جنہيں سرکار دہشتگرد کہتی ہے ۔ کچھ حقائق

اس سے زيادہ کسی قوم کی بدقسمتی کيا ہو سکتی ہے کہ اس کے فرد ہی بے قصور ہلاک کر دئيے جانے والوں کو دہشتگرد ۔ سمگلر اور ہيروئين کے سوداگروں سے تعبير کريں ۔

آخر مرنے والوں کی تفصيل
آ ہی گئی جو يہ ہے ۔

ڈاماڈولہ ۔ باجوڑ کے جامعہ ضياء العلوم ميں 30 اکتوبر کو صبح 5 بجے امريکی مزائل حملہ ميں مرنے والے 80 طلباء ميں سے نور محمد کی عمر 9 سال تھی ۔ 4 يعنی سيف اللہ ۔ شعيب ۔ اسداللہ اور صداقت دس دس سال کے تھے ۔ خليل اللہ 11 سال کا ۔ 9 کی عمر 18 سال ۔ 4 کی 19 سال اور 3 کی 20 سال تھی ۔ باقی 58 کی عمريں 12 اور 15 سال کے درميان تھيں ۔

منافقت کسے کہتے ہيں ؟ ؟ ؟

مغربی دنيا کے مُلک انسانيت سے محبت اور آزادی اظہارِ خيال کے بلند بانگ دعوے کرتے نہيں تھکتے ۔ جب توہينِ رسالت کرتے ہوئے کارٹون چھاپے گئے تو مغربی دنيا کے مُلکوں نے مسلمانوں کا احتجاج يہ کہ کر رد کر ديا تھا کہ اظہارِ خيال پر پابندی نہيں لگائی جا سکتی ۔

حال ہی ميں فرانس نے ايک قانون منظور کيا ہے جس کے تحت اس خيال سے متفق نہ ہونا کہ تُرکی نے 1915 سے 1917 عيسوی تک 15 لاکھ آرمينيائی لوگوں کو ہلاک کيا تھا قابلِ سزا جرم ہو گا ۔ اگر اس مفروضے کو سچ سمجھ بھی ليا جائے تو بھی کيا يہ قانون بذاتِ خود جمہوری اصولوں بشمول آزادی اظہارِ خيال پر جبری پابندی نہيں ؟

خيال رہے کہ پہلی جنگِ عظيم 1914 سے 1918 عيسوی تک ہوئی ۔ اس ميں فرانس ۔ روس ۔ برطانيہ ۔ اٹلی اور امريکہ نے آسٹريا ۔ ہنگری ۔ جرمنی ۔ بلغاريہ اور سلطنتِ عُثمانيہ پر حملہ کيا اور ان کو شکست دی بالخصوص سلطنتِ عثمانيہ جس کا مرکز تُرکی تھا کا شيرازہ بکھر گيا ۔ ان حالات ميں تُرکی جسے اپنی جان کے لالے پڑے تھے اتنے بڑے پيمانے پر آرمينيائی لوگوں کو ہلاک کرنا تو کُجا اس کی منصوبہ بندی بھی کيسے کر سکتا تھا ؟ و اللہُ علم بالصواب ۔

يہ قانون کوئی نئی بات نہيں ۔ اس سے بہت پہلے ہٹلر کے 60 لاکھ يہودی گيس چيمبر ميں ہلاک کرنے سے انکار يا اس پر تنقيد قابلِ سزا جرم قرار ديا جا چکا ہے اور کئی لوگوں کو اختلاف کا اظہار کرنے پر سزا بھی ہوئی ہے ۔ يہ الگ بات ہے کہ اس کی عملی صورت کا جائزہ ليں تو يہ واقعہ بہت مبالغہ آميز لگتا ہے ۔ ميں نے آج سے تقريباً چار دہائياں قبل جرمنی ميں ايک مقام ديکھا تھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ پندرہ بيس لاکھ يہودی وہاں رکھے گئے تھے ۔ ميرے اندازے کے مطابق وہاں چار پانچ لاکھ آدمی سمونا بھی مشکل تھا ۔ و اللہُ علم بالصواب ۔

مغربی دنيا کے ليڈر ہمشہ اپنے مخالفوں بالخصوص مسلمانوں ميں کيڑے نکالتے اور اُن پر پابندياں لگاتے آئے ہيں ليکن جب اُن ميں سے کوئی ظُلم کرتا ہے يا ظُلم کی حمائت کرتا ہے تو وہ عين جمہوری اقدام اور آزادیِٔ اظہار خيال ہوتا ہے ۔

کيا فرانس کيلئے زيادہ موزوں نہيں تھا کہ 1950 کی دہائی ميں فرانسيسی فوج نے الجزائر ميں لاکھوں مسلمانوں کا جو بلاجواز قتلِ عام کيا اُس پر شرمندہ ہو کر معافی مانگتا ؟ يا پھر اپنے حواريوں کے مندرجہ ذيل کرتوتوں پر نظر ڈالتا ؟

روس کے حکمران سٹالن کے دور ميں 70 لاکھ يوکرينی باشندے قتل کئے گئے اور 20 لاکھ کو کيمپوں ميں قيدی بنايا گيا ۔ قيديوں کی تعداد بڑھ کر دوسری جنگِ عظيم کے آخر تک 55 لاکھ ہوگئی ۔

مزيد روس نے وسط ايشيا کے مسلمانوں کی نسل کُشی کی جس ميں عورتوں اور بچوں سميت 20 لاکھ مسلمان قتل کئے گئے جن ميں چيچن ۔ کريمين ۔ قزاخ ۔ تاجک ۔ تاتار ۔ بَشکِر ۔ اِنگَش ۔ وغيرہ شامل تھے ۔

دوسری جنگِ عظيم کے دوران اور بعد ميں نسلی بنياد پر 20 لاکھ جرمن مار دئيے گئے اور ايک کروڑ 50 لاکھ کو زبردستی جرمنی سے نکال ديا گيا جن ميں سے 20 لاکھ لڑکيوں اور عورتوں کی عزتيں لوٹی گئيں ۔

کون نہيں جانتا کہ امريکہ نے ہيروشيما اور ناگاساکی پر اگست 1945 ميں ايٹم بم گرا کر دو لاکھ سے زائد شہری جن ميں زيادہ تر بوڑھے عورتيں اور بچے تھے ہلاک کئے ؟

امريکہ نے صرف چين کو نيچا دکھانے کيلئے 1965 سے 1973 تک ويت نام ميں دس لاکھ يا زائد ويت کانگ ہلاک کئے ۔

روس نے 1979 عيسوی ميں افغانستان پر قبضہ کے دوران عورتوں اور بچوں سميت 20 لاکھ افغان ہلاک کر دئے اور 50 لاکھ کو پاکستان اور ايران ميں دھکيل ديا ۔

کيا سربوں نے 1990 کی دہائی ميں بوسنيا اور کوسوو کے مسلمانوں کی نسل کُشی کی خاطر لاکھوں مردوں عورتوں اور بچوں کا بے دريغ قتلِ عام نہيں کيا ؟

کيا امريکہ نے جھوٹا بہانہ بنا کر افغانستان اور عراق کو ملياميٹ نہيں کيا ؟ اور لاکھوں شہری بوڑھے عورتيں اور بچے ہلاک نہيں کئے ؟
اور کيا ان ملکوں کی پيداوار پر ناجائز قبضہ نہيں کئے بيٹھا ؟

يہ کوئی نہيں پوچھتا کہ پچھلی چھ دہائيوں ميں کشمير اور فلسطين ميں کون لاکھوں شہری جوانوں عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر چکا ہے اور مزيد ہلاک کئے جا رہا ہے ؟ دس سالہ بچی سے لے کر سَتَر سالہ بوڑھی عورت تک ہزاروں عورتوں کی عزتيں کيوں لُوٹی گئيں ؟

کيا ان سب قاتل حکومتوں کے خلاف بيہيمانہ قتلِ عام کے مقدمے نہيں چلنے چاہيں ؟ کيا يہ قتلِ عام اور نسل کُشی انسانيت سے محبت کا ثبوت ہے ؟

اس سے بڑھ کر منافقت اور کيا ہو سکتی ہے ؟

گلوکار محمد رفيع

آدھی صدی سے زائد بيت گئی جب ميں سکول ميں پڑھتا تھا تو ماہِ رمضان ميں ريڈيو پر محمد رفيع کا گايا ہوا ايک گيت کئی بار سنايا جاتا تھا
۔ پچھلے رمضان ميں يہ گيت ميرے دماغ کی ہارڈ ڈِسک سے اَيکٹِو مَيموری ميں آگيا ۔ سو قارئين کے پيشِ خدمت ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ غلطی ہو گئی ہو يا کوئی مصرع رہ گيا ہو ۔ آخر پچاس سال کوئی تھوڑا عرصہ نہيں ہوتا ۔

مشہور مدتوں سے روائت ہے مومنو
رمضان کے مہينے کی برکت ہے مومنو
اِک شہر ميں تھا لڑکا کوئی سات سال کا
روزے کے رکھنے کا اُسے ارمان تھا بڑا
رمضان کا مہينہ جو آيا تو خوش ہوا
وہ اپنی ماں سے کہنے لگا کرکے التجاء
سحری کے وقت مجھ کو بھی لله جگانا تم
ميں بھی رکھوں گا روزہ مجھے بھی اُٹھانا تم
ماں کو پِسر کی بات کا نہ آيا کچھ خيال
لڑکا جو اُٹھا صبح تو اُس کو ہوا ملال
جس وقت ماں نے ديکھا بيٹے کا غم ميں حال
سمجھايا اُس کو اور کہا سُن اے ميرے لال
روزہ نہيں ہے فرض ابھی تجھ پہ غم نہ کر
دل کانپتا ہے ميرا تو آنکھوں کو نم نہ کر
لڑکا يہ بولا ماں سے نہيں مجھ سے کچھ نہاں
ميں نے سنا ہے بارہا رمضان کا بياں
قرآن اس مہينے ميں نازل ہوا ہے ماں
رمضان برکتوں کا مہينہ ہے بے گماں
جنّت ميں گھر ملے گا ہر اک روزہ دار کو
پائے گا دل ميں جلوۂِ پروردگار کو
القصہ جب رات ہوئی وہ نہ سو سکا
دل ميں تھا ايسا شوق کہ وہ جاگتا رہا
سحری کے وقت سحری کی اور روزہ رکھ ليا
خوش تھا کہ آج پورا ہوا دل کا مُدعا
سمجھايا ماں نے باپ نے لاکھوں کئے جتن
باز اپنے شوق سے مگر آيا نہ گُلبدن
ہر سمت جب پھيل گيا نُورِ آفتاب
ماں بيٹے سے يہ بولی کہ اب کھا لے تو شتاب
وہ بولا روزہ ٹوٹے گا ہو گا مجھے عذاب
ماں بولی تيرے بدلے ميں دوں گی وہاں جواب
کھانا تُو کھا لے ديکھ تو کيا ہو گيا ہے حال
بارہ بجے ہيں اور تُو بھوکا ہے ميرے لال
اس درجہ اُس کے سينے ميں روزے کا شوق تھا
ماں نے ہزاروں مِنتيں کيں کچھ نہ ہو سکا
بے تاب اپنی ماں کو ديکھا تو بول اُٹھا
جو کچھ بھی ہو آج کھانا نہ کھاؤں گا
يوں روزہ توڑ دينا گناہِ عظيم ہے
اب ميں ہوں اور ميرا خدائے رحيم ہے
اتنے وقتِ عصر ہوا پياس جو لگی
سوکھی زبان ۔ طاری ہوئی اُس پہ بے ہوشی
حرکتِ دل ميں آئی کمی بے کلی بڑھی
ہچکی سی آئی سانس بھی سينے ميں رک گئی
ماں باپ چيخ اُٹھے کہ معصوم چل بسا
مغموم ہم کو کر گيا محروم چل بسا
ہر سُو اذاں کی ہوئی اتنے ميں اک پُکار
افطار دونوں نے کيا روزہ بحالِ زار
پھر بارگاہِ حق ميں جھُکے ہو کے بے قرار
فارغ ہوئے نماز سے تھے دونوں اشکبار
ماں کی زبان پر تھی صدا شور و شَين کی
اور سامنے تھی لاش رکھی نورِعين کی
دونوں تھے اپنے بيٹے کے ماتم ميں مبتلا
اتنے ميں در سے دی کسی سائل نے يہ صدا
ميں روزہ دار ہوں جو کوئی کھانا کھلائے گا
دے گا اُسے نجات ہر اک رنج سے خدا
کانوں ميں پہنچی جس گھڑی سائل کی التجاء
گھر ميں جو کچھ پکا تھا وہ سائل کو ديديا
سائل کے بھيس ميں تھا فرشہ وہ بے گماں
غمگين اُن کو ديکھ کے پوچھا کہ اے مياں
کيوں چہرے سے تمہارے ہے اس طرح غم عياں
کہنے لگا ميں کيا کروں درد کا بياں
بيٹا ہمارا رنج و الم ہم کو دے گيا
تھا روزہ دار دل کا سکوں چھين لے گيا
بولا فقير اس پہ نہ کر رنج تُو ذرا
الله ہے کارساز دے گا اُسے جلا
بچے کی لاش مجھ کو بھی تو اک نظر دکھا
جب لاش ديکھی بچے کی سائل نے يہ کہا
ہو جا خدا کے فضل سے تو زندہ اس گھڑی
فضلِ خدا سے بچے نے پھر آنکھ کھول دی
ماں باپ نے جو ديکھا يہ منظر تو خوش ہوئے
بے ساختہ فقير کے قدموں ميں گر پڑے
بولا فقير شکر کرو فضلِ رب ہے يہ
رمضان کا مہينہ بڑا برکتوں کا ہے
غم سے نجات ملتی ہے ہر روزہ دار کو
وہ ديکھتا ہے جلوہءِ پروردگار کو

سچا کون ؟

حکومت کا يہ دعویٓ بھی غلط نکلا کہ باجوڑ کا مدرسہ جس پر 30 اکتوبر کو صبح 5 بجے بمباری سے 82 بےگناہوں کا ناحق خون ہوا ان ميں مدرسے کے مہتم مولانا فقير محمد بھی ہلاک ہو گئے جن کو امريکی حکومت طالبان کمانڈر قرار دے کر دہشتگرد کہتی ہے ۔ دراصل مدرسہ کے مہتمم مولانا لياقت ہيں جو کہ شہيد ہو گئے ہيں ۔ مولانا فقير محمد زندہ ہيں ۔

ديگر 31 اکتوبر کو بد قسمت قوم کے خوش قسمت صدر اور چيف آف آرمی سٹاف جنرل پرويز مشرف نے کہا کہ باجوڑ مدرسہ ميں مارے جانے والے سب دہشتگرد تھے اور وہ مدرسہ کے اندر دہشتگردی کی تربيت باقاعدہ اسلحہ کے ساتھ لے رہے تھے ۔ جو کہتا ہے کہ وہ دہشتگرد نہيں تھے وہ جھوٹا ہے اور وہ طاقت کا استعمال جاری رکھيں گے

اہم خبر ۔ بی بی سی کے مطابق باجوڑ مدرسہ ميں مرنے والوں کی عمریں بارہ سے سولہ سال کے درمیان تھیں۔

کمال يہ ہے کہ مدرسہ کے ملبہ سے انسانی جسموں کے ٹکڑےاور مسخ شدہ لاشيں تو مليں مگر سوائے ميزائل کے ٹکڑوں کے ايک بھی ٹکڑا ہتھيار کا نہ ملا

پرويز مشرف کے بھونپو ميجر جنرل شوکت سلطان نے کہا ہے کہ حملہ کيلئے افغانستان ميں موجود امريکی انٹيليجنس کی مہيّا کردہ معلومات استعمال کی گئيں ۔ اب صرف يہ کہنا باقی رہ گيا ہے کہ حملہ بھی امريکہ نے پرويز مشرف کو بتا کر کيا تھا ۔ ويسے بتانے کی ضرورت بھی کيا ؟ غلاموں پر کون اعتماد کرتا ہے

ميں صرف يہ کہتا ہوں کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو

ظُلم کی انتہاء اور کيا ہوتی ہے ؟

باجوڑ ايجنسی ميں مدرسہ ضياءالعلوم تعليم القرآن پر پير 30 اکتوبر کی صبح 5 بجے کے لگ بھگ مزائل مار کر مدرسہ کے
مہتمم مولانا فقير محمد ۔ تين اساتذہ اور 7طلباء کو ہلاک کر ديا گيا جن ميں 30 حافظِ قرآن اور درجن سے زائد نابالغ بچے باقی اٹھارہ سے پچيس سال تک کے تھے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق امريکہ کے بغير پائلٹ طيّارے [ڈرون] کچھ دنوں سے اس علاقہ پر پرواز کرتے رہے ۔ آخر پير کی صبح دو امريکی ڈرون آئے ان ميں سے ايک نے دو ميزائل چلائے ۔ ايک مدرسہ ميں گرا اور دوسرا قريبی نالہ ميںپھر تيسرا ميزائل دوسرے ڈرون نے چلايا ۔ اس کے تقريباً 15 منٹ بعد پاک فوج کے گن شِپ ہيلی کاپٹر آئے اور انہوں نے ملحقہ پہاڑی پر راکٹ چلائے جن کا دھماکہ پہلے تين دھماکوں سے بہت کم تھا ۔ خيال رہے کہ اس سال جنوری ميں بھی امريکہ نے مولانا فقير محمد کو مارنے کيلئے ميزائل داغے تھے جس سے 18 بيگناہ شہری جن ميں زيادہ تر عورتيں اور بچے تھے ہلاک ہو گئے تھے ۔ اُس وقت بھی امريکہ نے يہی کہا تھا کہ وہاں ايمن الظواہری نے ڈنر پر آنا تھا ۔ اس قتل پر اتنا شديد ردِعمل ہوا تھا کہ پاکستان کی حکومت امريکہ سے احتجاج کرے پر مجبور ہو گئی تھی امريکی ٹی وی چينل اے بی سی نے بتايا کہ حملہ ان اطلاعات پر کيا گيا کہ مدرسے ميں ايمن الظواہری ٹھہرے ہوئے ہيں ۔ لہٰذا چھوٹے امريکی جاسوس طيّارے [ڈرون] سے اسے نشانہ بنايا گيا تاہم تصديق نہيں ہو سکی کہ ايمن الظواہری وہاں تھے اور ان کا کيا انجام ہوا ۔ اے بی سی ٹی وی کے مطابق حملہ ميں دو سے پانچ تک عسکريت پسند ہلاک ہوئے جن ميں برطانوی طيّارہ کيس کا ماسٹر مائينڈ بھی شامل ہے

پاک فوج کے ترجمان ميجر جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ کچھ دنوں سے خفيہ اطلاعات مل رہی تھيں کہ اس مدرسہ ميں دہشتگردی کی تربيت دی جاتی ہے اور يہ کہ حملہ پاکستان کی سيکيورٹی فورسز نے کيا ۔ امريکی ٹی وی کی خبر کی انہوں نے واضح ترديد نہ کی ۔ ايمن الظواہری کی مدرسہ ميں موجودگی اور برطانوی طيّارہ سازش کے ماسٹر مائينڈ کی ہلاکت کی تصديق نہيں کی اور کہا کہ يہ محض مفروضہ ہے ۔

جن اخبارات کے مندرجات کو اختصار کے ساتھ پيش کيا گيا
دی ڈان
دی نيوز
نيشن
نوائے وقت
جسارت

اب تو يوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جن کو ہم حکمران سمجھتے رہے وہ دراصل غيرملکی طاقت کے غلام ہيں ۔ اس لئے ہموطنوں کے قتلِ عام پر مجبور ہيں ۔ اور اپنے آقاؤں کی تابعداری ميں دينی تعليم [صرف اسلام کی] کو دہشتگردی کا نام ديتے ہيں ۔

آزادی آزادی آزادی

ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

انشاء اللہ العزيز

ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دِن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دِن

ميں مسلم ہائی سکول راولپنڈی ميں دسويں جماعت ميں تھا ۔ 24 اکتوبر 1952 کو صبح سويرے سارے سکول کے طلباء کے سامنے ہمارے ايک اُستاذ نے اقوامِ متحدہ کی خوبياں بيان کرنا شروع ہی کی تھيں کہ سکول کے باہر سے آواز آئی ۔ ہم منائيں گے يومِ کشمير ۔ اُن کی آواز ميں ہماری جماعت کے طلباء نے آواز ملائی پھر کيا تھا پورا سکول نعروں سے گونج اُٹھا ۔ کرائيں گے آزاد جموں کشمير ۔ اقوامِ متحدہ مردہ باد ۔ سکول کے باہر گورنمنٹ کالج کے طلباء جلوس کی شکل ميں آئے تھے

جمعہ 24 اکتوبر 1947 کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے انسانوں سے مايوس ہو کر اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔  کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے صوبہ جموں میں کٹھوعہ اور صوبہ کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے ہوا ليکن ايک ہفتہ بعد بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی محاذ پر پہنچ گئی اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہ مری کے قريب پاکستان کو کشمير سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا ۔ 

جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں يا دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ جبکہ بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔ بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے اللہ کی نُصرت سے آگے بڑھتے رہے ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی پھر جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔

اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہ تھے مگر وزیرِ خارجہ ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔ 

آجکل پاکستان کی حکومت بھی پاکستان دُشمن قوتوں کے نِرغے ميں ہے اورجموں کشمير کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ محبت کی پينگيں بڑھا رہی ہے ۔ يوں محسوس ہوتا ہے کہ اندر کھاتے امريکہ کے دباؤ کے تحت بھارت کی ہر بات ماننے بلکہ ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہمارے روشن خيال حکمران امريکہ کو دے کر اُن کی زبانی شاباشوں پر پھولے نہيں سماتے ۔ ليکن تاريخ پڑھنے والے جانتے ہيں کہ نيک مقصد کيلئے ديا ہوا خون کبھی رائيگاں نہيں جاتا اور غاصب و ظالم حکمران کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے بڑھ کر نيک مقصد اور کيا ہو سکتا ہے ؟ جموں کشمير کے مسلمان پچھلے 60 برس ميں پونے پانچ لاکھ جانيں ظُلم کی بھينٹ چڑھا چکے ہيں ۔ انشاء اللہ يہ بيش بہا قربانياں ضائع نہيں جائيں گی اور رياست جموں کشمير آزاد ہو کر رہے گی ۔