رہ گئی رسم اذاں

میری کل کی تحریر پر سب بہن بھائیوں نے بڑے خلوصِ شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کیلئے میں اُن کا مشکور ہوں اور سب کا انفرادی طور پر جواب نہ دینے پر معذرت خواہ ہوں ۔ احمد صاحب نے درست طور پر تاریخ مولدالنبی پر اختلاف کا ذکر کیا اور اس کیوجہ بھی یہی ہو سکتی ہے کہ پہلی چار صدیاں کسی نے اس کی طرف توجہ دینے کی بجائے پیغمبرِ اسلام رحمتً لِلعالَمِین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ۔ تاریخی کُتب مطابق 9 یا 12 ربی الاوّل میں سے ایک تاریخ ہے ۔ میں کسی زمانہ میں محفلِ میلاد میں جاتا رہا ہوں اور جلوس میں بھی شرکت کی لیکن جو کچھ میں نے وہاں ہوتے دیکھا اُس میں زیادہ تر صرف دکھاوا ہونے کے علاوہ جس سے محبت کے اظہار کیلئے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اُسی کی تعلیمات اور سُنت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

تمام تبصروں کا جواب میں حکیم الاُمت علّامہ محمد اقبال کے الفاظ میں لکھ رہا ہوں

تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
اللہ سے کب پيار ہے ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن ۔ تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئينِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعارِ اغيار ؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعي نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

محبت ۔ کیسی ؟

شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد کو پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سسی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سوہنی کی بھینسیں چرانے لگا ۔

یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے ۔

آج عرب دنیا میں ربیع الاوّل 1429ھ کی 12 تاریخ ہے اور پاکستان میں کل ہو گی ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں ۔ سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے کیوں میں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟ ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ

تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟

میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔

میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا

اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔

الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔

سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا

آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ

کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

سوچ سوچ کے میں مر جاؤں
اس گتھی کو سلجا نہ پاؤں
بات سمجھ نہ آئے مجھ کو
کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

لبرٹی حملہ کے بارے میں جُوں جُوں حالات سامنے آ رہے ہیں معاملہ اُلجھتا ہی جا رہا ہے ۔ کچھ حقائق میں کل لکھ چکا ہوں ۔ مشیرِ داخلہ تو بھارت کا نام لینے سے ڈرتے ہیں اور اس واقعہ کا ذمہ دار جماعت الدعوہ ۔ طالبان یا القاعدہ کو ٹھہرانے کی پوری کوشش میں ہیں لیکن حالات و واقعات اس میں حکومتی مشینری کے کسی کل پُرزے کے ان ملک دُشمن سرگرمی میں منسلک ہونے کی طرف جا رہیں اور رحمان ملک ایسے معاملات کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں

مجھے کل بھی کسی نے بتایا تھا لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میری سمجھ میں نہ آ سکی بلکہ کوئی اور بھی ہوتا تو نہ سمجھ پاتا ۔ حملہ شروع ہونے کے بعد ہوا یوں کہ کچھ کھلاڑی زخمی ہوئے لیکن بس کا ڈرائیور بچ گیا اور وہ بس کو چلا کر بحاظت سٹیڈیم پہنچ گیا ۔ کھلاڑیوں کی بس کے پیچھے پولیس کی گاڑی تھی جس میں سوار پولیس کے نوجوان پیچھے آنے والے ایمپائروں اور صحافیوں کی جان بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے

ایمپائروں کی گاڑی کے ڈرائیور کی گردن میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ ایک نوجوان سپاہی جس کی ٹانگ میں گولی لگ چکی تھی وہ ایمپائروں کی گاڑی فرسٹ گیئر میں جتنا تیز ہو سکا چلا کر سٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا کیونکہ بائیں ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے گیئر تبدیل نہ کر سکا ۔ سٹیڈیم کے گیٹ کے قریب پہنچ کر اُسے ایک اور گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ یہ گولی ہاکی سٹیڈیم کی چھت سے آئی تھی جو کرکٹ سٹیڈیم کے قریب ہے

یعنی کرکٹ سٹیڈیم کے بالکل قریب ہی ہاکی سٹیڈیم کی چھت پر حملہ آوروں میں سے کم از کم ایک موجود تھا ۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟

اس سلسلہ میں نواز شریف کا یکم مارچ کا بیان اہم بن جاتا ہے جو جیو نیوز کے حامد میر کے مطابق اُس نے اُسی دن صدر آصف زرداری کو پہنچا دیا تھا اور زرداری صاحب نے مسترد کر دیا تھا ۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ لیاری کراچی کے مشہور رحمان ڈکیت کا تربیت یافتہ گروہ پنجاب میں داخل ہو چکا ہے جو کوئی ایسا بڑا واقعہ کر سکتے ہیں جس سے لانگ مارچ کو روکنے کا جواز پیدا ہو ۔ نواز شریف کے مطابق اُن کا ہدف وہ خود بھی ہو سکتے ہیں

لبرٹی حملہ

لبرٹی حملہ کے مصدقہ واقعات مختصر طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ قارئین سے التماس ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہر خبر اور تبصرہ سے صاف کر کے اسے پڑھیں اور پھر نیچے درج شدہ میرے سوالات کا جواب دیں

1 ۔ جب بھارت سمیت تمام ممالک نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان آ کر کھیلنے کا اعلان کیا ۔ بھارت نے سری لنکا پر بہت زور ڈالا کہ ٹیم پاکستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو گا لیکن سری لنکا نے بھارت کا مشورہ نہ مانا

2 ۔ صدرِ پاکستان نے سری لنکا کو یقین دلایا کہ سری لنکا کی ٹیم کو وہ سکیورٹی مہیا کی جائے گی جو صدرِ پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے

3 ۔ لاہور میں ایک روزہ میچ 25 جنوری کو تھا پھر ٹیسٹ میچ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا

4 ۔ پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کو اطلاع ملی کہ بھارت کی راء نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے اور حملہ ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہو گا چنانچہ اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس نے 22 جنوری کو تحریری طور پر مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداروں کو اس سے آگاہ کیا
مرکزی حکومت کے سیکریٹری داخلہ
پنجاب کے چیف سیکریٹری ۔ سیکریٹری داخلہ ۔ وزیرِاعلٰی کے سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل پولیس
لاہور کے کمشنر اور سی سی پی او

5 ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 23 جنوری کو اعلٰی سطح کا اجلاس بُلایا جس میں اس صورتِ حال پر غور کر کے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور متعلقہ عہدیداروں نے مجوزہ ہوٹل سے سٹیڈیم تک کا جائزہ لے کر مناسب انتظامات کئے

6 ۔ خاطر خواہ حفاظتی تدابیر کے باعث 25 جنوری کو سری لنکا کے ساتھ ایک روزہ میچ خیر خیریت سے ہوا

7 ۔ صدر نے 25 فروری کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے اسمبلی کی تالہ بندی کر دی جس سے پورے پنجاب اور سب سے زیادہ لاہور میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ ارکان اسمبلی اور سینکڑوں دوسرے افرادکو گرفتار کرنے کے باعث بحران مزید بڑھ گیا

8 ۔ گورنر نے 27 فروری تک پنجاب بالخصوص لاہور کی انتظامیہ اور پولیس کے تمام اعلٰی افسران بشمول تھانیداروں کو تبدیل کر دیا جن میں سے کئی کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈر پنجاب اسمبلی کے 371 اراکان میں سے 250 ارکان کی حمائت کا دعوٰی کر کے گورنر پنجاب اور ایک گمنام قسم کے سینیٹر کی سربراہی میں ارکان پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ ۔ ڈراؤ ۔ خرید اور جوڑ توڑ میں مشغول ہو گئے

9 ۔ پنجاب کا گورنر راج پورے انہماک اور جانفشانی سے مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو توڑنے کی ناکام کوشش میں گم تھا کہ لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہو گیا

10 ۔ بروز منگل بتاریخ 3 مارچ 2009ء سری لنکا کا پاکستان کے ساتھ میچ کا تیسرا دن تھا ۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ہوٹل سے روانہ ہوئی ۔ پچھلے دنوں کے بر عکس مقررہ راستہ کو نمعلوم کس کی ہدائت پر تبدیل کر دیا گیا اور بجائے تیز رفتار راستہ یعنی فیروز پور روڈ سے آنے کے ٹیم کو گلبرگ مین بلیوارڈ سے لایا گیا جس کے نتیجہ میں رفتار تیز نہ ہو سکی اور پھر لبرٹی چوک کے بہت بڑے دائرے [round-about] کے گرد بہت سُست ہونا لازمی تھا جہاں اُنہیں 90 درجے سے زیادہ کا زاویہ بناتے ہوئے مُڑنا بھی تھا

11 ۔ لبرٹی مارکیٹ صبح 10 بجے کے بعد کھُلنا شروع ہوتی ہے اور دوپہر 12 بجے تک پوری کھُلتی ہے ۔ یہاں دفاتر بھی 9 اور 10 بجے کے درمیان کھُلتے ہیں

12 ۔ صدر کے سری لنکا سے کئے ہوئے وعدے کے برعکس سری لنکا کے کھلاڑیوں کو عام بس پر لایا گیا جس کے آگے ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک وارڈن تھا ۔ اس کے پیچھے بند گاڑی کے اندر اے ایس پی اور تین پولیس والے بیٹھے تھے ۔ بس کے پیچھے ایک اور پولیس کی بند گاڑی تھی جس میں پانچ پولیس والے بیٹھے تھے ۔

13 ۔ لبرٹی چوک پر صرف ایک ٹریفک وارڈن موجود تھا جو حملہ شروع ہوتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور پھر ایک ستوپے کے پیچھے چھُپ کر جان بچائی ۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی وردی والا یا بغیر وردی پولیس یا خُفیہ ادارے کا اہلکار موجود نہ تھا جبکہ ایسے مواقع پر درجنوں کی تعداد میں وردی اور بغیروردی والے اس جگہ موجود ہوتے ہیں

14 ۔ یہ قافلہ صبح 8 بج کر 42 منٹ پر چوک میں داخل ہوا تو لبرٹی چوک کے درمیانی دائرے میں اور سڑک کے دوسری طرف 8 حملہ آور جو تین تین اور دو کی ٹولیوں میں اپنی خودکار بندوقیں سنبھالے گھات لگائے بیٹھے تھے نے تین اطراف سے اس پر حملہ کر دیا جس کی ابتداء کھلاڑیوں کی بس پر دو گرینیڈ پھینک کر کی گئی لیکن یہ بس کو نہ لگے پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ پہلا شہید ٹریفک وارڈن تھا ۔ جو سب سے آگے تھا ۔ اُس کے پیچھے اے ایس پی کی گاڑی کے ٹائر میں گولی لگی لیکن گاڑی روکی نہ گئی ۔ بس پر ایک راکٹ چلایا گیا جو بس کو چھوتا ہوا ایک دکان کو جا لگا ۔ اتنی دیر میں بس کے پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی سامنے آ گئی ۔ ایک پولیس جوان جونہی باہر نکلا وہ گولیوں کا نشانہ بنا ۔ یہ پانچوں پولیس والے شہید ہو گئے

15 ۔ بس ڈرائیور نے پہلے بس روکی پھر اُس نے بس بھگائی اور سٹیڈیم کی طرف مُڑ گیا ۔ حملہ آوروں نے بس کا پیچھا کیا ۔ سٹیڈیم کی طرف سے پولیس کا ایگل سکواڈ آیا اور فائرنگ کا جواب دیا اور وہ بھی زخمی ہوئے ۔ حملہ آوروں میں سے کوئی زخمی تک نہ ہوا

16 ۔ فائرنگ کا سلسلہ 25 منٹ جاری رکھنے کے بعد حملہ آور لبرٹی چوک کے بازو والی ایک سڑک کی طرف گئے جہاں وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے اپنے تین موٹر سائکلوں تک پہنچے اور یکے بعد دیگرے روانہ ہو گئے ۔ صرف دو نے اپنے تھیلے پھینک دیئے باقی نے نہیں پھنکے ۔ ہر موٹر سائکل پر ایک یا دو کے ہاتھوں میں خود کار بندوقیں موجود تھیں جو صاف نظر آ رہی تھیں ۔ جب تیسرا موٹر سائکل سٹارٹ ہوا تو صبح کے 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

17 ۔ جب حملہ آور اپنی 25 منٹ کی کاروائی کے بعد لبرٹی چوک سے روانہ ہو رہے تھے تو یکے بعد دیگرے پولیس کی دو گاڑیا لبرٹی چوک پہنچیں جن میں سے ایک لبرٹی مارکیٹ کی طرف مڑ گئی اور حملہ آوروں کے بالکل قریب سے گذرتی ہوئی گئی ۔ دوسری جدھر سے آئی تھی واپس مُڑ کر اُدھر ہی چلی گئی

سوال

1 ۔ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی تھی ۔ ایک غیر ملکی ٹیم آئی ہوئی تھی ۔ ویسے بھی سٹیڈیم میں اتنا ہجوم شائقین کا ہونا تھا تو اردگرد کے علاقہ میں پولیس اور خفیہ کے اہلکار کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟

2 ۔ کھیل کے تیسرے دن کھلاڑیوں کو لیجانے کیلئے تیز رفتار راستہ چھوڑ کر اچانک سُست پُرہجوم ایسا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس میں ایک گلگوٹ [bottle neck] لبرٹی چوک کا دائرہ [round-about] بھی تھا ؟

3 ۔ کھلاڑیوں کے آگے اور پیچھے چلنے والی پولیس بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے کھُلی گاڑیوں میں تیار حالت [ready to attack position] میں کیوں نہ تھی ؟

4 ۔ اس طرح کا حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار 15 منٹ میں پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے 25 منٹ کاروائی جاری رکھی جس کے بعد اطمینان سے مزید 37 منٹ جائے واردات کے قریب رہے اور آسانی سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس تھانہ بھی وہاں سے قریب ہی تھا اور یقینی طور پر تھانے میں فائرنگ کی آواز سُنی گئی ہو گی ۔ ایسا کیوں کر ہوا ؟

5 ۔ پولیس کی جو دو گاڑیاں حملہ آوروں کے فرار ہوتے وقت لبرٹی چوک میں پہنچیں اُن میں بیٹھی پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے یا اُن کا تعاقب کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟

لبرٹی حملہ نااہلی تھا یا ملی بھگت

سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر میں جو کچھ سن چکا تھا دل و دماغ اسے ماننے کیلئے تیار نہ تھا ۔ میں آج دو پہ اور پھر سہ پہر کو یعنی دو بار لکھتے لکھتے ڈر کر رُک گیا کہ قارئین کہیں مجھ پر حملہ کر کے میرا منہ ہی نہ نوچ ڈالیں ۔ اب کہ جیو ٹی نے وہ وڈیو چلا دی ہے جس سے میری سنی ہوئی باتیں درست ثابت ہو گئی ہیں تو لکھنے کی ہمت ہوئی ہے ۔

گذشتہ رات سلمان تاثیر اور رحمان ملک سمیت سرکاری اہلکاروں نے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور حملہ آور 12 بتائے تھے ۔ اُن کی کارکردگی کا پول لاہور والوں کے سامنے تو کل ہی کھُل گیا تھا اور مجھے بھی کسی نے بتا دیا تھا ۔ حملہ آور جو کُل 8 تھے اور تین تین اور دو کی ٹولیوں میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کل صبح 8 بج کر 42 منٹ پر حملہ شروع ہوا اور 25 منٹ جاری رہا ۔ اس کے بعد حملہ آور بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اور ایک قریبی سڑک پر جا کر موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر فرار ہوئے ۔ جب تیسری ٹولی موٹر سائکل پر روانہ ہوئی اس وقت 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

لاہور کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ رحمان ملک کی زیرِ نگرانی ہوا ہے ورنہ ایسے ہو ہی نہیں سکتا کہ حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیاں پورے علاقے کو چاروں طرف سے نہ گھیر لیتیں اور نہ حملہ آور اس آسانی سے فرار ہو سکتے تھے ۔ خیال رہے کہ حملہ سے ایک دن قبل یعنی پیر کے روز رحمان ملک لاہور میں سلمان تاثیر کے ساتھ خصوصی میٹنگ گر کے آئے تھے

نجومی کون ہے ؟

فرانس کے حکمران لوئی ششم [1423ء تا 1483ء] ۔ جو علم نجوم پر بہت یقین رکھتا تھا ۔ کو ایک دِن کسی نجومی نے بتایا کہ ملکہ کا اگلے آٹھ دِنوں میں انتقال ہو جائے گا۔ جب واقعی ایسا ہو گیا تو بادشاہ گھبراگیا کہ نجومی تو انتہائی خطرناک ہے یا تو اس نے اپنی پیش گوئی سچ ثابت کرنے کیلئے خود ملکہ کو قتل کیا ہے یا پھر وہ اس طرح کی پیش گوئیاں بیان کرتا ۔ وہ مستقبل میں اُسکی بادشاہت بھی ختم کرسکتا ہے

بادشاہ نے نجومی کو گرفتار کرواکر قلعہ کی چھت سے اُلٹا لٹکا کر نیچے پھینکنے کا حکم دیا ۔ آخری لمحات میں نجومی سے پوچھا ”مرنے سے پہلے اتنا بتاجاؤ کہ میں یعنی بادشاہ کب تک زندہ رہوں گا“

نجومی نے انتہائی ادب سے جواب دیا “حضور ۔ میری موت آپ سے صرف تین دِن پہلے لکھی ہے“

حُکم پر تعمیل روک دی گئی اور بادشاہ اگلے کئی برس خود سے زیادہ اُس نجومی کی حفاظت کرتا رہا اور پھر بادشاہ کے انتقال کے کئی برس بعد تک نجومی قہقہے لگا کر یہ قصہ سناتا کہ

”طاقت کے حصول سے زیادہ اُسے برقرار رکھنے کی خواہش اور طاقت چھِن جانے کا ڈر حکمرانوں سے غلطیوں کا سبب بن جایا کرتا ہے”

یہ واقع کچھ دن قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے پروگرام “میرے مطابق” میں سنایا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں نجومی کون ہے اور اُس نے آصف علی زرداری سے کیا کہہ رکھا ہے ؟