آسيہ ۔ عافيہ ۔ قانون ۔ انصاف

ميرے ہموطنوں کی اکثريت سنجيدہ قسم کی کُتب اور مضامين پڑھنے کيلئے وقت نکالنے سے قاصر ہيں ۔ ناول ۔ افسانے ۔ چٹخارے دار کہانياں پڑھنے اور مووی فلميں اور ڈرامے ديکھنے کيلئے اُن کے پاس وافر وقت ہوتا ہے ۔ البتہ بشمول سنجيدہ اور قانونی ہر موضوع پر تبصرہ کرنا اُن کے بائيں ہاتھ کا کھيل ہے ۔ چاہيئے تو يہ تھا کہ اس موضوع پر کوئی ماہرِ قانون جيسے شعيب صفدر صاحب قلم کاری کرتےليکن وہ شايد آجکل زيادہ اہم امور سے نپٹنے ميں مصروف ہيں

ميں قانون کا نہ تو طالب علم ہوں اور نہ ماہر مگر سرکاری ملازمت کی مختلف منازل [اسسٹنٹ منيجر ۔ منيجر ۔ پروڈکشن منيجر ۔ ورکس منيجر ۔ پرنسپل ۔ جنرل منيجر اور ڈائريکٹر] طے کرتے ہوئے اپنے تکنيکی کام کے ساتھ قانونی کاروائيوں سے بھی نبٹنا پڑتا رہا ۔ اس فرض کو بحُسن و خُوبی انجام دينے کيلئے قوانين کا مطالعہ کيا اور الحمد للہ کئی مشکل قانونی معاملات نبٹائے

آسيہ اور عافيہ کے مقدموں اور فيصلوں پر کئی خواتين و حضرات نے طويل جذباتی تحارير لکھيں ۔ ابھی تک اکثريت کے ذہنوں ميں ابہام ہے کہ دونوں کے مقدمات کے فيصلوں ميں سے کون سا درست ہے اور کون سا غلط ۔ اُميد ہے کہ مندرجہ ذيل قانونی صورتِ حال سے وضاحت ہو جائے گا

انسان کے حقيقی عمل سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ کوئی واقف نہيں ۔ عدالتيں شہادتوں کی بنياد پر قانون کے مطابق فيصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہيں ۔ اگر وہ ايسا نہيں کرتيں ہيں تو انصاف نہيں ہوتا بلکہ انصاف کا خون ہوتا ہے اور انصاف کا خون صرف وطنِ عزيز ميں ہی نہيں ہوتا رہا بلکہ دنيا کے تمام ممالک بشمول امريکا ميں ہوتا آيا ہے ۔ اس سلسلہ ميں اب امريکا انسانيت کی تمام حدود پار کر چکا ہے ۔ وہاں ملزم کو اپنی مرضی کی سزا دينے کيلئے نيا قانون بنا کر ملزم کے تمام انسانی اور قانونی حقوق سلب کر لئے جاتے ہيں

انصاف کيلئے قانون کا تقاضہ

فيصلہ کرنے کيلئے عدالت کا انحصار شہادتوں پر ہوتا ہے جو تين قسم کی ہوتی ہيں
1 ۔ مادی اور واقعاتی
2 ۔ دستاويزی
3 ۔ شخصی

آسيہ کے مقدمہ ميں چونکہ صرف زبان کا استعمال ہوا اور کوئی دستاويز يا ہتھيار استعمال نہيں ہوا اسلئے فيصلہ کا انحصار صرف شخصی شہادتوں پر تھا
واقعہ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے سب کو اکٹھا کيا جس ميں آسيہ سے جواب طلبی کی گئی تو آسيہ نے اقرار کيا کہ اُس نے توہينِ رسالت کا جُرم کيا ہے اور معافی کی درخواست کی
جُرم کسی شخص کے خلاف نہيں کيا گيا تھا بلکہ اللہ جل شانُہُ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے خلاف کيا گيا تھا جسے معاف کرنے کا کوئی انسان مجاز نہ تھا

آسيہ کے واقعہ کے سلسلہ ميں مروجہ قانون کے مطابق مندرجہ ذيل اقدامات لازم تھے

کسی ايک آدمی کی طرف سے متعلقہ تھانے ميں رپورٹ درج کرانا جسے ايف آئی آر کہتے ہيں ۔ جو کہ دو عورتوں نے درج کرائی جو عينی شاہد تھيں
چار پانچ سال قبل مقدمہ کی کاروائی سول جج کی عدالت ميں ہوا کرتی تھی جو قانون ميں تبديلی کے بعد ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج نے کرنا تھی اور ايسا ہی ہوا
چار پانچ سال قبل تفتيش متعلقہ تھانيدار کرتا تھا جو قانون ميں تبديلی کے بعد سپرنٹنڈنٹ پوليس کرتا ہے ۔ سيشن جج کے حکم پر تفتيش سپرنٹنڈنٹ پوليس نے کی جو عدالت ميں پيش کی گئی
مدعيان اور آسيہ نے عدالت ميں شہادتوں کے ذريعے اپنے آپ کو درست ثابت کرنا تھا ۔ مدعيان کی طرف سے آسيہ کے خلاف 6 گواہ پيش ہوئے جن ميں سے ايک کی گواہی عدالت نے مسترد کر دی ۔ آسيہ کی طرف سے کوئی گواہ پيش نہ ہوا
آسيہ کے وکيل نے صرف دو اعتراضات داخل کئے
تحقيقات ايس پی نے کرنا تھيں مگر ايس ايچ او نے کيں ۔ [يہ غلط تھا]
صوبائی يا وفاقی حکومت سے اجازت نہيں لی گئی [قانون کے مطابق اس کی ضرورت نہ تھی]

آسيہ کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالتِ اعلٰی ميں اپيل کرے جو شايد وہ کر چکی ہے

آسيہ کے برعکس عافيہ کے سلسلہ ميں ہتھيار يعنی بندوق استعمال ہوئی چنانچہ اس سلسلہ ميں تينوں قسم کی شہادتيں پيش ہو سکتی تھيں
مزيد چونکہ عافيہ کو موقع پر ہی گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ اسلئے فيصلہ ميں مادی اور واقعاتی شہادتوں کا وزن زيادہ ہونا لازم تھا

خيال رہے کہ عافيہ کو سزا القاعدہ سے تعلق يا عافيہ کے دہشتگردی ميں ملوث ہونے کی وجہ سے نہيں دی گئی

شخصی شہادت ميں جو کچھ سامنے آيا وہ يہ ہے
عافيہ نے بندوق اُٹھائی ہوئی تھی جس کا رُخ امريکی فوجی کی طرف تھا
اُس نے کارتوس چلائے مگر کوئی گولی امريکی فوجی کو نہ لگی

ميں شہادت کا باقی حصہ جو سراسر عافيہ کے حق ميں جاتا ہے فی الحال چھوڑ رہا ہوں ۔ قانون کے مطابق جو پاکستان ۔ امريکا اور باقی دنيا ميں بھی ايک ہی ہے لازم تھا کہ
عافيہ نے جو بندوق استعمال کی تھی اُسے بغير ننگے ہاتھ لگائے اس کی قسم ۔ پروڈکشن کا سال يا تاريخ اور سيريل نمبر ريکارڈ کر کے بندوق پر موجود اُنگليوں کے نشانات کے پرنٹ لے کر محفوظ کر لئے جاتے اس کے بعد بندوق کو ايک تھيلے ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا
جو کارتوس عافيہ نے چلائے تھے اُن کے خولوں کی قسم ۔ ان پر موجود پروڈکشن کا سال اور لاٹ نمبر [Lot n#] ريکارڈ کر کے محفوظ کر ليا جاتا اور پھر خولوں کو ايک تھيلی ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا

انصاف اور قانون کا تقاضہ تھا کہ مندرجہ بالا تينوں شہادتيں مقدمہ کے دوران عدالت ميں پيش کی جاتيں مگر ہوا يہ کہ جب عافيہ کے وکيل نے پوچھا “وہ بندوق کہاں ہے جو عافيہ کے ہاتھ ميں تھی ؟”
جواب ملا “وہ استعمال کيلئے فوجيوں کو دے دی گئی تھی نمعلوم اب کہاں ہے”
پھر عافيہ کے وکيل نے پوچھا “اس بندوق پر سے جو انگليوں کے نشانات لئے گئے وہ کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “بندوق پر انگليوں کے نشانات نہيں پڑتے”۔[يہ سراسر جھوٹ تھا کيونکہ دھات ۔ پلاسٹک اور پالِشڈ لکڑی پر انگليوں کے واضح نشانات بنتے ہيں اور بندوق آجکل لوہے کی بنی ہوتی ہے جس کے فورآرم اور بٹ [Forearm & Butt] پلاسٹک کے بنے ہوتے ہيں ۔ 30 سال قبل يہ پالشڈ لکڑی کے بنے ہوتے تھے
عافيہ کے وکيل نے مزيد پوچھا “جو کارتوس عافيہ نے چلائے اُن کے خول کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “پتہ نہيں وہ کہاں ہيں”

مندرجہ بالا جوابات کے بعد انصاف کا يہ تقاضہ تھا کہ ملزمہ عافيہ کو فوری طور پر رہا کر ديا جاتا مگر اُسے 76 سال کی قيد ہوئی جو يکے بعد ديگرے بھگتنا ہے

خيال رہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو جن تين اہم شہادتوں کی بنا پر مجرم ٹھہرايا گيا تھا اُن ميں سے ايک جائے واردات سے ملنے والے چلائے گئے کاتوسوں کے خول تھے

مقدمہ کی مزيد خامياں
گواہ غريب افغان ہے جو گواہ بننے کی حامی بھرنے کے بعد سے امريکا ميں ہے ۔ اسے امريکا کی شہريت دے دی گئی ہے اور ساری عمر وظيفہ کا وعدہ ہے
مشکوک شہادتی بيانات
عافيہ کے ہاتھ ميں بندوق تھی جو اس نے امريکی فوجی پر تانی ہوئی تھی ۔ عافيہ کھڑی تھی
دوسرے بيان ميں وہ چارپائی پر دو زانو تھی
افغان نے عافيہ کو دھکا ديا
جب تک عافيہ پر گولياں نہيں چلائی گئيں عافيہ سے بندوق چھينی نہيں جا سکی
امريکی فوجی جو عافيہ کی حفاظت پر معمور تھا اس نے وہاں بندوق رکھی جو عافيہ نے اُٹھا لی
دوسرا بيان ہے کہ عافيہ نے حفاظت پر معمور امريکی فوجی سے بندوق چھين لی

سوالات
جس امريکی فوجی کی لاپرواہی سے بندوق عافيہ کے ہاتھ ميں گئی تھی اُس کے خلاف کيا تاديبی کاروائی کی گئی ؟
[پاکستان ميں ايسے فوجی کا کورٹ مارشل کر کے اُسے ملازمت سے برطرف کر ديا جاتا]
عافيہ عورت تھی يا کہ ہاتھی کہ افغان جو جفاکش ہوتے ہيں نے عافيہ کو دھکا ديا مگر عافيہ کا توازن قائم رہا اور بندوق چھيننے کيلئے عافيہ کے پيٹ ميں گولياں مارنا پڑيں [ٹانگوں پر نہيں]

رہی امريکا کی انسانيت سے محبت اور قانون کی پاسداری تو يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھيئے کہ امريکی کتنے ظالم اور وحشی ہوتے ہيں ۔ يہ راز کھُل جانے پر امريکی حکومت نے تصاوير ميں واضح نظر آنے والے 4 فوجيوں ميں سے صرف ايک کے خلاف مقدمہ چلايا جو کہ پرائيويٹ کنٹريکٹ سولجر تھی اور اُسے صرف 3 ماہ قيد کی سزا دی جو بعد ميں کم کر کے ايک ماہ کر دی گئی

احوالِ قوم ۔ 5 ۔ سوچ

سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور نبی سے نہیں کام باقی

جہاں مختلف ہوں روایات باہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں

کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ۔ ۔ ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

تعصب کہ ہے دشمنِ نوعِ انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھرے گھر کئے سینکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے ۔ ۔ چھپا جس کے پردے میں اک ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا

نہرمیں خون

ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا

مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ياديں

انسان اپنی زندگی ميں بہت سے مشاہدات اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے مگر يہ سب وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہيں ۔ ليکن ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ظہور کے وقت غير اہم محسوس ہونے والا کوئی واقعہ انسان کے لاشعور ميں نقش ہو جائے ۔ پھر ذہن کی ہارڈ ڈرائيو [Hard Drive] چاہے کريش [crash] ہو جائے يہ واقعہ ريم [RAM] ميں موجود ڈاٹا [data] کی طرح گاہے بگاہے مونيٹر [Monitor] کی سکرين [Screen] پر نمودار ہوتا رہتا ہے

آج جبکہ ميں عمر کی 7 دہائياں گذار چکا ہوں بچپن ميں سُنی ايک آواز ہے جو ميرے کانوں ميں گاہے بگاہے گونجتی رہتی ہے اور مجھے سينکڑوں ہمرکابوں اور درجنوں اتاليقوں کی ياد دلاتی رہتی ہے ۔ يہ چار بچوں کی آواز کے بعد سينکڑوں بچوں کی ہم سُر آواز ہے ۔ ميں ايسی صورت ميں موجودہ دنيا سے گُم ہو جاتا ہوں اور اُس دنيا ميں پہنچ جاتا ہوں جس ميں محبت اور ہمدردی چار سُو چھائے ہوئے تھے ۔ آج کی طرح ہر طرف خودغرضی بُغز اور نفرت نہيں تھی بلکہ ان کی معمولی جھلک بھی اُن دنوں پريشان کر ديتی تھی

اپريل 1950ء سے مارچ 1953ء تک ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں زيرِ تعليم تھا ۔ وہاں صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل ہم دعا پڑھتے تھے اس طرح کہ چار اچھی آواز والے لڑکے سارے سکول کے لڑکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ۔ وہ بآوازِ بلند ايک مصرع پڑھتے ۔ ان کے بعد سکول کے تمام لڑکے پورے جوش سے ايک آواز ميں اسے دہراتے ۔ آج سکولوں کے بڑے بڑے اور غيرملکی نام ہيں ۔ عصرِ حاضر کے طالب علم سے اس دعا کا ذکر کيا جائے تو وہ مبہوت ہو کر تکنے لگتا ہے ۔ ہاں ان سے غير ملکی گانے سُنے جا سکتے ہيں

ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی

شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا لازوال تحفہ

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
دُور دنيا کا ميرے دم سے اندھيرا ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

ہو ميرے دم سے يونہی ميرے وطن کی زينت۔ ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
زندگی ہو ميری پروانے کی صورت يا رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب

ہو ميرا کام غريبوں کی حمايت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دردمندوں سے ضعيفوں سے محبت کرنا
ميرے اللہ! ہر برائی سے بچانا مجھ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نيک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو

انسانيت بمقابلہ توہينِ رسالت

شايد ميرے کچھ ہموطنوں کے خيال ميں محسنِ انسانيت رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی [خاکم بدہن] توہين انسانيت کے ذمرے ميں آتی ہے ۔ وہ لَبَّيْکَ اَللَّہُمَّ لَبَّيْکَ کہنے کی بجائے جب وائٹ ہاؤس سے کوئی صدا بلند ہوتی ہے تو لَبَّيْکَ اَلامريکَا لَبَّيْکَ کہتے ہوئے لپکتے ہيں اور زمينی حقائق ان کی نظروں سے اوجھل اور دماغ سے محو ہو جاتے ہيں

ميرا پاکستان نے آسيہ کے توہينِ رسالت کے متعلق تحرير لکھی ۔ زيادہ مبصرين حسبِ معمول روشن خيالی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ميں انسانی ہمدردی کے داعی اور باعلم ہونے کی خيالی پتنگيں اُڑانے لگے ۔ چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ريکارڈ پر موجود اور اخبار ميں چھپنے والے حقائق پيش کئے جائيں

آسيہ استغاثہ کی مختصر روداد

لاہور سے شايد 100 کلوميٹر دور ننکانہ صاحب کے ايک گاؤں اِٹن ولائی ميں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے عيسائی رہتے ہيں۔ اِٹن ولائی ميں فالسے کے کھيت ميں آسيہ اور کئی دوسری عورتيں جن ميں مسلمان اور عيسائی دونوں شامل تھيں کام کر رہی تھيں ۔ کام کے دوران کچھ عورتوں کے درميان نبيوں عليہم السلام اور مذاہب کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ آسيہ نے نبی صلی اللہ عليہ و سلم اور قرآن شريف کی توہين ميں زبان درازی کی

19 جون 2010ء کوگاؤں کا کٹھ کيا گيا [ميٹنگ بلائی گئی] جہاں آسيہ نے اپنا قصور مانا اور کہا کہ “مجھے معافی دے دو”۔ مگر بات تھانے تک پہنچ چکی تھی جہاں سے اعلٰی افسران تک پہنچی ۔ اور قانون کے مطابق سيشن جج صاحب نے ايس پی انويسٹيگيشن کو تفتيش کا حکم ديا
ايس پی نے 29 جون 2010ء کو دونوں پارٹيوں کو بلايا ۔ 27 آدمی مدعيوں کی طرف سے اور 5 آدمی مدعيہ عليہ آسيہ کی طرف سے آئے اور ان کے بيانات قلمبند کئے گئے
بعد ميں عدالت سے اجازت لے کر ايس پی نے 6 جولائی 2010ء کو جيل ميں آسيہ کا بيان ليا ۔ آسيہ نے مؤقف اختيار کيا کہ “وہ عورتيں اسے مسلمان بنانا چاہتی تھيں ۔ اس کے انکار پر انہوں اس پر مقدمہ بنا ديا”۔ ليکن آسيہ اپنے اس مؤقف کا کوئی ثبوت پيش نہ کر سکی

عدالت ميں آسيہ کے وکيل نے صرف دو نقطے اُٹھائے
1 ۔ قانون کے مطابق تفتيش ايس پی کو کرنا ہوتی ہے مگر اس کی بجائے ايس ايچ او نے کی
2 ۔ صوبائی يا وفاقی حکومت سے اس کيس کی اجازت حاصل نہيں کی گئی
عدالت نے پہلے نقطہ کو غيرحقيقی قرار ديا اور دوسرے کے متعلق کہا کہ ايسا کوئی قانون نہيں
عدالت نے قاری سالم کے بيان کو سُنی سنائی بات قرار ديا ۔
کوئی بيان آسيہ کے مؤقف کی تائيد ميں نہ تھا
آسيہ نے عدالت ميں نہ تو کوئی دفاع پيش کيا اور نہ Section (2) CrPC کے تحت مدعيوں کے مؤقف پر اپنا بيان ديا يا داخل کرايا

کسی مبصر نے يہ کہا کہ ” عدالت ميں 6 آدميوں نے ہاتھ کھڑا کر ديا ۔ اور فيصلہ ہو گيا”۔
حقيقت يہ ہے کہ 5 آدميوں نے آسيہ کے خلاف بيان حلفی داخل کرائے ۔ ان کے علاوہ ايک نے آسيہ کے خلاف بيان ديا کہ “ميں نے سنا تھا کہ يہ ۔ ۔ وہ” جسے عدالت نے سنی سنائی کہہ کر مسترد کر ديا

مبصر شايد اس حقيقت سے واقف نہيں کہ اسمبلی ميں لوگ ہاتھ کھڑے کرتے ہيں تو قانون بن جاتا ہے ۔ اسی طرح ہاتھ کھڑے کرنے سے آئين ميں ترميم ہو جاتی ہے يا نيا آئين بن جاتا ہے تو عدالت ميں فيصلہ کيوں نہيں ہو سکتا

يہ سوال بھی پوچھا گيا کہ باقی مسلمان ممالک ميں بھی اسی طرح غريبوں کے ساتھ کيا جاتا ہے ؟ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح وطنِ عزيز ميں حقيقت کچھ ہو نہ ہو کراری خبريں شائع کی جاتی ہيں جس کی وجہ ميرے ہموطنوں کا مزاج ہے جو چٹخارے دار خبريں پسند کرتے ہيں ۔ دوسرے ممالک ميں ايسی سچی خبر بھی چھاپنے کی اجازت نہيں جس سے اشتعال يا نقصِ امن پيدا ہونے کا خدشہ ہو ۔ اس کيلئے باقاعدہ قانون بنائے گئے ہيں اور ان پر فوری عمل ہوتا ہے ۔ البتہ امريکا اور يورپ ميں مسلمانوں يا اسلام کے خلاف من گھڑت کہانی بھی چھاپ دی جائے تو اسے آزادی اظہار کہہ کر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہيں کی جاتی

انسانيت اور امن کے علمبردار اور عدمِ تشدد کا پرچارک امريکا پاکستان کے قبائلی علاقہ اور افغانستان ميں جو انسانيت بکھير رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اس سے پہلے کی انسانيت پسندی کی کچھ جھلکياں يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھی جاسکتی ہيں
امريکا کی پشت پناہی اور دولت پر پلنے والے اسرائيل جسے امريکا دنيا کی بہترين جمہوريت قرار ديتا ہے ۔ اس کے نام نہاد جمہوری کردار پر طائرانہ نظر ڈالنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر نظر ڈالئے
اہنسا پرمودھرما کے پُجاری سيکولر بھات کی امن کی آشا کی ہلکی سی جھلک ديکھنے کيلئے يہاں پر ۔ يہاں پر اور يہاں پر کلِک کيجئے

اسلام توہينِ رسالت کے متعلق کيا کہتا ہے قرآن و حديث اور مستند سُنی اور شيعہ اماموں کے مسلک پڑھنے کيلے يہاں کلِک کيجئے

تبصروں ميں فرنگی دنيا کی انسانيت پرستی کا ذکر بھی آيا ۔ ان کی انسانيت پرستی اور انصاف کے کئی نمونے ميں چند سال قبل پيش کر چکا ہوں ۔ آج ايک برطانوی وکيل کی تحرير سے اقتباس پيش کرتا ہوں

Pakistan Penal Code (PPC) of 1860 dates from the British colonial period (British Raj : Sections 295 to 298 of the PPC) dealing with religious offences dates back to that period and were intended to prevent and curb religious violence.

The offences were introduced to curb religious hatred amending then s.153 of British India Act which did not include Islam and Raj Pal in 1929 could not be prosecuted for writing ‘A colourful Prophet’ which hurt scores of Muslims and the High Court was not able to provide relief and riots erupted post the writer’s murder in United India. However UK laws were never amended to grant protection to Muslims. In particular S. 295-C of the Pakistan Penal Code says, “whoever by words either spoken or written or by visible representations or in any manner whatsoever, or by any imputation, innuendo or institution, directly or indirectly defiles the sacred name of the holy Prophet Muhammad (PBUH) shall be punished with death or imprisonment for life and shall also be liable to fine.”

However these offences have little value to the West who take freedom of expression as a superior force to all other political and religious compulsions. Their Blasphemy law though covers Christianity but does not cover Islam. Article 10 of European Convention of Human Rights 1950 which is similar to Article 19 of the Constitution of Pakistan 1973 says as follows: “1. Everyone has the right to freedom of expression. This right shall include freedom to hold opinion and to receive and impart information and ideas without interference by public authority and regardless of frontiers. This article shall not prevent States from requiring the Licensing of broadcasting, television or cinema enterprises.”

During the Salman Rushdie affair in the 1980’s after writing a book ‘Satanic Verses’ Britain never prosecuted Salman Rushdie under the Blasphemy Laws of Britain for defiling the Prophet of Islam as British laws only covers Christianity. Under Ex Parte Choudhary [1991] 1 All ER 306, private prosecution was not allowed either by British Courts due to lack of legal provisions. Britain since has introduced the Racial and Religious Hatred Act 2006 which intends to curb preaching religious violence, however it still does not address the core and causes of igniting religious hatred albeit blasphemy.

However in the west denial of holocaust as to whether or not Jews were oppressed by Hitler’s Nazi regime is a criminal offence in most parts of Europe. Holocaust denial is illegal in a number of European countries: In Austria (article 3h Verbotsgesetz 1947) punishable from 6 months to 20 years, Belgium (Belgian Holocaust denial law) punishable from Fine to 1 year imprisonment, the Czech Republic under section 261 punishable from 6 months to 3 years, France (Loi Gayssot) punishable from Fine or 1 month to 2 years, Germany (§ 130 (3) of the penal code) also the Auschwitzlüge law section 185 punishable from Fine or 1 month to 5 years, Lithuania, The Netherlands under articles 137c and 137e punishable from Fine or 2 years to 10 years, Poland, Romania, Slovakia,and Switzerland (article 261bis of the Penal Code) punishable from 6 months to 3-5 years. In addition, under Law 5710-1950 it is also illegal in Israel and punishable from 1 year to 5 years. Italy enacted a law against racial and sexual discrimination on January 25, 2007 punishable from 3 years to 4 years.

Now looking at this tendency the way the West is displaying insensitivity to the Muslim World’s feelings, It will be quite illogical for Islamic countries angry with the behavior of the west to start awarding notorious leaders the highest awards of bravery or who accommodate and promote writers that challenge the myth of the ‘holocaust’. These sentiments though exist which call for serious consideration by OIC and the West to sit together and find a solution to this hugely charged issue as the common man of each society calls for peace and harmony between ancient civilizations. The irony is that East and West are grappling with the situation where each other’s criminals are seeking refugee. Salman Rushdie’s gets a knighthood for Satanic Verses and Tasleema Nasreen protection but there is no law at all to protect the long and strongly held belief of Muslims in the West.

اہنسا کے پُجاری ؟ ؟ ؟

“بغل ميں چھُری منہ ميں رام رام” ايک مشہور کہاوت ہے جو بھارتی حکومت پر سو فيصد منطبق ہوتی ہے ۔ ساری دنيا ميں امن کا ڈھنڈورہ پيٹنے والی بھارتی حکومت کی ايک ہلکی سی جھلک کشمیر میڈیا کے ریسرچ سیکشن کی جانب سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ ميں ديکھيئے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتيجہ ميں جنوری 1989ء سے لے کر اب تک

بھارتی فوجیوں نے 2288خواتین کو شہید کيا
بھارتی فوجیوں نے 9984 کشمیری خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا
ریاستی دہشت گردی کے باعث 22774خواتین بیوہ ہوچکی ہیں
ریاستی دہشت گردی کے باعث 100000 سے زائد خواتین ذہنی مریضہ بن چکی ہیں

خواتین کو تحریک آزادی میں شمولیت سے روکنے کیلئے جنسی طورپر ہراساں کئے جانے جیسے گھٹیا طریقے استعمال کئے جاتے ہیں
بھارتی فوجیوں کی جانب سے زیادہ تر کشمیری مردوں کو غائب کیا جاتا ہے تاہم اس سے ان افراد کی رشتہ دار خواتین مثلاً مائیں، بیویاں، بہنیں اور بیٹیاں بھی متاثر ہوتی ہیں