کراچی کے مختلف علاقوں میں 3 دن کی بہدف ہلاکتیں [Target Killing]
جمعرات کے دن اورنگی ٹاؤن کے علاقے اقبال مارکیٹ میں مسجد کے پیش امام مولانا غلام محمد جو مغرب کی نماز پڑھنے مسجدجارہے تھے کہ گلی میں پہلے سے گھات لگاکر بیٹھے ہوئے ملزمان نے فائرنگ کرکے انہیں ہلاک کردیا
جمعہ کی شب تین ہٹی کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے اہلسنت والجماعت کے جنرل سیکریٹری انجینئر الیاس زبیرکو ہلاک جبکہ ترجمان قاری شفیق الرحمان علوی کو شدید زخمی جو دوران علاج دم توڑ گئے
میٹھادر کاغذی بازار کے قریب مسلح افراد کی فائرنگ سے شاہنواز عرف شانو ہلاک اور فرید زخمی ہوگیا
آگرہ تاج کالونی میں 24 سالہ فیضان کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا
بہار کالونی میں علی عرف چیکو کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا
عثمان آباد کے علاقے چیل چوک گلی نمبر 1 میں 45 سالہ خلیل ولد اودے خان کو ہلاک کیاگیا
غَیرت کہاں گئی
آج ہمارے ملک اور قوم کو مادی وسائل ، مالی امداد، قرضوں اور زرمبادلہ کے ذخائر سے کہیں بڑھ کر جس چیز کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے وہ غیرت کا جذبہ ہے اسی جذبہ سے کام لے کر ہم انفرادی اور اجتماعی خرابیوں اور ذلتوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں
غیرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا شاید دنیا کی کسی زبان میں کوئی مترادف نہیں ۔ اردو میں بھی ہم یہ لفظ ایک محدود مفہوم ہی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس میں عزتِ نفس ۔ وقار ۔ بہادری اور اعلٰی ترین اقدار سے وابستگی اور ان اقدار کی خاطر ہر قربانی دینے کے تصورات شامل ہیں
غیرت وہ جذبہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے ۔ تعلیم و تربیت اور عملی مثالوں کے ذریعہ ہمارے بزرگ یہ جذبات اگلی نسلوں میں منتقل کرتے ہیں لیکن اگر کسی کو تعلیم یا ماحول سے یا اپنے خاندان سے یہ جذبہ نہ ملا ہو تو وہ محض عقلی دلائل سے اس کا قائل نہیں ہو سکتا ۔ یا تو کوئی فرد غیرت مند ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ۔ کچھ لوگ اس تحریر کو پڑھ کر شاید اس بات کی اہمیت کو سمجھنے میں مشکل محسوس کریں مگر بہت سے ایسے لوگ جن کی زندگی کی زندہ روایات ان اعلٰی اقدار کی حامل ہیں جو انہوں نے اپنے بڑوں سے ۔ اپنے اساتذہ سے اور مربیّوں سے اور دیگر قابلِ تقلید شخصیات سے حاصل کی ہیں ایسے لوگ یقینا اپنے قلب و روح میں ان خیالات کی صدائے بازگشت محسوس کریں گے
غیرت کا مطلب یہ نہیں کہ غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا جائے یا غصہ کے ردِعمل میں غصہ اور طیش کا اظہار کیا جائے بلکہ غیرت ایک مثبت اور تعمیری جذبہ کا نام ہے ۔ اسی جذبہ سے کام لے کر انسان اپنے سفلی جذبات پر قابو پاتا ہے اور اپنے اعلٰی اور ارفع جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اسی جذبہ کی مدد سے ہر انسان اور معاشرہ بیرونی خطرات کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو جاتا ہے ۔ ایک معزز و باوقار اور ایک ذلیل و بے توقیر شخص کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ ایک غیرت مند اور دوسرا بے غیرت ہوتا ہے ۔ ایک طوائف اور پاکباز عورت میں اگر کوئی فرق ہے تو غیرت اور بے غیرتی کا ۔ ایک آزاد آدمی کسی قیمت پر اپنی آزادی کو قربان نہیں کرتا ۔ غلامانہ ذہنیت کا حامل شخص چند ٹکوں کے عوض آزادی سے دستبردار ہو جاتا ہے
جب غیرت کا جذبہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو پورا معاشرہ ۔ قوم اور ریاست دنیا میں عزت اور عروج حاصل کر لیتے ہیں ۔ اس کام کو کرنے میں قوم کے قائدین ۔ رہنما ۔ اساتذہ ۔ شعراء ۔ مفکّرِین اور فلاسفہ اَن تھک محنت اور لا محدود کوشش کرتے ہیں لیکن بعض ناعاقبت اندیش رہنماؤں اور لالچی حکمرانوں کی بدولت معمولی لغزش اور غلطی برسوں کی قومی جدوجہد پر پانی پھیر دیتی ہے
پورا مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
گلابی اور روزی
اصطلاح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب
گلابی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پنجابی ملی اُردو
گلابی انگریزی ۔ ۔ ۔ اُردو یا پنجابی ملی انگریزی
گلابی پنجابی ۔ ۔ ۔۔ اُردو ملی پنجابی
رَوزی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی اُردو
رَوزی پنجابی ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی پنجابی
یہ وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے بچپن اور جوانی کے زمانہ میں مستعمل تھیں
ہم بہن بھائيوں میں سب سے بڑی دو بہنیں ہیں پھر میں ہوں ۔ بڑی بہن نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی سے جون 1955ء میں ایم بی بی ایس پاس کیا تھا ۔ میں جب دسویں میں تھا تو میرا گلا خراب رہنے لگا ۔ مارچ 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی کا دسویں کا امتحان دے چکا تو حُکم ملا کہ لاہور پہنچو تا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جائے ۔ میں لاہور پہنچا تو جن عزیزوں کے ہاں میں نے ٹھہرنا تھا اُنہیں اتفاقاً لاہور سے باہر جانا پڑ گیا ۔ باجی نے اپنے ہوسٹل کی مُہتمم ڈاکٹر صاحبہ سے اجازت مانگی کہ مجھے ایک رات ہوسٹل میں سونے دیا جائے ۔ پھاٹک سے داخل ہوں تو کوئی 50 فٹ دُور ہوسٹل کے ملازمین کے کمرے تھے اور اُن کے پيچھے ہوسٹل تھا ۔ اجازت یہ ملی کہ میں پھاٹک کے قریب میدان میں سو جاؤں ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ مجھے ایک چارپائی دے دی گئی
میں صبح سویرے اُٹھ گیا ۔ سات بجے ہوں گے کہ ایک آواز آئی “جورج وے جورج” [جارج او جارج]
پانچ سات منٹ بعد پھر آواز آئی مگر بلند “جورج وے جورج ۔ گٹُک پَو وے سَن رَیز ہو گیا ای” [جارج او جارج ۔ اُٹھ جاؤ ۔ سورج چڑھ گیا ہے]
میرے اور سرونٹ کوارٹرز کے درمیان ایک چارپائی پر ایک اٹھارہ بیس سالہ لڑکا آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ بیٹھا اور یہ کہہ کر پھر سو گیا “ہے ما ۔ کِتھے رَیز ہَویا اے ۔ ہالی تے ڈَین اے” [ماں ۔ کہاں چڑھا ہے ۔ ابھی تو نیچے ہے]
میں نے گیارہویں اور بارہویں جماعتیں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھیں ۔ کالج میں ایک سالانہ فنکشن ہوتا تھا جس میں مزاح بھی ہوتا تھا ۔ گیارہویں جماعت آرٹس کی کلاس میں چند لڑکے کافی فنکار تھے ۔ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک چھوٹا سا ڈرامہ کرنا ہے اور ایک گانا گلابی انگریزی میں گانا ہے ۔ سب نے گھیر گھار کے مشکل میر ےگلے ڈال دی ۔ زور آزمائی کرنے کے بعد یہ گانا تیار ہوا
mid mid night میں window وِچ standing آں ۔ window وِچ standing آں
your memory وچ tears دے garland پئی پرونی آں ۔ garlend پئی پرونی آں
Also بھرنیاں cold cold سآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
Tomorrow tomorrow کردا سیں tomorrow your آئی نہ ۔ tomorrow yourآئی نہ
Love والی candle my heart وِچ جگائی نہ ۔ heart وِچ جلائی نہ
میں تے burn کے ہوئی آں سوآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
اصل گانا یہ تھا
ادھی ادھی راتیں میں باری وِچ کھلونی آں ۔ باری وِچ کھلونی آں
تیری یاد وِچ ہنجُواں دے ہار پئی پرونی آں ۔ ہار پئی پرونی آں
نالے بھرنیاں ٹھنڈے ٹھنڈے سآ آ آ
ایہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
کل کل کردا سَیں کل تیری آئی نہ ۔ کل تیری آئی نہ
پیار والی جوت میرے دل وِچ جگائی نہ ۔ دل وِچ جگائی نہ
میں تے سڑ کے تے ہوئی آں سوآآ آ
ايہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
اُمید جو بر آنا ہے مُشکل
محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2003ء میں پاکستان کی آبادی کُل 20,374,970
خاندانوں پر مُشتمل تھی ۔ اس آبادی میں 50,000,000 نفوس کا اضافہ ہو چکا ہے پرانے تناسب سے دیکھا جائے تو اب کُل21,077,555 خاندان بنتے ہیں
نَیب نے جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق زرداری ۔ وزراء ۔ مشیرانِ خاص ۔ فیڈرل سیکرٹریز ۔ کارپوریشن کے چیئرمینوں اور دوسرے سرکاری ملازمین سمیت جن لوگوں کو این آر او کے بننے کے بعد معاف کیا گیا اُنہوں نے قوم کا 1000,000,000,000 روپیہ خُرد بُرد کیا جو بیک جُنبشِ قلم معاف ہو گیا ۔ اگر یہ لوٹی ہوئی دولت ان اعلٰی سطح کے لُٹیروں سے واپس لی جائے تو اپنے مُلک کے ہر خاندان کے حصے میں 47,444 روپے آتے ہیں
ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 165,000,000,000 روپے باقاعدہ ثبوت کے بعد ان لوگوں سے واپس لئے جا سکتے ہیں ۔ اگر 165,000,000,000 روپے بھی واپس لے کر پورے مُلک میں تقسیم کئے جائیں تو ہر خاندان کے حصہ میں 7,828 روپے آتے ہیں
ایک جمہوریت کا سوال ہے بابا
امریکی صحافی سیمور ہرش کے طویل مضمون کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کا آغاز فوجی آمر پرویز مشرف نے کیا جو امریکیوں سے کہتا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ضرور کرو لیکن اپنے میزائلوں پر پاکستان ایئر فورس کے نشان چسپاں کردو تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ حملے امریکہ کررہا ہے۔ کیا قوم کے ساتھ اس سے بڑا کوئی اور فراڈ، دغابازی اور مکاری ہو سکتی ہے؟
سیمور ہرش نے لکھا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اس سال مئی میں امریکہ کی خواہش پر سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کا حکم دیا اور وزیرستان میں حالیہ آپریشن کا آغاز بھی دراصل اوبامہ انتظامیہ کی کامیابی ہے۔
ہرش نے جو کچھ لکھا ہے کہ اس کے بعد کون حقیقت پسند پاکستانی یہ تسلیم کرے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ یہ مشرف کی شروع کردہ جنگ ہے جسے زرداری حکومت انتہائی بے ہنگم طریقے سے آگے بڑھا رہی ہے۔ اس جنگ نے ہم پاکستانیوں کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ کردیا ہے اور درندہ نما انسان روزانہ بے گناہ انسانوں کو بم دھماکوں میں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے مجھے چارسدہ اور پشاور میں کچھ ایسے مقامات پر عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا جہاں کار بم دھماکوں میں درجنوں نہیں سیکڑوں بے گناہ مارے گئے
بعض لوگ ان بم دھماکوں کو بلیک واٹر کے کھاتے میں ڈالتے رہے لیکن اکثریت کا خیال تھا کہ جب تک موجودہ حکومت مشرف دور کی پالیسیاں نہیں بدلتی پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا
فاروق اعظم چوک چارسدہ میں ایک تاجر نے مجھے کہا کہ مشرف نے ہمیں این آر او دیا اور این آر او نے ہمیں صدر زرداری دیا، کیا صدر زرداری میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرکے مشرف کے بھوت سے چھٹکارا نہیں پاسکتے؟
پیپل منڈی پشاور میں دھماکے سے تباہ شدہ مسجد کے ملبے کے قریب کھڑے ایک بزرگ نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے دوسری طرف وہ بھارت سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے تو پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کیوں؟
وہ لوگ جنہوں نے حالیہ بم دھماکوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں ان کی اکثریت بدستور اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتی۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو پشاور یا چارسدہ کے کسی بھی چوراہے پرکھڑے ہوکر لوگوں سے بات کرلیں
عام لوگ بڑے سمجھدار ہیں وہ فساد کی جڑ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو سمجھتے ہیں۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا
امریکی فوج کو اس خطے سے نکالنے کیلئے افغانستان اور پاکستان میں ایک پرامن عوامی تحریک کی ضرورت ہے اور ایسی تحریک کو امریکہ اور یورپ میں بھی پذیرائی ملے گی۔ جمہوریت جتنی بھی بُری ہو لیکن بُری جمہوریت میں بھی پرامن سیاسی تحریک چلانا آسان ہوتا ہے۔ بُری جمہوریت ایک لانگ مارچ پرمعزول ججوں کو بحال کردیتی ہے جبکہ فوجی آمر اپنوں کے سامنے جھکنے کے بجائے ایمرجنسی لگا دیتا ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ جمہوریت کو بہتر بنایاجائے اور امریکہ کی قید سے اسے رہائی دلوائی جائے لیکن جمہوریت کا خاتمہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ جمہوریت جتنی بھی بری ہو بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتی اور آمریت جتنی بھی اچھی ہو بار بار بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے۔ جمہوریت صرف اپنے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے
جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانچ دریاؤں کا پانی بھارت کو بیچ دیا
جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا، اس آپریشن سے جنم لینے والی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا اور شکست کے بعد بنگلہ دیش نے جنم لیا
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا
جنرل پرویز مشرف نے گیارہ ستمبر 2001ء سے قبل ہی نہ صرف مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف میں یکطرفہ لچک پیدا کرنی شروع کردی بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پر بھی کاٹنے شروع کردیئے ۔ 2000ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرویز مشرف کے متعلق کہا تھا کہ یہ شخص اپنا اقتدار بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے لانگ رینج میزائل پروگرام کیلئے فنڈز بند کردیئے ہیں تاکہ امریکہ اس سے خوش ہوجائے۔ یہ واقعہ نو گیارہ سے پہلے کا ہے اور نو گیارہ کے بعد مشرف نے پاکستان کے قومی ہیرو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی جمہوری حکومت کرتی تو اسے غدار قراردیا جاتا
حامد میر کے قلم کمان سے
سمجھ کی باتیں
ایک بڑے لیڈر کی پیمائش یہ نہیں کہ وہ کتنے لوگوں کا سربراہ ہے بلکہ یہ ہے کہ کتنے لوگ اپنی مرضی سے اُس کی تقلید کرتے ہیں
نِکول الرکان ۔ Nicole Alarcon
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
بڑے مسائل کی نسبت چھوٹی چھوٹی باتیں زیادہ تکلیف دیتی ہیں
بہت بڑے پہاڑ کی چوٹی پر آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے
لیکن سوئی کی نوک پر نہیں
بہترین دوست وہ ہے جو لطیفہ سُن کر تین بار ہنسے
ایک ۔ جب لطیفہ سُنایا جائے
دو ۔ جب اس لطیفے کی تشریح کی جائے
تین ۔ پانچ منٹ بعد جب لطیفہ اسے سمجھ آئے
ايمان اتحاد نظم ۔ ۔ یا ۔ ۔ اتحاد ایمان تنظیم ؟ ؟ ؟
میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور ناگپور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس 26دسمبر1941ء کا حوالہ بھی دیا تھا ۔ ہماری قوم کے ناطق یا آواز دار طبقہ کا مقولہ [Motto] ہے “جانُوں یا نہ جانُوں ۔ پر میں نہ مانُوں”۔ عام طور پر اصرار ہوتا ہے کہ کسی پڑھے لکھے معروف شخص کا حوالہ دیا جائے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا مجھ پر ہمیشہ بڑا کرم رہا ہے ۔ جس چیز کی مجھے جُستجُو ہوتی ہے زود یا بدیر خود بخود سامنے آ جاتی ہے ۔ آثارِ قدیمہ پر مُختار [authority] ڈاکٹر احمد حسن دانی صاحب [جو اس سال جنوری میں 88 سال کی عمر پا کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے] کے بعد ایک معروف تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود ابھی زندہ ہیں ۔ قائد اعظم کے مقولہ کے متعلق ڈاکٹر صفدر محمود یہ کہتے ہیں
کچھ عرصہ قبل قائداعظم کے ماٹو [Motto] ”ایمان، اتحاد اور نظم“ کے بارے میں بحث چلی تھی تو بہت سے طلباء نے مجھے اس کی وضاحت کرنے کو کہا کیونکہ کچھ لوگوں کا اصرار تھا کہ قائداعظم کے الفاظ اتحاد، ایمان اور تنظیم تھے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی استعداد کے مطابق اس پر روشنی ڈالوں گا لیکن بعدازاں میں ملکی سیاست کے اخبار تلے دب کر یہ بات بھول ہی گیا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں سیاستدان نہیں جو اپنے وعدوں کو بھول جاؤں، نہ میں حکمران ہوں کہ لوگ مجھے میرے وعدے یاد دلانے کی جرأت نہ کرسکیں، اس لئے فراغت سے فائدہ اٹھا کر اس سوال کا جواب دینے کی جسارت کر رہا ہوں جسے آپ محض طالب علمانہ جواب سمجھیں، حکیمانہ اور حتمی جواب بہرحال سکالرز یعنی عالم و فاضل حضرات دیں گے۔
اس سوال کے حوالے سے میرے سامنے دو تین مثالیں ہیں جو پیش خدمت ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق قائداعظم نے یہ الفاظ پہلی بار آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب ناگپور میں 26دسمبر1941ء کو کہے۔ ان کی یہ تقریر فی البدیہہ تھی اور طویل ہونے کے باوجود نہایت دلپذیر اور ایمان افروز تھی۔ شاید انہیں احساس تھا کہ وہ مستقبل کے معماروں اور تحریک پاکستان کے ہراول دستے سے خطاب کر رہے ہیں جنہیں مسلمانوں کے مسائل، کانگرس کے عزائم، کانگرسی قیادت کی سوچ اور منافقت اور حصول پاکستان کے ناگزیر ہونے کی منطق اور وجوہ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور ان کے جذبوں کو گرمانے اور صحیح راہ پر ڈالنے کے لئے سیاسی تناظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔ اس تقریر میں جہاں انہوں نے طلباء کو اپنی تمام توجہ پڑھائی اور تعلیم پر مرکوز رکھنے کی نصیحت کی اور وقت اور صلاحیتوں کے زیاں سے منع کیا، وہاں انہیں یہ بھی کہا کہ ”ملکی و قومی حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رہنا بھی تمہارا فرض ہے“۔ اس تقریر میں قائداعظم نے طلباء کو اتحاد کی تلقین کی اور اپنی تنظیم کو مستحکم بنانے کا بھی مشورہ دیا۔ قائداعظم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”مسلم لیگ جو چند برس قبل ایک مردہ جماعت تھی اب ایک فعال، متحرک اور مقبول جماعت بن چکی ہے ۔ نوجوانو! مایوسی کے اندھیروں سے نکل آؤ خوش ہو جاؤ ہم انشاء اللہ پاکستان حاصل کرکے رہیں گے”۔
کانگرس اور ہندو مہاسبھا پاکستان کی کیوں مخالفت کرتی ہے اور گاندھی، ابوالکلام اور نہرو کیا کہتے ہیں، کیا چاہتے اور کیا کیا جال بچھاتے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قائداعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو متحد اور مستحکم رہنے کی تلقین کی اور کہا کہ “اپنے مسائل یا بے انصافی کے لئے ہرگز انفرادی سطح پر قدم نہ اٹھائیں کیونکہ اس سے ہمارا قومی مقصد مجروح ہوگا۔ کوئی فرد یا تنظیم انفرادی طور پر قانون شکنی یا مزاحمت کی راہ پر نہ چلے جب اس کا وقت آئے گا تو میں آپ کے ساتھ شامل ہوں گا اور جب ضرورت ہوگی تو اس کا فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کرے گی۔ اس وقت تک متحد رہیئے اور انتظار کیجئے ہم خطرناک اور فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں اور اس سے قبل کبھی اتنی ضرورت نہیں تھی جتنی آج ہے کہ ہم [Faith, Unity, Discipline] کو اپنا جماعتی نعرہ [Watchword] بنائیں اور عہد کریں کہ ہم اس پر قائم رہیں گے“۔ [بحوالہ ڈان 4 جنوری 1942ء]۔
اس تقریر کے دو دن بعد 28 دسمبر 1941ء کو مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اختتامی اجلاس ناگپور میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ ”قرارداد پاکستان [23 مارچ 1940ء] کی منظوری کے بعد میں بذریعہ ریل بمبئی جا رہا تھا جب ٹرین بمبئی پہنچی تو پلیٹ فارم پر استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا اور ان کا جوش و خروش دیدنی اور متاثر کن تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس ہجوم میں دو بچے نہایت جوش سے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان میں ایک کی عمر سات سال کے لگ بھگ اور دوسرے کی عمر دس سال تھی۔ میں ان کی طرف بڑھا اور پوچھا کہ تمہاری پاکستان سے کیا مراد ہے؟… وہ ذرا گھبرائے اور جھینپے اور پھر یک زبان ہو کر فوراً جواب دیا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ حکمران ہوں“۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ”وہ بچوں سے یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے
میں یہ تقریر پڑھ کر سوچنے لگا کہ نہ جانے یہ بچے آج حیات بھی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ قائداعظم کے نوجوانوں اور اقبال کے شاہین بچوں میں آج کل وہ جوش و خروش مفقود ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے بمبئی اجلاس مورخہ 27جولائی 1946ء کو کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہمارا ماٹو ہے [Motto] ڈسپلن، یونٹی اور ٹرسٹ یعنی نظم و ضبط، اتحاد اور اعتماد ہونا چاہئے۔ یہاں ان کی مراد تھی کہ ہمیں اپنی قوم کی قوت [Power of Nation ] پر اعتماد ہونا چاہئے اگر ہم میں وہ قوت نہیں ہے تو ہمیں وہ قوت پیدا کرنی چاہئے“
کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تحریک پاکستان اور جدوجہد کے دور میں قائداعظم حالات کے تقاضوں کے مطابق قوم کو ماٹو اور راہنما اصول دیتے رہے اور اتحاد کی تلقین کرتے رہے لیکن مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ناگپور کے افتتاحی اجلاس بتاریخ 26 دسمبر 1941ء میں کہے گئے الفاظ ہمیشہ ان کے ذہن پر کندہ رہے چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب حکومت پاکستان کا مونو گرام [Insignia] بنایا گیا تو اس پر جو سنہرے الفاظ کندہ کئے گئے وہ بالترتیب ”ایمان، اتحاد اور نظم“ تھے جنہیں آج تک استعمال کیا جا رہا ہے جو قائداعظم کے منظور شدہ اور ان کے دل کی آواز تھے۔ ان الفاظ پر غور کریں تو راز کھلتا ہے کہ قائداعظم کی ترجیحات میں پہلی ترجیح ایمان تھی کیونکہ ان کے نزدیک ایمان ہی سے اتحاد اور نظم و ضبط کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
غور کیجئے کہ ہم نے قائداعظم کے دیئے گئے ماٹو کو بھلا دیا اور نتیجے کے طور پر آج ایمان کی کمزوری نے اتحاد اور نظم و ضبط کو بھی کمزور کر دیا ہے چنانچہ قوم فرقوں، برادریوں، علاقوں اور صوبوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس اندرونی اور باطنی تقسیم کو مٹانے کے لئے ایک عادلانہ، منصفانہ، جمہوری اور تعلیم سے آراستہ معاشرے کی ضرورت ہے اور یہی قائداعظم کا خواب تھا۔ اے کاش کوئی اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے…؟؟