تصنیف اور صحافت

یہ دیباچہ ہے اس سلسلہ تحریر کا جو میں قارئین کی فرمائش پر انشاء اللہ جلد شروع کرنے والا ہوں ۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ مضامین لکھنے کی عادت مجھے اس وقت سے ہے جب میں نے فقرے لکھنا سیکھے تھے لیکن مجھ میں وہ خوبی پیدا نہ ہو سکی جو مصنف یا صحافی کہلانے کیلئے شائد ضروری ہوتی ہے ۔ چار دہائیاں پرانی بات ہے کہ میں نے عمیق تحقیق کے بعد ایک مقالہ لکھا جو ایک دوست کے مشورہ پر ایک مشہور رسالے میں چھابنے کیلئے بھیجا چند ہفتے بعد رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ میرا مضمون ان کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ۔ دو تین ماہ بعد میں کسی کے گھر میں بیٹھا تھا ۔ وقت گذارنے کیلئے میز پر پڑے رسالے کو اُٹھایا اور پڑھنے لگا ۔ دیکھتا کیا ہوں کہ میرا مضمون اس میں من و عن چھپا ہے لیکن کسی اور کے نام سے ۔

ساٹھ کی دہائی میں فالتو وقت [Part-time ] میں انجیئرنگ ڈپلومہ کلاسز کو کچھ مضامین پڑھاتا تھا ۔ پھر جب میں مشین گن ڈویلوپمنٹ پراجیکٹ [Machine Gun Development Project] میں بہت مصروف ہو گیا تو یہ کام چھوڑ دیا ۔ ایک کولیگ [colleague] میرے پاس آیا اورکہنے لگا “مجھے تھیوری آف مشینز [Theory of Machines] کے اپنے نوٹس [notes] دیدیں میں نے پرچہ بنانا ہے ۔ دو تین دن میں واپس کر دوں گا”۔ تھیوری آف مشینز مشکل مضمون ہے اور میں نے بڑی محنت سے اس کے نوٹس تیار کئے تھے ۔ ایک ہفتہ کے اندر واپسی کے وعدہ پر میں نے نوٹس ان کو دیدئیے ۔ وہ نوٹس باوجود بار بار مطالبہ کرنے کے واپس نہ ملے ۔ کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ موصوف نے میرے نوٹس اپنے نام سے چھپوا کر مال کمایا ۔

میں نے اپنا پہلا بلاگ ستمبر 2004 میں اور دوسرا مئی 2005 میں شروع کیا ۔ پچھلے سال سرفنگ [surfing] کرتے اپنے کچھ مضامین دوسرے بلاگز پر لکھے پائے مگر میرا حوالہ موجود نہ تھا ۔ متعلقہ بلاگرز سے استفسار کیا ۔ سوائے ایک کے کسی نے جواب دینے کی تکلیف گوارا نہ کی اور اس نے بھی یہ کہا “مجھے پسند آیا تو میں نے لکھ دیا”۔

ایک دن میں نے اپنے اردو بلاگ کے تبصرہ میں لکھا پایا “ہم آپ کا فلاں مضمون اپنے رسالہ میں چھاپ رہے ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث آپ سے اجازت نہ لی ۔ سپیشل نمبر نکل رہا تھا ۔ اُمید ہے آپ اجازت دے دیں گے”۔ دو ماہ قبل پھر ایک اسی طرح کا تبصرہ اپنے بلاگ پر دیکھ کر میں نے تبصرہ نگار کو ای میل بھیجی کہ کم از کم اپنا اور اپنے مجلہ کا نام تو بتا دیں ۔ انہوں نے ایک امیج [image] بھیجا جسے کھولنے کی میرے پاس سافٹ ویئر [software
] نہ تھی ۔ بڑی مشکل سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سافٹ ویئر نصب کی ۔ اتفاق سے اس پر ان کا ٹیلیفون نمبر بھی درج تھا ۔ ان سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ میرا ایک مضمون وہ کچھ ماہ قبل بھی چھاپ چکے ہیں ۔ میں نے صرف اتنا عرض کیا کہ مجھے ان دونوں پرچوں کی ایک ایک کاپی بھیج دیں ۔ انہوں نے میرا پتہ لے لیا اور بھیجھنے کا وعدہ کیا ۔ دو ماہ گذرنے کے بعد بھی مجھے کچھ نہیں ملا ۔ ہو سکتا ہے ان صاحب نے میرے مضامین اپنے نام سے چھاپ دیئے ہوں ۔ گویا میرے بلاگ پر لکھ کر انہوں نے اپنا گناہ معاف کرا لیا ۔

اللہ کے اچھے بندے بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔ میرے انگریزی بلاگ پر کسی نے لکھا کہ انہیں میری کچھ پوسٹس پسند آئی ہیں اسلئے وہ اپنے بلاگ پر ان کا اپنی زبان میں ترجمہ شائع کرنا چاہتے ہیں اور میری اجازت چاہیئے ۔ میرا دل بلیوں اُچھلا اور میں فوراً ان کے بلاگ پر پہنچ گیا ۔ زبان سمجھ نہ آئی ۔ دماغ پر زور دینے سے معلوم ہوا کہ انڈونیشیا ہے ۔ میں نے اجازت دیتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔ کچھ عرصہ بعد میں نے ان کے بلاگ پر اپنے متعلق ایک مضمون دیکھا جس کی مجھے صرف اتنی سمجھ آئی کہ انہوں نے میرا اور میرے بلاگ کا تعارف کرایا ہوا تھا ۔ اس کے بعد میری ایک پوسٹ انڈونیشی زبان میں لکھی تھی اور اس پوسٹ کا میرے بلاگ سے ربط دیا تھا ۔

بھی اللہ کے بندے ہیں ۔ میں نے ایک فورم پر علم کے ایک موضوع بارے اپنی کم مائیگی کا اظہار کیا تو دو جوانوں نے مجھ سے میرا ڈاک کا پتہ مانگا ۔ ایک راولپنڈی میں رہتے ہیں ۔ ہمارے علاقہ میں راولپنڈی سے آنا ہو تو دو تین بار گاڑی بدلنا پڑتی ہے اور اس کے باوجود پیدل بھی چلنا پرتا ہے ۔ وہ بچارے نمعلوم کس طرح میرے گھر پہنچے اور تین کتابوں کا تحفہ دے گئے ۔ دوسرے صاحب کراچی میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے ٹی سی ایس کے ذریعہ پانچ کتابیں مجھے بھیج دیں ۔ سبحان اللہ کیسے کیسے اچھے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ہمارے وطن میں ۔ کاش میں بھی کبھی ان جوانوں کے کام آ سکوں ۔

This entry was posted in آپ بيتی on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “تصنیف اور صحافت

  1. الف نظامی

    کتاب ، علم اور عمل ان میں باہمی ربط ہے۔ اچھی کتاب ، نافع علم اور پھر اس پر عمل سونے پہ سہاگہ۔
    فیصل آباد میں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی ، جن کی ایک مشہور تصنیف العمل بالسنۃ ہے۔ انہوں نے جب یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو خود سے یہ عہد کیا کہ جو صفحہ لکھوں گا پہلے اس پر عمل کروں گا ، تب آگے بڑھوں گا۔
    برسبیل تذکرہ ابو انیس محمد برکت علی لدھیانوی کی زندگی کا مقصد اتحاد بین المسلمین تھا۔

  2. Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اسلام آباد سے پہلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.