے کہ وہ منافع کما کر مُلکی معیشت کو بہتر بنائیں اُلٹا ہر سال اربوں روپے ان کی امداد کرنا پڑتی ہے تاکہ چلتے رہیں ۔ یہ اربوں روپیہ بھی عوام پر ٹیکس لگا کر ہی پورا کرنا پڑتا ہے یا پھر اُدھار لے کر جسے ادا کرنے کیلئے بھی عوام پر ٹیکس لگانا پڑتا ہے

مُلکی معیشت کی زبوں حالی کا سبب اداروں میں سے نمونے کے طور پر 2 مثالیں

میں نے ایک سرکاری ادارے کے جس کارخانے میں ملازمت کی اُس کی منیجمنٹ 1975ء تک یہ تھی ۔ جنرل منیجر (گریڈ 19) ایک عدد ۔ منیجر (گریڈ 18) 3 عدد ۔ اسسٹنٹ منیجر (گریڈ 17) 9 عدد ۔ ان کے ماتحت فورمین ۔ اسسٹنٹ فور مین اور چارج مین اسی تناسب سے
1976ء میں جب پرانے افسران وہاں سے تبدیل کئے جا چکے تھے اور نہ کارخانہ بڑا ہوا نہ پیداوار (پروڈکشن) زیادہ ہوئی لیکن نفری بڑھنے لگی اور چند سالوں میں ہو گئے ۔ منیجنگ ڈائریکٹر (گریڈ 20) ایک عدد ۔ جنرل منیجر (گریڈ 19) 3 عدد ۔ منیجر (گریڈ 18) 7 عدد ۔ اسسٹنٹ منیجر (گریڈ 17) 22 عدد ۔ اس کے علاوہ فورمین ۔ اسسٹنٹ فورمین اور چارجمین بھی اسی تناسب سے

آجکل پی آئی اے کا بہت شور شرابا ہے ۔ پی آئی اے 1971ء تک بہت فعال ادارہ تھا اور قوم کیلئے منافع کما رہا تھا ۔ اس کا جو حال اب ہو چکا ہے وہ ملاحظہ فرمایئے
PIA Fact Sheet

دکھاتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے

طارق سرمد صاحب نے 22 مئی 2013ء کو لکھا

آج سے پورے 22 سال قبل 22 مئی 1991ء کو میں نے اپنے قیاس سے بہت کم گہرے پانی میں چھلانگ لگائی جس کے نتیجہ میں زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گیا لیکن یہ واقعہ مجھے مذہب کی دنیا میں لے گیا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میں زندہ نہیں رہوں گا اور شاید میں ہسپتال تک بھی زندہ نہ پہنچنے پاؤں گا ۔ منطقی طور پر میری موت کے آثار بہت زیادہ تھے

اب ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں واقعی مر گیا تھا ۔ معجزہ یہ ہوا کہ میں دوسری بار بطور ایک بالکل مُختلِف فرد کے پیدا ہوا ۔ صرف پانی میں چھلانگ لگانے والے لمحہ نے مجھے زندگی کو ایک بالکل مُختلِف رنگ میں دکھایا ۔ مجھے بہت سخت لمحات میں سے گذرنا پڑا اور اب بھی گذر رہا ہوں ۔ شاید اب پہلے سے زیادہ لیکن اُس واقعہ کے سبب مجھ پر مندرجہ ذیل انکشافات ہوئے

1 ۔ اللہ موجود ہے
2 ۔ مجھے اتنے زیادہ لوگ چاہتے ہیں
3 ۔ زندگی کچھ حاصل کر لینے کیلئے بہت چھوٹی ہے اور جب تک سانس اور سوچ باقی ہے زندگی کی ممکنات لاتعداد ہیں
4 ۔ میں وہیل چیئر پر بھی اتنا کچھ کر سکتا ہوں کہ میری زندگی اس کا آدھا بھی حاصل کرنے کیلئے کم ہے چنانچہ جو پاس نہیں اور جو حاصل نہیں کر پائے اس کی شکائت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی توجہ صرف جو پاس ہے اور جو آپ کر سکتے ہیں پر مرکوز رکھی جائے تو
اللہ کی عنائت و کرم کا احساس ہوتا ہے
5 ۔ بہت سے لوگ ساری زندگی شکوے شکائتوں میں گذار دیتے ہیں ۔ میں اِن کی سوچ کو بدل کر انہیں شاکی سے تحصیل کنندہ بنانے کا سبب بنوں
6 ۔ مشکلات بڑی نہیں ہوتیں ۔ ہم کسی وقت چھوٹے بن جاتے ہیں
7 ۔ دنیا میں کوئی عمل ناممکن نہیں ہے
8 ۔ اپنی استداد سے زیادہ محنت کرنے میں زندگی گذارنا ہی اصل زندگی ہے
9 ۔ جو لوگ اپنی قسمت خود بناتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور جو دوسروں کی مدد یا قسمت کی طرف دیکھتے رہتے ہیں وہ ہمشہ انتظار ہی کرتے رہتے رہتے ہیں
10 ۔ زندگی کیسی بھی ہو اچھی ہوتی ہے

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش ان باتوں کا احساس مجھے میرے حادثہ سے قبل ہو جاتا ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا حادثہ میری زندگی میں پیش آنے والی بہترین چیز تھی ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ آدمی اپنی زندگی کی قدر کرنا کب سیکھے گا اور اس کیلئے حادثوں کا انتظار نہیں کرے گا

سر ورق. تبدیلی

محترمات قاریات و محترمان قارئین Blog Urdu 1
Blog Urdu 2
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میرے بلاگ کے سرِ ورق عنوان کے نیچے میں نے اپنی عرض گذاشت عرصہ دراز سے لکھی ہوئی ہے ۔ کئی بار محسوس ہوا کہ پڑھنے والے صرف روزنامچہ پڑھتے ہیں مگر عنوان اور اس کے نیچے لکھی عرض گذاشت سے صرفِ نظر کرتے ہیں اس مشاہدے یا تجربے کے نتیجہ میں آج کی تحریر کی ضرورت پیش آئی

میری سانس کا کیا بھروسہ کہاں ساتھ چھوڑ جائے
میری ذات سے وابستہ لوگو مجھے معاف کر کے سونا

یہ میرا مسئلہ نہیں ؟

یہ کہانی 22 جنوری 2016ء کی تحریر کا تتمّہ ہے
کسان اور اس کی بیوی بازار سے ڈبے میں کچھ لے کر آئے ۔ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ کھانے کیلئے کیا لائے ہیں ایک چوہے نے دیوار میں سوراخ سے دیکھا ۔ کھانے کی چیز کی بجائے چوہے دان دیکھ کر اُس کی جان ہی نکل گئی

وہ بھاگا بھاگا گیا اور مُرغی سے کہا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
مرغی نے چوہے کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا “یہ تمہارا مسئلہ ہے ۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں”۔

چوہا دوڑتا ہوا بکری کے پاس پہنچا اور کہا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
بکری نے چوہے سے کہا “مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی ہے مگر میں اس کیلئے پریشان نہیں ہوں”۔

پریشان حال چوہے نے گائے کے پاس جا کر دوہرایا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
گائے نے کہا ”میں تمہارے لئے دعا کروں گی مگر میری تو چوہے دان میں ناک بھی نہیں گھستی”۔

چوہا بد دل ہو کر سر لٹکائے اپنے بِل میں جا کر گر پڑا اور سوچتا رہا کہ جب بھی وہ کسان کے گھر کچھ کھانے جائے گا چوہے دان میں پھنس جائے گا

اگلی رات کسان کے گھر کڑاک کی آواز آئی ۔ کسان کی بیوی اندھیرے ہی میں دیکھنے گئی کہ چوہا پکڑا گیا ہے ۔ اسے کسی چیز نے کاٹ لیا ۔ دراصل چوہے دان میں ایک گذرتے ہوئے سانپ کی دم پھنس گئی تھی ۔ بیوی کی چیخ و پکار سن کر کسان دوڑا آیا ۔ صورتِ حال دیکھ کر وہ بیوی کو ہسپتال لے گیا جہاں اسے ٹیکا لگایا گیا اور کہا کہ اسے مرغی کی یخنی پلائی جائے ۔ کسان نے اپنی مرغی ذبح کر کے بیوی کیلئے یخنی بنا دی ۔ بیوی یخنی پیتی رہی مگر اسے کئی دن بخار رہا ۔ اس کی علالت کا سن کر قریبی رشتہ دار مزاج پرسی کیلئے آئے ۔ ان کے کھانے کیلئے کسان نے بکری ذبح کر ڈالی ۔ کچھ دن بعد کسان کی بیوی فوت ہو گئی تو بہت سے لوگ تدفین اور افسوس کرنے کیلئے آئے ۔ انہیں کھانا کھلانے کیلئے کسان نے گائے کو ذبح کیا

چوہا دیوار میں سوراخ سے یہ سب کچھ نہائت افسوس کے ساتھ دیکھتا رہا

یاد رہے کہ جب بھی ہم میں سے کوئی پریشانی میں مبتلا ہو تو سب کو اس کی مدد کرنا چاہیئے ۔ اسی عمل کا نام انسانیت ہے ۔ کون جانے کل ہم میں سے کس کی باری ہو گی

دہشتگرد ۔ ہم اور سکیوریٹی

پشاور میں آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014ء کو دہشتگرد حملہ ہوا ۔ بتایا گیا تھا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے
ایک سال 7 ہفتے بعد یعنی 20 جنوری 2016ء کو چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملہ ہوا ۔ اس کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے واقعہ کے بعد ایسی تقریبوں کیلئے بالخصوص پچھلی دیوار کے حفاظتی اقدامات کیوں نہ کئے گئے ؟
جواب ظاہر ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک حقیقت پہچاننے سے محروم ہیں
ہم لوگ تقاریر اور مباحث کے شوقین بن چکے ہیں اور عمل ہم دوسروں کی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔ اس سب سے قطع نظر میں وہ حقائق لکھنا چاہتا ہوں جو اِسی مُلک پاکستان کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں

میں نے 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی تو وہاں سکیورٹی کا ایک سادہ لیکن مؤثر نظام قائم تھا ۔ اُس زمانے میں 7 بڑی فیکٹریاں تھیں ۔ ہر فیکٹری کا سربراہ جنرل منیجر ہوتا تھا ۔ جس کے ماتحت کچھ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر فیکٹری میں پیداوار (پروڈکشن) کے انچارج 4 سے 6 اسسٹنٹ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر اسسٹنٹ منیجر کو اپنے علاقے کا سکیورٹی آفیسر بھی سمجھا جاتا تھا ۔ سکیورٹی کا چھوٹا سا محکمہ تھا جس کے کارندے ظاہر نہیں ہوتے تھے ۔ وہ فیکٹریوں اور متعلقہ محکموں میں کھُلی آنکھوں اور کھُلے دماغوں کے ساتھ گھومتے رہتے اور کوئی مشکوک چیز یا حرکت نظر آنے پر اپنے سربراہ اور متعلقہ ورکشاپ کے اسسٹنٹ منیجر کو مطلع کرتے ۔ اس اطلاع پر فوری کاروائی کی جاتی ۔ اگر اسسٹنٹ منیجر کی طرف سے کچھ سُستی ہوتی یا وہ موجود نہ ہوتا تو سکیورٹی کا سربراہ وہاں پہنچ جاتا ۔ ورنہ اپنے دفتر میں بیٹھا جائزہ لیتا رہتا (مانیٹرنگ کرتا) ۔
کوئی اہل کار اپنی فیکٹری کے بارے میں کسی قسم کی معلومات کسی غیر متعلقہ آدمی کو نہیں بتاتا تھا اور ساتھ ہی اپنے اِرد گِرد بھی نظر رکھتا تھا اور ذرا سے شک پر اپنے افسر کو مطلع کرتا تھا

پی او ایف کے اہل کار اچھے طریقہ سے سکیورٹی کلیئرنس کے بعد بھرتی کئے جاتے ۔ میرے بھرتی کیلئے مُنتخِب ہو جانے کے بعد پولیس سمیت 3 خُفیہ اداروں کے اہلکاروں نے میرے متعلق تحقیقات کی تھیں۔ یہ لوگ جہاں جہاں قیام رہا وہاں کے محلے داروں اور سکول کالج جہاں تعلیم حاصل کی تھی سے معلومات حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب کچھ مجھے ملازمت شروع کرنے کے کئی سال بعد معلوم ہوا تھا جب مجھے ایک سکیورٹی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا
بھرتی ہو جانے کے بعد بھی کئی بار میری سکیورٹی کلیئرنس ہوئی جس کا عَلم مجھے ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال قبل ہوا تھا

دوسری اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کی بھاری اکثریت بھی اپنے فرائض بالخصوص مُلکی سکیورٹی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے ۔ محلے اور گلی میں سے گذرنے والے ہر شخص پر نظر رکھی جاتی کہ کوئی مشکوک کاروائی تو نہیں کرتا ۔ تمام محلے داروں میں ایک قسم کا بھائی چارہ ہوتا تھا ۔ اس قسم کا رویّہ سب کی بہتری اور حفاظت کا ضامن تھا
صرف ایک واقعہ نمونہ کے طور پر ۔ ہماری گلی میں کوئی شخص آیا اور کچھ دیر بعد واپس چلا گیا تھا ۔ اُسے ہمارے 3 محلہ داروں نے دیکھا ۔ پہلے اُنہوں نے آپس میں سرگوشی کی اور پھر گلی کے ہر گھر کے ایک معتبر شخص سے بات کی سے ۔ اُنہیں اُس وقت تک چین نہ آیا جب تک اطمینان نہ ہو گیا کہ کچھ نہیں ہوا اور کچھ ہونے کا خدشہ بھی نہیں کیونکہ وہ شخص راستہ بھول کر ہماری گلی میں آ گیا تھا

آج کے حالات پر نظر ڈالیئے اور سوچیئے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ؟

آجکل ہم نے ساری ذمہ داری پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے سر پر ڈالی دی ہے اور اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے ۔ جب دِل چاہتا ہے سکیورٹی والوں یا حکومت کو جی بھر کے کوس لیتے ہیں اور پھر اپنے دھندوں میں لگ جاتے ہیں ۔ اپنے ہموطن یا اپنے شہر یا گاؤں والے تو کیا ہمیں اپنے عزیز و اقارب کی بھی پرواہ نہیں ۔ بس ایک فکر ہے کہ ہمیں کرنا کچھ نہ پڑے اور دولت کے انبار لگ جائیں

نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں
اللہ ہمیں اپنئ ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے