بے چاری بيوی يا بے چارہ خاوند ؟

دفتر کی بَک بَک زيادہ رہی ۔ بھنايا ہوا خاوند شام کو گھر پہنچا
لٹکا چہرہ دیکھ کر بيوی بولی “کيا ہوا ؟ ”
خاوند “دفتر والے ۔ ۔ ۔ ”
بيوی بات کاٹ کر “يہ مرد ہوتے ہی بہت بُرے ہیں”
خاوند “کيوں ؟”
بيوی “يہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ؟ عورتوں کو گھر میں بند رکھتے ہیں ۔ عورتوں پر ظُلم کرتے ہيں ۔ راہ جاتی عورتوں کو چھڑتے ہيں ۔ بدتميز”
خاوند “ميں ؟ بدتميز ؟ ”
بيوی ” تمہيں تو نہیں کہہ رہی ۔ یہ مردوئے”
خاوند “ميں بھی تو مرد ہوں ”
بيوی ” تم نے کونسا مجھے عرشں پہ بٹھا رکھا ہے ؟”
خاوند ” تمہاری ہر ضرورت پوری کرتا ہوں ۔ کبھی تو خيال کر ليا کرو کہ میں سارے دن کا کھپا ہوا آتا ہوں اورآتے ہی تم شروع ہو گئی ہو”
بيوی “ہاں ہاں ميں تو سارا دن يہاں سوئی رہتی ہوں ۔ گھر کا کام کاج تمہاری دوسری بيوی کرتی ہے کيا ؟”
خاوند ” کپڑے اور برتن دھونا اور گھر کی صفائی ملازمہ کرتی ہےاور سبزی بھی کاٹ ديتی ہیں ۔ تم نے صرف ہنڈيا پکانا ہوتی ہے”
بيوی “ميری تو قسمت ہی پھُوٹ گئی جو اس گھر میں آئی ۔ سارا دن کی کھپ کھپائی اور کوئی قدر ہی نہیں”
خاوند ” اور وہ جو تمہاری روزانہ کی روئيداد سنتا ہوں سب گھروں میں باری باری ہونے والی عورتوں کی محفلوں کی ؟”
بيوی ” ہاں ہاں ۔ قيد کردو ۔ گھر پہ پہرے بٹھا دو ۔ ميری قسمت میں ايک دن کی خوشی نہ ہوئی اس گھر میں ۔ اب ملنے واليوں پر بھی پابندی ۔ کل پتہ نہيں کيا ہو گا”

اور بيوی رونے لگتی ہے

خاوند جو اب تک اپنا بيگ اُٹھائے کھڑا تھا کمرے میں جا کر اپنے بستر پر گر جاتا ہے اور اُسی طرح سو جاتا ہے
اگلی صبح اُٹھتا ہے تو ناشتہ تيار نہ ہونے کی وجہ سے بغير ناشتے دفتر چلا جاتا ہے

دفتر سے واپس آتا ہے تو گھر میں جيسے کوئی ماتم ہو گيا ہو ۔ کچھ عورتیں جمع ہیں ۔ بيوی رو رہی ہے ۔ دو تين اور بسور رہی ہيں ۔ کوئی بيوی کو سمجھا رہی ہے اور کوئی مردوں کو کوسے جا رہی ہے

خاوند گبھرا کر “کيا ہوا ؟ يہ سب کيا ہے ؟ يہ ماتم کيسا ؟”
ایک بڑی بی بولتی ہيں ” اے نگوڑے کہاں چلا گيا تھا تُو ۔ بہو صبح سے بلک رہی ہے ۔ کيا حال ہو گيا ہے بيچاری کا”
خاوند ” میں ؟ ميں نے کہاں جانا ہے ؟ دفتر نہ جاؤں تو گھر کيسے چلاؤں ؟”

ايسا يا اس سے ملتا جلتا کھيل اکثر تعليميافتہ گھرانوں ميں ہوتا ديکھا گيا ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

15 thoughts on “بے چاری بيوی يا بے چارہ خاوند ؟

  1. یاسر خوامخواہ جاپانی

    ھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو مرعوب ھونے کی وجہ سے یہ سمجھتے تھے کہ جاپانی خواتین جو ترقی یافتہ قوم سے ھوتی ھیں۔یہ سب کچھ صرف یہی کرتی ھیں۔پاکستانی بیوی والا شوھر بھی بے چارہ ھی ھے۔ :-D :-D :-D

  2. راشد کامران

    (:۔۔
    آپ تھوڑا سا سیمپل اسپیس بڑھائیں یا یہیں ایک پول کرالیں کہ کتنے لوگ صبح آفس بھوکے جاتے ہیں اور شام کو انکی خواتین گھر میں مجمع لگا کر رکھتی ہیں یا اس طرح کے تماشے ہوتے ہیں۔۔ ماشاءاللہ کئی بلاگرز برسر روزگار اور تعلیم یافتہ ہیں اور شادی شدہ بھی ہیں۔۔ آپ بھی تعلیم یافتہ ہیں اور آفس جاتے رہیں ہیں کیا آپ اکثر میں شامل ہیں؟۔۔ کیونکہ یہ کہنا کہ “اکثر” میں ایسا دیکھا گیا ہے بہت بڑا بیان ہے۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    راشد کامران صاحب
    نامعلوم کيوں آپ ميری ہر تحرير کے منفی پہلو پر نظر رکھتے ہيں ۔ آپ کی خاطر ميں نے فقرہ بدل ديا ہے ۔ ليکن اب بھی آپ غلط مطلب نکال سکتے ہيں ۔
    جہاں تک ميرا تعلق ہے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل سے ميری بيوی ميری طرح ہی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے ڈرنے والی ہے ۔ دنيا سے نہيں ڈرتی اور مجھے وہی درجہ ديتی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرما ديا ہے ۔

  4. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    افتخاربھائی، شادی کہ خانہ بربادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :lol: ایسی باتیں واقعی پڑھےلکھےخاندانوں میں ہوتی ہےہمارےجیسےمتوسط خاندان اس سےبچےہوئےہیں۔

    والسلام
    جاویداقبال

  5. محمد سعید پالن پوری

    آپ کی ہمت کو داد دینی پڑیگی کہ آپ اتنے کشیدہ اور پر آشوب حالات میں بھی ایسی پوسٹ لکھ دیتے ہیں

  6. حیدرآبادی

    شاید یہاں ان “اکثر” گھرانوں کی بات ہو رہی ہے جہاں صرف میاں بیوی ہوتے ہیں۔
    ورنہ جہاں بچہ یا بچے ہوں ، یہ ناممکن ہے کہ شوہر رات کا کھانا کھائے بغیر بستر پر جا سوئے تو صبح ہی آفس جانے اٹھے۔
    راشد کامران صاحب کی بات کسی حد تک درست لگتی ہے کہ : یہ کہنا کہ “اکثر میں ایسا دیکھا گیا ہے” بہت بڑا بیان ہے۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    حيدرآبادی صاحب
    پہلے يہ بتايئے کہ آپ نے اپنے پيغام کے کان ميں کيا کہا تھا کہ جا کے سپيم ميں بيٹھ گيا ؟
    ميں اسے وہاں سے منا کر لايا ہوں
    آپ تو اُردو کے گھر ميں رہتے ہيں فقرہ دوبارہ پڑھيئے ۔ مقابلہ غير تعليم يافتہ گھرانوں سے ہو رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.