کيتھولک لوگوں نے حضرت مريم کی يہ تصوير بنائی ہے ۔
اس ميں اُنہيں پورا جسم اور بال ڈھانپے ہوئے دکھايا ہے جيسا کہ عيسائی اُنہيں ديکھنا چاہتے ہيں ۔ اگر اسی طرح کا لباس مسلم خاتون پہنے تو اسے حقير سمجھا جاتا ہے ۔
عيسائی بيوائيں اکثر اپنا جسم اچھی طرح ڈھانپتی ہيں ۔
يہ ان کا خاوند سے خلوص اور قابلِ تعريف فعل سمجھا جاتا ہے ۔
جب مسلم خواتين اپنے پيدا کرنے والے سے خلوص کے اظہار
ميں اپنا جسم ڈھانپتی ہيں تو اسے لائقِ مذمت کہا جاتا ہے ۔
يمِش عيسائی خواتين جسم کے علاوہ سر کے بال بھی ڈھانپتی ہيں
تو اُنہيں پارسا سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان کے عقيدہ سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی عزت کرتے ہيں اور وہ کسی حقوقِ خواتين تنظيم کا نشانہ بھی نہيں بنتيں ۔
يہودی مذہبی خواتين اپنے سر کے بال سکارف يا مصنوعی بالوں
سے ڈھانپتی ہيں ۔ کسی ملک ميں ايسی کوئی تجويز نہيں کہ ايسی يہودی خواتين پر پابندی لگائی جائے اسلئے کہ اُن کا مذہب اُنہيں اس کی اجازت ديتا ہے ۔
جب مسلم خواتين اپنے دين کے مطابق اپنے سر کے بال ڈھانپتی
ہيں تو انہيں کيوں معاشرے کی پِسی ہوئی کہا جاتا ہے اور اُن کے اس فعل کو بذريعہ قانون کيوں ممنوع قرار ديا جاتا ہے ؟
کيا جو کپڑا مسلم خواتين استعمال کرتی ہيں وہ اس کپڑے سے گھٹيا ہوتا ہے جو عيسائی يا يہودی خواتين استعمال کرتی ہيں ؟
بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی





