اب سمجھ آئی امریکہ کیسے دریافت ہوا تھا

مجھے ایک کارٹون یاد آ گیا ہے جو میں نے رسالہ تعلیم و تربیت میں اُن دنوں دیکھا تھا جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا [1951ء]
ماں بچے سے ” بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو”
بچہ ماں سے”ماں ۔ اور سوچنے سے پہلے ؟”
ماں ” یہ سوچا کرو کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں ”

میں نے یکم جولائی 2009ء کو تمام قارئین کی خدمت میں ایک تحریر پیش کی تھی جس میں نے گوگل کا ربط دیا تھا ۔ اس کا پہلا فقرہ ملاحظہ ہو

میں مخاطب ہوں اُن قارئین و قاریات سے جن کے کمپیوٹر پر اُردو نصب [install] نہیں ہے یا اُن کے کمپیوٹر کا کلیدی تختہ [keyboard] اُردو نہیں لکھتا اس لئے پریشانی اُٹھانا پڑتی ہے یا وہ مجبور ہو کر انگریزی حروف [English letters] میں اُردو لکھتے ہیں جسے رومن اُردو [Roman Urdu] بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ سب کی مُشکل اللہ نے آسان کر دی ہے ۔ آپ مندرجہ ذیل ربط کو اپنے پاس محفوظ کر لیجئے

اس پر شاید صرف 4 قارئین [ منیر عباسی ۔ سعود اور احمد صاحبان اور شاہدہ اکرم صاحبہ] سوا کسی نے توجہ نہ دی چنانچہ چند ہفتوں کے وقفہ سے کچھ حضرات نے باری باری اسے دریافت کر کے قارئین کو آگاہ کیا

ہماری فوج کے “القاعدہ عمومی” پر “کرائے کے قاتلوں” کی طالبان کے تخیّلی اور فوج کے ظاہری بہروپ میں یلغار ایک افسوسناک واقع ہے کیونکہ اس میں ہمارے 11 محبِ وطن کام آئے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہونا چاہیئے کہ ہمارے ملک کے پاسبانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اپنا فرضِ منصبی احسن طریقہ سے انجام دیا ۔ میں نے انگریزی کے لفظ “جنرل ہیڈ کوارٹر” کا ترجمہ “القاعدہ عمومی” اس لئے کیا ہے کہ اس عام سے بے ضرر لفظ کو مسلم دُشمن دنیا نے اپنے ذرائع ابلاغ کے زور سے سفّاک مُجرم بنا کے رکھ دیا ہے

ماضی کی طرح حملہ کی خبر نکلتے ہیں “طالبان” “طالبان” کا شور اُٹھا اور کْرّہ ارض پر چھا گیا ۔ امریکہ اور یورپ والے بھی جانتے ہیں مگر میرے ہموطنوں میں سے کون ہے جو طُلباء یا طالبان کا مطلب نہیں جانتا ؟ یہ الگ بات ہے کہ دورِ حاضر کے باعِلم ہموطن آجکل “طلباء” کو “طلبہ” لکھتے ہیں

آمدن برسرِ مطلب [ماضی میں اعتراض ہوا تھا کہ آمدم ہونا چاہیئے۔ آمدم کا مطلب ہے “ہم آئے” يعنی ایک سے زیادہ لوگ آئے ۔ دوسرے یہ ماضی کا صیغہ ہے اور آمدن بسرِ مطلب کے معنی ہیں “آنا مطلب کی طرف”] ۔ دورِ حاضر میں “طالبان” نام دیا گیا ہے دینی مدارس کے فارغ التحصیل کو اور فرض کر لیا گیا ہے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل جاہل اور دہشتگرد ہوتے ہیں ۔ اگر یہ تشریح جو بے بنیاد ہے کو مان بھی لیا جائے تو جو شخص کبھی دینی مدرسہ گیا ہی نہ ہو وہ کیسے طالبان ہو گیا ؟ ایک اور بھی اصطلاح ہے دورِ حاضر کے سندیافتہ لوگوں کی جس میں پی ایچ ڈی بھی شامل ہیں کہ پاکستان کے پختون قبائلی دہشتگرد ہیں ۔ کوئی بھی واقعہ ہو اسے اُن سے جوڑنے میں تاخیر کو شاید حرام سمجھا جاتا ہے ۔ آج تک کسی نے سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ واردات کرنے والوں کی پہچان کیا ہے ۔ بس ایک اعلان آتا ہے طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ سب کو تسلی ہو گئی اور پھر استراحت فرمانے لگے یا ضیافتیں اُڑانے لگے ۔ ذمہ داری قبول کرنے والا درحقیقت کون ہے اور اُس کا آقا کون ہے ؟ اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہمیں صرف ایک بیان چاہیئے ہوتا ہے

سب سے پہلا حملہ پاکستان کی سپاہ پر پرویز مشرف کے زمانہ میں ہوا تھا ۔ اُس کے ردِ عمل میں کاروائی کی گئی تو 9 حملہ آور مارے گئے ۔ وہ نہ مسلمان تھے نہ یہودی کیونکہ اُن کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور قبائلیوں نے انہیں نہلانے اور دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس بات کو سختی سے دبا دیا گیا ۔ اور آج تک بار بار حقائق کو دبا کر تمام گندگی طالبان اور القاعدہ کے ناموں پر گرائی جا رہی ہے ۔ اور ايسا کرنے پر میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن جن میں کچھ بلاگر اور میرے قارئین بھی ہیں فاتحانہ انداز اختیار کرتے ہیں

یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ لاہور میں سری لنکا کے کھلاڑیوں اور اب جی ایچ کیو پر حملہ دونوں کمانڈو حملے تھے اور ان دونوں میں تمام تر دعووں کے باوجود نہ کوئی پختون قبائلی تھا نہ طالبان ۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کا تعلق پنجاب ۔ سرحد [قبائلی علاقہ نہیں] اور سندھ سے ہے

یقین

بِلُو بِلا صاحب نے “کرتوتوں کی سزا” کے عنوان کے تحت ایک رکشا والے کی بات بیان کی تو مجھے ایک اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آیا لیکن پہلے میں یہ بتا دوں کہ یقین کسے کہتے ہیں ۔ یقین یا ایمان ایک ہی عمل کے دو نام ہیں ۔ آج دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمان ہیں مگر بے کس اور مجبور ۔ ہر مسلمان دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات بھاری اکثریت کے صرف ہونٹوں یا زیادہ سے زیادہ زبان کی نوک سے آگے اندر نہیں جاتی ۔ دل و دماغ میں یقین غیراللہ پر ہوتا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی مدد کیلئے پکارے اور مدد نہ آئے

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آدھی صدی کے قریب پرانا واقعہ ہے ۔بارشں نہیں ہو رہی تھی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کئی دن تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے ۔ خشک سالی کا اندیشہ تھا جس کا نتیجہ قحط ہو سکتا تھا ۔ راولپنڈی کی مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بتایا گیا کہ شہر سے باہر پیدل جا کر پڑھی جائے گی ۔ ایک اجتماع ہیلی واٹر ورکس جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے موسوم ہوا کے قریب اور دوسرا ٹوپی رکھ میں جو بعد میں ایوب نیشنل پارک کے نام سے موسوم ہوئی ۔ یہ راولپنڈی کی دو اطراف تھیں آبادی سے باہر ۔ مرد اور لڑکے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ اس وقت کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی ٹوپی رکھ پہنچے ۔ میں دوسروی طرف یعنی ہیلی واٹر ورکس کی طرف گیا ۔ وہاں اتنے لوگ تھے کہ دور دور تک زمین نظر نہ آتی تھی ۔ نہ کوئی لاؤڈ سپیکر تھا اور نہ کوئی صف بچھی تھی ۔ کرتار پورہ کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحکیم صاحب جو ہمارے سکول میں اُستاذ رہ چکے تھے اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے نے امامت کرائی ۔ نماز کے بعد دعا شروع ہوئی ۔ اتنی خاموشی تھی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کہ دور دور تک آواز سنائی دی ۔ امام رو رہے تھے اور مقتدی بھی سسکیاں لینے لگے ۔ نہ ہمیں وقت کا احساس ہوا نہ پتہ چلا کہ کب بادل آئے ۔ دعا ختم ہونے پر گھروں کا رُخ کیا ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی گھر پہنچنے تک تیز بارش شروع ہو چکی تھی

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں بھی نمازِ استسقاء پڑھی گۓي تھی مگر ایوانِ صدر میں اور مساجد میں ۔ نہ کوئی گڑگڑایا نہ کسی نے آنسو بہائے اور بادل بھی شاید دور قہقہے لگاتے رہے ہوں مگر قریب نہ آئے ۔ ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے

کیسا صنم

قارئین میری خُشک تحاریر پڑھ پڑھ کر مکھن کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے ۔ سوچا کہ کچھ تَری کا بندوبست کیا جائے ۔ میں صرف اپنے خاندان و برادری ہی میں نہیں اساتذہ ۔ ہم جماعت لڑکوں اور دوسرے ساتھیوں میں خوش مزاح اور ہنس مُکھ جانا جاتا تھا ۔ پچھلے آٹھ سالوں کے مُلکی حالات نے میری حِسِ مزاح اتنی مجروح کر دی ہے کہ ہلکا پھُلکا سُوجھنا ہی مُشکل ہو گیا ہے ۔ کچھ دن قبل ایک پرانے ساتھی کے یاد دِلانے پر ایک سکول کے زمانہ کی چیز یاد آئی

سُنا ہے صنم کی کمر ہی نہیں ہے
نہ جانے وہ دھوتی کہاں باندھتی ہے

میری صنم کی نزاکت تو دیکھو
چھَپَر پہ بیٹھی جُوئیں نکالتی ہے

کیوں نہ ہوں میری صنم پر مکھیاں فدا
کھاتی ہے ریوڑیوں اورگَچَک بہت زیادہ

ملنے جائیں ہم صنم سے کیسے
کہ اُس کی گلی کا کُتا کاٹتا ہے
کریں ٹیلیفون ہم صنم کو
اُس کا ابا ہمیں ڈانٹتا ہے

مہمان خانہ

میرے ہموطنوں بالخصوص شہروں میں بسنے والوں نے غیروں کی نقالی میں ایسی دوڑ لگائی کہ اپنی ثقافت سے بیگانہ ہو گئے ۔ ہماری دیرینہ ثقافت کے ایک جُزو سے متعلق ایک تحریر نظر پڑھی تو اسے آگے بڑھانے کا موقع ضائع کرنا اپنے آپ سے زیادتی محسوس ہوا ۔ میری خواہش ہے کہ جو کمی میں چھوڑ دوں اُسے دوسرے بلاگر یا قارئین پُر کریں

عنیقہ ناز صاحبہ کی ڈرائنگ روم کے حوالے سے تحریر میں اگر ڈرائنگ روم کی بجائے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ مہماناں یا ڈیرہ لکھ دیا جاتا تو کچھ بات بنتی ۔ ڈرائنگ روم جن کی زبان کا لفظ ہے اُن کے ہاں تو ایسا الگ تھلگ کمرہ صرف ان کا ذاتی سونے کا کمرہ ہی ہوتا ہے ۔ اُنہی کی نقّالی کو ترقی کی نشانی سمجھتے ہوئے ميرے کئی ہموطنوں نے مہمان خانہ اور کھانے کا کمرہ ملا کر اس کا نام ڈائیننگ ڈرائینگ [Dining Drawing] رکھ دیا۔

عنيقہ ناز صاحبہ لکھتی ہیں “یہ حصہ ہمہ وقت صاف ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ آپکے حسن ذوق کا آئینہ دار بھی بن جائے”
اور ساتھ ہی لکھتی ہیں “گردش دوراں نے اسے کسی کی سماجی حیثیت کا آئینہ دار بنا دیا”

حسنِ ذوق کے دو حصے ہوتے ہیں
ايک ۔ سليقہ
دوسرا ۔ مادی
سلیقہ کیلئے مناسب تربیت ضروری ہے اور مادی حصہ کٰی تکمیل دولت کے بغیر ممکن نہیں ۔ میں تمام تر ذوقِ لطافت کے ہوتے ہوئے آج تک اپنے مہمان خانہ کو اپنے حُسنِ ذوق کا آئینہ دار نہ بنا سکا ۔ سبب صرف فالتو دولت کا نہ ہونا تھا

عنیقہ ناز صاحبہ مزید لکھتی ہیں
“اور ایسے ڈرائنگ روم وجود میں آگئے جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظر اٹھتے ہی ایسے نظاروں میں کھو جاتی ہے جو اپنے ساتھ احساس محرومی، احساس کمتری، احساس کمزوری، احساس دوری، احساس مجبوری اور اس جیسے بہت سے دوسرے احساسوں کو لیکر پلٹتی ہے”

یہ درست ہے کہ کچھ مہمان خانوں میں جا کر محسوس ہوتا ہے کہ کسی چھ ستاروں والی سرائے [Six Star Hotel] میں لگی نمائش میں آ گئے ہيں لیکن اپنے کو محروم سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جس شخص کے پاس کئی کلو گرام سونا ہوتا ہے وہ بھی تو سب کی طرح گوشت سبزی اور دال ہی کھاتا ہے ۔ ویسے احساسِ کمتری اور اس کی ساری اقسام جن میں احساسِ برتری بھی شامل ہے فائل کے عمل سے زیادہ مفعول کی سوچ سے جنم ليتی ہیں

آخر میں عنیقہ ناز صاحبہ نے ایک اچھی ھدائت کی ہے “اپنے گھروں میں ایک سیدھا سادہ سا گوشہ ضرور رکھیں۔ جہاں آنے والاپاؤں پسارے یا آلتی پالتی مارے تعلقات کی دھونی جمائے بیٹھا رہے”

خیال تو اچھا ہے لیکن اس کیلئے بھی دولت ضروری ہے ۔ کم از کم پچھلے 50 سالوں میں شہروں میں تعمیر ہونے والے مکانات میں معدودے چند ایسے ہوں گے جن میں متذکرہ سہولت موجود ہو ۔ اس کی دو وجوہ ہیں اول ۔ دولت کی کمی اور ۔ دوم ۔ جدیدیت یعنی فرنگی کی نقالی

جس طرح کے کمرے کی خواہش کی گئی ہے ہماری ثقافت کا اہم جزو تھا ۔ گھر سے باہر مگر گھر سے منسلک یا گھر کے اندر صدر دروازہ کے ساتھ ایک کمرہ ہوا کرتا تھا جسے بیٹھک یا مہمان خانہ یا حجرہ [پورا لفظ حجرہ مہماناں ہے] یا ڈیرہ کہتے تھے ۔ یہ کمرہ ان مرد مہمانوں کیلئے ہوتا تھا جن سے گھر کی خواتین نے پردہ کرنا ہو ۔ اس کمرہ میں فرش بچھا ہوتا اور گاؤ تکئے لگے ہوتے تھے بعد میں جن کی جگہ کئی گھروں میں صوفے اور پلنگ یا پلنگ نما چیز نے لے لی ۔ مرد مہمان وہیں بیٹھتے اور استراحت کرتے ۔ فی زمانہ متذکرہ کمرہ جہاں موجود ہے اس علاقے کے مکینوں کو انتہاء پسند ۔ شدت پسند اور دہشتگرد کہہ کر ملیامیٹ کیا جا رہا ہے

ماضی اور حال – رویں کسے ؟

“آپ بھی حیران ہوں گے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کیونکہ میں اس طرح کے کالم نہیں لکھا کرتا لیکن کیا کروں میرا دل کہتا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کے افق پر شرابی، زانی اور راشی ڈکیت حکمرانوں کے کارناموں کی نحوست چھاچکی ہے اور جب تک یہ نخوست چھائی رہے گی پاکستان سے غربت ختم ہوسکتی ہے نہ پاکستان مسائل کے چنگل سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے”۔ لکھتے ہیں معروف محقق مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود

ماضی
“خبر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی نئی بات ہو اور جس میں کوئی انکشاف ہو، باقی خبریں محض معمول اور روٹین کی ہوتی ہیں۔ میرے لئے یہ کوئی خبر نہیں تھی جو لندن کے ایک اخبار کے حوالے سے کئی پاکستانی اخبارات میں چھپی جس کے مطابق تین روز پہلے ہما رے سابق صدر اورمسلم لیگ (ق) کے بانی جنرل پرویز مشرف لندن کے ایک پوش علاقے کنزنگٹن کے ایک مہنگے چینی ریسٹورنٹ میں رمضان مبارک کے آخری عشرے کا ”احترام“ کرتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتے پائے گئے۔اس خبر کے مطابق مہنگے کھانے کو حلق سے ا تارنے کے لئے مہنگی شراب بھی موجود تھی۔ ہوسکتا ہے کہ میرے بہت سے سادہ لوح پاکستانی دوستوں کو یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی ہو حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ پرویز مشرف بنیادی طور پر سیکولر اور ترقی پسند واقع ہوئے ہیں۔ مذہبی اصولوں اور دینی پابندیوں کو پامال کرنا اور ہر اس شے سے لطف اندوز ہونا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے ان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔

پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے وہ اکثر اپنے سیّد ہونے پر فخر کرتے تھے اور عوامی جلسوں میں سینہ تان کر کہا کرتے تھے کہ مجھے دوبار خانہ کعبہ کے اندر جانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میں نے اتنے عمرے اور حج کئے ہیں لیکن اس راز سے سبھی واقف تھے کہ جنرل صاحب ناؤ نوش کے رسیا اور شوقیہ جواء کھیلنے کے عادی تھے۔ خواتین سے عشق اور آنکھ مچولی ان کی فطرت ہے جس کا انہوں نے چسکے لے لے کر اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے لیکن ان کے جاننے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ انکشاف اصل کا عشر عشیربھی نہیں۔

یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کو ا پنے مدہوش جام میں ڈبو دیا جبکہ پرویز مشرف نے لال مسجد کے معصوموں کا خون اور اکبر بگٹی کو قتل کرکے بلوچستان اور پاکستان کے امن کو اپنے اس رنگین پیالے میں غرق کر دیا جسے وہ سر پر رکھ کر دوستوں کی محفل میں ڈانس کیا کرتے تھے۔ [ايک بسنت پر لاہور میں بھارتی اداکارہ کے ساتھ بھی] ۔ ان کے دوستوں اور دست و بازو کی فہرست میں احمدیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے دور میں ان کے احمدی دوستوں نے نہ ہی صرف اپنے فرقے کو نوازا بلکہ نہایت کاریگری سے دولت بھی بنائی جسے بیرون ملک بھجوادیا گیا۔فلاش، شراب اور عورت کے رسیا پرویز مشرف ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور ملک کو تباہی کی جانب دھکیلتے رہے۔آج اسی لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے پرویز مشرف اور ان کے دوست اندرون و بیرون ملک شہزادوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ورنہ حلال کی آمدنی سے تو ریٹائرڈ سرکاری ملازم چند روز بھی لندن کے ہوٹلوں کی مار نہیں کھا سکتا۔ لیکچروں کی بڑھا چڑھا کر آمدنی کا ذکر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب حکمرانوں نے ایسے شخص کو کلین چٹ دے دی ہے اور اس کے قومی جرائم پر مقدمہ چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان پر سنگین غداری کا مقدمہ نہ چلا کر غلطی کی اور پٹاری سے ضیاء الحق نکل آیا۔ ایسی ہی غلطی کا ارتکاب بھٹو صاحب کے جانشین کررہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرائے گی اور پٹاری سے پھر کیا کچھ نہ نکلے گا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب31دسمبر1999ء کا سورج غروب ہورہا تھا تو ساری دنیا میں نیو میلنیم یعنی نئی صدی کے آغاز کا بہت شور و غوغا تھا۔مغربی ممالک نئی صدی کے استقبال کے لئے وسیع پیمانے پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ اتفاق سے دسمبر کے آخر سے لے کر جنوری تک رمضان کا مہینہ تھا تین چار جنوری2000ء کو ایک اہم شخص مجھے ملنے آیا تو گفتگو کرتے کرتے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔

اس نے بتایا کہ جنرل صاحب نے اپنے دوستوں کے ساتھ نیو میلینیم کے استقبال کے لئے مری کے فلاں میس میں سحری تک خوب پی اور خوب ہنگامہ برپا کیا۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ وہ ہنگامہ کیا ہوگا۔چند ماہ بعد ایک غیر معروف ملک کے سفیر نے مجھے کھانے پر بتایا کہ تمہارے صدر صاحب سے فلاں مشترکہ دوست کے گھر ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔ وہ ہر بار ایک ہی فقرہ دہراتے ہیں کہ میں نارمل انسان ہوں۔ان کے نزدیک نماز روزے اور اسلامی اصولوں کے پابند لوگ ابنارمل ہیں۔12اکتوبر کو جب پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو لاہور کا ایک دولت مند اسمگلر لندن بھاگ گیا اسے ڈر تھا کہ نئی حکومت اسے دھر لے گی ۔چھ ماہ بعد وہ واپس آیا تو اس کی اکڑ میں اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک دن اس نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس نے جماعت احمدیہ لندن سے پرویز مشرف کے ایک قریبی دوست کو فون کروایا تھا جن کے تسلی دینے پر وہ واپس لوٹ آیا ہے اور اب اسے کوئی خطرہ نہیں”۔

حال
لکھتے ہیں حامد میر
“رمضان المبارک میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افطار عشائیوں کی بھرمار کئے رکھی۔ اگر وہ صرف ایک دن چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور مرکزی و صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے عہدیداروں کو افطار عشایئے پر مدعو کر لیتے اور ان سے گزارش کرتے کہ ملک میں ایک عید منانی چاہئے تو قوم کو ایک عید کا تحفہ آسانی سے مل سکتا تھا۔ بہرحال صدر اور وزیراعظم نے اس سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کر کے ہمارا کم اور اپنا نقصان زیادہ کیا ہے۔ اب کئی دن تک دو عیدوں کی وجہ سے حکومت کو کوسا جائیگا اور حسب معمول زیادہ تنقید آصف علی زرداری پر کی جائے گی کیونکہ وہ اپنی عید پاکستان میں نہیں بلکہ امریکا میں منا رہے ہیں۔ امریکا سے ان کی وطن واپسی سے پہلے ہی ان کے متعلق کئی کہانیاں وطن پہنچ چکی ہوں گی۔

پچھلے دنوں ایک ملاقات میں ایسی ہی کہانیوں کے بارے میں ان سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے مالک صدرالدین ہاشوانی کے حوالے سے یہ کہانی گردش کر رہی ہے کہ آپ اس کا ہوٹل زبردستی خریدنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ہاشوانی کا فون نمبر موجود ہے؟ میں نے انہیں نمبر فراہم کر دیا۔ زرداری صاحب نے یہ نمبر اپنے ملٹری سیکرٹری کو دیا اور کہا کہ ہاشوانی سے بات کراؤ۔ نمبر مل گیا تو پہلے زرداری صاحب نے خود ہاشوانی کے ساتھ سندھی زبان میں گفتگو کی اور پھر فون مجھے پکڑا کر اسپیکر آن کر دیا۔ اب وہاں موجود سب افراد ہاشوانی صاحب کی گفتگو سن سکتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ آصف علی زرداری کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں؟ ہاشوانی نے پریشان لہجے میں کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کئی لوگوں کو کہا ہے کہ زرداری مجھ سے میرا فائیو سٹار ہوٹل چھیننا چاہتا ہے اور اسی لئے میں بھاگ کر دبئی آ گیا ہوں۔ ہاشوانی نے اپنے اس مبینہ بیان کی تردید کر دی۔ میں نے جرح جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ آپ نے اپنی بیٹی کی شادی بھی دبئی میں کی اور پاکستان نہیں آئے؟

اس سے پہلے کہ ہاشوانی جواب دیتے وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے ملٹری سیکرٹری کو اشارہ کیا کہ فون بند کر دیا جائے لہٰذا فون بند کر دیا گیا۔ میں نے زرداری صاحب سے کہا کہ ہاشوانی نے آپ کے سامنے تو تردید کر دی ہے لیکن ایک اور بزنس مین علی محمود اسی قسم کے الزام کے تحت آپ کے خلاف عدالت میں جا رہا ہے۔

صدر پاکستان نے اس شخص کو فراڈ قرار دے کر بات گول کر دی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص واقعی فراڈ ہو لیکن جس ملک میں دو عیدیں منائی جائیں اس ملک کے عوام اپنی حکومت کو زیادہ بڑا فراڈ سمجھتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت میں شامل ایک خاتون وزیر ٹیلی ویژن پر کسی کو طوائف کہہ دے تو اس حکومت کو مذاق نہیں تو کیا سمجھا جائے؟ خاتون وزیر نے جن موصوفہ کو ٹیلی ویژن پر طوائف کہا ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم سے کہا گیا کہ مسلم لیگ (ق) کی اس خاتون ایم این اے کو وفاقی وزیر تجارت بنا دیا جائے۔ وزیراعظم نے چپکے سے یہ بات مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو بتا دی اور انہوں نے موصوفہ کو پارٹی سے نکال دیا۔

خاتون وزیر کو چاہئے کہ وہ پتہ لگائیں کہ جسے وہ طوائف قرار دیتی ہیں اسے وزیر تجارت بنانے کی سفارش کس نے کی تھی؟ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر بھی حکومت تقسیم ہو چکی ہے۔ جس ملک کی حکومت ہر اہم معاملے پر قوم کو تقسیم کر دے اور چھوٹے چھوٹے معاملات پر خود بھی تقسیم ہو جائے اس حکومت کو سوچنا چاہئے کہ اسے حکومت میں رہنے کا حق ہے یا نہیں؟

زندگی کے اشارے

اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے زیادہ نہ سونا چاہیئے
زندگی کی خوشیوں کا تعلق خیالات کے معیار پر ہے
سب سے اہم پوشاک چہرے کا تاءثر ہوتا ہے
تیز زبان اپنا ہی گلا کاٹ سکتی ہے
ایک چیز جو دے کر محفوظ رکھی جا سکتی ہے وہ وعدہ ہے
سب سے بڑا جھوٹ وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ سے بولا جائے
سب سے بڑا بوجھ عناد ہے
مہربانی اپنانا چاہیئے کیونکہ ہر شخص کسی نہ کسی طرح کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے

فری میسن سے بلیک واٹر تک

”بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ بلیک واٹر کی موجودگی محض افواہ ہے۔ عوام ان افواہوں پر ہرگز کان نہ دھریں۔ اگر کسی کے پاس بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت ہیں تو وہ فراہم کرے۔ حکومت پاکستان سخت کارروائی کرے گی۔“ یہ الفاظ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے ہیں۔ چند روز قبل اسی قسم کے الفاظ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہے تھے کہ بلیک واٹر کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر اس کی موجودگی کے کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے، ہم کارروائی کریں گے۔“ حیرت کی بات ہے حکومت پاکستان بار بار تردید کررہی ہے کہ بلیک واٹر کا وجود نہیں ہے لیکن پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہے بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ ”جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے“ والی بات ہے۔ ہماری ریسرچ، تحقیق اور معلومات کے مطابق اس وقت بلیک واٹر کا نہ صرف وجود ہے بلکہ وہ پاکستان کو افغانستان اور عراق سمجھ کر بڑے منظم اور مربوط طریقے سے اپنا مشن آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ افغانستان اور عراق کے بعد بلیک واٹر کا سب سے مضبوط گڑھ اب پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی سرگرمیوں کا آغاز بہت پہلے کیا جاچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے 2007ء کو خبردار کیا تھا کہ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے لیکن ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلیک واٹر نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بلیک واٹر کے آفسز اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود ہے۔ صرف اسلام آباد اور پشاور میں ہی اس کے 700 افراد موجود ہیں جن کی رہائش کے لیے 200 سے زائد گھر کرائے پر لیے گئے ہیں جس کی تصدیق امریکی سفیر بھی کرچکی ہیں۔ حکومت میں شامل اتحادی جماعت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی بات چیت ایک عرصے سے جاری ہے اور ان سے کرائے پر گھر لینے کے لیے بھاری رقوم کی پیشکشیں کی جارہی ہیں۔ مصدقہ رپورٹس ہیں کہ کراچی میں لسانی اور مذہبی فسادات کروانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 500 سے زائد امریکی موجود ہیں جن کو خفیہ طورپر ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔ 19/ اگست کو اخبارات میں ہموی بکتر بند کے بارے میں رپورٹ چھپی۔ یہ گاڑیاں شہروں میں آپریشن کرنے کے لیے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے کی ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ کراچی میں بلیک واٹر کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہاں اس نے باقاعدہ اپنے دفاتر قائم کرلیے ہیں۔
جب سے محب وطن عوام اور دانشوروں نے واویلا شروع کیا ہے، بلیک واٹر نے اپنا نام تبدیل کرلیا ہے لیکن اب تک اس کا مونوگرام، طریقہ واردات اور لیٹر پیڈ تک وہی پرانا ہے۔ اس معنی میں یہ بات حسین حقانی، وزیراعظم کی درست ہے کہ اس وقت ”بلیک واٹر“ نام سے کسی تنظیم کا وجود نہیں، کیونکہ امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ”بلیک واٹر“ نے افغانستان اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے نام تبدیل کرلیے ہیں۔ اب یہ ایک امریکی نجی سیکیورٹی ایجنسی نہیں رہی بلکہ چار پانچ پرائیویٹ امریکی سیکیورٹی ایجنسیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ اب ان کی سرگرمیاں اور کارروائیاں بالکل اسی طرح ہیں جس طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں یہودیوں کی بدنام زمانہ تنظیم ”فری میسن“ پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے دفاتر سیل کردیے گئے۔ پشاور میں بڑی تعداد میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو یہ پڑوسی ممالک میں جاچھپے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ نام بدل کر پھر سرگرم ہوگئے اور زیر زمین ان کی سرگرمیاں تاحال جاری وساری ہیں۔ پاکستان میں فری میسن کے کارکنوں کے نام پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے سفید پوشوں کے نام آتے ہیں؟ ماسوائے ایک صدر کے امریکا کے تمام صدور فری میسن سے وابستہ رہے ہیں۔ پشاور میں آج جس جگہ درویش مسجد قائم ہے یہ کسی زمانے میں فری میسن کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن میں ان کا ٹمپلر تھا، لیکن سرکاری سطح پر جب پابندی لگی تو پھر اس کا زور نہ رہا۔ اس سے پہلے فری میسن کے کارکن بالکل اسی طرح دندناتے پھرتے تھے جس طرح آج بلیک واٹر کے اہلکار اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں پھر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سے زیادہ سنگین اور خطرناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ سیکٹر ای 7 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائش کے قریب گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ سیکٹر ای 7 میں 2، ایف 6 میں 37، جی 6 میں 43، ایف 7 میں 47، ایف 8 میں 45، ایف 10 میں 20، ایف 11 میں 25 اور آئی 18 میں 9 اور دیگر سیکٹروں میں گھر کرائے پر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے سیکٹر ایف 6، ایف 7 اور ایف 8 کے باشندوں کے مطابق یہاں بلیک واٹر کی مشکوک سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ یہ اسلام آباد کی حساس ترین سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ اسلام آباد میں ایف آئی اے کے صدر دفتر کے قریب ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سوار چار مسلح امریکی تھے جب پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا یہ بلیک واٹر سے منسلک ہیں۔لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔
قارئین! میں صرف اسلام آباد خاص طورپر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے۔ یہاں اہم ترین اداروں کے دفاتر ہیں۔ اہم ترین شخصیات رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی قیادت ہے۔ خاکم بدہن اگر وفاق بھی امریکا کی سیکیورٹی اہلکاروں کی مشکوک سرگرمیوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون ہوگا؟ امریکا کا کسی آزاد جمہوری ملک پر اس حد تک کنٹرول اقوام متحدہ کے قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے جس طرح فری میسن پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح جرات کامظاہرہ کرتے ہوئے بلیک واٹر اور اس سے منسلکہ اداروں پر بھی پابندی عائد کرے تاکہ پاکستان اور اس کے باشندے محفوظ ہوسکیں۔ افسوس ناک خبریں یہ ہیں کہ ریٹائرڈ پاکستانی بیورو کریٹ، دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے افراد اس معرکے کے لیے بھرتی کرلیے گئے ہیں جو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے میں دست وبازو بنیں گے۔ ایسے ماحول میں جب چاروں جانب سے مایوس یہ قوم جو کبھی ایک سمت دیکھتی ہے، کبھی دوسری سمت اور کبھی اسے منتخب سیاست دانوں کا خیال آتا ہے۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے اس بار جو میدان جنگ سجنے جارہا ہے اس
میں ان بے سروسامان پاکستانی عوام کو شاید خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے گا۔

تحریر ۔ انور غازی ۔ بشکریہ جنگ 30 ستمبر 2009