اِن شَاء اللہ الْعَزِيز

اہلیانِ جموں کشمیر کی پُکار
ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

کل 5 فروری کو ۔ اِن شَاء اللہ اہلیانِ جموں کشمیر کے ہمدرد اہلِ پاکستان “یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر” منائیں گے
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں پہلے اس سلسلہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں ۔
۔ جموں کشمیر آزاد کیوں نہ ہوا ؟ کلک کر کے پڑھیئے ۔ پہلی قسط ۔ دوسری قسط اور تیسری قسط

یومِ یکجہتی جموں کشمیر کیوں منایا جاتا ہے ؟
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے 11 ستمبر 2005ء کو اپنے دوسرے بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں کیوں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

اسرائیل جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ فلسطین کا خاتمہ خام خیالی ہے

اسرائیل جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، غزہ پر اسرائیلی بمباری میں امریکہ برابر کا شریک ہے،فلسطینیوں کو بمباری سے ختم کرنا خام خیالی ہے،بی بی سی غیر جانبدارانہ پالیسی کا معیار ختم کرچکا ہے، عوام اسرائیل نواز نشریاتی اداروں کا بائیکاٹ اورغزہ کیلئے امدادی قافلے کی بھرپور مدد کریں۔ ہماری پارٹی فلسطینیوں کا ساتھ دیگی، یہودی اور صہیونیت میں فرق ہے۔ ان خیالات کا اظہار ریسپکٹ پارٹی کے سربراہ اور رُکن برطانوی پارلیمنٹ جارج گیلووے نے اجتماعات سے خطاب میں کیا۔ بشکریہ جنگ

گریٹر مانچسٹر کے دورے میں مانچسٹر اور بولٹن میں سٹاپ دی وار کے تعاون سے غزہ کی آزادی کے لئے منعقدہ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جارج گیلووے نے کہا ہے کہ اسرائیل کی ریاست جھوٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی اور آج بھی جھوٹ کی بنیاد پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ فلسطین کے عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ اسرائیل یا انکے حواری اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام پر بمباری کر کے انہیں ختم کر دیا جائے گا تو یہ انکی خام خیالی ہے۔ دنیا میں جب تک ایک فلسطینی بھی زندہ ہے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اُجاگر رہے گی اور ہماری جماعت ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ 30 دنوں کے اندر سو گاڑیوں پر مشتمل ایک امدادی قافلہ لندن سے غزہ تک لیکر جائیں گے۔ زمینی قافلے کو اگر کسی جگہ روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کی مذمت کی جائے گی۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں مصری حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر مصر کے حکمرانوں نے اس قافلے کو روکا تو وہ حسنی مبارک کے گھر کو بھی تباہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست کے دُہرے معیار کے باعث دنیا میں غیر یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے برٹش میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی بی سی اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی کا معیار ختم کر چکا ہے غزہ میں مظالم کی بھرپور ترجمانی نہیں کی جا رہی اور اگر بی بی سی نے اپنا رویہ نہ بدلا تو گلاسگو کی طرح مانچسٹر اور دیگر سنٹروں پر بھی احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی بین الاقوامی شہرت یافتہ خیراتی تنظیموں کو جس میں آکسفام، انٹرپال، سیو دی چلڈرن جس کی چیف پیٹرن ہانسی شہزادی این ہیں، کو امدادی رقوم جمع کرنے سے انکار کا مقصد بی بی سی کی اسرائیل پسندانہ کارروائیوں کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بی بی سی اور دیگر اسرائیل نواز نشریاتی اداروں کا بائیکاٹ کریں۔

انہوں نے اجتماعات میں عوام سے اپیل کی کہ غزہ کے مجبور عوام کے لیے لے جانے والے امدادی قافلے کی بھرپور مدد کریں۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر بولٹن سے دو ایمبولینس اور مانچسٹر سے فائر بریگیڈ جیکٹس کے علاوہ بہت سارا امدادی سامان عطیہ کے طور پر دیا گیا ہے۔ انہوں نے فائر بریگیڈ یونین کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ امدادی قافلے کے لیے دس لاکھ پونڈ کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ عوام کے تعاون سے اسے حاصل کر لیا جائے گا۔ اجتماعات میں چالیس ہزار پونڈ امدادی رقم کے طور پر اکٹھے کئے گئے۔

قبل ازیں فلسطینیوں سے اتحاد کی چیئرپرسن لنڈا کلیئر جو یہودی النسل ہے نے کہا کہ یہودیت اور صہیونیت میں واضح فراق ہے۔ فلسطین میں ہونے والی ظلم و زیادتی صہیونیت کی وجہ سے ہے جبکہ یہودیوں کی اکثریت اس دہشت گردی کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں نے صہیونیت کے خلاف ایک عالمی تنظیم قائم کی ہے جس کے نتیجے میں یہودی مسائل کا پرامن حل چاہتے ہیں اور صہیونیت کی مذمت کرتے ہیں۔

اس موقع پر فلسطین کے رہنما عقیل مجددی جن کا تعلق غزہ سے ہے انتہائی جذباتی انداز میں غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر اظہار خیال کیا۔ آخر میں جارج گیلووے نے عوام کے سوالوں کے جوابات دیئے۔ دونوں اجتماعات میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ انڈین مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے شرکت کی

صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد

اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا [دیکھئے نقشہ ۔ 5] ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔

جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی فوجی تربیت لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔

اسرائیل کے خلاف پاکستانیوں کا پہلا احتجاج

ڈاکٹر وہا ج الد ین ا حمد صاحب نے میری تحریر ” برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی” پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح شروع دن ہی سے پاکستانی قوم نے فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی ۔

“محترم ۔ اسرایل کی تاریخ لکھتے رہیں ۔ بہت اچھی معلومات ہیں اور انکا جاننا آج کے وقت میں ضروری بھی ہے ۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے وجود میں آنے پر لاہور کے کالجوں کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا تھا اور میں بھی اس میں شامل تھا گو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا بس یہی کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ہیں ۔ میں اسلامیہ کالج میں نیا نیا داخل ہوا تھا”

وہا ج الد ین ا حمد صاحب جو اعلٰی پائے کے نیورولوجِسٹ ہیں سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب انہوں نے اگست 2006ء میں بلاگ لکھنا شروع کیا ۔ وہا ج الد ین احمد صاحب ریاست بھوپال کے قصبہ ساگر میں غالباً 1933ء میں پیدا ہوئے گو ان کے والدین کا تعلق پنجاب سے تھا ۔ وہاں سے ہجرت کر کے ان کے خاندان نے جموں کشمیر کے علاقہ بھمبر سے منسلک پنجاب کے قصبہ کوٹلہ میں سکونت اختیار کی جہاں انہوں نے جموں کشمیر کے اس حصہ کو آزاد ہوتے دیکھا جو آجکل آزاد جموں کشمیر کا حصہ ہے ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے ڈھائی سال صوبہ سرحد میں ملازمت کی پھر اعلٰی تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے ۔ اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے امریکہ گئے جس کے حصول کے بعد امریکہ کے ہی ہو کر رہ گئے ۔

دبئی میں ہماری دوڑ دھوپ

دوبئی کی سیر کی دوسری قسط 12 جنوری کو لکھی تھی

بیٹے نے بتایا کہ دبئی میں عمارات ۔ مراکز للتسویق [Shopping Malls] کے علاوہ عجائب گھر [Museum] اور ساحِل سمندر [Beach] ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سو عجائب گھر جو ایک پرانے محل کے اندر بنا ہوا ہے دیکھا ۔ اس میں پرانے زمانہ کی کِشتیاں ۔ آلاتِ حرب ۔ لباس ۔ برتن وغیرہ رکھے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں اس علاقہ میں جس طرح کے باورچی خانے ۔ غُسلخانے اور سونے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے تھے وہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پرانے زمانہ کے ہُنر اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی بھی نمائش کی گئی ہے

ہم نے ایک کے بعد دوسرا مرکز للتسویق دیکھنا شروع کئے ۔ ان میں پھرنے سے قبل کئی کلو میٹر پیدل چلنے کا کئی سالہ تجربہ ہونا چاہیئے جو ہمیں دس پندرہ سال قبل تو تھا اب نہیں ہے لیکن اپنی عزت کی خاطر ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ مرکز للتسویق جہاں ہم گئے ان میں سے جن کے نام یاد رہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

مرکز امارات للتسویق ۔ Mall of the Emirates ۔ مول امارات ۔ اس میں برف پر پھِسلنے [Ice Skiing] کا انتظام بھی ہے

مرکز مدینہ الدیرہ ۔ Daira City Centre

مدینہ مھرجان الدبئی ۔ Dubai Festival City

وافی ۔ Wafi ۔ اس کے ساتھ ہی ملحق ایک پرانے بازار کا اصل بحال رکھتے ہوئے اس کی جدید تعمیر کی گئی ہے جس کا نام خان مرجان ہے ۔ یہ بہت خوبصورت سہ منزلہ بازار ہے ۔ اس میں روائتی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور روائتی قہوہ خانہ بھی ہے ۔

ابنِ بطوطہ مرکز للتسویق ۔ اس میں مختلف تہذیبوں کے مطابق حصے بنے ہوئے ہیں اور چھتیں [Ceiling ] بھی مُختلف مگر دلچسپ بنائی گئی ہیں ۔ ایک حصہ میں چھت اس طرح ہے جیسے آسمان جس پر بادل بھی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو جائے

سوق مدینہ الجمیرہ . Souk Madinat Jumeirah

مرکز دبئی للتسویق ۔ The Dubai Mall ۔ یہ ابھی نیا نیا بنا ہے ۔ ابھی صرف 500 دکانوں نے کام شروع کیا ہے ۔ 1000 سے زیادہ بند پڑی ہیں ۔ اس میں برف پر پھِسلنے کا دائرہ [Ice Skiing Ring] بھی بن رہا ہے ۔ اس میں بہت بڑا مچھلی گھر [Aquarium] ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دو غوطہ خور بھی تیر رہے ہوتے ہیں ۔

القریہ العالمیہ ۔ Global Village ۔ یہ ایک بین الاقوامی میلہ شاید 18 نومبر کو شروع ہوا اور 22 فروری تک رہے گا ۔ ہم 20 نومبر کو گئے۔ اس میں کچھ دکانیں شروع ہو چکی تھی ۔ اس میں وطنِ عزیز کا بھی ایک بڑا حصہ تھا جس میں قالین ۔ پارچہ جات اور برتنوں کی دکانیں کچھ لگ چکی تھیں باقی سامان آ رہا تھا ۔ اس حصہ کا ماتھا بہت خوبصورت تھا ۔ لاہور کے قلعہ کی شکل بنائی گئی ہے ۔ اس کے سامنے ہی پاکستان کے کھانوں کی دکانیں ہیں بشمول راوی ۔ بندو خان وغیرہ

ان مراکز کی خصوصیات

زیادہتر مراکز کا رقبہ میرے خیال کے مطابق ایک کلو میٹر سکوائر یازیادہ ہے
مرکز کے ساتھ دو سے تین منزلہ پارکنگ کا علاقہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے
ان میں انسان کی ضرورت کی تقریباً ہر شٔے ملتی ہے شرط جیب بھری ہونا ہے یا بغیر حد کےکریڈٹ کارڈ
سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سامان کے ہر چیز وطنِ عزیز کی نسبت مہنگی ہے
ہر قسم کے آدمی کیلئے کھانا کھانے کا بندوبست ہے
زائرین کیلئے مناسب تفریح اور بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے
فضا کو صحتمند رکھنے کیلئے فوارے یا آبشار یا نہر ۔ بعض نہروں میں کِشتی چلتی جس سے زائرین لُطف اندوز ہوتے ہیں
کسی کسی مرکز میں ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے غیرمُسلموں کیلئے
آرام کرنے کیلئے راہداریوں میں صوفے یا بینچ پڑے ہوتے ہیں
کچھ میں سینما ہاؤس ہوتا ہے جہاں سارا دن فلمیں دکھائی جاتی ہیں ۔ ان کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر وقت قطاریں لگی رہتی ہیں

زائرین میں لباس کے لحاظ سے غنیم ترین سے مِسکین ترین عورتیں ہوتی ہیں ۔ غنیم ترین یعنی سر سے پاؤں تک مکمل ڈھکی ہوئی اور مِسکین ترین جن بیچاریوں نے ایک یا آدھی بنیان اور کچھہ یا چڈی پہنی ہوتی ہے

ان مراکز کی ایک اہم اور دل خوش کُن خصوصیت یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کیلئے نماز پڑھنے کا علیحدہ علیحدہ انتظام ہے اور ہر نماز کی اذان پورے مرکز اور پارکنگ ایریا میں واضح طور پر سنائی دیتی ہے ۔ مرکز کی وسعت کی وجہ سے سب لوگ ایک وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکتے اسلئے جماعت کئی بار ہوتی ہے ۔ نماز پڑھنے والوں میں میرے جیسے بھی ہوتے ہیں اور جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے بھی ۔ میری بیگم نے بتایا کہ عورتوں کی مسجد میں بہت سے عبایہ اور رومال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں انگریزی لباس میں ہوتی ہیں وہ نماز کے وقت پہن لیتی ہیں

ایک دن بیٹا کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ داخلہ فیس والے ساحلِ سمندر کے بالکل ایک طرف جا کر شریفانہ طریقہ سے تفریح کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ ایک جمعہ کو نماز کے بعد روانہ ہوئے اور اس جگہ پہنچ گئے ۔ فیس کی ادائیگی کے بعد داخل ہو کر آخری سِرے پر کار پارک کی اور چٹائیاں اُٹھا کر ساحل کی طرف چل پڑے ۔ ساحل کے قریب پہنچ کر لوہے کی چادر سے بنی دیوار کے قریب براجمان ہو گئے ۔ بیٹا ۔ بیٹی اور بہو بیٹی کھانا لینے چلے گئے ۔ اُس وقت سمندر کے ہمارے سامنے والے حصہ میں چار پانچ کالی اور گوری عورتیں نہا رہیں تھیں تو ہم منہ خُشکی کی طرف کر کے بیٹھ گئے ۔ شاید اُنہیں اس کا احساس ہو گیا اور وہ کچھ دیر بعد وہاں سے دور چلی گئیں اور گویا ہم آزاد ہو گئے یعنی سمندر کی طرف منہ کر کے سمندر کی لہروں ۔ اس میں چلتی کِشتیوں اور سکیٹس [Skates] کا نظارہ کرنے لگے ۔
عجائب گھر

بقیہ تصاویر کیلئے تھوڑا سا انتظار کیجئے ۔

طالبِ علم

الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک قاری محمد سعد صاحب سے ہفتہ عشرہ قبل کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کی مجھے توفیق عطا کی ۔ بلا شُبہ انسان جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے ہے

طالب کا مطلب ہے طلب یا چاہت یا تمنا رکھنے والا ۔ طالب علم کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ شومئیِ قسمت سمجھ لیجئے یا غلط تربیت کا اثر کہ دورِ حاضر کے اکثر طلباء و طالبات کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین اسناد حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ان سند یافتہ جوانوں کو دساور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پچھلے ساٹھ سال کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ شروع کی دو دہائیوں میں جو ہموطن اعلٰی تعلیم کیلئے دساور گئے وہ کم سے کم وقت میں اعلٰی معیار کی جامعات سے کامیاب اور کامران ہوئے حالانکہ اپنے یہاں ان طلباء و طالبات کے نمبر 60 اور 80 فیصد کے درمیان ہوتے تھے ۔ فی زمانہ حال یہ ہے کہ طلباء و طالبات اپنے یہاں تو 80 سے 95 فیصد نمبر حاصل کر تے ہیں لیکن دساور میں ان کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے

آج سے 27 سال قبل تک اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے شاگرد ایسا علم حاصل کریں کہ جہاں بھی وہ جائیں کامیاب ہوں اور اُنہیں دیکھنے والا یا ملنے والا کہہ اُٹھے کہ یہ جوان تعلیم یافتہ ہیں ۔ والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کیلئے درس گاہوں میں بھیجتے تھے کہ اُن کی اولاد پڑھنا لکھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی بن جائیں ۔ لگ بھگ آدھی صدی قبل میری انجنیئرنگ کالج لاہور کی تعلیم کے دوران ایک شام میں پروفیسر عنایت علی قریشی صاحب [اللہ غریقِ رحمت کرے] کے گھر اپنے کسی کام کیلئے گیا تو وہاں ایک بزرگ اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھے ۔ اُن کا بیٹا انجنئرنگ کالج کا ہی طالب علم تھا ۔ وہ بزرگ پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے “میں نے اسے انسان بننے کیلئے یہاں بھیجا تھا ۔ ایک سال میں اس نے انگریزی تو فرفر بولنا شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک گدھے کا گدھا ہے ۔ میں اسے واپس نا لیجاؤں اور خود ہی اسے انسان بناؤں ؟”

شاگرد اور اُن کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اور اساتذہ کی اپنے شاگردوں کی تربیت میں دلچسپی کے نتیجہ میں طلباء اور طالبات کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ امتحان دینے والی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ زندگی گزارنے کے اسلوب بھی سیکھیں ۔ کھیلوں میں حصہ لینا ۔ جسمانی ورزش کی تربیت ۔ بیت بازی اور علمی مباحثوں میں حصہ لینا عام سی بات تھی ۔ ہمیں سکول اور کالج میں آدابِ محفل بھی سکھائے جاتے تھے اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم نے عمارت میں لگی آگ بجھانے کا طریقہ ۔ ابتدائی طِبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے طریقے بھی عملی طور پر سیکھے تھے ۔ اس کے علاوہ طلباء و طالبات اپنے طور پر معلوماتِ عامہ کا علم حاصل کرتے اور اکثریت حکومت کے متعلقہ ادارے کے ترتیب دیئے ہوئے امتحانات میں بھی بیٹھتے ۔

آج کی صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ متذکرہ فرق کا سبب معیارِ تعلیم کا انحطاط ہے جس کے ذمہ دار صرف اساتذہ ہی نہیں طلباء و طالبات اور اُن کے والدین بھی ہیں ۔ حکومت نے 1970ء کی دہائی میں بجائے اِسکے کہ اُس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم میں بہتری پیدا کرتی تقریباً تمام نجی تعلیمی ادارے قومیا لئے اور ان پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو مسلط کیا جن کی اکثریت کے پاس اسناد تو تھیں لیکن اُنہیں تدریسی تجربہ نہ تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے بہتری کے جو تعلیمی نظام چل رہا تھا وہ تنزل پذیر ہو گیا ۔

دورِ حاضر میں اساتذہ ۔ طلباء و طالبات اور اُن کے والدین سب کی صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ عِلم حاصل ہو نہ ہو کسی طرح تعلیمی سند حاصل کر لی جائے چاہے اس کے لئے رٹا لگایا جائے ۔ نقل ماری جائے یا ممتحن کی خدمت کی جائے یا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے ۔ ہمارے زمانہ تعلیم میں بھی کبھی کبھی نقل مارنے کا انکشاف ہوتا رہتا تھا لیکن بہت کم تھا اور اس عمل کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ اب شاید نقل مارنے کو معیوب سمجھنے کی بجائے ہوشیاری سمجھا جانے لگا ہے کہ ہر کمرہ امتحان میں نقل مارنے والوں کا ذکر خیر ہوتا ہے مگر اس کے سدِباب کیلئے کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ نقل مارنے کو انگریزی میں cheating کہا جاتا ہے اور دراصل نقل مارنا دھوکہ دہی ہی ہے ۔ نقل مارنے والا طالب علم صرف اپنے ممتحن ۔ اساتذہ اور طالب علم ساتھیوں کو ہی دھوکہ نہیں دیتا بلکہ اپنے والدین اور اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہا ہو تا ہے ۔ [صحیح اُردو “نقل کرنا” ہے لیکن میں نے “نقل مارنا” اسلئے لکھا ہے کہ عام طور پر مستعمل یہی ہے]

نقل مارنا بڑا جُرم اور بڑا گناہ ہے بلکہ گناہوں کا مرکب ہے ۔ نقل مارنے والا بیک وقت چار جرائم یا گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور چاروں میں سے ہر ایک گناہِ کبیرہ ہے ۔
ایک ۔ وہ جھوٹ بولتا ہے ۔ جو اُس کے علم میں نہیں نقل مار کر بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے ۔
دو ۔ امتحان کا پرچہ دیتے ہوئے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ وہ دیانتداری سے جوابات لکھے گا لیکن وہ نقل مار کر امانت میں خیانت کر رہا ہوتا ہے
تین ۔ وہ نقل مار کر سب کو اپنے لائق ہونے کی جھوٹی گواہی دے رہا ہوتا ہے یا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور
چار ۔ وہ نقل مار کر اُن طلباء کے ساتھ بے انصافی کرتا ہے اور اُن کا حق مارتا ہے جو نقل نہیں مارتے ۔

ایسا گناہ جس کا اثر کسی اور انسان پر بھی پڑتا ہو جیسا کہ نقل مارنے سے بھی ہوتا ہے تو یہ حقوق العباد کی نفی ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب تک متعلقہ انسان معاف نہیں کریں گے اللہ تعالٰی بھی معاف نہیں کریں گے ۔

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 42 ۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔

سورت ۔ 4 ۔ النِسآ ۔ آیت ۔ 135 ۔ اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ [اس میں] تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا [شہادت سے] بچنا چاہو گے تو [جان رکھو] اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے