اسے کہتے ہيں “امن کی آشا”

بھارت کے شہرچندی گڑھ میں حریت راہنما میرواعظ عمر فاروق پاک بھارت تعلقات کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے کہ انتہا پسند ہندو پنڈتوں نے زور زور سے بولتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا ۔ ان کے بال نوچے ۔ ان کی ٹوپی گرادی اور کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی

یہ انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے تیسرے کشمیری رہنما پر حملہ ہے ۔ اس سے قبل سيّد علی گیلانی اور شبیر شاہ پر بھی حملے کئے جا چکے ہيں

برطانوی عورتيں ۔ حيرت انگيز تعداد کی تبديلی مذہب

پچھلے ماہ معلوم ہوا کہ کس طرح ايک معروف صحافيہ اور سابق وزيرِ اعظم برطانيہ ٹونی بليئر کی خواہرِ نسبتی لورين بوتھ [Lauren Booth] نے اسلام قبول کيا ۔ کچھ عرصہ سے بالخصوص 11 ستمبر 2001ء کے بعد امريکا اور يورپ ميں بالخصوص گوروں ميں اسلام قبول کرنے والوں کں تعداد ميں روز افزوں اضافہ ہونے لگا تھا البتہ يہ عمل انگلستان ميں خاص طور پر ديکھا گيا ۔ سنڈے ٹائمز نے اپنی 22 فروری 2004ء کی اشاعت ميں ايک مضمون ” Islamic Britain lures top people ” کے عنوان سے شائع کيا تھا جس ميں تحرير تھا کہ:
“پہلے مصدقہ مطالعہ سے يہ حقيقت سامنے آئی ہے کہ برطانيہ کے 14000 سے زائد گوروں نے مغربی دنيا کی قدروں سے بيزار ہو کر اسلام قبول کر ليا ہے ان ميں برطانيہ کے چوٹی کے زمينداروں ۔ مشہور ہستيوں اور اعلٰی عہديداروں کی اولاد نے اسلام کے اصولوں پر سختی سے عمل شروع کر ديا ہے”

انگلستان ميں صرف ايک يوسف اسلام [سابق موسيقار ] ايک مشہور شخص تھا جس نے اسلام قبول کيا تھا ۔ 11 ستمبر کے بعد افغانستان سے اطلاعات بھيجتے ہوئے صحافيہ Yvonne Ridley [اب مريم] نے اُسے گرفتار کرنے والے طالبان کی مہمان نوازی اور عزت افزائی سے متاءثر ہو کر اسلام قبول کيا ۔ حيران کُن بات يہ ہے کہYvonne Ridley نے کہا کہ:
“مسلمان عورتوں کی يکجہتی کے سامنے مغربی دنيا کا نَظَرِيَہ حَقُوقِ نِسواں ھيچ [غيراہم] ہو کر رہ جاتا ہے”

اُس نے مزيد لکھا کہ “مجھے پوچھا گيا کہ اسلام کس طرح مردوں کو اپنی بيويوں کی پٹائی کی اجازت ديتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ وہ حقيقت سے وقف نہيں ہيں ۔ ہاں ميں جانتی ہوں کہ اسلام کے نقاد قرآنی آيات يا حديث کے بے ترتيب حوالے ديں گے جو کہ عام طور پر سياق و سباق سے ہٹے ہوئے ہوتے ہيں ۔ اگر ايک آدمی اپنی بيوی کی طرف اُنگلی بھی اُتھا تو اُسے اُس کے جسم پر نشان چھوڑنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ۔ ۔ قرآن کے بيان کا ايک اور رُخ بھی ہے ‘اپنی بيوی کو بيوقوفوں کی طرح مت پِيٹو’ ”

“آيئے کچھ دلچسپ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہيں ۔ نيشنل ڈوميسٹک وائلينس ہاٹ لائن [National Domestic Violence Hotline] کے مطابق اوسط 12 ماہ ميں 40 لاکھ امريکی عورتيں اپنے خاوندوں کے بڑے حملے [serious assault] کا نشانہ بنتی ہيں”

‘اوسطاً روزانہ 3 سے زائد امريکی عورتيں اپنے خاوندوں يا دوست لڑکوں [boyfriends] کے ہاتھوں قتل ہوتی ہيں ۔ جس کا مطلب ہے کہ 11 ستمبر 2001ء سے اب [پہلا ہفتہ ستمبر 2006ء] تک 5500 اس طرح قتل کی جا چکی ہيں

“Now you tell me what is more liberating. Being judged on the length of your skirt and the size of your cosmetically enhanced breasts, or being judged on your character, mind and intelligence? Glossy magazines tell us as women that unless we are tall, slim and beautiful we will be unloved and unwanted. The pressure on teenage magazine readers to have a boyfriend is almost obscene”
“آپ مجھے بتايئے کہ آزادی کيا ہے ؟ آپ کے سکرٹ کی لمبائی اور مصنوعی طريقہ سے بڑھائی ہوئی چھاتيوں سے ناپا جانا يا کہ آپ کے کردار ۔ عقل اور ذہانت سے اندازہ لگانا ؟ چمکدار رسالے ہميں بتاتے ہيں کہ بطور عورت اگر ہمارا قد اُونچا ۔ جسم پھريرا اور خوبصورت نہيں تو نہ کوئی ہم سے پيار کرے گا نہ ہماری چاہت ۔ نوجوانوں کے رسالوں ميں کسی نہ کسی لڑکے کو دوست بنانے کا دباؤ فحش ہونے کی حد تک ہوتا ہے”

[مجھے يقين ہے کہ وہ پاکستانی روشن خيالوں سے نہيں ملی ہو گی :lol:]

لَورين بُوتھ [Lauren Booth] کاميلا لی لينڈ [Camilla Leyland] کرسٹيانے بيکر [Kritiane Backer] لِنّے علی [Linne Ali] اور ديگر کے حاليہ حيران کُن تبديلی مذہب نے لوگوں کو يہ پوچھنے پر مجبور کر ديا کہ “برطانوی جديد کام کرنے والی عورتوں نے کيوں اسلام قبول کرنا شروع کر ديا ہے ؟”

دی ڈيلی ميل [The Daily Mail] نے اس سوال کا جواب دينے کی کوشش کی

کاميلا لی لينڈ کہتی ہيں
“مغربی دنيا ميں ہميں سطحی وجوہات کی بناء پر مجبور کيا جاتا ہے جيسا کہ ہميں کون سا لباس پہننا چاہيئے ۔ اسلام ميں ہر کوئی اعلٰی منزلِ مقصود رکھتا ہے ۔ ہر عمل اللہ کی خوشنودی کيلئے ہوتا ہے ۔ يہ ايک بالکل مختلف معيارِ زندگی ہے”

کرسٹيانے بيکر اپنی کتاب [From MTV to Mecca] کے مختصر بيان ميں لکھا ” ميں نے اپنے آپ کو گُم کر ديا تھا مگر اب ميں نے اپنے آپ کو پا ليا ہے ۔ شو بز کی چمک نے مجھے کچھ نہ ديا ۔ ميں اپنی اس پيشہ ورانہ زندگی کو کسی قيمت پر جاری نہيں رکھنا چاہتی تھی ۔ ميری واضح سمت تبديل ہو چکی تھی ۔ ميں اپنی زندگی کی ہر ہيئت کو ايک کام مختلف معياری نظام ميں مدغم کر دينا چاہتی تھی

لِنّے علی کہتی ہيں “ميں اتنی شکر گذار ہوں کہ مجھے بچ نکلنے کا راستہ مل گيا ۔ اب يہ ميری اصليت ہے ۔ ميں دن ميں پانچ بار عبادت کر کے خوش ہوں اور ميں مسجد ميں جا کے تعليم بھی حاصل کر رہی ہوں ميں اب ايک شکستہ گروہ اور اس کی توقعات کا حصہ نہيں ہوں”۔

يہ انکشافات ميرے جيسے عام پاکستانی مسلمانوں کيلئے شايد حيرت انگيز ہوں کيونکہ ساری دنيا بالخصوص پاکستان کے بيشتر مسلمانوں نے شرمندگی کا رويّہ اپنا رکھا ہے ۔ الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کا قائم کيا ہوا تُند و تيز اسلام دُشمن ميدانِ کار زار اور دہشتگردی ميں ضائع ہونے والی معصوم جانوں نے ہميں دفاعی صورت ميں کھڑا کر ديا ہے ۔ بنيادی اسلام کے خلاف يلغار اتنی تيز ہے کہ جہاد کا نام لينا بھی آدمی کو مصائب ميں مبتلا کر سکتا ہے جو ملامت اور تنقيد سے لے کر غائب ہونے تک ہو سکتے ہيں

ترجمہ اقتباس از تحرير ڈاکٹر جواد احمد خان
مکمل تحرير يہاں پڑھی جا سکتی ہے

ڈوگرہ حکومت کی مکّاری اور اعلانِ جہاد

تين ماہ سے پھر مقبوضہ جموں کشمير ميں ظُلم کا بازار گرم ہے اور آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کر رہے ہيں ۔ اِن کيلئے يہ ظُلم کوئی نئی بات نہيں 1947ء سے سہتے آ رہے ہيں

اکتوبر 1947ء کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھُریاں سب ضبط کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا جانے لگا ۔ قتلِ عام کرنے والوں ميں مقامی ہندو بہت کم تھے زيادہ تر ہندوستان سے نو وارد راشٹريہ سيوک سنگ اور ہندو مہاسبھا کے ہندو اور اکالی دَل کے سِکھ تھے ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مُسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مُسلے قربان کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں عید الاضحے اتوار 26 اکتوبر 1947ء کو تھی

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے الله پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک آزادی تھی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا

27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جموں کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر اپنی فوج بذریعہ سِوِلِیّن ہوائی جہازوں کے جموں چھاؤنی (ستواری) کی ایئرپورٹ پر اُتارنا شروع کر دی ۔ پہلا جہاز جموں کی فضا میں پہنچنے پر رن وے پر رکاوٹ کھڑی کی گئی لیکن جہاز لینڈ کر گیا اور ٹکر سے بچنے کیلئے داہنی طرف کو مڑنے کی کوشش میں اس کا داہنا پر زمین میں دھنس گیا مگر فوج اترنے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہ کمانڈوز تھے ۔ اُنہوں نے آتے ہی ایئرپورٹ کا نظام سنبھال لیا اور وہاں موجود عملہ کو گرفتار کر لیا ۔ اس کے بعد دھڑا دھڑ بھارتی فوج اُترنے لگی۔ (ہم اُن دنوں ستواری (جموں چھاؤنی) میں تھے اور رہائش ایئر پورٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ میں اور میرا کزن ارشد حفیظ جلانے کیلئے سوکھی تھوریں تلاش کرتے وہاں پہنچے تو ہم نے وہ جہاز دیکھا جس کا ایک داہنا پر زمین میں دھنسا ہوا تھا)

بھارتی فوج نے 30 اکتوبر 1947ء تک سارے جموں کی سرحدوں پر پھیل گئی اور پھر کشمیر اور پونچھ کی طرف رُخ کیا اور نومبر کے شروع میں بڑی تعداد میں کشمیر اور پونچھ کی سرحدون پر پہنچ گئی
بھارت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن الله سُبْحَانهُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا

يہاں يہ بتانا بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت جو ہميشہ سے کہتی آئی ہے کہ جموں کشمير کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کيا تھا يہ سراسر جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تحريری يا غيرتحريری ثبوت موجود نہيں ۔ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو جب بھارتی وزيرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو رياست کے مجاہدين کی فتوحات سے گبھرا کر بھاگتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے دفتر پہنچے تھے وہاں وہ ثبوت سلامتی کونسل کے سامنے پيش نہ کرتے ؟ ديگر ميں خود اس واقعہ کا گواہ ہوں کہ جب بھارت کا پہلا ہوائی جہاز جموں چھاؤنی ستواری کی فضا ميں پہنچا تو اسے اُترنے کی اجازت نہ دی گئی اور رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ۔ زبردستی اُترتے ہوئے ہوائی جہاز کا ايک پر زمين ميں دھنس گيا تھا ۔ اس ميں سے فوجی نکلے اور اُنہوں کے ايئرپورٹ پر قبضہ کر ليا کيونکہ وہاں رياست کی کوئی فوج نہ تھی

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے البتہ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔

بے سروسامانی کی حالت میں صرف الله پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ کئی پاکستانی فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی

جب میں 1953ء میں کراچی ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں فزکس کا پریکٹیکل کر رہا تھا۔ ہمارے ڈیمانسٹریٹر نئے تعلیم یافتہ مرزا عبدالباقی بیگ تھے یہ ذہین انسان تھے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جانے کے منتظر تھے۔ ہم کو ورنیئر کیلیپرس [Vernier Callipers
] اور مائیکرو میٹر [Micrometer] دیئے گئے تھے کہ ان کی مدد سے دھات کی شیٹ کے ایک ٹکڑے کی موٹائی اور ایک تار کا قطر معلوم کرنا تھا۔ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ کس طرح ان آلات کا صحیح استعمال کیا جا سکتا تھا اور صحیح طریقے سے پیمائش کی جا سکتی تھی۔عبدالباقی بیگ سامنے ٹیبل و کرسی پر بیٹھے تھے تھوڑی دیر میں ہمارے پروفیسر ڈی سوزا [De Souza] آگئے اور عبدالباقی بیگ کے سامنے بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز پر رکھے کیلیپر اور مائیکرومیٹر کو اٹھا کر عبدالباقی بیگ سے اس کو استعمال کرنے کا طریقہ دریافت کیا ۔ عبدالباقی بیگ جواب نہ دے سکے اور نہ ہی صحیح طریقہ سے استعمال کر سکے، پروفیسر ڈی سوزا نے پھر ان کو ان آلات کے استعمال کرنے کا طریقہ کار بتایا ۔ عبدالباقی بیگ نے بعد میں امریکہ میں فزکس میں پی ایچ ڈی کی اور نیویارک کے راکیفیلر انسٹی ٹیوٹ [Rockefeller Institute] میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن کر دنیا میں نام پیدا کیا ان کا کام بہت اعلیٰ تھا اور انہوں نے بہت شہرت حاصل کی ہماری بدقسمتی کہ وہ نوبل انعام حاصل نہ کر سکے اور صرف 55 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مرحوم آغاشاہی نے 1976ء کے اواخر میں ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین بننے کی پیشکش کی تھی چونکہ مرحوم وزیراعظم بھٹو منیر احمد خان کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ پروفیسر عبدالباقی بیگ زمانہ شناس اور سمجھدار تھے انہوں نے نرمی سے یہ پیشکش نامنظور کر دی او ر پاکستان نہ آئے۔

احوالِ قوم ۔ 4 ۔ کردار

زمانے میں ہیں ایسی قومیں بہت سی۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن میں تخصیص فرماں دہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پَستی
چکور اور شہباز سب اَوج پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں

وہ ملت کہ گردُوں پہ جس کا قدم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علَم تھا
وہ فرقہ جو آفاق میں محترم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اُمت لَقَب جس کا خَیرُ الاُمَم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں۔ ۔ کہ گِنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگرنہ ہماری رگوں میں لہو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں
دِلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں فطرت میں عادت میں خُو میں
نہیں کوئی ذرّہ نجابت کا باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی

ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت۔ ۔ نہ اپنوں سے اُلفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سُستی، دماغوں میں نخوت۔ ۔ ۔ ۔ خیالوں میں پَستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں ۔ دوستی آشکارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ غرض کی تواضع ۔ غرض کی مُدارا

نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ عِلموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ صنعت میں حرفت میں مُمتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ مَنزلت نوکری میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بُری گَت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے

کلام خواجہ الطاف حسين حالی

قربانی ۔ ؟ ؟ ؟

سيّدنا ابراھيم عليہ السلام نے ہميں کيا اسی قربانی کا سبق ديا تھا ؟
ايسا ايک ہی شہر ميں کيوں ہوتا ہے ؟
کسی کے پاس ہے اس کا مدلل جواب ؟

کراچی 17 نومبر 2010ء ۔ میں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کی کھالیں چھیننے کے دوران فائرنگ کے واقعات میں تین افراد ہلاک دس زخمی ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق کراچی کے علاقے لیاری میں نیازی چوک پر قربانی کے جانور کی کھالیں مانگنے کیلئے مسلح افراد آئے لیکن علاقے کے لوگوں نے کھالیں دینے سے انکار کر دیا ، جس پر مسلح افراد نے مکینوں سے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کردی۔ فائرنگ کی زد میں آکردوبچوں سمیت10 افراد زخمی ہو گئے جبکہ دو افراد جاں بحق ہو گئے ۔زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انھیں طبی امداد دی گئی واقع کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جہاں قانون نافذ کرنے والوں نے متاثرہ علاقے کو گھیر لیا اور سرچ اپریشن کیا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔گلشن اقبال بلاک سترہ کے اشرف اسکوائر میں قربانی کی کھالیں چھیننے کے دوران ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے جھگڑے کے بعد فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ان کا اپنا ساتھی افتخار شدید زخمی ہوگیا جو بعد میں جناح اسپتال میں ہلاک ہوگیا ،پولیس واقع کی تفتیش کررہی ہے

عيد مبارک

آج يہ ورد کرتے ہوئے حجاج منٰی سے حرم کعبہ مکہ کی طرف رواں دواں ہيں

لَبَّيْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِيْکَ لَکَ

میں حاضر ہوں یااﷲ میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ميں حاضر ہوں ۔ تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی ۔ تیرا کوئی شریک نہیں

باقی لوگ عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھيں کم از کم ہر نماز کے بعد ايک بار

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک اور اللہ ان کا حج قبول فرمائے
سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے