جھوٹ کے پاؤں ؟

کہا جاتا ہے کہ جھُوٹ کے پاؤں نہيں ہوتے مطلب کہ جھُوٹ بولنے والے کا بيان بدلتا رہتا ہيں کيونکہ اُس کے بيان سےحقيقت مفقود ہوتی ہے ۔  

اين بی سی نيوز نے بتايا ہے کہ ايک برطانوی حُکام کے مطابق برطانيہ سے امريکہ جانے والے ہوائی جہاز گرانے کے الزام ميں گرفتاريوں پر امريکہ نے مجبور کيا تھا ۔

برطانوی حُکام نے مزيد کہا کہ مبيّنہ حملہ ناگزير نہيں تھا کيونکہ ابھی تو مشکُوک افراد نے ہوائی جہاز ميں نشستيں بھی محفوظ نہيں کرائيں تھيں اور کچھ کے پاس پاسپورٹ بھی نہ تھے ۔

بُش کے داخلی تحفظ ميں معاون فرانسز ٹاؤن سينڈ نے کہا کہ امريکہ برطانيہ اور  پاکستان کے افسران کے مابين مکمل تعاون اور ہم عملی تھی ۔ 

برطانيہ کے حُکام نے يہ بھی کہا کہ امريکيوں نے يہ زور ديا تھا کہ اگر مبيّنہ سرغنہ راشد رؤف کو پاکستان ميں فوری طور پر گرفتار نہ کيا گيا تو امريکہ خود اُسے حراست ميں لے لے گا يا پاکستان پر اُسے گرفتار کرنے کيلئے زور ڈالے گا

برطانوی حُکام نے يہ انکشاف بھی کيا کہ راشد رؤف کو برطانيہ کے اعتراضات کے باوجود پاکستان ميں گرفتار کيا گيا ۔

قبل ازيں اين بی سی نے کہا تھا کہ مبيّنہ بارود پاکستان ميں ٹيسٹ کيا گيا تھا ۔ 

يہ خبر ڈان اور جنگ ميں پڑھيئے

* 

میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔   http://iabhopal.wordpress.com

يومِ استقلال ۔ اُس گمنام بچے کے نام

يوممِ اِستقلال مُبارِکFlag-1
پاکستان پائيندہ باد
اُس گمنام مسلمان بچے کے نام جو تعمیرِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک مسلمان محلے میں سڑک پر دوڑا جا رہا تھا ٹھوکر کھا کر گرا اور خون بہتے دیکھ کر رونے لگا ۔ ایک مسلمان راہگیر نے ٹوکا “مسلمان کا بچہ ہو کر تھوڑا سا خون بہہ جانے پر رو رہا ہے “۔
دوسرے راہگیر نے کہا “بہت شرم کی بات ہے”۔
بچے نے جواب دیا “جناب چوٹ لگنے اور خون بہنے پر میں نہیں رو رہا ۔ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ جو خون پاکستان کے لئے بہنا تھا وہ آج بیکار ہی بہہ رہا ہے”۔

جناب مطلوب الحسن سیّد اپنی کتاب ‘ہمارے قائد’ میں لکھتے ہیں جب یہ واقعہ قائد اعظم کو بتایا تو اُنہوں نے فرمایا “اب پاکستان بننے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی”

پچھلے 55 سال سے ہمارے مُلک پر بيوروکريٹ حکومت کر رہے ہيں چاہے وردی ميں ہوں يا بغير وردی اور ہم لوگ محکوم ہيں ۔ کيا پاکستان اِسی لئے بنا تھا ؟   ہم قائد اعظم کی عزّت کے دعوے تو بہت کرتے ہيں جو صرف دفتروں ميں اُن کی تصوير لگانے تک محدود ہيں ۔ لاکھوں روپيہ خرچ کر کے شاہراہ اسلام آباد کے کنارے قائد اعظم کی بيس پچيس فٹ کی شبيح آويزاں کروا کر اپنی منافقت کو اُجا گر کرتے ہيں ۔ کيا قائد اعظم نے ہميں يہی کہا تھا ؟ ملاحظہ ہو پاکستان کے گزيٹڈ آفيسروں سے چٹاگانگ ۔ مشرقی پاکستان ۔ ميں قائدِ اعظم محمد علی جناح  کے 25 مارچ 1948 کے خطاب سے اقتباس

“Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.”

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://iabhopal.wordpress.com

خوش قِسمت دادا

سالگرہ مبارک ہماری بہت پياری مِشَّيل
 تم جيؤ ہزاروں سال ۔ ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزارا

للہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری پياری پوتی پر اپنی رحمتيں نازِل کرے ۔ آمين

آج دادا اور دادی کی جان [ابھی تک اکلوتی] پياری پوتی مِشَّيل [زکريا کی بيٹی] ماشاء اللہ دو سال کی ہو گئی ہے ۔
مِشَّيل جب دسمبر 2005 ميں پہلی بار پاکستان آئی تو خيال تھا کہ امريکی ماحول يعنی اکيلا رہنا کی وجہ سے وہ پاکستان کے ماحول اور ہم سے گھبرائے گی ليکن اُس نے ثابت کر ديا کہ “جو کھينچتی ہے تُجھ کو وہ خون کی کشش ہے”۔ اسلام آباد ايئرپورٹ پر سامنے آتے ہی ميں نے آگے بڑھ کر اُسے بُلايا تو ماشاء اللہ مُسکرا کر اُس نے ميری روح تازہ کر دی ۔ گھر پہنچ کر مِشَّيل اپنی امّی کی گود ميں بيٹھی تھی ۔ ميں نے بُلايا تو مُنہ چھُپا ليا ۔ اس پر ميں ہنس ديا تو مِشَّيل نے اِسے کھيل بنا ليا ۔ جب ميں بُلاتا تو عموماً چھُپ جاتی کبھی اپنی امّی کی گود ميں کبھی اپنے ابّو کی ٹانگوں ميں کبھی صوفے کے پيچھے ۔ اگر ميں نہ بلاؤں تو خود مجھے بُلاتی ۔ جب ميں کہتا ” مِشَّيل آ جا” تو چھُپ جاتی ۔ ايک دن دوسری منزل پر جا کر مُجھے بلانے لگ گئی “دادا ۔ دادا” ميں اُوپر گيا تو ہنستی ہوئی کمرے ميں چھُپنے کيلئے بھاگی ۔

مِشَّيل کے واپس امريکہ جانے کے بعد جب ہم ٹيليفون کرتے تو کہتے کہ مِشَّيل کو ٹيليفون دو ۔ مِشَّيل اپنی دادی اور پھُوپھو سے اپنی سپيشل زبان ميں باتيں کرتی ۔ ميرے ساتھ صرف ايک دفعہ بات کی ورنہ ميری آواز سُنتے ہی ٹيليفون اپنے ابّو کو دے کر بھاگ جاتی ۔ 30 جون 2006 کو زکريّا بيٹے کا ٹيليفون آيا کہ مِشَّيل کہہ رہی ہے “دادا فون ۔ دادا فون”۔ اُس وقت ميں موجود نہيں تھا تو اپنی دادی سے باتيں کرتی رہی ۔ چند منٹ بعد ميں پہنچ گيا پھر ميرے ساتھ بھی باتيں کيں جو میری سمجھ ميں نہيں آئيں ۔

اب تو اللہ کے فضل سے يہ حال ہے کہ لَيپ ٹاپ کی طرف اشارہ کر کے مِشَّيل اپنے ابُو سسے کہتی ہے ۔ دادا فوٹو يعنی دادا کی تصوير دِکھاؤ ۔ دس بارہ دن پہلے ہم نے ٹيليفون کيا تو زکريّا نے بتايا کہ مِشَّيل کو زکام اور بخار ہے ۔ ميں نے کہا پھر تو اُس سے بات نہيں ہو سکے گی ۔ ايک منٹ بعد مِشَّيل نے آ کر اپنے ابُّو سے ٹيليفون لے ليا اور ميرے ساتھ باتيں کرنے لگی ۔ وہ مُجھے کچھ بتاتی رہی دادا ۔ ۔ ۔ دادا ۔ ۔ ۔ مُجھے ايک آدھ لفظ سمجھ آيا مثلاً کَيپ ۔ مُجھ سے ميری بيگم نے ٹيليفون پکڑ ليا تو مِشَّيل نے اپنی دادی کی بات نہ سُنی اور کہا دادا فون تو ميری بيگم نے ٹيليفون مُجھے واپس دے ديا اور مِشَّيل پھر ميرے ساتھ باتيں کرنے لگ گئی ۔ بعد ميں مِشَّيل نے اپنی دادی کے ساتھ بھی بہت باتيں کيں ۔ اب تو زکريّا کہتا ہے دادا سے بات کرنی ہے تو مِشَّيل بھاگی ہوئی آتی ہے۔ سُبحان اللہ ۔ چشمِ بَد دُور

يہ حال کيوں ؟

مُلک کا يہ حال کيوں ؟ 

يہ وہ سوال ہے جو پاکستانيوں کے دماغ ميں بار بار اُٹھتا ہے مگر زيادہ تر لوگ اس کا جواب نہيں تلاش کرتے ۔ کچھ لوگ اس کا تمام تر قصوروار مُسلمان ہونے کو گردانتے ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ ہم اگر باعمل مُسلمان ہوتے تو ہمارا يہ حال نہ ہوتا ۔ ميں آج ہماری قوم کے تنزّل کی وجوہات ميں سے صرف ايک بظاہر معمولی مگر اہم وجہ پر سے پردہ اُٹھاتا ہوں ۔ باقی انشاء اللہ  پھر کبھی ۔ گو شاعر تو کہتا ہے

پردے ميں رہنے دو ۔ پردہ نہ اُٹھاؤ

پردہ جو اُٹھ گيا تو بھيد کھُل جائے گا

ميں 6 اگست کو اتوار بازار سے سودا سلف لينے کے بعد گاڑی ميں بيٹھا ۔ اسے سٹارٹ کر کے ريورس کر رہا تھا کہ ايک گاڑی آ کر پيچھے کھڑی ہو گئی اور پيچھے ہٹنا نہيں چاہتی تھی ۔ ميں نے اُس کو راستہ ديا ليکن موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے چار پانچ گاڑياں تيز ہو کر زبردستی نکل گئيں ۔ ميں نے دوسری بار گاڑی ريورس کرنا شروع کی پھر وہی ہوا اور کئی گاڑياں زبردستی نکليں ۔ تيسری بار ميں ريورس کر کے آدھی سے زيادہ گاڑی نکال چکا تھا کہ پيچھے ايک گاڑی آ کھڑی ہوئی ۔ اب ميری گاڑی ايسے رُخ ميں تھی کہ آگے نہيں جا سکتی تھی ۔ ميں گاڑی سے باہر نکل کر اس کے مالک سے کہا کہ گاڑی کو تھوڑا پيچھے ہٹا ليجئے ۔ سب کچھ ديکھتے ہوئے پانچ گاڑی والوں نے اپنی گاڑياں آگے لا کر اُس کے پيچھے کھڑی کر ديں ۔ پھر ميں نے ہر ايک سے عليحدہ عليحدہ درخواست کی تو دس منٹ بعد اتنی جگہ بنی کہ ميں نے گاڑی پيچھے کر کے سيدھی کر لی ۔ ابھی ميں نے چند فٹ ہی گاڑی چلائی تھی کہ بائيں طرف سے ايک گاڑی ميرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور اس کے پيچھے پانچ چھ گاڑياں اور آ کے کھڑی ہو گئيں ۔ ميں نے اس گاڑی کے مالک کو سمجھايا کہ اگر آپ گاڑی پيچھے ہٹا ليں تو ميں نکل جاؤں گا تو آپ کو گاڑی پارک کرنے کی جگہ مل جائے گی اور باقی گاڑياں بھی نکل سکيں گی ۔ اس نے گاڑی ہٹائی تو باہر نکلنے کے راستہ سے داخل ہو کر دو گاڑياں آ کر ميرے سامنے کھڑی ہو گئيں اور سب باہر جانے کيلئے تيار گاڑيوں کا راستہ بند کر ديا ۔ پوليس مين اور ميں نے اُنہيں گاڑياں پيچھے کرنے کو کہا  مگر اُن کے مالک بضد کہ ميں گاڑی پيچھے ہٹاؤں ۔  

کمال يہ کہ وہ لوگ جن کی گاڑياں اُن دو اشخاص کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پھنسی ہوئی تھيں وہ مجھے کہنے لگے کہ وہ گاڑی نہيں ہٹاتے اس لئے آپ ہٹا ديں ۔ اُنہوں نے يہ بھی نہ سوچا کہ ميری گاڑی کو پيچھے ہٹانے کی گنجائش نہيں ۔ ميں نے اُن سے کہا کہ ميں دوسروں کو سہولت دينے کے نتيجہ ميں40 منٹ سے يہاں پھنسايا گيا ہوں اور وہ دونوں  ابھی آئے ہيں اور وہ بھی غلط راستے سے ۔ آپ لوگ حق کا ساتھ دينے کی بجائے غلط کا ساتھ کيوں دے رہے ہيں ؟  تو اُن کے پاس جواب نہ تھا ۔ صرف ايک شخص جس نے ميرے کہنے پر اپنی گاڑی پيچھے ہٹائی تھی اُس نے ميرا ساتھ ديا ۔

اب درجنوں گاڑياں پھنس چکی تھيں ۔ آخر ميں نے بلند آواز ميں کہا ۔ ہمارے مُلک کا ستياناس اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ لوگ حق کا ساتھ دينے کی بجائے جابر کا ساتھ ديتے ہيں ۔ اب اگر ميری  گاڑی کے پيچھے کھڑی تمام گاڑياں پيچھے ہٹ جائيں تو بھی ميں اپنی گاڑی پيچھے نہ ہٹاؤں گا ۔ جو غلط ہے اُسے گاڑی پيچھے ہٹانا ہو گی ۔ ديکھتے ہيں کہ جيت حق کی ہوتی ہے يا جابر کی ۔ کچھ دير بعد چند لوگ اُن دونوں کے پاس گئے ۔ باقيوں نے اپنی گاڑيوں سے باہر نکلنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی ۔ پندرہ بيس منٹ کی بحث کے بعد اُن دونوں نے گاڑياں ريورس کيں اور سب کو راستہ ملا ۔   

اگر ہم لوگ آج فيصلہ کر ليں کہ حق کا ساتھ ديں گے اور جابر کا ساتھ نہيں ديں گے تو تھوڑی تکليف ضرور اُٹھانا پڑے گی مگر اپنا معاشرہ اپنا مُلک بہت اچھا بن جائے گا ۔ اللہ ہميں حق کا ساتھ دينے کا حوصلہ عنائت فرمائے ۔ آمين  

*

میرا انگريزی کا بلاگ ۔ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔ http://iabhopal.wordpress.com

ميرے لڑکپن کے شُغل

ميں نے 9 سال کی عمر ميں ايک دفعہ پتنگ اُڑائی اور وہ ساری عمر کے لئے کافی ہو گئی ۔ بنٹے يا بلور  يا گولياں اور اخروٹ وغيرہ کبھی نہيں کھيلے ۔ گلی ڈنڈا  تھوڑا بہت کھيلا وہ بھی جب ميں تيرہ چودہ سال کا تھا ۔ دسويں جماعت تک ہاکی اور ايف ايس سی ميں باسکٹ بال کھيلی البتہ چِڑی چھِکا ٹيبل ٹينس اور سکواش بہت عرصہ کھيلے ۔

ميرے مشاغل ڈرائينگ ۔ مصوّری اور پھول پتيوں اور بيلوں کے نمونے کڑھائی يا کشيدہ کاری کيلئے بنانا تھا ۔ انسان کی تصوير کبھی بنانے کی کوشش نہ کی ۔ اگر کسی نے مجبور کيا يعنی ميری مصوّری کو چيلنج کيا تو پندرہ سيکنڈ ميں چہرے کی بجائے سَر کے پچھلے حصے کی تصوير بنا دی ۔  ايف ايس سی يعنی انٹرميڈئٹ کا امتحان دينے کے بعد رياضی کی شعبدہ بازی ميں پڑ گيا ۔ ميں 1986ء ميں آپريشنز ريسرچ اور کوانٹی ٹيٹِو ٹيکنِيکس کا کورس کر رہا تھا تو ميں نے ايک مذاحيہ نظم لکھی تھی ۔ اُسے ڈھونڈ رہا تھا ۔ وہ تو نہ ملی مگر ميری ايف ايس سی کے امتحان کے بعد کی شعبدہ بازی کے چند نمونے مل گئے ۔ ان ميں سے تين حاضرِ خدمت ہيں

7 x 7 + 5 = 54
77 x 7 + 5 = 544
777 x 7 + 5 = 5444
7777 x 7 + 5 = 54444
77777 x 7 + 5 = 544444
777777 x 7 + 5 = 5444444
7777777 x 7 + 5 = 54444444
77777777 x 7 + 5 = 544444444
777777777 x 7 + 5 = 5444444444
7777777777 x 7 + 5 = 54444444444

دس تک ميں نے لکھ ديئے ہيں ۔ آپ چاہے جہاں تک چلے جايئے ۔

کم پڑھا لکھا آدمی بڑی رقموں کو ضرب کيسے دے ؟

مثال کے طور پر 89 کو 67 سے ضرب دينا ہے تو ان دونوں ہندسوں کو برابر تھوڑے فاصلہ پر لکھ ليجئے ۔
اب ايک ہندسے کو  2  سے تقسيم کر کے حاصل تقسيم نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل تقسيم کو 2 سے تقسيم کيجئے ۔
يہ عمل دُہراتے جايئے حتٰی کہ حاصل تقسيم  1  آجائے ۔
جو حاصل تقسيم جُفت نہ ہو يعنی طاق ہو اُس کو 2 پر تقسيم کرنے سے پہلے اس ميں سے 1 منہا کر کے اُسے جُفت بنا ليجئے ۔ 
اب دوسرے ہندسہ کو 2  سے ضرب ديکر حاصل ضرب اُس کے نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل ضرب کو 2 سے ضرب دے کر حاصل ضرب نيچے لکھ ليجئے ۔
يہ عمل اتنی بار دہرايئے جتنی بار تقسيم کيا تھا ۔
اب جو حاصل ضرب کی رقم جُفت حاصل تقسيم کے سامنے ہے اُسے کاٹ ديجئے اور جو حاصل ضرب بقايا بچيں انہيں جمع کر ليجئے ۔
جواب ہے  5963

89 . . . . . . . . 67 . . . . . . . . . 67
44 . . . . . . . 134
22 . . . . . . . 268                    
11 . . . . . . . 536 . . . . . . . . .536
. 5 . . . . . . 1072 . . . . . . . .1072
. 2 . . . . . . 2144          
. 1 . . . . . . 4288 . . . . . . . .4288
. . . . . . . . . . . . . . . . . . .————
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .5963

گنتی چار چوکوں کی مدد سے

انجنيئر کے فرائض اور ذمہ دارياں

مضمون ” انجنيئر کے فرائض اور ذمہ دارياں” ميری تعليم اور پلاننگ ۔ ڈويلوپمنٹ اور پروڈکشن ميں ميرے کئی ملکوں بشمول پاکستان ۔ ليبيا ۔ جرمنی ۔ بيلجيئم ميں ذاتی تجربہ اور غير مُلکی وفود بشمول امريکہ ۔ چين ۔ چيکوسلواکيہ کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ کا نچوڑ ہے ۔ سن 1984 ميں يہ مضمون لکھنے تک ميرا متذکّرہ تجربہ 22 سال پر محيط تھا ۔  

يہ مضمون نہ صرف گريجوئيٹ انجنيئروں کيلئے بلکہ انجيئر بننے کی خواہش رکھنے والوں اور تجربہ کار انجنيئروں کيلئے بھی مُفيد ہو سکتا ہے کيونکہ انجنيئر جب کام ميں لگ جاتا ہے تو فطری طور پر اُس کی تمام تر توجہ صرف ايک ہی سمت ہو جاتی ہے جس ميں وہ کام کر رہا ہوتا ہے اور کثيرالجہت انجنيئرنگ اُس کے ذہن سے ماؤف ہونے لگتی ہے ۔

يہ مضمون يہاں پر کلِک کرکے يا ميرے انگريزی کے بلاگ ميں انجنيئر پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے ۔  

 

کمال ہو گيا

بلاگسپاٹ بغير کسی پروکسی کے براہِ راست کھُلنا شروع ہو گيا ہے ۔ اللہ يہ گھڑی مبارک کرے اور بلاگسپاٹ براہِ راست ہی کھُلتا رہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمارے حکومتی اہلکاروں کو سيدھی راہ پر چلائے اور عقلِ سليم عطا فرمائے ۔ آمين

*

میرا انگريزی کا بلاگ ۔ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے ۔

Hypocrisy Thy Name – – http://iabhopal.wordpress.com  یہ منافقت نہیں ہے کیا ۔ ۔

آپ نے ياد دِلايا تو ۔ ۔ ۔

اسلام آباد موٹر وے و ہائی وے پوليس اِسی سال اسلام آباد کے شہريوں کو متعارف کرائی گئی ۔ مئی ميں اِس کے رويّہ کے متعلق ميں لکھنے والا تھا کہ اچانک 23 مئی کی صبح ميری بيگم گِر گئيں اور اُن کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ پھر وہ دن اور آج کا دن مصروفيت کے باعث ميں پہلے سے لکھی ہوئی  تحريريں شائع کرتا رہا ۔ عتيق الرّحمٰن صاحب نے مُجھے ياد دِلا ديا ۔ شکريہ عتيق الرّحمٰن صاحب ۔

مئی کے مہينے ميں ہم لوگ جی 10 سے اپنے گھر ايف 8 آرہے تھے کہ ايف  10 کے پاس ايک کھڈّے سے گذرنے کے بعد ہماری کار  رُک گئی ۔ ميں باہر نکا ہی تھا کہ ايک پوليس کار آئی ۔ اُس ميں سے سليٹی رنگ کی وردی پہنے پوليس افسر نکلا۔  اُس نے ميرے ساتھ دَھکا لگا کر کار سڑک سے نيچے اُتاری تا کہ راستہ کھُلا رہے پھر اُس نے کار کا بونٹ کھول کر معائنہ شروع کيا ۔ ميں نے سارے تھِمبَل اُتار کر دوبارہ لگائے تو ميری کار چل پڑی ۔ پوليس افسر نے پوچھا “پھر تو بند نہيں ہو جائے گی ؟” ميرے “نہيں” کہنے کے باوجود پوليس کار ايک کلوميٹر تک ہماری کار کے پيچھے چلتی رہی ۔

کُچھ دن بعد ہم زيرو پوائنٹ سے شاہراہ فيصل پر آ رہے تھے کہ جناح ايوينيو سے کُچھ پہلے ٹائر ميں سے ہوا نکل گئی ۔ کيل چُب گيا تھا ۔ ميں کار سے اُترا ہی تھا کہ مُجھے مدھم سی آواز سُنائی دی ” سَر  رُک جائيں ۔ سَر  رُک جائيں” ميں نے ديکھا تو ايک جوان مکينِک کی وردی پہنے ميری طرف سرپٹ بھاگا آ رہا تھا ۔ ميرے پاس پہنچتے وہ ہانپنے لگا ۔ اُس کے ساتھ ايک پوليس مين بھی تھا ۔ اُس مکينِک نے پہيئہ بدل ديا تو ميں نے اُسے کچھ روپے دينا چاہے مگر اُس نے يہ کہہ کر نہ لئے “يہ فری سروس ہے ۔ ميں ٹريفک پوليس کا تنخواہ دار ملازم ہوں ۔ يہ تو شہر ہے اگر شہر کے باہر بھی آپ کو کسی قسم کی مدد درکار ہو تو 915 پر ٹيليفون کيجئے ہمارے آدمی آپ کی مدد کو پہنچ جائيں گے”۔

سُبحان اللہ ۔ مجھے يوں محسوس ہوا کہ ميں جنّت ميں پہنچ گيا ہوں ۔ سچ کہا تھا حکيم الاُمّت علامہ محمد اقبال نے

ذرا نَم ہو تو يہ مَٹّی بڑی ذرخيز ہے ساقی