صحت کا راز

غُصے کی حالت میں زبان دماغ سے زیادہ تیز چلتی ہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے
غُصہ کے دوران ہر منٹ میں 60 خوشگوار سیکنڈ ضائع ہوتے ہیں جو کبھی واپس نہیں مل سکتے
سخت الفاظ سے کسی کی ہڈیاں تو نہیں ٹوٹتی لیکن دل ٹوٹ جاتا ہے
اگر دوسرے آپ کے خلاف بدخوئی کریں تو آپ کا دل ٹوٹ جائے گا
اسلئے ایسے رہیئے کہ کوئی آپ کے خلاف بدخوئی پر یقین نہ کرے

مسکرائیے اور دوسروں کو بھی مسکرانے کا موقع دیجئے

پرانے اخبارات کے کچھ تراشے

جنگ کراچی: 6جولائی 1992ء … بینظیر بھٹو نے کہا کہ اگر بہاریوں کو سندھ میں بسایا گیا تو اس سے جناح پور اور سندھو دیش کی راہ ہموار ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں کیلئے سندھ واٹر لو ثابت ہوچکا ہے اور ایسا شاید نواز شریف کیلئے بھی ہوسکتا ہے

جنگ کراچی: 18جولائی 1992ء … فوج کے ترجمان بریگیڈیئر ہارون نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ایم کیو ایم نے ایک علیحدہ وطن کا منصوبہ بنایا ہے

دی نیوز : 17 جولائی … بریگیڈیئر ہارون نے کہا کہ ایم کیو ایم کے منصوبے کے متعلق مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران علیحدہ ملک کا نقشہ بھی برآمد کیا گیا

جنگ لاہور: 11 اکتوبر 1992ء … رپورٹر اظہر سہیل کی فائل کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آرمی کمان نے حکومت کو دستاویزی ثبوت پیش کئے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم جناح پور کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس میں حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، کراچی اور بالائی سندھ کے وہ تمام علاقے شامل ہیں جو تیل سے مالا مال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ہونیوالی کور کمانڈر میٹنگ میں اس معاملے پر بات چیت کی گئی اور حکومت کو تمام مواد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا

شاہین صہبائی، جو اس وقت دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر ہیں نے 13 اکتوبر 1992ء کو روزنامہ ڈان کیلئے ایک رپورٹ (اے ہاؤس لوزنگ اٹس ٹیمپر) فائل کی اور اپنی پریس گیلری میں تحریر کیا کہ ”اپوزیشن دباؤ ڈال رہی ہے کہ جناح پور پر بحث کی جائے کیونکہ یہ اردو بولنے والے علاقوں کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا ایم کیو ایم کا منصوبہ ہے“۔
اسی دن دی نیوز میں ٹریژری بینچوں کی جانب سے جناح پور کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ایک تحریک مسترد کئے جانے کی رپورٹ شایع ہوئی۔ دی نیوز میں یہ بھی شایع ہوا کہ اس وقت کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر فاروق لغاری نے کہا کہ وزیراعظم (نواز شریف) جناح پور کی سازش میں ملوث ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت اس ایشو پر تحریک کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ وہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتی۔

روزنامہ ڈان میں 14 اکتوبر 1992ء کے ایم کیو ایم چیف الطاف حسین کا بیان شایع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف جناح پور کی سازش کی تحقیقات سپریم کورٹ سے کرائی جائے۔ اسی اخبار میں 15 اکتوبر کو شایع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) اور جماعت اسلامی نے جناح پور پر بحث کیلئے تحریک التواء پیش کردی

نواز شریف کی حکومت کے ایک اہم وزیر چوہدری نثار علی خان نے 17 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جناح پور کی سازش کا وجود نہیں ہے۔ انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ ”حکومت مہاجروں کے حقوق کو متاثر ہونے نہیں دے گی، یہ بات بے بنیاد ہے کہ ہم نے ایم کیو ایم کے ساتھ کبھی نام نہاد جناح پور پر بات نہیں کی“۔ چوہدری نثار نے اس تاثر کو بھی مسترد کردیا کہ پوری ایم کیوا یم دہشت گرد تنظیم تھی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اچھے اور برے لوگ ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے الطاف حسین سے کہا کہ وہ ایم کیو ایم پر لگائے جانیوالے الزامات کا جواب دیں۔ اسی روز اے این پی کے سربراہ اجمل خٹک نے کہا کہ اس اطلاعات میں کوئی سچائی نہیں ہے کہ ایم کیو ایم نے پاکستان کو توڑنے کیلئے یا جناح پور بنانے کیلئے کوئی منصوبہ بنایا ہے ۔

آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز 19 اکتوبر کے اخبارات میں شایع ہوا جس میں آرمی کی جانب سے جناح پور منصوبے کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی گئی۔ ”آرمی کے پاس نام نہاد جناح پور کے حوالے سے کوئی ثبوت موجود نہیں، یہ واضح کیا جاتا ہے کہ زیر بحث اخباری رپورٹ بے بنیاد ہے۔ آرمی نے حکومت کو ئی دستاویزات یا نقشہ نہیں دیا۔ آرمی کے پاس نام نہاد جناح پور کے حوالے سے کوئی ثبوت بھی دستیاب نہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ یہ معاملہ کور کمانڈر کی میٹنگ میں زیر بحث آیا تھا“۔

لیکن اسی روز بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں دیئے گئے ایک بیان میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر جناح پور سازش کو چھپا رہی ہے اور روز اول سے ایم کیو ایم کی حمایت کر رہی ہے۔ نوائے وقت کے مطابق بینظیر بھٹو نے کہا کہ ایم کیو ایم نامی تنظیم کا مقصد بھارت کی حمایت سے علیحدہ ملک بنانا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو توڑنے کیلئے مالی مدد اور حمایت فراہم کرنے پر نواز شریف کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف الطاف حسین پر الزام عائد کرنا بیکار ہے
دی نیوز 19 اکتوبر کے مطابق بینظیر بھٹو نے کہا کہ ”ان (الطاف حسین) کے پارٹنر، حامی اور رہنما نواز شریف کو جانا چاہئے“۔ اسی دن اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے مبینہ طور پر قومی اسمبلی میں کہا کہ جناح پور کوئی ایشو نہیں اور یہ صرف پیپلز پارٹی کی سوچ ہے۔ تاہم، فاروق لغاری نے اس سازش کے حوالے سے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جناح پور کا منصوبہ سامنے آنے سے ایم کیو ایم کی ریاست مخالف سرگرمیاں سامنے آچکی ہیں جن کی مزید تحقیقات ہونا چاہئیں

دی نیوز میں19 اکتوبر کو ایک رپورٹ شایع ہوئی جس میں آصف علی زرداری نے جناح پور کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اخبار کے مطابق زرداری نے کہا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما کی جانب سے بنائے گئے منصوبے کی تردید بے بنیاد نہیں ہے

دی نیوز 19 اکتوبر کے مطابق سینئر صحافی نصرت جاوید نے اپنی رپورٹ ”کمینے کی آخری پناہ گاہ“ میں بتایا کہ فوجی ترجمان بریگیڈیئر ہارون نے جولائی کے وسط میں کراچی کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو یہ بتایا کہ اس بات کی مصدقہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں کہ ایم کیو ایم کے کچھ رہنما ایک علیحدہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ نمائندہ کراچی میں ہونے والی آرمی بریفنگ میں موجود تھا جہاں اس طرح کے الزامات عائد کئے گئے

اس وقت کے چیف رپورٹر طارق بٹ نے 19 اکتوبر کے دی نیوز میں اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بینظیر بھٹو نے حکومت پر معاملہ چھپانے کا الزام عائد کیا ہے۔ طارق بٹ کی رپورٹ کے مطابق ”جب وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے جناح پور سازش کو پی ڈی اے کی خطرناک سوچ قرار دیا تھا اس وقت اپوزیشن کے ارکان قومی اسمبلی نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بھی اس سازش کا حصہ ہے۔ اسی روز نوائے وقت میں شایع ہونے والی رپورٹ میں بینظیر بھٹو کے حوالے سے کہا گیا کہ فوج نے جناح پور کی سازش بے نقاب کی لیکن حکومت اس ایشو پر خاموش رہی

روزنامہ ڈان میں 21 اکتوبر 1992ء کو شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق الطاف حسین نے حکومت کی تعریف کی۔ رپورٹ کی سرخی کچھ اس طرح تھی: ”جناح پور سازش بے نقاب کرنے پر الطاف حسین نے حکومت کو سراہا“۔ رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم چیف نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت اور اس کی ایجنسیاں اسی موثر اور مثبت رویے کا اظہار کرکے ایم کیو ایم کے خلاف عائد کردہ بے بنیاد الزامات کا جائزہ لیں اور حالیہ آئینی اور سیاسی خصوصاً سندھ کے بحران کے حوالے سے صورتحال بہتر بنائیں

فاروق لغاری نے حکومت کے اس دعوے کی تردید کی ہے [21 اکتوبر] کہ جناح پور پیپلز پارٹی کی سوچ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک طاقتور کمیشن قائم کیا جائے جس میں چاروں صوبائی چیف جسٹس صاحبان شامل ہوں اور یہ کمیشن اس پورے معاملے کا جائزہ لے۔

کئی سال بعد 14دسمبر 1998ء کو دی نیوز میں اسی ایشو پر الطاف حسین کا ایک بیان شایع ہوا جس میں انہوں نے جناح پور کے متعلق اطلاعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ علیحدہ جناح پور کی ریاست ایک منظم سازش تھی جو مہاجر کمیونٹی کو یہ پیغام دینے کیلئے رچائی گئی کہ اگر انہوں نے علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہ کیا تو انہیں نشانہ بنایا جاتا رہے گا
بشکریہ : جنگ

فرزندکراچی لکھتےہیں

اظہرالحق صاحب کو میں کبھی ملا تو نہیں لیکن انٹرنیٹ کے ذریعہ چار پانچ سال سے جانتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی من گھڑت یا جھوٹے واقعات نہیں لکھتے ۔ اظہرالحق صاحب لکھتے ہیں مؤرخہ 28 اگست 2009ء
————————
آج ایک نئی بحث شروع ہوئی تو اپنے آپ کو روک نہیں سکا لکھنے سے ، میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ جو میں سمجھتا ہوں اسے اپنے ہم وطنوں تک پہنچاؤں ، میں نے اپنا بچپن اور جوانی کراچی میں گذاری ۔ میں کوشش کروں گا اپنے اس مضمون کو مختصر رکھنے کی ، یہ بات ہے کے 1984ء اواخر کی ، ملک میں مارشل لاء تھا مگر عوام کے لئے ایک “مرد مومن“ کی حکومت تھی ، ناظم صلات (نمازوں کو پڑھوانے والے ) کا دور تھا ، ہر طرف فوج کے جلوے تھے ، بین الاقومی سٹیج پر روس بکھر رہا تھا ، امریکہ افغانی مجاہدین کے لئے مدد دے رہا تھا ، اور پاکستان “اخوت اسلامی“ کے ریکارڈ توڑتے ہوئے لاکھوں “بے سہارا“ افغانوں کی مدد سے کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر میں خود کفیل ہو رہا تھا ۔ ایسے میں کراچی کے کالجوں میں ابھرتی ہوئی ایک تنظیم جو کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اس نسل میں سے تھی جس نے اپنی آنکھ ہی اس آزاد ملک میں کھولی تھی ، جسے اس شہر میں ہی نہیں اس ملک میں ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار قوم سمجھا جاتا تھا ، جس میں حکیم سعید جیسے سپوت تھے ، جس میں سلیم الزماں صدیقی جیسے سائینسدان تھے جس میں رئیس امروہی جیسا شاعر اور بجیا اور حسینہ معین جیسی لکھاری تھیں ۔ ۔ ۔ اسی قوم کے جوانوں کی ایک تنظیم تھی اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنازئیزشن ، اور یہ کوئی خاص بات نہ تھی کہ اسی شہر کے کالجوں میں اور یونیورسٹیز میں پی ایس اے (پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوی ایشن) اور پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن ، کشمیر اسٹوڈنٹ فیڈریشن جیسی تنظیمیں موجود تھیں تو کسی کو ایک اور “قومی“ تنظیم پر اعتراض کی وجہ نہیں بنتی تھی ، اور پھر ان سب سے بڑھ کر کراچی کے کالجوں میں جمعیت اور پیپلز اسٹوڈنڈنٹس جیسی سیاسی طفیلیے بھی موجود تھیں اور لسانی تنظیمیں بھی تھیں جن میں سرائیکی اور سندھی تنظیمیں تھیں

یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مہاجر اسٹوڈنڈنٹس کا ابھرنا کوئی خاص بات نہ تھی ، یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب طلباء تنظیموں پر پابندی تھی مگر در پردہ انکی آبیاری بھی کی جاتی تھی ، اے پی ایم ایس او سے بھی پہلے جمیعت کے جھگڑے مشہور تھے اور کالجوں میں سب سے زیادہ اسلحہ بھی اسی تنظیم کے پاس تھا ، کیونکہ شہری حکومت بھی جماعت اسلامی کی تھی اس لئے اسکی ذیلی تنظیموں پاسبان اور جمیعت کی اجارہ داری تھی ، میں ان لوگوں کو کنفیوز لوگ سمجھتا تھا اور ہوں کیونکہ یہ لوگ نہ تو مذہبی بن سکتے ہیں اور نہ ہی سیکولر ، اس وجہ سے انکے نظریے میں ہمیشہ ایک خلا رہتا ہے ، جبکہ انکے مقابلے میں آنے والی تنظیم نظریاتی طور پر مستحکم تھی اور اسکی سمت معین تھی ،

یہ ٨1980ء کے عشرے کا درمیانی وقت تھا ، ہمارے افغانی “اسلامی“ بھائی سارے ملک میں منشیات اور اسلحہ پھیلا چکے تھے ، اور ہمارے حکمران افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے ایسے میں کراچی جو ایک چھوٹا پاکستان تھا جس میں پنجابی سندھی بلوچی پٹھان اور کشمیری اپنے اردو سپیکنگ ہم وطنوں کے ساتھ رہ رہے تھے ، اس پر سازش رچی گئی اور سازش کے لئے ہراول دستہ بنا ایم کیو ایم ، جو ایک فلاحی تنظیم کے طور پر ابھری تھی اور اسکی بنیاد تھی اسکی طلبہ تنظیم ، جنہوں نے بچت بازار لگائے تھے اور پھر مختلف اداروں میں اپنا نظریہ پھیلا دیا ،

کوئی بھی جماعت یا تنظیم اس وقت ہی مقبولیت حاصل کر لیتی ہے جب اسے مظلوم ثابت کر دیا جائے ، ایسا ہی ہوا ایم کیو ایم کے ساتھ ، اسے ہمارے حکمرانوں نے کندھا دیا اور کراچی “جئے مہاجر“ کے نعروں سے گونجنے لگا ، اور لوگوں کو ایک مسیحا نظر آیا “الطاف حسین“ ، جو عوام کے اندر سے اٹھا ، عام سا آدمی جو کسی بڑی گاڑی کے بجائے ایک ہنڈا ففٹی میں اپنی سیاست کرتا ، وہ عام لوگوں میں مل جل جاتا اور عوام اسے اپنے میں سے ہی سمجھتے ، پھر جسے اپنا سمجھتے اسکا حکم بھی مانتے ، اور پھر ہنڈا ففٹی ایک مقدس چیز بن گئی ، شاید بہت لوگوں کے علم میں ہو گا کہ کراچی کے ایک بڑے جلسے میں لوگوں نے اس ہنڈا ففٹی کو چوم چوم کر چمکا دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان کی بدقسمتی کہیئے یا پھر قانون قدرت کہ جو بار بار یہ سمجھاتا ہے کہ اقتدار کے طالب ایک دن ذلت کی موت مرتے ہیں ، ایسے ہی ہوا ۔ ١1988ء میں جب مرد مومن “شہید اسلام“ بن گیا ، اسلام کے اس سپاہی نے جو کارنامے انجام دئیے انکا شاخسانہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں ، منشیات اور کلاشنکوف سے لیکر لسانی سیاست تک سب اسی دور کے پھل ہیں ، مگر اس کے بعد جو اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تو اگلے دس سال تک ایک میوزیکل چئیر کھیلا جانے لگا ، ایسے میں ہی کراچی کے “قائد عوام“ نے ان سب چیزوں کا فائدہ اٹھایا اور کراچی میں نو گو ایریا [No-go Areas] بن گئے ، قائد کے غداروں کو بوری میں بند کیا جانے لگا ، اخبارات میں انسانوں کی مڑی تڑی لاشوں کی تصویریں چھپنے لگیں ۔۔ ۔ اور پھر ہم بے حس ہو گئے ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ بن گئی ، جو ہر آنے والی حکومت کو بلیک میل کرتی ،

پتہ نہیں لوگ کیوں بھول گئے کہ جب الطاف بھائی کی تصویریں آسمان سے لیکر پتے پتے پر جم رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ جب فوج کے سپاہی عزیز آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو پتھروں اور گولیوں سے انکا استقبال ہوتا ، لوگ کھجی گراؤنڈ کو کیوں بھول گئے پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر شہر کے اندر یہ ہولی کھیلی جا رہی تھی ادھر شہر کے مضافات میں اسلحے اور منشیات کے ڈیلر اپنے اڈے مضبوط کر رہے تھے ، انہوں نے سہراب گوٹھ سے لیکر ناتھا خان کے پُل کے نیچے تک اپنے گاہک پیدا کر لئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

ضیاء الحق کے بعد تو کراچی میں وحشت کا راج ہو گیا تھا (میں نے جان بوجھ کہ وحشت لکھا ہے دھشت میں انسان صرف خوف کا شکار ہوتا ہے مگر ان دنوں کراچی کے لوگ وحشی بن چکے تھے ) جن لوگوں نے گولیمار اور سہراب گوٹھ کے واقعات کی وڈیوز دیکھی ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ میں نے وحشی کیوں کہا ، مجھے وہ رات آج بھی یاد ہے جب شاہ فیصل کالونی میں فساد ہوا تھا ، گرین ٹاؤن گولڈن ٹاؤن اور الفلاح سوسائٹی میں لوگ بازار جلا رہے تھے اور پھر رات ایک بجے کے قریب ہمیں شاہ فیصل کالونی کی جانب سے گولیوں کی آوازیں سنائیں دیں اور ان آوازوں سے بلند عورتوں اور بچوں کی چیخیں تھیں ، جو ایک عرصہ تک میرے کانوں میں گونجتی رہیں ۔ ۔

وہ شخص وحشی ہی تھا نا جس نے شیر خوار بچوں کو چیر دیا تھا ۔ ۔ ۔ وہ آدمی کیسا تھا کہ جسکی لاش کے ساتھ یہ لکھا ملا کہ قائد کے غداروں کا یہ ہی انجام ہوتا ھے ۔ ۔ ۔ کیا ہماری لائبریریوں میں اس وقت کے اخبار موجود نہیں ؟ جن میں سب جھوٹ تھا مگر کیا ایک سچ بھی نہیں مل سکتا ۔ ۔ ۔ جذبات بہت ہیں مگر کیا کہوں کہ انسان کو جلتے دیکھا ہے جلاتے بھی دیکھا ہے ، بندوقوں سے بچوں کو بہلاتے بھی دیکھا ہے

خیرکرفیو لگا ، انتخابات ہوئے ، یہ کیسے انتخابات تھے ، کہ کراچی میں رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ ڈلے ، یہ کیسے انتخابات تھے کہ جن میں جیتنے والے اور ہارنے والوں کے درمیان لاکھوں کا فرق تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر کراچی میں آگ لگتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایم کیو ایم نے چولے بدلنے شروع کئے ، انہیں پتہ لگ گیا تھا کہ حکومت میں رہنے کا گُر کیا ہے ، کسی کی بھی حکومت آئے ، ایم کیو ایم اسکے ساتھ رہے گی ،

ایم کیو ایم کو کیا چاہیئے تھا ، حکومت اور شہید ، دونوں اسے ملتے رہے ، اور ابھی تک مل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم نے ساحر لدھیانوی کے اس شعر کو سچ کر دیکھایا ہے کہ
برسوں سے رہا ہے یہ شیوہ سیاست
جب جواں ہو بچے ہو جائیں قتل

یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور چلتا ہی رہے گا ، اس جماعت کی بنیاد ایک لسانی تنظیم تھی اور آج تک ہے ، الطاف حسین ایک ایسی مچھلی ہے جس نے اپنی قوم کے تالاب کو اتنا گندہ کر دیا ہے جسے صاف کرنے میں شاید ایک صدی لگے ۔ ۔ ۔ الطاف حسین کو اپنی قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ، وہ اس کمزور عورت (بے نظیر بھٹو) سے بھی کمزور ہے جو سب جاننے کے باوجود واپس آئی ، اور اپنی جان تک قربان کر دی ، مگر شاید الطاف حسین جو دوسروں کو چوڑیاں پہننے کا اکثر مشورہ دیتے ہیں ، خود چوڑیاں پہن کہ بیٹھے ہیں ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔ بقول شاعر ،
قوم پڑی ہے مشکل میں اور مشکل کشا لندن میں ۔ ۔

بات کہاں کی کہاں نکل گئی ، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں ، الگ ریاست کا خواب ایم کیو ایم کا اس وقت کا خواب ہے جب وہ مہاجر قومی موومنٹ تھی ، اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 1984ء سے پہلے کراچی کے تمام اداروں میں اردو سپیکنگ نہ صرف اچھی سروسز اور پوزیشنز پر موجود تھے بلکہ بہت اچھی شہرت بھی رکھتے تھے ، کراچی کے “بھیئے“ سب قوموں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ، انکی آپس میں رشتے داریاں تھیں ۔ ۔ ۔ دوستیاں تھیں ۔ ۔ ۔ یہ ایم کیو ایم نے ہنستے کھیلتے کراچی کو کیا بنا دیا ۔ ۔؟؟؟

ٹھیک ہے انہیں استعمال کیا گیا مگر جب وہ لوگ اقتدار میں آئے تو انہیں خود کو بدلنا چاہیئے تھا ، یہ شاید 1990ء کے بعد کی بات ہے جب میری ملاقات ہوئی تھی ایڈمینسٹریٹر کراچی فاروق ستار سے ، میں سوچتا تھا کہ یار یہ بندہ تو بہت اچھا ہے ، جو عام لوگوں میں گھل مل جاتا ہے ، ان دنوں جب ٹارگٹ کلنگ عام تھی فاروق ستار جب بھی کہیں جاتے تو وہ آگے چلتے اور اتنا تیز چلتے کہ دوسرے لوگ انکا ساتھ نہیں دے پاتے ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ ایم کیو ایم کو بہتر وقت دے سکتے مگر شاید وہ اپنی جماعت کے پابند تھے ۔ ۔ اور اسی وجہ سے انکے بعد جماعت اسلامی نے کراچی کو “فتح“ کیا ۔ ۔ ۔ اور اپنے مئیر کو لا سکی ۔ ۔ ۔ اور جماعت اسلامی نے وہ ہی غلطیاں کیں جو اقتدار کے لالچی لوگ کرتے ہیں ، اور ان سے حکومت چھن گئی ۔ ۔ ۔ گو انکے منصوبے اچھے بنے تھے مگر انکا افتتاح کسی اور نے کیا ۔ ۔ ۔

مختصر یہ کہ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ سے ایک قومی جماعت بنی ، اس جماعت کا اور منشور اپنی جگہ مگر ایک شق لازمی ہے ، وہ ہے فوج کی کردار کُشی ۔ ۔ ۔ اور یہ پہلے دن سے یہ ہی چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور ابھی تک چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شاید چلتا رہے گا ۔۔ کیونکہ “قائد“ لندن میں رہیں گے اور قوم ٹیلی فونک خطاب سنتی رہے گی

عِلم والے

ایک عیسائی بادشاہ نے مندرجہ ذیل سوالات عمر رضی اللہ عنہ کو ارسال کئے اور ان کا جواب مانگا

1 ۔ ایک ماں کے شِکم سے دو بچے ایک ہی وقت ایک ہی دن پیدا ہوئے اور اُن کا ایک ہی روز انتقال ہوا ۔ ایک کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے ۔ یہ کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟

2 ۔ وہ کون سی زمین ہے جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک وقت سورج نکلا ۔ نہ پہلے کبھی نکلا اور نہ آیئندہ کبھی نکلے گا ؟

3 ۔ وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی ۔ قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر سے باہر آیا اور زندہ رہ کر فوت ہو گیا ؟

4 ۔ وہ کونسا قیدی ہے جس کے قیدخانے میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لئے زندہ ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جوابات لکھ دیں ۔

جوابات

1 ۔ دو بھائی عزیز علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عزیر علیہ السلام پر ایک سو سال موت طاری رکھی پھر زندہ ہو کر گھر گئے ۔ کچھ دن زندہ رہ کر اپنے بھائی عزیز علیہ السلام کے ساتھ فوت ہوئے

2 ۔ وہ زمین دریائے قلزم کی تہہ ہے موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو فرعون سے بچانے کیلئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم سے سورج نے بہت جلد خُشک کر دیا ۔ اس کے بعد پانی پھر بھر گیا اور فرعون مع اپنی فوج کے غرق ہو گیا

3 ۔ وہ مدفون اور قبر جو دونوں زندہ تھے یونس علیہ السلام اور مچھلی تھے ۔ مچھلی نے یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا اور سمندر یا دریا کی سیر کراتی رہی

4 ۔ جو قیدی سانس نہیں لیتا وہ ماں کے شِکم میں بچہ ہے ۔ اللہ نے ماں کے شکم میں بچے کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا

یہ جوابات پاکر عیسائی بادشاہ بولا “”شاید ابھی مسلمانوں میں کوئی نبی زندہ ہے کیونکہ یہ جوابات نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں بتا سکتا” [احسن القصص صفحہ 262]

يکجہتی ؟

سیّد عدنان کاکا خیل نے مئی 2006ء کے سٹوڈنٹ کنوینشن میں جنرل پرویز مشرف کے سامنے پُراعتمادی کے ساتھ حقائق بیان کر ديئے تھے ۔ مجھے سیّد محمد حنیف شاہ صاحب نے عدنان خان جدون کی تقریر کا بتایا جو حالاتِ حاضرہ کے عین مطابق ہے اور بہت غور طلب ہے

رمضان کا احترام

ہم اگست 1964ء سے قبل جھنگی محلہ راولپنڈی رہتے تھے تو رمضان مبارک میں ایک میری عمر کا لڑکا کہا کرتا “یہ روجہ سے ہیں”۔ دراصل وہ کہتا تھا “يہ روز جیسے ہیں” یعنی روزہ رکھنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ یہ بات آج تک اسلئے نہیں بھولی کہ ہر سال میں اس بات کو سچا پاتا ہوں ۔ اگر رمضان میں فرق دیکھتا ہوں تو کھانے پینے کی اشیاء کا ہوتا ہے ۔ روزہ رکھ کر لوگ سب اچھا بُرا اُسی طرح کر رہے ہوتے ہیں جس طرح عام دنوں میں کرتے ہیں

کچھ غور طلب باتیں

1 ۔ رمضان کوئی تہوار نہیں بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنی تطہیر کا موقع دیا ہے ۔ روزہ اسلئے نہیں رکھنا چاہیئے کہ اردگر سب کا روزہ ہے یا نہ رکھوں گا تو لوگ کیا کہیں گے بلکہ یہ حدیث یاد رکھنا چاہیئے ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا “تباہی ہو اُس پر جس نے ماہِ رمضان پایا اور اُس کی بخشش نہ ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر آمین کہا”
2 ۔ رمضان میں ویسا ہی کھانا پینا چاہیئے جیسا سارا سال کھاتے پیتے ہیں ۔ رمضان اچھی ماکولات کھانے یا اچھے مشروب پینے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی بہت زیادہ کھانے پینے کا نام ہے
3 ۔ رمضان کے دوران کوشش کرنا چاہیئے کہ زیادہ وقت نماز اور تلاوت پر لگایا جائے نہ کہ ماکولات اور مشروب تیار کرنے میں ۔ اگر ساری نمازیں نہ پڑھی جائیں تو صرف ستائیسویں رات کی نماز کوئی فائدہ نہیں دے گی
4 ۔ سونے کیلئے گیارہ ماہ کافی ہیں ۔ رمضان میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور تہجد بھی پڑھنا چاہیئے اور جتنا ہو سکے تلاوتِ قرآن شریف بھی کرنا چاہیئے ۔ یہ برکات کا مہینہ ہے اس کا ایک پل ضائع نہیں ہونا چاہیئے
5 ۔ رمضان کا روزہ فاقہ کشی نہیں ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور وہ سب کچھ کرتے رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے
6 ۔ سحری کھانا چاہیئے ۔ اگر کسی وجہ سے دیر ہو جائے تو پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے ۔ اور اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بھی روزہ پورا کرنا چاہیئے ۔ اگر روزہ نہ رکھا تو کفارہ لازم ہو گا
7 ۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ۔ تاخیر سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ اگر گھر سے باہر ہوں اور ڈر ہو کہ روزہ ایسی جگہ افطار ہو جائے گا جہاں افطار نہ کیا جا سکے تو اپنے پاس افطار کیلئے کچھ رکھ لینا چاہیئے
8 ۔ افطار کے وقت اتنی دیر تک نہیں کھاتے رہنا چاہیئے کہ مغرب کی نماز ہی قضا ہو جائے ۔ افطاری پارٹیوں میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے
9 ۔ روزہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے رکھنا چاہیئے ۔ اس خیال کو دل میں جگہ نہیں دینا چاہیئے کہ سلِمِنگ ہو جائے گی
10 ۔ کسی کا روزہ افطار کرانا خواہ وہ رشتہ دار یا دوست ہو ثواب کا کام ہے لیکن شان و شوکت کیلئے افطاری پارٹی کرنا گناہ بن سکتا ہے کیونکہ اللہ نے نمائش اور اسراف دونوں سے منع فرمایا ہے

خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

میں نے 20 اگست 2009ءکو جو طریقہ تفتیش کی جھلکیاں پیش کی تھیں ان سے یہ تاءثر پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ خُفیہ ادارے نظامِ حکومت کا مُضر عضو ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ تفتیش کرنے والے اداروں کا اصل کردار عوام سے مخفی رہتا ہے جو اندیشوں کا سبب بنتا ہے ۔ ان اداروں میں عام طور پر سب سے گھناؤنا کردار پولیس کا محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اچھے یعنی مفید پہلو موجود ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں پولیس کے ملازمین نے وطن یا ہموطنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی ۔ پولیس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ قابض انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے شہریوں کی بہتری کی بجائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے بنایا تھا اور اسے آج تک عوام دوست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان یا دوسرے اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لوگ یہ بھُول جاتے ہیں کے ان میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس کا نقاد خود ہے

پولیس کے تین خُفیہ ادارے ہیں ۔ فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی[ایف آئی اے] انٹیلی جینس بیورو [آئی بی] اور کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] ۔ مسلحہ افواج کے ادارے ہیں ملٹری انٹیلی جنس [ایم آئی] انٹر سروسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] ۔ سروسز انویسٹیگیشن بیورو [ایس آئی بی] اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ [ایف آئی یو] ۔ یہ سب ادارے قومی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے اور انہوں نے عام طور پر خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔ حَکمرانوں نے ان اداروں کے افراد کو غلط کاموں پر لگا کر ان کا چہرہ مسخ کیا اور بعض اوقات ان سے قوم دُشمن کام بھی لئے ۔ پولیس کو تو عام طور پر اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔ مسلحہ افواج کا ایک ادارہ جو ایف آئی یو کہلاتا ہے اسے بھی بعض اوقات غلط استعمال کیا گیا ۔ یہ بھولنا نہیں چاہیئے کہ معاشرہ بھی بتدریج بہت بگڑا اور یہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں

میرا پہلا واسطہ ایک خفیہ ادارے سی آئی ڈی سے اُس وقت پڑا جب میں 1962ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرنے کیلئے درخواست دی ۔ ایک دن سہ پہر کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا اور والد صاحب کا پوچھا وہ گھر پر نہیں تھے تو کہنے لگا “آپ اُن کے بیٹے ہیں ؟” میرے ہاں کہنے پر بولا “ایس ایس پی صاحب نے بُلایا ہے ۔ آپ سے کوئی بات کرنا ہے”۔ میں چلا گیا ۔ ایسی ایس پی صاحب کا گھر قریب ہی تھا ۔ میرا نام اور کام پوچھنے کے بعد کہنے لگے “تم انجنیئر ہو نا ؟” میرے ہاں کہنے پر بولے “آپ نے جو نوکری شروع کرنا ہے وہاں سے آپ کے متعلق انکوائری آئی ہے ۔ میں نے آپ کے متعلق اُس وقت انکوائری کی تھی جب آپ انجنیئرنگ کالج لاہور داخل ہوئے تھے ۔ کسی نے درخواست دی تھی کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ بھوپال کے رہنے والے ہیں اور آپ نے جموں کشمیر کی بنیاد پر داخلہ لیا تھا ۔ مجھے تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور داخلہ آپ نے میرٹ پر لیا تھا ۔ میرے پاس آپ اور آپ کے خاندان کی سب معلومات موجود ہیں اسلئے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھوپال صاحب کو بتا دینا کہ میں نے بُلایا تھا ۔ سب ٹھیک ہے”۔ میں واپس گھر آیا تو محلہ میں شور برپا تھا کہ اجمل بابو کو پولیس والا لے گیا

اس کے بعد ملازمت کے دوران مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی سے اتنا واسطہ پڑتا رہا کہ کئی فوجی افسران سے دوستی ہو گئی ۔ میں نے عام طور پر اُنہیں معقول پایا ۔ کبھی کبھی سرپھروں سے بھی واسطہ پڑا اور میرا خاصہ اُن کے ساتھ دنگل پڑا لیکن اللہ کی کرم نوازی کہ اخیر فتح سچ کی ہوتی رہی

جب ان اداروں میں سیاسی بلکہ ذاتی بنیاد پر عہدیدار ڈالے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ حُب الوطنی کی بجائے خودغرضی اپنا لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ پھر اصل کی بجائے وہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں جن سے وہ صاحب خوش ہوں جنہوں نے اُنہیں وہاں تعینات کیا ہے ۔ بدنامی کی بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے ۔ ان اداروں سے یہ کام صرف ملک کے فوجی آمروں ہی نے نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے منتخب شدہ سربراہوں نے بھی لیا

میرے مشاہدہ کے مطابق مختلف ادوار میں کئی بار آئی ایس آئی کے عہدیداران نے بہت حُب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی محنت اور عقلمندی سے معاملات نمٹائے اور غیرمحسوس طریقہ سے بڑے بڑے کام کئے ۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آئی ایس آئی کا ادارہ وطنِ عزیز کی صحت کیلئے ایک امرت دھارے کا کام کرتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس ادارے میں خدمات انجام دینے والے سب فرشتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کی اکثریت محبِ وطن ہے ۔ یہ ملکی صحت کیلئے ایک فعال اور ضروری ادارہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اس ادارے نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی متعدد بار اپنے ملک کی ساکھ کو مضبوط بنایا ہے اور کچھ ممالک میں پاکستان دُشمنی کو پاکستان دوستی میں بدلا ہے ۔ میں ہوائیاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں