ميرے ہموطنوں کی اکثريت سنجيدہ قسم کی کُتب اور مضامين پڑھنے کيلئے وقت نکالنے سے قاصر ہيں ۔ ناول ۔ افسانے ۔ چٹخارے دار کہانياں پڑھنے اور مووی فلميں اور ڈرامے ديکھنے کيلئے اُن کے پاس وافر وقت ہوتا ہے ۔ البتہ بشمول سنجيدہ اور قانونی ہر موضوع پر تبصرہ کرنا اُن کے بائيں ہاتھ کا کھيل ہے ۔ چاہيئے تو يہ تھا کہ اس موضوع پر کوئی ماہرِ قانون جيسے شعيب صفدر صاحب قلم کاری کرتےليکن وہ شايد آجکل زيادہ اہم امور سے نپٹنے ميں مصروف ہيں
ميں قانون کا نہ تو طالب علم ہوں اور نہ ماہر مگر سرکاری ملازمت کی مختلف منازل [اسسٹنٹ منيجر ۔ منيجر ۔ پروڈکشن منيجر ۔ ورکس منيجر ۔ پرنسپل ۔ جنرل منيجر اور ڈائريکٹر] طے کرتے ہوئے اپنے تکنيکی کام کے ساتھ قانونی کاروائيوں سے بھی نبٹنا پڑتا رہا ۔ اس فرض کو بحُسن و خُوبی انجام دينے کيلئے قوانين کا مطالعہ کيا اور الحمد للہ کئی مشکل قانونی معاملات نبٹائے
آسيہ اور عافيہ کے مقدموں اور فيصلوں پر کئی خواتين و حضرات نے طويل جذباتی تحارير لکھيں ۔ ابھی تک اکثريت کے ذہنوں ميں ابہام ہے کہ دونوں کے مقدمات کے فيصلوں ميں سے کون سا درست ہے اور کون سا غلط ۔ اُميد ہے کہ مندرجہ ذيل قانونی صورتِ حال سے وضاحت ہو جائے گا
انسان کے حقيقی عمل سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ کوئی واقف نہيں ۔ عدالتيں شہادتوں کی بنياد پر قانون کے مطابق فيصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہيں ۔ اگر وہ ايسا نہيں کرتيں ہيں تو انصاف نہيں ہوتا بلکہ انصاف کا خون ہوتا ہے اور انصاف کا خون صرف وطنِ عزيز ميں ہی نہيں ہوتا رہا بلکہ دنيا کے تمام ممالک بشمول امريکا ميں ہوتا آيا ہے ۔ اس سلسلہ ميں اب امريکا انسانيت کی تمام حدود پار کر چکا ہے ۔ وہاں ملزم کو اپنی مرضی کی سزا دينے کيلئے نيا قانون بنا کر ملزم کے تمام انسانی اور قانونی حقوق سلب کر لئے جاتے ہيں
انصاف کيلئے قانون کا تقاضہ
فيصلہ کرنے کيلئے عدالت کا انحصار شہادتوں پر ہوتا ہے جو تين قسم کی ہوتی ہيں
1 ۔ مادی اور واقعاتی
2 ۔ دستاويزی
3 ۔ شخصی
آسيہ کے مقدمہ ميں چونکہ صرف زبان کا استعمال ہوا اور کوئی دستاويز يا ہتھيار استعمال نہيں ہوا اسلئے فيصلہ کا انحصار صرف شخصی شہادتوں پر تھا
واقعہ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے سب کو اکٹھا کيا جس ميں آسيہ سے جواب طلبی کی گئی تو آسيہ نے اقرار کيا کہ اُس نے توہينِ رسالت کا جُرم کيا ہے اور معافی کی درخواست کی
جُرم کسی شخص کے خلاف نہيں کيا گيا تھا بلکہ اللہ جل شانُہُ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے خلاف کيا گيا تھا جسے معاف کرنے کا کوئی انسان مجاز نہ تھا
آسيہ کے واقعہ کے سلسلہ ميں مروجہ قانون کے مطابق مندرجہ ذيل اقدامات لازم تھے
کسی ايک آدمی کی طرف سے متعلقہ تھانے ميں رپورٹ درج کرانا جسے ايف آئی آر کہتے ہيں ۔ جو کہ دو عورتوں نے درج کرائی جو عينی شاہد تھيں
چار پانچ سال قبل مقدمہ کی کاروائی سول جج کی عدالت ميں ہوا کرتی تھی جو قانون ميں تبديلی کے بعد ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج نے کرنا تھی اور ايسا ہی ہوا
چار پانچ سال قبل تفتيش متعلقہ تھانيدار کرتا تھا جو قانون ميں تبديلی کے بعد سپرنٹنڈنٹ پوليس کرتا ہے ۔ سيشن جج کے حکم پر تفتيش سپرنٹنڈنٹ پوليس نے کی جو عدالت ميں پيش کی گئی
مدعيان اور آسيہ نے عدالت ميں شہادتوں کے ذريعے اپنے آپ کو درست ثابت کرنا تھا ۔ مدعيان کی طرف سے آسيہ کے خلاف 6 گواہ پيش ہوئے جن ميں سے ايک کی گواہی عدالت نے مسترد کر دی ۔ آسيہ کی طرف سے کوئی گواہ پيش نہ ہوا
آسيہ کے وکيل نے صرف دو اعتراضات داخل کئے
تحقيقات ايس پی نے کرنا تھيں مگر ايس ايچ او نے کيں ۔ [يہ غلط تھا]
صوبائی يا وفاقی حکومت سے اجازت نہيں لی گئی [قانون کے مطابق اس کی ضرورت نہ تھی]
آسيہ کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالتِ اعلٰی ميں اپيل کرے جو شايد وہ کر چکی ہے
آسيہ کے برعکس عافيہ کے سلسلہ ميں ہتھيار يعنی بندوق استعمال ہوئی چنانچہ اس سلسلہ ميں تينوں قسم کی شہادتيں پيش ہو سکتی تھيں
مزيد چونکہ عافيہ کو موقع پر ہی گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ اسلئے فيصلہ ميں مادی اور واقعاتی شہادتوں کا وزن زيادہ ہونا لازم تھا
خيال رہے کہ عافيہ کو سزا القاعدہ سے تعلق يا عافيہ کے دہشتگردی ميں ملوث ہونے کی وجہ سے نہيں دی گئی
شخصی شہادت ميں جو کچھ سامنے آيا وہ يہ ہے
عافيہ نے بندوق اُٹھائی ہوئی تھی جس کا رُخ امريکی فوجی کی طرف تھا
اُس نے کارتوس چلائے مگر کوئی گولی امريکی فوجی کو نہ لگی
ميں شہادت کا باقی حصہ جو سراسر عافيہ کے حق ميں جاتا ہے فی الحال چھوڑ رہا ہوں ۔ قانون کے مطابق جو پاکستان ۔ امريکا اور باقی دنيا ميں بھی ايک ہی ہے لازم تھا کہ
عافيہ نے جو بندوق استعمال کی تھی اُسے بغير ننگے ہاتھ لگائے اس کی قسم ۔ پروڈکشن کا سال يا تاريخ اور سيريل نمبر ريکارڈ کر کے بندوق پر موجود اُنگليوں کے نشانات کے پرنٹ لے کر محفوظ کر لئے جاتے اس کے بعد بندوق کو ايک تھيلے ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا
جو کارتوس عافيہ نے چلائے تھے اُن کے خولوں کی قسم ۔ ان پر موجود پروڈکشن کا سال اور لاٹ نمبر [Lot n#] ريکارڈ کر کے محفوظ کر ليا جاتا اور پھر خولوں کو ايک تھيلی ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا
انصاف اور قانون کا تقاضہ تھا کہ مندرجہ بالا تينوں شہادتيں مقدمہ کے دوران عدالت ميں پيش کی جاتيں مگر ہوا يہ کہ جب عافيہ کے وکيل نے پوچھا “وہ بندوق کہاں ہے جو عافيہ کے ہاتھ ميں تھی ؟”
جواب ملا “وہ استعمال کيلئے فوجيوں کو دے دی گئی تھی نمعلوم اب کہاں ہے”
پھر عافيہ کے وکيل نے پوچھا “اس بندوق پر سے جو انگليوں کے نشانات لئے گئے وہ کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “بندوق پر انگليوں کے نشانات نہيں پڑتے”۔[يہ سراسر جھوٹ تھا کيونکہ دھات ۔ پلاسٹک اور پالِشڈ لکڑی پر انگليوں کے واضح نشانات بنتے ہيں اور بندوق آجکل لوہے کی بنی ہوتی ہے جس کے فورآرم اور بٹ [Forearm & Butt] پلاسٹک کے بنے ہوتے ہيں ۔ 30 سال قبل يہ پالشڈ لکڑی کے بنے ہوتے تھے
عافيہ کے وکيل نے مزيد پوچھا “جو کارتوس عافيہ نے چلائے اُن کے خول کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “پتہ نہيں وہ کہاں ہيں”
مندرجہ بالا جوابات کے بعد انصاف کا يہ تقاضہ تھا کہ ملزمہ عافيہ کو فوری طور پر رہا کر ديا جاتا مگر اُسے 76 سال کی قيد ہوئی جو يکے بعد ديگرے بھگتنا ہے
خيال رہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو جن تين اہم شہادتوں کی بنا پر مجرم ٹھہرايا گيا تھا اُن ميں سے ايک جائے واردات سے ملنے والے چلائے گئے کاتوسوں کے خول تھے
مقدمہ کی مزيد خامياں
گواہ غريب افغان ہے جو گواہ بننے کی حامی بھرنے کے بعد سے امريکا ميں ہے ۔ اسے امريکا کی شہريت دے دی گئی ہے اور ساری عمر وظيفہ کا وعدہ ہے
مشکوک شہادتی بيانات
عافيہ کے ہاتھ ميں بندوق تھی جو اس نے امريکی فوجی پر تانی ہوئی تھی ۔ عافيہ کھڑی تھی
دوسرے بيان ميں وہ چارپائی پر دو زانو تھی
افغان نے عافيہ کو دھکا ديا
جب تک عافيہ پر گولياں نہيں چلائی گئيں عافيہ سے بندوق چھينی نہيں جا سکی
امريکی فوجی جو عافيہ کی حفاظت پر معمور تھا اس نے وہاں بندوق رکھی جو عافيہ نے اُٹھا لی
دوسرا بيان ہے کہ عافيہ نے حفاظت پر معمور امريکی فوجی سے بندوق چھين لی
سوالات
جس امريکی فوجی کی لاپرواہی سے بندوق عافيہ کے ہاتھ ميں گئی تھی اُس کے خلاف کيا تاديبی کاروائی کی گئی ؟
[پاکستان ميں ايسے فوجی کا کورٹ مارشل کر کے اُسے ملازمت سے برطرف کر ديا جاتا]
عافيہ عورت تھی يا کہ ہاتھی کہ افغان جو جفاکش ہوتے ہيں نے عافيہ کو دھکا ديا مگر عافيہ کا توازن قائم رہا اور بندوق چھيننے کيلئے عافيہ کے پيٹ ميں گولياں مارنا پڑيں [ٹانگوں پر نہيں]
رہی امريکا کی انسانيت سے محبت اور قانون کی پاسداری تو يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھيئے کہ امريکی کتنے ظالم اور وحشی ہوتے ہيں ۔ يہ راز کھُل جانے پر امريکی حکومت نے تصاوير ميں واضح نظر آنے والے 4 فوجيوں ميں سے صرف ايک کے خلاف مقدمہ چلايا جو کہ پرائيويٹ کنٹريکٹ سولجر تھی اور اُسے صرف 3 ماہ قيد کی سزا دی جو بعد ميں کم کر کے ايک ماہ کر دی گئی