عاشق کا انتقام

محبت بے عقل نہیں ہوتی جبکہ عشق اندھا ہوتا ہے ۔ محبت کرنے والا محبوب کی خوشنودی چاہتا ہے جبکہ معشوق کی بے رُخی پر عاشق معشوق کو قتل کرنے پر تُل جاتا ہے ۔ بعض اوقات عاشق کا یہ زہر کسی اور کیلئے تریاق ثابت ہوتا ہے ۔ تین دہائیوں سے زائد قبل کراچی یونیورسٹی میں ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک طالبہ کو ایک لڑکے رفیق مُنشی سے عشق ہو گیا ۔ یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہ آپس میں ملتے رہے ۔ شادی کے وعدے وعید بھی ہوئے ۔ وہ کراچی کے ایک کالج کی لیکچرر تعینات ہو گئی اور رفیق مُنشی کینُوپ میں ملازم ہو گیا ۔ ایک دن رفیق مُنشی اچانک غائب ہو گیا

چار سال بعد رفیق مُنشی پھر کراچی میں نمودار ہوا ۔ ماضی کے برعکس اب وہ مالدار تھا اور ایک خوبصورت امریکن لڑکی اس کی دوست بن چکی تھی لیکن وہ اس کے پاس آتا رہا ۔ گو اُس کے دل میں رفیق مُنشی کی دوسری دوست کھٹکتی تھی مگر عشق چلتا رہا اور انتقام کی آگ بھی سُلگتی رہی ۔ ایک دن رفیق مُنشی دفتر جاتے ہوئے اپنی الماری بند کرنا بھول گیا ۔ اُس نے دیکھا کہ اس الماری میں بہت سے ڈالر اور کافی کاغذات پڑے ہیں ۔ ان کاغذات میں بہت اہم مُلکی راز تھے جنہیں وہ افشاء کرنے سے ڈرتی تھی مگر وہ اُس کے ذہن پر سوار ہوگئے ۔ وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہو گئی ۔ اپنے علاج کیلئے وہ نفسیات کی ماہر ایک ڈاکٹر کے پاس گئی لیکن اسکے سامنے کچھ اُگلنے کو تیار نہ تھی

اُن دنوں لیفٹنٹ کرنل امتیاز آئی ایس آئی سندھ کا سربراہ تھا ۔ بات اُس تک پہنچی ۔ اُس نے کوشش کی اور اللہ کی نُصرت شاملِ حال ہوئی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش قبل از وقت ناکام ہو گئی ۔ لیفٹنٹ کرنل امتیاز کو تمغہ بصالت دیا گیا ۔ رفیق مُنشی امریکی خُفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا ۔ امریکی خُفیہ ایجنسی نے دو خوبصورت لڑکیوں سمیت پانچ امریکیوں کو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنے کا کام سونپا تھا ۔ ان دو لڑکیوں میں سے ایک رفیق منشی کی معشوقہ بنی ہوئی تھی ۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہے تھے اور پاکستان کی مختلف نیوکلیئر انسٹا لیشنز [Nuclear installation] کے رفیق مُنشی سمیت 12 ملازمین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔ آئی ایس آئی کے کاؤنٹر سیبوٹاج [counter-sabotage] کے نتیجہ میں پانچوں امریکی اور 12پاکستانی گرفتار کر لئے گئے ۔ امریکیوں کو مُلک سے نکال دیا گیا ۔ صدر ضیاء الحق نے ٹیلیفون کر کے امریکہ کے صدر سے احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے آئیندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی مگر وعدہ لے لیا کہ یہ خبر ذرائع ابلاغ کو نہیں دی جائے گی

رفیق مُنشی کو پھانسی اور باقی پاکستانیوں کو عمر قید کی سزا ہوئی ۔ رفیق مُنشی کا تعلق سندھ کے ایک بڑے سیاستدان سے تھا ۔ اُس سیاستدان نے ضیاء الحق پر دباؤ ڈال کر اور ضیاء الحق کی حکومت کی سیاسی حمائت کا وعدہ کر کے رفیق مُنشی کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کروا لی

متذکرہ بالا لیفٹنٹ کرنل امتیاز ریٹائرڈ بریگیڈیئر امتیاز ہی ہے جو بعد میں آئی بی کا سربراہ بھی رہا اور جسے بینظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی قید میں ڈال دیا تھا اور تین سال کی قید کاٹ کر عدالت کے حُکم پر رہا ہوا تھا ۔ پھر پرویز مشرف نے بھی اسے قید میں ڈال دیا تھا اور ہائی کورٹ کے حُکم سے پانچ سال بعد رہا ہوا تھا

یہ خلاصہ ہے ۔ تفصیل انگریزی میں ہے جو یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

ایک غیرمرئی طاقت ؟ ؟ ؟

پاکستان میں ہونے والی ہر دہشتگردی کے بعد چندگھنٹوں اور بعض اوقات آدھ گھنٹہ کے اندر رحمان ملک یا اُس کے کسی ترجمان کی طرف سے بیت اللہ محسود کے اس میں ملوّث ہونے کے اقرار کا اعلان ہو جاتا ہے اور بنیاد طالبان کی دہشتگردی قرار دی جاتی ہے ۔ لاہور میں لبرٹی چوک حملہ کی تحقیقات کے مطابق پنجاب حکومت کا عندیہ تھا کہ اس میں بھارت کی خُفیہ ایجنسی را کے ملوّث ہونے کے شواہد ملے ہیں ۔ اس بیان کے ایک دن بعد رحمان ملک نے کہا کہ وہ پنجاب کے وزیر کا ذاتی بیان ہے اور تحقیقات کے مطابق یہ حملہ بیت اللہ محسود نے کرایا ہے ۔ کل لاہور میں شاہراہ فاطمہ جناح پر ہونے والے دہشتگرد حملہ کے چند گھنٹے کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ اس حملے کی ذمہ داری بیت اللہ محسود نے قبول کر لی ہے

مجھے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ بیت اللہ محسود ایک بہت بڑی غیرمرئی طاقت ہے جو جب چاہے جہاں چاہے جو چاہے کر سکتی ہے ۔ اگر بیت اللہ محسود انسان ہے تو کیا دنیا کی کسی بہت بڑی طاقت کی سرپرستی اور منصوبہ بندی کے بغیر ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟

مزید ۔ کل سُنا تھا کہ حکومت مطلوب دہشتگردوں پر انعام رکھ رہی ہے ۔ آج کے اخبارات میں 21 ناموں کا اشتہار شائع ہوا ہے ۔ ان میں فضل اللہ اور مُسلم خان ہیں مگر بیت اللہ محسود نہیں ہے ۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ انعام صوبہ سرحد کی حکومت نے رکھے ہیں ۔ تو کیا وفاقی حکومت کے وڈیرے صرف غریب عوام سے نچوڑی ہوئی دولت کو غیرملکی سیر و سیاحت ۔ موج میلا ۔ 500 ڈالر فی گھنٹہ پر لیموسِین لینے اور بھارتی رقاصاؤں پر ایک نشست میں 12000 ڈالر لُٹانے کیلئے ہیں ؟ بحرحال صورتِ حال اب زیادہ مشکوک ہو گئی ہے ۔ اس سے میری آج صبح کی تحریر اہم ہوتی نظر آتی ہے ۔ میں نے اس میں جن بڑوں کی بات کی تھی وہ میرے جیسے بے اختیار ۔ کم مایہ اور کم عِلم لوگ نہیں ہیں

رات گئے کی ایک خبر جو آج کچھ آن لائین اخبارات کی زینت بھی بن گئی ہے نے میرے شُبہات کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ سی آئی اے اور اس کی ایماء پر اور معاونت سے بھارت کی ” را ” کر رہی ہے جس کے دو بڑے مقاصد ہیں ۔ ایک ۔ پاکستان کی بے مثال فوج کو اپنوں سے اُلجھا کر کمزور اور اپنوں میں بے اعتماد کیا جائے ۔ دو ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اسے مکمل کٹھ پُتلی بنایا جائے ۔ ان دو عوامل کے پیچھے انتہائی رذیل مقصد ہے ۔ میرے شُبہات کے پسِ منظر میں پچھلے سات سال کی خاص خبریں ہیں جو اس طرح شروع ہوتی تھیں ” ۔ ۔ ۔ ۔ ٹی وی کو ایک وڈیو موصول ہوئی ہے جس کے مطابق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” یا ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویب سائیٹ جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے احکامات یا بیانات شائع کئے جاتے ہیں پر لکھا گیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ملاحظہ ہو ایک ویب سائیٹ پر رات گئے ترکی زبان میں شائع ہونے والی ایک خبر

Updated at 0545 PST on May 28, 2009
دبئی. . . .. .تحریکِ طالبان پنجاب نامی گروپ نے لاہور خودکش حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیاہے۔ترکی زبان میں کیا جانے والا یہ دعویٰ ترکش جہادی ویب سائٹس کے ذریعے سامنے آیاہے۔ویب سائیٹس کی نگرانی کرنے والے امریکی گروپ کے مطابق، تحریکِ طالبان پنجاب کا کہنا ہے کہ لاہور میں برائی کی جڑ پر کیا گیا حملہ سوات کے مجاہدین کے لئے ایک ادنیٰ سا تحفہ ہے۔انہوں نے پاکستانی مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ جہادیوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ان علاقوں سے دور رہیں ۔جہاں دشمن انکی موجودگی کا فائدہ اٹھا رہا ہے

میں اور میرے تمام عزیز و اقارب دعا گو ہیں کہ اللہ دُشمنوں کے ناپاک ارادوں سے ہمارے پیارے وطن کو محفوظ رکھے اور ہمارے حُکمرانوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ وہ اپنی عیاشیاں چھوڑیں اور مُلک دُشمن سازشوں میں شریک بنے رہنے سے انکار کر کے وطن اور قوم کیلئے کام کرنا شروع کریں ۔ آمین ۔ ہم صرف دعا ہی نہیں اپنے پیارے مُلک کیلئے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کر رہے ہیں اور اِن شاء اللہ کرتے رہیں گے

میری تمام قارئین سے بھی استدعا ہے کہ وہ خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے باہمی جھگڑے چھوڑ کر دُعا اور دوا دونوں کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی اس کی ترغیب دیں

کون کِس کا ؟

ایک بڑوں کی محفل میں حامد میر کی تحریر ” آستین کے سانپ” پر تبصرہ ہو رہا تھا تو بات یہاں پہنچی کہ کون کس کا آدمی ہے ؟ خلاصہ یہ ہے
صوفی محمد جماعتِ اسلامی میں تھا لیکن کچھ سال قبل جب اُس نے پہلی بار آئین کے خلاف بات کی تھی تو اُسے جماعت اسلامی سے خارج کر دیا گیا تھا
بیت اللہ محسود ۔ “سی آئی اے” اور ” را ” کا
فضل اللہ ۔ “سی آئی اے” کا
رحمن ملک ۔ “سی آئی اے” اور ” ایم آئی 6 ” کا
الطاف حسین ۔ ” ایم آئی 6 ” اور ” را ” کا
میں نے پوچھا ” اور زرداری ؟”
جواب دیا گیا ” آپ خود سمجھدار ہیں “

مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی

یہ کوئی شاعرانہ فقرہ نہیں ہے جیسا کہ عام تاثر لیا جاتا ہے بلکہ یہ فلسفیانہ مقولہ ہے ۔ اگر کسی عارضہ کی درست تشخیص کئے بغیر عام طور طریقہ سے اُس کا علاج شروع کر دیا جائے تو عارضہ بڑھتا جاتا ہے ۔ میں نے “عارضہ” کا لفظ استعمال کیا ہے کہ اس کا مطلب جسمانی یا ذہنی یا نفسیاتی بیماری بھی ہو سکتا ہے اور دکھ یا تکلیف یا پریشانی بھی

ہمارے مُلک کے سابقہ حُکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے حُکم کی اندھا دھند بجا آوری کی جس کے نتیجہ میں مُلک کو طالبان کا عارضہ ہو گیا ۔ وہ تو اپنی نوکری پوری کر کے رُخصت ہوئے اور مُلک میں جمہوریت نام کی چیز نافذ ہوئی جس میں سارے اختیارات فرد واحد کے پاس مجتمع ہیں ۔ مغرب سے پھر پُکار اُٹھی اور جن کا قبلہ کعبہ نہیں مغرب ہے نے ہاہاکار مچا دی کہ ” مُلک کو طالبان ہو گیا ہے ۔ اگر جلد آپریشن کر کے اسے نیست و نابود نہ کیا گیا تو یہ پھیل کر پورے مُلک کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور خدا نخواستہ ملک ختم ہو جائے گا”

طب کا طور طریقہ [Medical procedure] ہے کہ کوئی مریض خطرناک مرض میں مبتلا ہو تو اطِباء کا اجلاس [Medical board] بُلایا جاتا ہے ۔ معمل [laboratory] سے رجوع کر کے مرض کے عوامل معلوم کرنے [diagnosis] کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ہسپتال کا سربراہ فوری طور پر جراحی [surgery] کا حُکم صادر کر دے کیونکہ جراحی خواہ کتنی بھی سادہ ہو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

ہمارے مُلک کا مسیحا جس کے ہاتھ میں مُلک کے تمام اختیارات ہیں نے پہلے آپریشن کا حُکم صادر کر دیا اور جب آپریشن شروع ہو گیا تو اطباء کا اجلاس بُلا کر اپنی مرضی کی سفارش [report] حاصل کر لی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی حکومتی جراح آپریشن میں پھنسے ہوئے تھے کہ سرطان کی طرح بڑھتے ہوئے 26 لاکھ متاءثرین مُلک کے میں پھیلنے شروع ہو گئے جسے سنبھالنا مسیحانِ مُلک کی پہنچ سے بہت باہر ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ایک ہفتہ کی تگ و دو اور پوری دنیا کے حکومتی مسیحاؤں کی امداد کے باوجود حکومتی مسیحا 27 لاکھ متاءچرین میں سے 2 لاکھ کی بھی دیکھ بھال نہیں کر پا رہے

چند سو یا چند ہزار نفوس پر مشتمل طالبان تو ابھی مہینوں تک قابو میں آتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ اگر متاءثرین کے ساتھ حکومتی برتاؤ اسی طرح جار ی و ساری رہا تو کوئی عجب نہیں کہ 27 لاکھ متاءثرین جو گذرتے وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں طالبان کا روپ دھار لیں پھر اس عارضہ کا علاج سوائے مکمل تباہی کے کچھ نہ ہو گا

کیا حُکمران صرف بیانات دینے کیلئے ہوتے ہیں ؟ عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی پر پلنے والے ان حکمرانوں پر عوام کے کوئی حقوق نہیں ؟

خودمختاری فروخت ؟

صوبہ سرحد کی حکومت نے جو کرتب دکھایا ہے وہ دوسرے لفظوں میں مُلک کی خودمختاری بیچنا کہا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ان ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کا خاصہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ذاتی فائدوں کی خاطر قوم کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ شائد اسی لئے ایک امریکی صحافی نے پرویز مشرف کے دور میں کہا تھا کہ پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ ڈالتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو صحافت کا 22 سالہ تجربہ رکھنے والی انجم نیاز کے مضمون سے اقتباس

The government of NWFP in other words has signed away its sovereign rights to the UN agencies, allowing them unhindered access to the militants. The lines below were slyly slipped in the press release thereby authorising the UN to infiltrate and penetrate into the sensitive security issues which currently are no-go areas for even the media. A handful of civilians from NWFP went to Geneva, courtesy the HD with the help of Ambassador Zamir Akram and some would see this as a slight on Pakistan’s sovereignty.

“The HD Centre was able to provide a unique environment for participants to discuss the safe delivery of humanitarian assistance and the security of humanitarian personnel. Participants were able to reach a consensus that effective humanitarian delivery depends on a transparent and structured dialogue with militant actors by humanitarian agencies with the full knowledge, support and agreement of the government.”

پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے

آستین کے سانپ

افغانستان کے راستے سے پاکستان میں آکر نفاذ شریعت کے نام پر قتل عام کرنے والوں کو بھارتی اسلحہ اور روپیہ دیا جارہا ہے اور اس کھیل میں کراچی کے کچھ بڑے سیٹھ بھی ملوث ہیں ۔ ہمارے حکمران مولانا فضل اللہ کو تو کوستے ہیں لیکن بھارت کے بارے میں خاموش ہیں ۔ کچھ دانشور بھی اُچھل اُچھل کر کہتے ہیں کہ طالبان اور پاکستان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں آگ لگانے والے طالبان کو بارود اور روپیہ کون دے رہا ہے ؟ تو یہ دانشور کھسیانی بلی بن جاتے ہیں

راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی ایک ایسے شخص کو جانتے ہیں جس کی تین بیٹیاں ہیں ۔ ایک دن اسلحہ بردار اس کے گھر پہنچے اور مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کا نکاح ان نام نہاد مجاہدین کے ساتھ کردے ۔ اس شخص نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اسے شادی کی تیاری کیلئے ایک دن دیا جائے ۔ اسلحہ بردار دوبارہ شادی کیلئے آئے تو ان کی تاک میں بیٹھے ہوئے مقامی لوگوں نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا ۔ مولانا فضل اللہ ان غنڈوں کے سامنے بے بس تھے یا پھر ان کی ملی بھگت سے یہ سب ہو رہا تھا ؟

پاکستان کے آئین سے انکار کرنے والے طالبان ہمارے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں لیکن ہمیں ایسے دانشوروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں سے بھی ہوشیار رہنا ہے جو پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ کیا امریکی ڈرون حملے ریاست کے آئین اور ریاستی عملداری کیلئے خطرہ نہیں ؟ ان دانشوروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے ماضی کو کریدیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے تانے بانے بھی دہلی کے ساتھ ملتے ہیں

یہ شواہد بھی سامنے آنے لگے کہ یہ غیر مقامی اسلحہ بردار باجوڑ کے ہمسائے میں واقع افغان صوبے کنڑ سے رقم اور افرادی قوت حاصل کرتے ہیں اور مولانا فضل اللہ نے انہی عناصر کے دباؤ پر مولانا صوفی محمد اور سرحد حکومت کے درمیان امن معاہدے کو ناکام بنایا ۔ دوسری طرف افغان طالبان کے رہنما مُلّا محمد عمر نے خوست کے راستے سے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو حال ہی میں پیغام بھیجا کہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہے اگر انہیں لڑنا ہے تو افغانستان آکر امریکی فوج سے لڑیں ۔ القاعدہ کی حکمت عملی بھی یہی ہے کہ پاکستان میں لڑنے کی بجائے افغانستان پر توجہ دی جائے

یہ کھیل 1947ء سے جاری ہے ۔ 1947ء میں نفاذ شریعت کیلئے فقیر ایپی کا نام استعمال ہوا اور 2009ء میں مولانا فضل اللہ کا نام استعمال ہوا ۔ دونوں مرتبہ فساد کی جڑ بھارت ہے ۔ تقسیم ہند کے فوری بعد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے افغانستان کے راستے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت شروع کردی تھی ۔ کابل میں بھارتی سفارتخانے کی طرف سے کچھ قبائلی عمائدین کے ذریعے انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے ہیرو فقیر ایپی کیساتھ رابطہ قائم کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نہ چہرے پر داڑھی ہے اور نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں لہٰذا آپ وزیرستان کو افغانستان میں ضم کردیں یا علیحدہ ریاست کے قیام کا اعلان کردیں

دوسری طرف 17 اپریل 1948ء کو پشاور میں قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ قبائل کشمیر کی آزادی کیلئے جہاد کریں گے۔ اس جرگے میں قائد اعظم سے درخواست کی گئی کہ قبائلی علاقوں کو براہ راست مرکزی حکومت کے تابع رکھا جائے ۔ قائد اعظم نے یہ درخواست تسلیم کرلی ۔ اس دوران بنوں میں فقیر ایپی کے نام سے یہ پمفلٹ تقسیم ہوا کہ جہاد کشمیر حرام ہے بلکہ قائد اعظم کے خلاف جہاد کیا جائے جنہوں نے پاکستان میں شریعت نافذ نہیں کی

اس کے بعد 29 جون 1948ء کو پاکستانی اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ایک 35 سالہ قبائلی اول حسین کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو فقیر ایپی کے نام پنڈت نہرو کا ایک خطہ دہلی سے لا رہا تھا۔ گیارہ ستمبر 1948ء کو قائد اعظم وفات پا گئے ۔ نہرو کا خیال تھا کہ پاکستان چھ ماہ میں ٹوٹ جائے گا

یہ اقتباس ہے حامد میر کی تحریر قلم کمان سے جو یہاں کلک کر کے پوری پڑھی جا سکتی ہے
بشکریہ ۔ جنگ

حُکمرانوں کی مجبوریاں کب تک ہمیں ستائیں گی ؟

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے 22 مئی کے اجلاس میں کافی گرما گرم بحچ کے بعد الزام عائد کیا گیا تھا کہ 2005 میں شوکت عزیز نے کراچی میریٹ ہوٹل سے ملحقہ ڈیڑھ کھرب روپے سے زائد مالیت کی 21 ایکڑ اراضی امریکی قونصل خانے کی تعمیر کیلئے مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب روپے میں 99 سال کی لیز پر دینے کے احکامات جاری کیے تھے۔

اس اراضی کے 5 ایکڑ رقبے پر وزارت خوراک و زراعت کے زیر انتظام پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کی لیبارٹریز اور دفاتر قائم تھے۔ یہ زمین 1950 سے 2000 تک وزارت خوراک و زراعت کے پاس لیز پر تھی جسے وزیراعظم شوکت عزیز کے حکم پر 2005 میں 99 سال کی لیز پر امریکی سفارتخانے کو دے دیا گیا تھا۔ اس زمین کی مارکیٹ قیمت 2 لاکھ 20 ہزار روپے فی مربع گز تھی مگر امریکی حکومت نے اس قیمتی زمین کی قیمت 9 ہزار روپے فی مربع گز ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔ وزیراعظم نے اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے 15 ہزار روپے فی مربع گزکے حساب امریکیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

موجودہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو حکومت نے اس اراضی کی فروخت اور ڈیل سے متعلق تمام دستاویزات اور ریکارڈ پیش کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مئی 2008 میں یہ معاملہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو فیصلے کیلئے بھجوایا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے شوکت عزیز کے 19 مئی 2005 کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے شوکت عزیز کے طے کردہ نرخوں پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کی 21 ایکڑ اراضی امریکی سفارت خانے کو دینے کی منظوری دی۔

وزارت خوراک و زراعت کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ہدایت کی ہے کہ سینٹرل کاٹن کمیٹی کے دفاتر کے قیام کیلئے مزید فنڈز کی فراہمی کی نئی تجویز منظوری کیلئے پیش کی جائے

بشکریہ ۔ جنگ