میں قارئین کا شکرگذار ہوں جنہوں نے میری صبح کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ میں صبح کچھ سودا سلف لینے گیا تھا ۔ واپس پہنچا تو میری ایک بھتیجی آئی بیٹھی تھی جو اسلام آباد ہی میں رہتی ہے ۔ اُس نے بتایا کہ” لاہور میری بھانجی کے گھر کے قریب فائرنگ ہو رہی ہے”۔ قذافی سٹیڈیم کے قریب میرا ایک پھوپھی زاد بھائی بھی رہتا ہے ۔بھانجی سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ اُس کا خاوند بچی کو صبح سکول چھوڑنے نکلا تو کوئی 15 منٹ بعد دو گرینیڈ چلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی متواتر فائرنگ شروع ہو گئی جو کہ 25 منٹ جاری رہی ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے”۔ اس کے بعد ہم ٹی وی دیکھنے لگ گئے ۔
اب تک جو کچھ مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا اور کہا گیا ہے اس سے مندجہ ذیل عمل واضح ہوتے ہیں
1 ۔ حملہ آور 25 منٹ منظر پر موجود رہے اور پوری تسلی سے کاروائی کرتے رہے ۔ پھر فرار ہو گئے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ کوئی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور نہ ایسے واقعات سے نبٹنے کی کوئی تیاری تھی ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ حکومت کا کہیں وجود ہی نہیں ہے
2 ۔ پنجاب میں اپنے ہی پیدا کردہ بحران پر غور کرنے کیلئے گورنر ہاؤس میں روزانہ رات گئے تک اجلاس ہوتے رہے مگر اس میں کرکٹ ٹیموں اور شائقین کی حفاظت کے بندوبست کا ذکر تک نہ آیا
3 ۔ صدر ۔ گورنر پنجاب اور اُن کے حواری صوبائی اسمبلی کے ارکان کی جوڑ توڑ اور سرکاری اہلکاروں کی اُکھاڑ پچھاڑ میں اس قدر محو تھے کہ اُن میں سے کسی کو لاہور میں ہونے والے کرکٹ میچ کی سکیورٹی کا خیال ہی نہ آیا
4 ۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد بیان دیئے جا رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو جلد زندہ یا مردہ گرفتار کر لیا جائے گا ۔ کسی مسکین غریب کی شامت آئی لگتی ہے ۔ جو حکومتی اہلکار 25 منٹ کی کاروائی ڈالنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے وہ غائب ہو جانے والوں کو کہاں سے پکڑ لائیں گے ؟
5 ۔ حسب سابق اسلحہ کے ساتھ کچھ خودکُش حملہ میں استعمال ہونے والی جیکٹیں برآمد کی گئی ہیں ۔ کیا یہ قرینِ قیاس ہے کہ جو جیکٹیں استعمال ہی نہ کرنا تھیں کیونکہ پہنی ہوئی نہ تھیں وہ حملہ آور ساتھ کیوں لائے تھے ۔ کیا اپنا بوجھ بڑھانے کیلئے یا پولیس کو تحفہ دینے کیلئے ؟ نمعلوم کب تک ہمارے نااہل حکمران ہمیں اور اھنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے
6 ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جن شخص کو سلمان تاثیر نے زرداری کی منظوری سے پنجاب کا انسپیکٹر جنرل پولیس لگایا ہے یہ وہی شخص ہے جو اُن دنوں گوجرانوالہ کا ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس تھا جب نانو گورایہ نے ٹھگی کا بازار گرم کر رکھا تھا اور یہ صاحب اس لوٹ مار کے حصہ دار بھی تھے ۔ یہ تو گیدڑ کو چوزوں کی رکھوالی پر لگانے کے مترادف ہے
7 ۔ اگر ممبئی حملوں سے اب تک کے بھارتی حکومت کے وزراء اور دوسرے اہلکاروں کے بیانات پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کام بھارتی حکومت کے علاوہ کسی کا نہیں ہے لیکن ہماری حکومرانوں کے پاجامے اور پتلونیں خراب ہوئی جا رہی ہیں