مغربی طرز کی آزادی نسواں

ایک سروےسے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں ہر 100 میں سے 60 عورتیں دفاتر یا کام پر کسی نہ کسی ساتھی کے ساتھ خفیہ معاشقہ کرتی ہیں جن میں سے 53 کا کہنا ہے کہ وہ اس معاشقہ پر نادم نہیں ۔ 30 اپنی جنسی خواہش کام کی جگہ پر پوری کر لیتی ہیں ۔ اب باس کے ساتھ معاشقہ بھی قابل قبول ہو رہا ہے اور 75 فیصد عورتیں ایسا کرنا چاہیں گی ۔ کام پر معاشقہ کرنے والی عورتیں شراب خانوں ۔ ڈنر پارٹیوں یا انٹرنیٹ ڈیٹنگ کا سہارا نہیں لیتیں ۔

سروے کے مطابق برطانوی مرد اور عورتیں اب یورپ میں لمبے اوقات کام کرتے ہیں اور وہ جاپان سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ عورتوں کو کام پر پیٹرن میں بڑی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1992ء کے بعد سے 52 فیصد اب 48 گھنٹے ہفتہ کام کرنے کی توقع کرتی ہیں ۔ 64 فیصدکا کہنا ہے کہ وہ کام پر مرد ساتھیوں سے فلرٹ کرتی ہیں ۔ 80 فیصد کو کام پر کسی نہ کسی سے دلکشی رہی ہے ۔ ان کا ہدف اعلیٰ عہدوں پر معمور مرد ہوتے ہیں اور ان کی تعداد 61 فیصد ہے۔ جن کا معاشقہ ہوتا ہے ان میں سے بہت کم کی ملازمت ختم ہوئی ہے ۔ فلرٹ کرنے کا عام طریقہ ای میل یا چائے کے وقفہ میں ہوتا ہے ۔ 70 فیصد کے نزدیک فلرٹ کرنا کام کو دلچسپ بناتا ہے

بشکریہ ۔ روزنامہ جنگ

کیا ملک میں مارشل لاء نہیں ؟

اگر آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مارشل لاء نہیں تو یہ خبر پڑھ لیجئے ۔

حکومت ایک آرڈیننس جاری کر رہی ہے جس کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت شہریوں کاکورٹ مارشل کیاجاسکے گا ۔ آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید اختیارات بھی مل جائیں گے اور وہ شہریوں کوکوئی الزام عاید کئے بغیرغیر معینہ مدت تک عبوری حراست میں رکھ سکیں گی ۔ [خیال رہے چند دن قبل کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نے ایجنسیوں کے اختیارات کم کرنے کا حکم دیا ہے ]

اس بات کی تصدیق اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بدھ کے روز دی نیوز سے گفتگوکرتے ہوئے کی ۔ انہوں نے آرڈیننس کے آئندہ چندروز میں سامنے آنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ شہریوں کو آرمی ایکٹ کے دائرہ کا ر میں لانے کیلئے اس میں کچھ نئے جرائم کو شامل کیا جا ئیگا ۔ اٹارنی جنرل کے مطابق آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں ایجنسیوں کو عبوری حراست سے متعلق مزید اختیارات دیکر ان کے کردارکا ازسرنو تعین کیا جائیگا ۔ آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کی شمولیت کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ان میں اغواء ہتھیاروں کا استعمال ۔ دہشتگردی اور دیگر جرائم شامل ہیں ۔ ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترمیمی ایکٹ یقینی طورپر قبائلی جنگجوؤں اور دیگر لوگوں پر لا گو ہوگا ۔ تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس معاملے سے اپنی لاعلمی کا اظہارکیا۔

سیکرٹری دفاع نے بدھ کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے یہ نہیں کہاتھاکہ ایجنسیاں کسی مخصوص مدت تک کسی بھی مشتبہ شخص کو کوئی الزام عائد کئے بغیر حراست میں رکھ سکیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ دراصل امریکا اور برطانیہ کی مثال دے رہے تھے جہاں انسداددہشتگردی کے قانون کے تحت اس طرح کی حراست کیلئے مخصوص مدت کا تعین کیا گیا ہے ۔

وزارت دفاع کے ایک اوراعلی اہلکار نے سیکرٹری کے نکتہ نظر کی توثیق کرتے ہوئے مزید انکشاف کیاکہ آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوجائیں گے جن کے تحت یہ ایجنسیاں مشتبہ افرادکو محض مخصوص مدت تک ہی حراست میں رکھنے کی پابند نہیں رہیں گی ۔ 1977ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب آرمی ایکٹ میں شہریوں کو شامل کرنے کیلئے موجودہ قانون میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کورٹ مارشل کے مقدمات سے نمٹنے والے ایک وکیل نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے آرمی ایکٹ میں اس طرح کی ترمیم کو لاہورہائی کورٹ غیرقانونی قرار دے چکی ہے ۔

تصنیف اور صحافت

یہ دیباچہ ہے اس سلسلہ تحریر کا جو میں قارئین کی فرمائش پر انشاء اللہ جلد شروع کرنے والا ہوں ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ مضامین لکھنے کی عادت مجھے اس وقت سے ہے جب میں نے فقرے لکھنا سیکھے تھے لیکن مجھ میں وہ خوبی پیدا نہ ہو سکی جو مصنف یا صحافی کہلانے کیلئے شائد ضروری ہوتی ہے ۔ چار دہائیاں پرانی بات ہے کہ میں نے عمیق تحقیق کے بعد ایک مقالہ لکھا جو ایک دوست کے مشورہ پر ایک مشہور رسالے میں چھابنے کیلئے بھیجا چند ہفتے بعد رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ میرا مضمون ان کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ۔ دو تین ماہ بعد میں کسی کے گھر میں بیٹھا تھا ۔ وقت گذارنے کیلئے میز پر پڑے رسالے کو اُٹھایا اور پڑھنے لگا ۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میرا مضمون اس میں من و عن چھپا ہے لیکن کسی اور کے نام سے ۔

ساٹھ کی دہائی میں فالتو وقت [Part-time ] میں انجیئرنگ ڈپلومہ کلاسز کو کچھ مضامین پڑھاتا تھا ۔ پھر جب میں مشین گن ڈویلوپمنٹ پراجیکٹ [Machine Gun Development Project] میں بہت مصروف ہو گیا تو یہ کام چھوڑ دیا ۔ ایک کولیگ [colleague] میرے پاس آیا اورکہنے لگا “مجھے تھیوری آف مشینز [Theory of Machines] کے اپنے نوٹس [notes] دیدیں میں نے پرچہ بنانا ہے ۔ دو تین دن میں واپس کر دوں گا”۔ تھیوری آف مشینز مشکل مضمون ہے اور میں نے بڑی محنت سے اس کے نوٹس تیار کئے تھے ۔ ایک ہفتہ کے اندر واپسی کے وعدہ پر میں نے نوٹس ان کو دیدئیے ۔ وہ نوٹس باوجود بار بار مطالبہ کرنے کے واپس نہ ملے ۔ کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ موصوف نے میرے نوٹس اپنے نام سے چھپوا کر مال کمایا ۔

میں نے اپنا پہلا بلاگ ستمبر 2004 میں اور دوسرا مئی 2005 میں شروع کیا ۔ پچھلے سال سرفنگ [surfing] کرتے اپنے کچھ مضامین دوسرے بلاگز پر لکھے پائے مگر میرا حوالہ موجود نہ تھا ۔ متعلقہ بلاگرز سے استفسار کیا ۔ سوائے ایک کے کسی نے جواب دینے کی تکلیف گوارا نہ کی اور اس نے بھی یہ کہا “مجھے پسند آیا تو میں نے لکھ دیا”۔

ایک دن میں نے اپنے اردو بلاگ کے تبصرہ میں لکھا پایا “ہم آپ کا فلاں مضمون اپنے رسالہ میں چھاپ رہے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث آپ سے اجازت نہ لی ۔ سپیشل نمبر نکل رہا تھا ۔ اُمید ہے آپ اجازت دے دیں گے”۔ دو ماہ قبل پھر ایک اسی طرح کا تبصرہ اپنے بلاگ پر دیکھ کر میں نے تبصرہ نگار کو ای میل بھیجی کہ کم از کم اپنا اور اپنے مجلہ کا نام تو بتا دیں ۔ انہوں نے ایک امیج [image] بھیجا جسے کھولنے کی میرے پاس سافٹ ویئر [software
] نہ تھی ۔ بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سافٹ ویئر نصب کی ۔ اتفاق سے اس پر ان کا ٹیلیفون نمبر بھی درج تھا ۔ ان سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ میرا ایک مضمون وہ کچھ ماہ قبل بھی چھاپ چکے ہیں ۔ میں نے صرف اتنا عرض کیا کہ مجھے ان دونوں پرچوں کی ایک ایک کاپی بھیج دیں ۔ انہوں نے میرا پتہ لے لیا اور بھیجھنے کا وعدہ کیا ۔ دو ماہ گذرنے کے بعد بھی مجھے کچھ نہیں ملا ۔ ہو سکتا ہے ان صاحب نے میرے مضامین اپنے نام سے چھاپ دیئے ہوں ۔ گویا میرے بلاگ پر لکھ کر انہوں نے اپنا گناہ معاف کرا لیا ۔

اللہ کے اچھے بندے بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ میرے انگریزی بلاگ پر کسی نے لکھا کہ انہیں میری کچھ پوسٹس پسند آئی ہیں اسلئے وہ اپنے بلاگ پر ان کا اپنی زبان میں ترجمہ شائع کرنا چاہتے ہیں اور میری اجازت چاہیئے ۔ میرا دل بلیوں اُچھلا اور میں فوراً ان کے بلاگ پر پہنچ گیا ۔ زبان سمجھ نہ آئی ۔ دماغ پر زور دینے سے معلوم ہوا کہ انڈونیشیا ہے ۔ میں نے اجازت دیتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے ان کے بلاگ پر اپنے متعلق ایک مضمون دیکھا جس کی مجھے صرف اتنی سمجھ آئی کہ انہوں نے میرا اور میرے بلاگ کا تعارف کرایا ہوا تھا ۔ اس کے بعد میری ایک پوسٹ انڈونیشی زبان میں لکھی تھی اور اس پوسٹ کا میرے بلاگ سے ربط دیا تھا ۔

بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ میں نے ایک فورم پر علم کے ایک موضوع بارے اپنی کم مائیگی کا اظہار کیا تو دو جوانوں نے مجھ سے میرا ڈاک کا پتہ مانگا ۔ ایک راولپنڈی میں رہتے ہیں ۔ ہمارے علاقہ میں راولپنڈی سے آنا ہو تو دو تین بار گاڑی بدلنا پڑتی ہے اور اس کے باوجود پیدل بھی چلنا پرتا ہے ۔ وہ بچارے نمعلوم کس طرح میرے گھر پہنچے اور تین کتابوں کا تحفہ دے گئے ۔ دوسرے صاحب کراچی میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے ٹی سی ایس کے ذریعہ پانچ کتابیں مجھے بھیج دیں ۔ سبحان اللہ کیسے کیسے اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ہمارے وطن میں ۔ کاش میں بھی کبھی ان جوانوں کے کام آ سکوں ۔

انسان دوست ہیں تو آگے بڑھیئے

ہمارے ملک میں انسانیت کے غم خوار تو سب ہی ہیں اور رفاہِ عام یا بہبودِ عامہ [welfare] کا ڈھنڈورہ بھی بہت پیٹا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک محفل کے ارکان اور قارئین کو آسان سی بہبودِ عامہ کی دعوت دی تھی جو انہوں نے میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے کرنا تھی لیکن کسی ایک نے بھی حامی نہ بھری ۔ آج میں انسانیت کے سینے پر ایک رِستے ناسُور کو لے کے حاضر ہوا ہوں ۔ بنیادی طور پر میرے مخاطب راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے ہیں البتہ دوسرے شہروں میں بسنے والوں کو بھی دل و جان سے خوش آمدَید کہا جائے گا ۔

کسی جگہ گاڑی روکیں تو کوئی بچی یا بچہ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر کے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔ اُس کے چہرے سے اس کا خالی پیٹ عیاں ہوتا ہے ۔ انسانیت دوستی کے علمبردار سامراجی مُلک بچوں سے مزدوری کے خلاف مہم چلا کر اس بہانے پاکستان سے اپنے ملکوں میں درآمدات پر تو پابندی لگا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ بچے اپنا پیٹ کیسے بھریں ؟ کہاوت مشہور ہے کہ کسی نے ایک بھوکے سے کہا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں تو اُس نے جواب دیا “دو روٹیاں”۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کاروں والے ایک پھول تو دس روپے میں خرید لیتے ہیں مگر ان محروم بچوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔ ایسے بچوں کو کوڑے سے گلی سڑی اشیاء اُٹھا کر کھاتے بھی دیکھا گیا ہے ۔

ایک اہلِ دِل نوجوان نے خود ہی اپنے ذمہ لیا کہ وہ ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرے گا اور ان بچوں کے کوائف اکٹھا کرنا شروع کئے جن سے ظاہر ہوا کہ حقیقی محروم بچوں کی اکثریت اُن بے کس افغان مہاجرین کی اولاد ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد کے کنارے خیمہ بستیوں میں آباد ہیں اور مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان ان بچوں کے والدین تک پہنچا اور انہیں سمجھایا کہ اگر یہ بچے پڑھ لکھ لیں گے تو ان کا مستقبل اچھا ہو گا اور انہیں بھیک نہیں مانگنا پڑے گی ۔ والدین کا خدشہ تھا کہ جو روکھی سوکھی روٹی ان بچوں کو مل رہی ہے وہ اس سے بھی محروم نہ ہو جائیں ۔ اس نوجوان نے انہیں قائل کیا کہ بچوں کی تعلیم کے دوران ان کی روٹی کا بھی بندوبست کیا جائے گا ۔ پھر اپنی محنت اور کوشش سے اس نوجوان نے چند بچوں کی تعلیم کا بندوبست اسلام آباد کے ایک افغانی سکول میں کیا ۔ ایک بچے کی ماہانہ فیس 350 روپے ہے اور بس کا کرایہ 200 روپے ۔ان بچوں کو روزانہ ایک وقت کے کھانے کے طور پر ایک روٹی اور پاؤ دودھ کی ڈبیہ دی جائے تو خرچ 550 روپے ماہانہ آتا ہے ۔ یعنی فی بچہ کُل خرچ 1100 روپے ماہانہ ہے ۔

اس جوان کی اَن تھک محنت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کو پسند آئی اور اب ایسے 47 بچے جمع ہو گئے ہیں جن کی تعلیم کے خرچہ کے علاوہ انہیں کم از کم ایک وقت کا کھانا بھی مہیا کرنے کا بندوبست کیا جانا ہے تاکہ یہ ننھے پھول سڑکوں کی گرد و غُبار سے مرجھانے کی بجائے پڑھ لکھ کر کسی گلستان کی زینت بنیں ۔ اگر اس منصوبہ کو احسن طریقہ سے چلایا جائے تو بچوں کی تعداد اور بڑھے گی ۔ متذکرہ نوجوان اس ایک نجی کمپنی میں معمولی ملازم ہے اور دو چار بچوں سے زیادہ کا انتظام کرنے سے قاصر ہے ۔

مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں کروں گا ہی ۔ میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ آگے بڑھیں اور اس رفاہِ عام کے کام میں عملی حصہ لے کر انسانیت دوستی کا ثبوت دیں ۔ امدادکے مختلف پہلو ہیں ۔

اوّل ۔ کوئی رفاہی ادارہ کم از کم ان بچوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست اپنے ذمہ لے لے ۔ ویسے تو صرف اسلام آباد میں این جی او کے نام سے 40 سے زائد ادارے ہیں لیکن وہ غیر مُلکی امداد جمع کرنے کے ماہر ہیں ۔ ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے اسلئے اُن پر مزید بوجھ ڈالا مناسب نہیں ۔

دوم ۔ تعلیم کا کوئی سستا بندوبست ہو سکے لیکن خیال رہے یہ بچے فارسی اور پشتو بولتے ہیں ۔

سوم ۔ انفرادی طور پر قارئین سے جو کچھ بھی ہو سکے جسمانی یا مالی یا دونوں طرح امداد کریں

میں یہ کام کرنے والے نیک دل نوجوان کا پتہ نہیں لکھ رہا کہ اپنی ملازمت کے علاوہ وقت نکال کر وہ رفاہِ عام میں مصروف ہے ۔ اس کے پاس ای میل پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہو گا ۔ خواہش مند قارئین تبصرہ کے خانے میں اپنے کوائف لکھ سکتے ہیں یا مجھے بذریعہ ای میل مطلع کر سکتے ہیں ۔ ای میل پتہ معلوم کرنے کیلئے اُوپر رابطہ پر کلِک کیجئے ۔

سائنس کی ترقی

آج بڑا چرچہ ہے کہ سائنس بہت ترقی کر گئی ہے ۔ میں 27 جولائی 2005ء کو ایک قاری کے سوالوں کے جواب میں اسی سلسلہ میں لکھ چکا ہوں ۔ اب ایک اور جہت سے کچھ حقائق بیان کروں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج سے پانچ سات سو سال قبل بھی انسان سائنسی ترقی کا علمبردار تھا ۔ گو میرے اس نظریہ کو بیوقوفی یا کم علمی پر محمول کیا جائے گا لیکن میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں کہ جن کو آج تک منطقی طور پر کوئی رد نہ کر سکا ۔

مجھے 1952ء میں زکام اور گلا خراب ہونے کی شکائت شروع ہوئی ۔ ایلوپیتھک علاج جسے انگریزی علاج کہا جاتا تھا شروع کیا ۔ والدین نے ایک سے ایک اچھا اور ماہر ڈاکٹر چُنا ۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ 1957ء میں ایک دوائی کا ردٍ عمل ہوا تو میں والدین کی دعاؤں کے نتجہ میں مرنے سے بچ گیا البتہ میری پڑھائی کے دو سال ضائع ہو گئے ۔ گلا خراب اور زکام نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔ آخر ایک ای این ٹی سپیشلسٹ جو میرا علاج پچھلے تین سال سے بڑی جانفشانی سے کر رہے تھے 1972 میں کہنے لگے “میں آپ کو مزید اینٹی بائیوٹک نہیں دینا چاہتا ۔ اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی کو میرا نہیں بتائیں گے تو میں اس کا دیسی علاج بتاتا ہوں”۔ میں نے فوراُ وعدہ کر لیا ۔ علاج انتہائی سادہ اور سستا تھا ۔ اللہ کی مہربانی ہو گئی ۔ اس کے بعد سے میں نے پکوڑے ۔ اچار ۔ آئس کریم ۔ کوکا کولا ۔ پیپسی ۔ چاٹ وغیرہ جو میرے لئے 19 سال ممنوع رہے کھانا شروع کر دئیے ۔

مجھے 1984 میں شدید سر درد ہوا جسے مِیگرین کہتے ہیں ۔ پہلے چند ماہ بعد ہوتا تھا پھر ہر مہینے شروع ہوا تو نیورو سرج اور نیورو فزیشن کے علاج شروع کئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ درد ہر دس پندرہ دن بعد ہونے لگا ۔ پہلے ایک دو دن میں ٹھیک ہو جاتا تھا پھر پانچ پانچ دن رہنے لگا ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک بار میں 25 دن بستر پر رہا ۔ اس کے بعد میں نے علاج بند کر دیا ۔ 1996ء میں ایک صاحب نے بتایا کہ انہیں 1970 سے مِیگرین [Migraine] کا عارضہ تھا ۔ دو سال قبل ایک سادہ اور سستا دیسی علاج کیا اور ٹھیک ہو گیا ۔ میں نے بھی وہی علاج کیا اور اللہ نے مہربانی کر دی ۔

زکام اور گلا خراب کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ تھا یہ ہے ۔ [1] مرچ مصالحے نہیں کھانے ۔ [2] تیز گرم چائے نہیں پینا [3] فرج کا یا برف والا پانی نہیں پینا ۔ [4] پیپسی ۔ کوکا کولا ۔ سیون اپ وغیرہ نہیں پینا ۔ [5] تیل کی تلی ہوی چیز نہیں کھانا ۔ [6] نہانا اسطرح کہ شروع میں پانی تیز گرم ہو جو جسم نہ جلائے جو بتدریج ٹھنڈا کرتے جائیں حتٰی کہ آخر میں پانی ٹھنڈا ہو مگر یخ نہیں ۔ [7] دہی جو کھٹی نہ ہو آدھ پاؤ دوپہر کے کھانا کے ساتھ اور آدھ پاؤ رات کے کھانے کے ساتھ کھانا ۔ [8] گرمیوں اور برسات میں لیموں کی تازہ سکنجبین نمک اور چینی ڈال کر پینا لیکن پانی فرج کا یا برف والا نہ ہو ۔ اگر ذیابیطس کی شکائت ہو تو چینی نہ ڈالیں ۔ جب زکام ہو تو دن میں ڈھائی تین لٹر سکنجبین پینا ۔ [9] جب زکام ہو تو نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنا اور ناک میں بھی یہ پانی کم از کم 3 بار ڈانا(10) روزانہ ورزش کرنا اس طرح کہ پسینہ آ کر ہوا لگنے کا خدشہ نہ ہو ۔ بہترین ورزش پانی میں تیرنا ہے ۔

سر درد کا علاج جس کا دورانیہ 6 ماہ یہ ہے کہ سوئف اور سفید زیرہ برابر مقدار میں لے کر علیحدہ علیحدہ پیس کر اچھی طرح ملا لیا جائے (الیکٹریکل گرائنڈر میں نہ پیسیں)۔ اس کی ایک چھوٹی چمچی پڑوپی کی طرح بھر کے دوپہر اور رات کے کھانے کے بعد کھائیں ۔ اگر ناشتہ حلوہ پوری یا پراٹھے کا کیا جائے تو پھر ناشتے کے بعد بھی کھا لیں ۔

کولیسٹرال کو قابو میں کرنے کیلئے چائنیز گرین ٹی زیادہ سے زیادہ پیجئے ۔ بے شک اس میں چینی نہ ملائیں ۔ اگر 14 کپ روزانہ پیئے جائیں تو کولیسٹرال دو تہائی رہ جاتا ہے ۔ چائے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پانی اُبال کر چولہا بند کر دیں پھر پتی پیالی میں ڈال کر پانی پیالی میں ڈالیں ۔ اُبلتے پانی میں پتی ڈالنے سے اس کے کچھ اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں ۔ عمدہ قسم کی چائے استمعال کیجے چاہے  بازار سے عمدہ قسم کی کھُلی گرین ٹی لے لیں ۔

ذیابیطس کے علاج کیلئے ایک گرام دارچینی روزانہ بغیر پکائے پیس کر کیپسول میں ڈال کرکھائیے یا اسے چائنیز گرین ٹی میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن مقدار زیادہ کرنا ہو گی ۔

چین میں اب بھی جسم کے کچھ حصوں میں سوئیاں چبھو کر بغیر بیہوش کئے جراحی کی جاتی ہے جس میں دماغ کی جراحی بھی شامل ہے ۔ یہ بات آج کے ترقی یافتہ امریکا کے جراحوں کی سمجھ میں نہیں آتی ۔

آزادی آزادی آزادی

ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

ٹھیک آج سے 60 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے بل پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں ۔ اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے

ایک نظم

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کرتا نہیں کیوں دوسرا اس پہ کچھ بات چیت ۔ ۔ ۔ دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری محفل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و ملت میں تیرے اُوپر نثار ۔ ۔ ۔ اب تیری ہمت کا چرچہ غیر کی محفل میں ہے
وقت آنے دے بتا دیں گے تجہے اے آسمان ۔ ۔ ۔ ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی اُمید ۔ ۔ ۔ عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچۂ قاتل میں ہے
ہے لئے ہتھیار دشمن تاک میں بیٹھا اُدھر ۔ ۔ ۔ اور ہم تیار ہیں کھُلا سینہ لئے اپنا اِدھر
خون سے کھیلیں گے ہولی گر وطن مشکل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہاتھ جن میں ہو جنوں کٹتے نہیں تلوار سے ۔ ۔ ۔ سر جو اُٹھ جاتے ہیں وہ جھُکتے نہیں للکا ر سے
اور بھڑکے گا جو شعلہ سا ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
ہم جو گھر سے نکلے ہی تھے باندھ کے سر پہ کفن ۔ ۔ ۔ جان ہتھیلی پر لئے ہوئے لے چلے ہیں یہ قدم
زندگی تو اپنی مہمان موت کی محفل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار ۔ ۔ ۔ کیا تمناءِ شہادت بھی کِسی کے دِل میں ہے
دل میں طوفانوں کی تولی اور نسوں میں انقلاب ۔ ۔ ۔ ہوش دشمن کے اڑا دیں گے ہمیں روکو نہ آج
دُور رہ پائے جو ہم سے دم کہاں منزل میں ہے ۔ ۔ ۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
وہ جِسم بھی کیا جِسم ہے جس میں نہ ہو خونِ جنوں ۔ ۔ ۔ طوفانوں سے کیا لڑے جو کشتی ساحل میں ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ ۔ ۔ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

نظم ۔ بسمل عظیم آبادی

دہشتگرد کون ہے ؟ خود فیصلہ کیجئے

ایپی گاؤں پر بمباری 1937ء میں بھی ہوئی تھی ۔ اُس وقت برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی تھی ۔ 2007ء میں پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی لیکن فرق یہ ہے کہ برطانوی ایئر فورس نے پہلے اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں جبکہ 7 اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر پاکستان ایئر فورس نے بغیر کسی اطلاع کے اچانک بمباری کی ۔

پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔

وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا   :?: 

مشہور صحافی حامد میر جنہوں نے عید الفطر کوہاٹ میں وزیرستان کی بمباری سے زخمی ہونے والے شہریوں میں گذاری لکھتے ہیں ۔

عید کا دوسرا دن تھا۔ بنّوں شہر کے ایک اسکول کی عمارت میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین مجھے اپنی تباہی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ اکثر مہاجرین کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تھا۔ عید سے چند دن پہلے میر علی کے مرکزی بازار اور آس پاس کے قصبوں پر ہونے والی بمباری سے سیکڑوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں لوگ خوف و ہراس کے عالم میں محفوظ مقامات کی طرف بھاگے۔ دس اکتوبر کو میر علی کے قریب ایک گاؤں ایپی میں پچاس افراد کی نمازہ جنازہ پڑھی گئی۔ ایپی کا ایک زخمی بچّہ مجھے بنّوں کے ڈسٹرکٹ ہاسپیٹل میں ملا۔ چھ سات سال کے اس بچّے کا چہرہ بم کا ٹکڑا لگنے سے بُری طرح متاثر ہوا تھا۔ ساتھ والے بستر پر ایک زخمی بزرگ پڑا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے مجھے بتایا کہ اس بچّے کا نام عبداللہ ہے اور یہ بول چال سے قاصر ہے۔ اس بچّے کا باپ بمباری میں مارا گیا، زخمی ماں اسے اٹھا کر یہاں تک پہنچی اور چند گھنٹوں کے بعد چل بسی۔

اس بزرگ نے کپکپاتے ہونٹوں اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 1937ء میں وہ اس معصوم بچّے کی عمر کا تھا اس وقت بھی ایپی گاؤں پر بمباری ہوئی تھی، اس وقت بھی کئی لوگ مارے گئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ 1937ء میں ایپی گاؤں پر برطانوی ایئر فورس کے طیاروں نے بمباری کی اور گاؤں والوں نے بڑے حوصلے اور فخر سے اپنے شہداء کو دفن کیا لیکن 2007ء میں ایپی گاؤں پر پاکستان ایئر فورس نے بمباری کی اور جب شہداء کو دفن کیا جا رہا تھا تو جذباتی نوجوان برطانوی سامراج کی بجائے پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

بنّوں شہر کے مختلف علاقوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی حالت زار دیکھنے اور ہاسپیٹل میں زخمیوں کی عیادت کے دوران مجھے بار بار لبنان یاد آتا رہا۔ پچھلے سال جولائی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو عذر پیش کیا کہ حزب اللہ کے گوریلے جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج پر حملے کرتے ہیں لہذا اسرائیل نے پورے جنوبی لبنان کو بمباری سے تباہ و برباد کر دیا۔ جنوبی لبنان کے مہاجرین اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو کر بیروت کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں پہنچے جہاں انہوں نے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لی۔ ان اسکولوں میں پناہ لینے والے لبنانی مہاجرین کی کہانیوں اور بنّوں کے اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی کہانیوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لبنانی مہاجرین اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں تباہ ہوئے اور شمالی وزیرستان والے پاکستانی فوج اور مقامی طالبان کی لڑائی میں تباہ ہو رہے ہیں۔ بیروت کے اسپتالوں میں زخمی عورتوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ریڈ کراس کے علاوہ عبدالستار ایدھی بھی نظر آتے تھے لیکن بنّوں میں شمالی وزیرستان کے تباہ حال مہاجرین کی خبر گیری کرنے والوں میں جماعت اسلامی اور الرحمت ٹرسٹ کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آیا۔ جماعت اسلامی والوں نے بنّوں شہر میں مہاجرین کے تین کیمپ قائم کئے۔

جماعت اسلامی ضلع بنّوں کے امیر مطیع اللہ جان ایڈووکیٹ سے میں نے پوچھا کہ شمالی وزیرستان کے منتخب رکن قومی اسمبلی کا تعلق جمعیت علماء اسلام (ف) سے ہے لیکن ان کی جماعت کہیں نظر نہیں آ رہی۔ یہ سوال سن کر مطیع اللہ جان نے نظریں جھکا لیں اور موضوع بدلتے ہوئے کہنے لگے کہ ان متاثرین کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے جو میر علی کے گرد و نواح میں آباد ہے، یہ بڑے غیرت مند لوگ ہیں اور مشکل ترین حالات میں بھی کسی سے مدد نہیں مانگتے، لہذا یہ بمشکل دو تین دن ہمارے کیمپوں میں ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنا انتظام کر کے آگے کوہاٹ اور کرک کی طرف چلے جاتے ہیں۔

شمالی وزیرستان میں بمباری کے متاثرین کی اکثریت یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھی کہ ان کی تباہی کے ذمہ دار غیر ملکی عسکریت پسند یا طالبان ہیں۔ یہ سب متاثرین اپنی تباہی کی ذمہ داری امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر ڈال رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا نام بہت کم سننے میں آیا۔ کافی دیر کے بعد مجھے پتہ چلا کہ داوڑی لوگ اپنے اصلی دشمن کا نام زبان پر لانا پسند نہیں کرتے۔

ڈگری کالج میر علی میں فورتھ ایئر کے ایک طالب علم نے کہا کہ سات اکتوبر سے پہلے وہ عسکریت پسندی کے سخت خلاف تھا اور دن رات اپنی تعلیم میں مگن تھا لیکن سات اکتوبر کی بمباری کے بعد اسے تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اب اسے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کا بدلہ لینا ہے جو بمباری میں مارا گیا۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ میرا بھائی صبح سحری کے وقت میر علی بازار میں دہی لینے گیا تھا اور بمباری سے مارا گیا، وہ غیر ملکی دہشت گرد نہیں تھا صرف بارہ سال کا سٹوڈنٹ تھا جو ہر وقت کرکٹ کھیلتا تھا اور شاہد آفریدی کی تصاویر جمع کرتا تھا، میرے بھائی کے قتل کا ذمہ دار سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور اب میں اس سے بھی بڑا دہشت گرد بن کر دکھاؤں گا۔ یہ سن کر میرے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں سوچنے لگا کہ کیا لاہور اور کراچی کے دانشور نفرت کی اس نئی آگ کا ادراک رکھتے ہیں جس پر آئے دن مزید تیل ڈالا جا رہا ہے؟

بنّوں میں شمالی وزیرستان کے مہاجرین کی دکھ بھری کہانیاں سننے کے بعد میں بکا خیل کی طرف روانہ ہوا۔ بکا خیل سے شمالی وزیرستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ میر علی میں کرفیو ختم ہونے کے باوجود میرانشاہ بنّوں روڈ پر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ مہاجرین میر علی سے نہیں بلکہ دتّہ خیل سے آ رہے تھے۔ دتّہ خیل سے آنے والے بتا رہے تھے کہ ان کے علاقے میں پاکستانی فوج بکتر بند گاڑیاں اور توپیں لیکر پہنچ گئی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میر علی کے بعد اگلا آپریشن دتّہ خیل میں ہو گا۔ کچھ لوگ بنّوں سے واپس میر علی بھی جا رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا سامان لیکر واپس جائیں گے۔ اب انہیں کسی امن معاہدے پر اعتماد نہیں کیونکہ حکومت اپنی ضرورت کے مطابق معاہدہ کرتی ہے اور ضرورت کے مطابق توڑتی ہے، ہمارے مفاد کا کسی کو خیال نہیں۔

بکا خیل میں کھلے آسمان تلے ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تباہ حال خاندان کے ایک فرد نے کہا کہ ہمارے بزرگ انگریزوں کے ظلم کی جو داستانیں ہمیں سناتے تھے اب تو وہ بھی ماند نظر آتی ہیں۔ انگریز ہمیشہ بمباری سے قبل اعلان کرتے، ہوائی جہاز سے ہینڈ بل گراتے اور بمباری کا وقت اور جگہ بھی بتاتے تھے تاکہ فقیر ایپی کے مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔ فقیر ایپی پر ڈاکٹر فضل الرحمان کی کتاب میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ 9 اپریل 1937ء کو برطانوی ایئر فورس نے دتّہ خیل اور میر علی کے آس پاس اشتہار گرائے اور خبردار کیا کہ 12 اپریل کو کھجوری اور سیدگی کے درمیان بمباری ہو گی لہذا مقامی لوگ کہیں اور چلے جائیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وزیرستان میں آج بھی انگریزوں کے طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن انداز انگریزوں والا نہیں ہے۔

سات اکتوبر 2007ء کو میر علی اور آس پاس کے علاقوں پر کسی اطلاع کے بغیر بمباری کی گئی۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس بمباری کا مقصد غیر ملکی دہشت گردوں کو ہلاک کرنا تھا لیکن کسی ایک غیر ملکی کی لاش میڈیا کے سامنے نہیں لائی گئی ۔ 1937ء کی بمباری نے انگریزوں کے خلاف فقیر ایپی کی تحریک کو مزید آگے بڑھایا تھا اور 2007ء کی بمباری نے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو غصّے اور نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ مہیا کی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار شمالی وزیرستان میں وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو امریکہ نے عراق اور بھارت نے کشمیر میں کیں۔ نجانے ان ارباب اختیار نے لال مسجد آپریشن سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ چند لبرل فاشسٹوں کی خوشی کیلئے لال مسجد آپریشن کیا گیا جس نے مزید تشدد اور خودکش حملہ آور پیدا کئے۔ لبرل فاشسٹوں کو خوش کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو شمالی وزیرستان میں بھڑکائی جانے والی آگ کو لاہور اور کراچی تک پھیلنے سے روکنا آسان نہ ہو گا