خُدا را آنکھیں کھولو

ایک گروپ کے اصرار پر میں نے لیکچر دینے کی حامی بھر لی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہال میں تقریباً 125 پڑھے لکھے حضرات ملک بھر سے موجود ہیں۔ کوئی پچاس منٹ کی گفتگو اور اتنے ہی وقت پر محیط سوال و جواب کے سیشن کے بعد باہر نکلا تو ایک گورے چٹے رنگ والا خوبرو نوجوان عقیدت مندی کے انداز میں میرے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے نہایت مہذب الفاظ میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ

“میرا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ میرے علاقے وزیرستان میں ہر شخص ایک انجانی موت کے خوف تلے زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ کسی لمحے بھی امریکی ڈرون کے میزائل یا طالبان یا دہشت گردوں یا پاکستانی فوج کی گولی اس کی زندگی کا چراغ بجھا دے گی۔ ہمارے ایک سروے کے مطابق وزیرستان کے 90 فیصد لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں، بے چارگی اور بے بسی نے ان سے زندہ رہنے کا احساس چھین لیا ہے، لوگ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رکا، اس نے نگاہیں جھکا لیں اور خوفزدگی کے عالم میں کہا سر! ہمارے لوگ اب پاکستان سے علیحدگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ملک اور اس کی حکومت ہمیں احساس تحفظ نہیں دے سکتی اس ملک کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ؟”

اس کا یہ فقرہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں امریکی ڈرون کے میزائل کا نشانہ بن گیا ہوں۔ میں چلتے چلتے رک گیا۔

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس ۔ بشکریہ جنگ

دہشتگرد حکمران

چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں [ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ] اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔

اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔ دہشتگردی پر اُس کی مذمت کرنے کی بجائے اُسے نوبل امن انعام دیا گیا ۔

مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائیوں اور عرب یہودییوں کو جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو اسرائیل میں وہ مقام حاصل نہیں ہےجو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ موجودہ صورت حال نقشہ ۔ 6 میں دکھائی گئی ہے ۔

Map # 6. “Israeli constructed roads” should be read as “Roads under control of Israel”.

داڑھی میں اسلام ہے یا اسلام میں داڑھی ؟

دورِ حاضر میں مسلمانوں کی نسبت زیادہ غیر مسلموں نے سمجھ لیا ہے کہ داڑھی والا مسلمان ہوتا ہے بلکہ کٹر مسلمان ۔ اول ۔ یہودی پیشوا جسے ربی [Rabby] کہتے ہیں پوری بڑی داڑھی رکھتے ہیں جیسے کہ افغانستان کے طالبان رکھتے ہیں لیکن داڑھی والے یہودی کو کوئی انتہاء پسند نہیں کہتا جبکہ مسلمان اُسی طرح کی داڑھی رکھے تو اُسے انتہاء پسند اور دہشتگرد تک کہا جاتا ہے ۔ داڑھی سکھ بھی رکھتے ہیں لیکن اُن کی داڑھی باقی لوگوں سے ذرا مختلف ہوتی ہے ۔ عیسائی ۔ ہندو اور دہریئے بھی داڑھی رکھتے ہیں مگر اُنہیں کوئی تِرچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ بہرحال آمدن بمطلب

نہ تو اسلامی شریعت میں زبردستی داڑھی رکھوانے کا حُکم ہے اور داڑھی منڈوانے کا ۔ شریعت کے مطابق مسلمان اس لئے داڑھی رکھتا ہے کہ جس رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کا وہ پیروکار ہے اُن کی سنّت ہے لیکن صرف داڑھی رکھنا ہی سنّت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی سنتیں ہیں ۔ اگر داڑھی تو سنّت سمجھ کر رکھ لی جائے اور فرائض پر توجہ نہ دی جائے تو کیا درست ہو گا ؟

شریعت لوگوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا نام ہے ۔ جو کچھ کسی نے کرنا ہے وہ خود کرنا ہے اور اپنی بہتری کیلئے کرنا ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ اس کے عمل سے کسی پر ناگوار اثر نہ پرے ۔ بلاشُبہ اسلام سے محبت کرنے والے ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں داڑھیوں میں اپنے صالح آباؤ واجداد کی شکلیں نظر آتی ہیں اور جو حتی المقدور شعائر اسلامی کی پاسداری بھی کرتے ہیں ۔

ہر معاشرے میں نیک اور گناہگار موجود ہوتے ہیں ۔ مسلم معاشرہ میں بھی یہ دونوں طبقات موجود ہیں ۔ گناہ گاروں میں داڑھی والے بھی ہیں اور بغیر داڑھی والے بھی ۔ یہی صورتحال نیک اعمال کے حامل افراد کی بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ سب انسان برابر ہیں سوائے اس کے کہ کوئی تقوٰی میں بہتر ہو ۔ چنانچہ کسی کو داڑھی کے ہونے یا نہ ہونے سے نیکی یا برائی کی سند نہیں دی جا سکتی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی ختم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک کے مایہ ناز انجنئر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزاد شہری قرار دیتے ہوئے ان کی نظر بندی ختم کردی ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اسلم نے ڈاکٹر قدیر خان کی نظر بندی کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ملک کے آزاد شہری ہیں اور ان کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہوگی ۔ ان کیخلاف ایٹمی پھیلاؤ کے الزامات ثابت نہیں ہوسکے ۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر سکیورٹی میں ہرجگہ آزادانہ طور پر آجا سکیں گے اورحکومت انہیں فوری طور پر سکیورٹی فراہم کرے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو وی وی آئی پی سکیورٹی فراہم کی جائے گی ۔ انہیں اظہار رائے اور ریسرچ ۔ مرضی کے ڈاکٹر سے علاج اور میڈیا سے بات چیت کی اجازت ہوگی

ناقابلِ معافی جُرم

دنیا میں ہر دور میں سب سے زیادہ انسانوں بشمول اللہ کے نبیوں پر ظُلم اور اُن کا قتلِ عام کرنے والوں کا قتل جو ہِٹلر کے زمانہ میں ہوا اُسے ہولو کاسٹ کا نام دیا گیا اور اس کی تفصیل میں مبالغہ آمیزی کی گئی ۔ ہولو کاسٹ تو کیا اس مبالغہ آمیزی پر بھی تنقید کرنا دُنیا کا سب سے بڑا جُرم قرار دیا جاتا ہے ۔

اس تنقید کو جُرم قرار دینے والے یہ کیوں بھُول جاتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی اب تک ہزاروں کمسِن فلسطینی بچوں کو براہِ راست اپنی گولیوں کا نشانہ بنا چُکے ہیں اور لاکھوں بے قصور فلسطینیوں جن میں بچے عورتیں اور بوڑیھے بھی شامل تھے کا قتل کر چکے ہیں ۔ یہی نہیں اسرائیل کی پُشت پناہی کرنے والے کمپُوچیا ۔ ویت نام ۔ افریقہ ۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں در لاکھوں بے قصور جوانوں ۔ بوڑھوں ۔ عورتوں اور بچوں کا قتل کر چکے ہیں اور مزید کرتے جا رہے ہیں اور کسی کو آہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ۔

اِن جنگلی بھیڑیوں کے کردار پر ذرا نظر ہو
وٹیکن نے بدھ کے روز ایک برطانوی بشپ کو حُکم دیا ہے کہ وہ یہودیوں کے قتل عام [ہولوکاسٹ] کے اپنے انکار کو واپس لینے کا برسرعام اعلان کریں ۔ وٹیکن کی جانب سے یہ قدم گذشتہ ماہ چرچ سے علیحدہ کیے گئے مذہبی رہنما کی چرچ میں واپسی پر پوپ بینیڈکٹ شش دہم کے خیر مقدم کے فیصلے پر ہونے والی چیخ و پکار پر اٹھایا گیا ہے ۔ ایک غیر دستخط شدہ بیان میں وٹیکن نے کہا ہے کہ سابق برطرف شدہ بشپ رچرڈ ولیم سن کو بطور مذہبی رہنما زندگی کا آغاز کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ وہ بالکل واضح طور پر اور برسرعام اپنے اس بیان کے غلط ہونے کا اعتراف نہیں کر لیتے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کسی یہودی کو گیس چیمبر میں قتل نہیں کیا گیا ۔ وٹیکن نے کہا ہے کہ پوپ ذاتی طور پر اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ رچرڈ بار بار ہولوکاسٹ سے سرعام انکار کرتے رہے ہیں ۔

قبل ازیں وٹیکن نے ولیم سن کی بحالی پر تنقید کا دفاع کیا تھا حالانکہ روم میں چرچ کے اہلکاروں نے خود کو ولیم کے نظریات سے علیحدہ کر لیا تھا ۔ منگل کو وٹیکن کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کارڈینل ٹارسیسو برٹن نے اعلان کیا تھا کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے ۔ منگل کو جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے وٹیکن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یہ تاثر پیدا کر رہا ہے کہ ہولو کا سٹ کے انکار کو برداشت کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے چرچ پر زور دیا کہ وہ اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے ۔ بدھ کو وٹیکن کی جانب سے نیا حُکم جاری کرنے کا متعدد یہودی گروپوں نے خیرمقدم کیا ہے

[نوٹ ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ خاص گیس چیمبرز بنا کر یہودیوں کو ہلاک کرنے کی کہانی من گھڑت ہے اور مرنے والے یہودیوں کی تعداد میں مبالغہ آمیزی کی گئی ہے ۔ میرے اس خیال کی بنیاد وہ استفسار ہے جو میں نے 1966ء اور 1967ء میں جرمنی میں اپنی رہائش کے دوران اُن جرمنوں سے کیے جو دوسری جنگِ عظیم میں حصہ لے چُکے تھے یا اُس وقت بالغ تھے ۔ دو جرمن انجیئروں جن میں سے ایک نے جنگ میں حصہ لیا تھا نے کہا “کاش ۔ ہِٹلر ایسا کرتا پھر دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی اور ہم لوگ بھی چین سے رہتے ۔ اب ہم یہودیوں کے غلام ہیں”۔]

بیس میٹر اونچی دیوار کیسے ٹوٹی

مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انوارالسادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحراۓ سینائی
کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سویز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیرلگایا جاۓ تو ریت سِرک کر زمین کے ساتھ 40 درجے کے لگ بھگ زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جاۓ جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی ۔

مصری فوج نمونے کے طور پر دریاۓ نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے توڑنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے

مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا ۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام آفیسرز کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجاۓ پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر جو کہ جرنیل تھا نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل [nozzle] کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی

کچھ عرصہ بعد صدر انورالسادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا ۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انوارالسادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انوراسادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتاۓ کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں ۔ میجر دلیر ہو گیا اور مصر میں موجود سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئیں تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنواۓ جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا ۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کر کے مناسب وقت کا انتظار کیا جانے لگا

ماہ رمضان 1973ء میں یہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات گولوں کی برمار کے دوران یہ کشتیاں نہر سویز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے تین مقامات کا رُخ کر کے تین کشتیوں کے پمپ چلا دیئے گئے ۔ چھ کشتیوں کے پمپ باری باری چلاۓ گئے اور چند گھنٹوں میں بیس میٹر اونچی دیوار میں تین جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پھر فوراً پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحراۓ سینائی میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ تو جناب یہ تھا پانی کا کمال اور مکینیکل انجنیئرنگ کے علم کمال ۔

اِن شَاء اللہ الْعَزِيز

اہلیانِ جموں کشمیر کی پُکار
ستم شعار سے تجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

کل 5 فروری کو ۔ اِن شَاء اللہ اہلیانِ جموں کشمیر کے ہمدرد اہلِ پاکستان “یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر” منائیں گے
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں پہلے اس سلسلہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں ۔
۔ جموں کشمیر آزاد کیوں نہ ہوا ؟ کلک کر کے پڑھیئے ۔ پہلی قسط ۔ دوسری قسط اور تیسری قسط

یومِ یکجہتی جموں کشمیر کیوں منایا جاتا ہے ؟
یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے 11 ستمبر 2005ء کو اپنے دوسرے بلاگ [حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں کیوں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔