صيہونی بمقابلہ نازی

نام نہاد ہالوکاسٹ کا راگ الاپنے والے صيہونیوں نے نازيوں سے بچ نکلنے کے بعد جن اولادوں کو جنم ديا اُنہوں نے فلسطينيوں کے ساتھ پچھلے 62 سال سے جو ظُلم روا رکھا ہے اگر آج ہٹلر دوبارہ پيدا ہو جائے تو يہ مناظر ديکھ کر اپنا سر پيٹے کہ اس قوم کی وہ نسل کُشی کر ہی ديتا تو دنيا امن و سکون سے رہتی
اسرائيل کا ظُلم فلسطينيوں پر ۔ ۔ ۔ نازيوں کا ظُلم يورپی يہوديوں پر

نيچے بائيں طرف کی تصوير ميں يہوديوں نے دکھايا ہے کہ نازی بچہ يہوديوں کا مذاق اُڑاتا تھا جبکہ داہنی تصوير ميں يہودی اسرائيلی بچوں کو دعوت دی گئی کہ وہ فلسطينيوں پر چلائے جانے کيلئے تيار گولوں پر اپنے پيغامات لکھيں

نيچے کی دو تصاوير ميں بائيں طرف والی ايک ہی تصوير ہے ۔ يہ تصوير پورے امريکہ اور کئی يورپی ممالک کی تاريخ کی کتابوں ۔ انسائيکلوپيڈيا ۔ لائبريريوں اور عجائب گھروں ميں ديکھنے کو ملتی ہے کہ نازيوں نے يہودی بچے کو بھی ہينڈز اَپ کرايا ۔ اس ايک تصوير کے مقابلہ ميں داہنی طرف دو مختلف فلسطينی بچوں کی تصاوير ہيں جن ميں اسرائيل کا گھناؤنا کردار واضح ہے

آزادی اظہارِ خيال کے پروانوں کے نام

ميرے ہموطنوں ميں سے کچھ بڑے زور شور سے آزادی اظہارِ خيال کا راگ الاپ رہے ہيں اور گستاخ خاکوں پر احتجاج کرنے والوں کو طرح طرح کے القاب سے نواز رہے ہيں يہاں تک کہ اُن ميں اعلٰی تعليميافتہ افراد کی موجودگی کے باوجود اُنہيں جاہل اور انتہاء پسند کہا گيا ہے ۔ فرنگيوں کے ممالک ميں اظہارِ خيال کی جتنی آزادی ہے اُس کی چند مثالوں کا حوالہ 23 مئی 2010ء کو ديا تھا ۔ آج ايک تحرير پر نظر پڑ گئی جس ميں صرف سن 2010ء کے 3 ماہ ميں فرنگی حکومتوں جن ميں امريکہ ۔ کينيڈا اور يورپ کے کئی ممالک شامل ہيں نے يہوديوں کے خلاف اظہارِ خيال کرنے کے 21 واقعات ميں 24 افراد کو سزائيں ديں ۔ ان ميں 7 پندرہ سے 17 سال کی عمر کے بچے ۔ ايک پادری ۔ ايک 83 سالہ شخص اور ايک سياستدان ہے ۔ 3 ٹی وی چينل اور ايک اخبار بند کئے گئے اور ايک سياسی جماعت غيرقانونی قرار دی گئی ۔ ملاحظہ ہو مکمل تحرير


تحرير ۔ اوريا مقبول جان بتاريخ 22 مئی 2010ء ۔ بشکريہ ۔ ايکسپريس

اگر يہ حقيقت ہے ۔ ۔ ۔

بينظير بھٹو نے 24 ستمبر 1990ء کو ايک خط امريکی سنيٹر پیٹر گلبرائتھ کو بھيجا تھا جس کا اُردو ترجمہ اور عکس پيشِ خدمت ہے

عزیز پیٹر گلبرائتھ

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے اُن احسانات کا کس طرح شکریہ ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے خاندان پر کرے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ میری حکومت کی برطرفی کے احکامات جی ایچ کیو میں لکھے گئے اور میرے لئے فوج سے ٹکر لینا ممکن نہیں تھا تو وہ میری حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے

میں پہلے ہی کانگریس میں موجود دوستوں بالخصوص اسٹیفن سولاران سے درخواست کر چکی ہوں کہ وہ صدر بش کہ ذریعے صدر اسحاق اور پاکستانی فوج پر بھرپور دباؤ ڈلوائیں کہ وہ لوگ مجھے نا اہل قرار نہ دیں کیونکہ یہ بہت ناانصافی ہو گی بلکہ جمہوری اُصولوں کی بھی منافی ہو گا جن کے لئۓ ہم نے بہت جدوجہد کری ہے

جب تک میں حکومت میں تھی تو میں نے نیوکلیَر ہھتیاروں پر کڑی نظر رکھی پر اب مجھے اس حکومت کے ارادوں کا اندازہ نہیں

یہ بہت بہتر ہو گا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی اور معاشی امداد روک دی جائے اور تمام عالمی ادارے جیسے ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف کو ہدایت دی جائے کہ پاکستانی حکومت کو ہر طرف سے ڈرایا جائے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جانے والی تمام امداد روک دی جائے تاکہ عام پاکستانی کی زندگی مکمل طور پر رُک جائے

ایف ۔ 16 طیاروں اور اُن کے فاضل پرزہ جات کی رسد کی روک تھام بھی فوج کی عقل ٹھکانے لے آئے گی

عزیز پیٹر بھارتی وزیرِ اعظم پر بھی اپنا اثر استعمال کر کے پاکستانی فوج کو سرحد پر پھنسانے کی کوشش کریں تاکہ فوج میرے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے ۔ کاش راجیو گاندھی بھارت کے وزیرِاعظم ہوتے تو بہت سے کام آسان ہو جاتے

شکريہ ۔ پُرشوق تسليمات کے ساتھ

آپ کی مخلص

بے نظیر بھٹو

اظہارِ خيال کی آزادی کا ڈھونگ

کُفار تو ازل سے اسلام کے دُشمن ہيں اور رہيں گے ليکن وہ جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہيں ليکن مسلمانوں کے ردِ عمل کو کبھی جھوٹ کبھی منافقت اور کبھی انتہاء پسندی کہتے ہيں اور پھر بھی تسلی نہ ہو تو دہشتگرد قرار ديتے ہيں ۔ اگر حقائق اور اُن کے عمل پر غور کيا جائے تو وہ خود منافق ثابت ہو جاتے ہيں

فرنگيوں کے اظہارِ رائے کی آزادی کے دعووں کی قلعی حقيقی واقعات کی مثاليں دے کر چار پانچ سال قبل کھول چکا ہوں ليکن فرنگيوں کے اندھے پيروکاروں کو نہ سمجھ آئی ہے اور نہ سمجھ آنے کی توقع ہے کيونکہ سوئے ہوئے کو جگايا جا سکتا ہے مگر جاگتے کو نہيں

1 ۔ کرتے ہيں مجبور مجھے

2 ۔ آزادی اظہارِ خيال ہے کس مُلک ميں ؟

3 ۔ ہاتھی کے دانت ؟؟؟

4 ۔ تازہ ترين ثبوت

5 ۔ اظہارِ خيال کی آزادی کا بھانڈہ پھر پھوٹ گيا

بے چاری بيوی يا بے چارہ خاوند ؟

دفتر کی بَک بَک زيادہ رہی ۔ بھنايا ہوا خاوند شام کو گھر پہنچا
لٹکا چہرہ دیکھ کر بيوی بولی “کيا ہوا ؟ ”
خاوند “دفتر والے ۔ ۔ ۔ ”
بيوی بات کاٹ کر “يہ مرد ہوتے ہی بہت بُرے ہیں”
خاوند “کيوں ؟”
بيوی “يہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ عورتوں کو گھر میں بند رکھتے ہیں ۔ عورتوں پر ظُلم کرتے ہيں ۔ راہ جاتی عورتوں کو چھڑتے ہيں ۔ بدتميز”
خاوند “ميں ؟ بدتميز ؟ ”
بيوی ” تمہيں تو نہیں کہہ رہی ۔ یہ مردوئے”
خاوند “ميں بھی تو مرد ہوں ”
بيوی ” تم نے کونسا مجھے عرشں پہ بٹھا رکھا ہے ؟”
خاوند ” تمہاری ہر ضرورت پوری کرتا ہوں ۔ کبھی تو خيال کر ليا کرو کہ میں سارے دن کا کھپا ہوا آتا ہوں اورآتے ہی تم شروع ہو گئی ہو”
بيوی “ہاں ہاں ميں تو سارا دن يہاں سوئی رہتی ہوں ۔ گھر کا کام کاج تمہاری دوسری بيوی کرتی ہے کيا ؟”
خاوند ” کپڑے اور برتن دھونا اور گھر کی صفائی ملازمہ کرتی ہےاور سبزی بھی کاٹ ديتی ہیں ۔ تم نے صرف ہنڈيا پکانا ہوتی ہے”
بيوی “ميری تو قسمت ہی پھُوٹ گئی جو اس گھر میں آئی ۔ سارا دن کی کھپ کھپائی اور کوئی قدر ہی نہیں”
خاوند ” اور وہ جو تمہاری روزانہ کی روئيداد سنتا ہوں سب گھروں میں باری باری ہونے والی عورتوں کی محفلوں کی ؟”
بيوی ” ہاں ہاں ۔ قيد کردو ۔ گھر پہ پہرے بٹھا دو ۔ ميری قسمت میں ايک دن کی خوشی نہ ہوئی اس گھر میں ۔ اب ملنے واليوں پر بھی پابندی ۔ کل پتہ نہيں کيا ہو گا”

اور بيوی رونے لگتی ہے

خاوند جو اب تک اپنا بيگ اُٹھائے کھڑا تھا کمرے میں جا کر اپنے بستر پر گر جاتا ہے اور اُسی طرح سو جاتا ہے
اگلی صبح اُٹھتا ہے تو ناشتہ تيار نہ ہونے کی وجہ سے بغير ناشتے دفتر چلا جاتا ہے

دفتر سے واپس آتا ہے تو گھر میں جيسے کوئی ماتم ہو گيا ہو ۔ کچھ عورتیں جمع ہیں ۔ بيوی رو رہی ہے ۔ دو تين اور بسور رہی ہيں ۔ کوئی بيوی کو سمجھا رہی ہے اور کوئی مردوں کو کوسے جا رہی ہے

خاوند گبھرا کر “کيا ہوا ؟ يہ سب کيا ہے ؟ يہ ماتم کيسا ؟”
ایک بڑی بی بولتی ہيں ” اے نگوڑے کہاں چلا گيا تھا تُو ۔ بہو صبح سے بلک رہی ہے ۔ کيا حال ہو گيا ہے بيچاری کا”
خاوند ” میں ؟ ميں نے کہاں جانا ہے ؟ دفتر نہ جاؤں تو گھر کيسے چلاؤں ؟”

ايسا يا اس سے ملتا جلتا کھيل اکثر تعليميافتہ گھرانوں ميں ہوتا ديکھا گيا ہے

تعليم يافتہ دہشتگرد

گذشتہ شام کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں
23 افراد ہلاک
21 سے زائد زخمی
5 گاڑیاں اور کئی کھوکھے نذرآتش
تمام تعلیمی ادارے بند ۔ آج ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی
کاروبارزندگی مفلوج
مسلح افراد نے فائرنگ کرکے پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا
دکانیں اور کاروبار بند کرا دیا
ابتداء مختلف جگہوں پر اے اين پی کے 3 کارکن ہلاک کرنے سے ہوئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ٹھکانہ ؟

تین دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ میری خالہ زاد بہن کی بیٹی جو میری بیوی کی بھانجی ہے ہمارے ہاں راولپنڈی آئی ہوئی تھی ۔ وہ اپنی خالہ سے کہنے لگی “خالہ دیکھیں نا ۔ ہم نے یہاں سے کراچی جانا ہو راستہ میں وزیرآباد کے سٹیشن پر اُتریں تو وہاں کیا ہم اپنا گھر بنا لیں گے اور وہیں رہنا شروع کر دیں گے ؟”
میری بیوی نے جواب دیا “نہیں” اور حیرانی سے بھانجی کی طرف دیکھنے لگی
وہ بولی “جب ہماری منزلِ مقصود وہ ہمیشہ رہنے والی دنیا ہے جہاں جنت بھی ہے تو پھر لوگ اس دنیا کو پکا ٹھکانہ کیوں سمجھ لیتے ہیں ؟”

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
کھول کر پڑھيئے کہ بھارت ميں دہشتگردی کون کرتا ہے جس کا الزام پاکستان يا مسلمانوں پر لگايا جاتا ہے