سب سے بڑا دہشتگرد کون ؟

بقول امريکی اہلکاروں کے اُسامہ بن لادن کو ڈھوندنے اور ہلاک کرنے پر امريکا کے 1.3 ٹريلين يا 13 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ۔ لمحہ بھر کيلئے سوچئے کہ انسانی حقوق اور بھائی چارے کا عملبردار مگر دراصل منافقت کا انبار امريکا اگر اس سے آدھی رقم انسانيت کيلئے خرچ کرتا اور اپنی دہشتگردی چھوڑ ديتا تو ساری دنيا امريکا کی گرويدہ بن چکی ہوتی ۔ آج اس کے بر عکس جتنی امريکہ دُشمنی دنيا بھر کے عوام کے دلوں ميں ہے اتنی اور کوئی چيز نہيں

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ یہ آسان کام میڈیا کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ میڈیا پر سی آئی اے کاکنٹرول مضبوط ہے۔ اسکی مثال لوئیس پوساڈا ہے جو کیوبا، ونیزویلا اور پانامہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے لیکن سی آئی اے نے اسے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اور امریکی میڈیا سی آئی اے کی اس ”دہشت گرد نوازی“ پر چپ سادھے بیٹھا ہے

پوساڈا کیوبا کا ایک باغی ہے جس نے امریکی فوج سے تربیت حاصل کی اور سی آئی اے دستاویزات کے مطابق وہ اس کا تنخواہ دار ہے۔ اس نے 6 اکتوبر 1976ء کوکیوبا کے ایک مسافر بردار طیارے میں 2 ٹائم بم نصب کروا کر طیارے کو تباہ کیا جس میں 73 افراد مارے گئے۔ ونیزویلا کی ایک عدالت میں 2 ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پوساڈا کے کہنے پر طیارے میں بم نصب کئے۔ اس اعتراف کے بعد پوساڈا کو ونیزویلا میں گرفتار کر لیا گیا لیکن 1977ء میں وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ ونیزویلا کی حکومت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا لیکن سی آئی اے نے 1985ء میں بھاری رقم خرچ کر کے پوساڈا کو ایک دفعہ پھر جیل سے بھگا دیا

1997ء میں پوساڈا نے سی آئی اے کی مدد سے کیوبا کے مختلف ہوٹلوں میں بم دھماکے کئے تاکہ کیوبا جانے والے سیاح خوفزدہ ہو جائیں۔ ان دھماکوں میں کئی مغربی سیاح مارے گئے

2000ء میں پوساڈا ایک دفعہ پھر پانامہ میں سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔ وہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو پر قاتلانہ حملے کیلئے پانامہ آیا تھا جو 40 سال میں پہلی دفعہ پانامہ کے دورے پر آ رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش بہت پریشان ہوئے کیونکہ یہ سی آئی اے کی بہت بڑی ناکامی تھی لیکن بُش حکومت نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ پانامہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس دہشت گرد کو رہا کر دیا جائے۔ آخرکار پانامہ نے2004ء میں پوساڈا کو چھوڑ دیا اور سی آئی اے اسے امریکا لے آئی

ونیزویلا اور کیوبا نے اس دہشت گرد کی امریکا میں آؤبھگت پر شور ڈالا تو 2005ء میں سی آئی اے نے ایک ڈرامہ کیا ۔ امیگریشن قوانین کے تحت امریکا میں غیر قانونی قیام کے الزام میں پوساڈا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی سال تک مختلف عدالتوں میں اس مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار 9 اپریل 2011ء کو ٹیکساس کی ایک عدالت نے پوساڈا کو بری کر دیا

ذرا سوچئے کہ پوساڈا کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور اس نے بم دھماکے سے فضا میں طیارہ تباہ کر کے 73 افراد کی جانیں نہ لی ہوتیں بلکہ کسی امریکی کو صرف ایک تھپڑ مارا ہوتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا جس پر قتل کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

پوساڈا پر ونیزویلا میں مقدمہ چلا اور سزا سنائی جا چکی لیکن وہ امریکا کی آنکھ کا تارا ہے۔ ونیزویلا کے صدر ہیوگوشاویز اس دہشت گرد کو امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے لیکن میڈیا پوساڈا کے ساتھ سی آئی اے کی محبت کو سامنے لانے سے کتراتا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اپنے ناقد صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سبق سکھاتی رہتی ہے

لیبیا کی مثال لے لیجئے۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کیلئے سی آئی اے نے ایسے گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جو القاعدہ کے حامی ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیرس میں قذافی مخالف اتحاد کے رہنما محمود جبریل سے ملاقات کی۔ محمود جبریل ایک ایسے اتحاد کے رہنما ہیں جس میں لبیا اسلامک فائٹنگ گروپ بھی شامل ہے جس نے 2007ء میں کھُلے عام القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ القاعدہ کے رہنماؤں ابولیث اللبی اور ابو فراج اللبی کا تعلق اسی گروپ سے تھا

اس وقت قذافی کے خلاف امریکی اسلحے سے لڑنے والے باغیوں کے 2 کمانڈر سفیان بن قومو اور عبدالحکیم الحاسدی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق خود امریکا کو بھی معلوم ہے۔ سفیان بن قومو 2001ء میں قندوز سے گرفتار ہوا اور اس نے امریکا کی گوانتاناموبے جیل میں 6 سال گزارے۔ وہ 2007ء میں رہا ہوا اور قذافی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ عبدالحکیم الحاسدی کو 2002ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر کے لیبیا کے حوالے کیا۔ یہ دونوں 2008ء میں قذافی سے معافی حاصل کر کے رہا ہوئے لیکن حالیہ بغاوت کے بعد امریکا کے حمایت یافتہ گروپوں کے ساتھ جا ملے۔ امریکا کو ان کے ماضی سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اور صرف معمر قذافی کو ہٹانے سے غرض ہے

سچ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں اکثر اہداف کے حصول کیلئے لوئیس پوساڈا اور عبدالحکیم حاسدی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اگر آپ امریکا کے ساتھی بن جائیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ آپ دہشت گرد ہیں۔ آج کل امریکا افغان طالبان کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں اپنا دوست بنائے اور پھر اس دوستی کو خطّے میں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے

اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جب سے امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے ہیں کہاں کہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کم ہوئی اور پاکستان میں بڑھ گئی

پاکستان میں جب بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہوئی امریکا نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 27 مارچ 2004ء کو پاکستانی فوج نے شکئی میں مقامی عسکریت پسند نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیا اور 18جون 2004 ء کو امریکا نے اپنے پہلے ڈرون حملے میں نیک محمد کو ختم کر دیا۔ اس ڈرون حملے نے بیت اللہ محسود کو پیدا کر دیا

2005ء میں مجھے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نیک محمد کے ایک ساتھی نے بتایا کہ معاہدہ شکئی سے پہلے نیک محمد کو خوست کے راستے سے امریکیوں نے پیغام بھیجا کہ تم پاکستانی فوج کی بجائے ہمارے ساتھ بات کرو تو فائدے میں رہو گے۔ نیک محمد نے انکار کر دیا اور موت اس کا مقدر بنی۔ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ میں ایک معاہدہ ہونے والا تھا جس کے بعد اس علاقے میں عسکریت مکمل طور پر ختم ہو جاتی لیکن اسی دن امریکیوں نے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 90بچّے شہید کر دیئے اور اس حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا

وہ لوگ جو ڈرون حملوں کو پاکستان کیلئے خطرہ نہیں سمجھتے ان کی عقل پر محض ماتم کیا جا سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے صرف اور صرف ڈرون حملوں کے ردّعمل میں جنم لیا۔ یہ پہلو بہت تشویشناک ہے کہ 2006ء میں صرف 2حملوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔ 2007ء میں 4 ڈرون حملے ہوئے، 2008ء میں 33 ۔ 2009ء میں 53 اور 2010ء میں 118ڈرون حملے ہوئے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا۔ آپ قبائلی علاقوں میں چلے جائیں اور اگر وہاں عسکریت پسند مل جائیں تو پوچھ لیں کہ تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟ 90 فیصد عسکریت پسند کہیں گے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے

ڈرون حملوں کے اس کھیل کا اصل مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو لوئیس پوساڈا جیسے دہشت گردوں کی مہمان نوازی نہ کرتا جسے ونیزویلا، امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

ميں نے کيا ديکھا

جمعہ 29 اپريل کو برطانيہ کے ايک شہزادے وليم کی شادی کی تقريب اکثر قارئين نے ديکھی ہو گی ۔ اُميد ہے کہ قارئين اپنے احساسات ضرور قلمبند کريں گے ۔ ميں نے جو ديکھا وہ حاضر ہے

نکاح سے پہلے اور بعد ميں بائبل سے بہت کچھ پڑھا گيا اور دعائيں کی گئيں ۔ دُلہا دُلہن سميت تمام حاضرين نے اس ميں بيک زبان منظم طريقہ سے حصہ ليا ۔ ايجاب و قبول بھی طويل تھا

لندن کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد ميں عوام اپنی ملکہ کے پوتے کی شادی کے شوق ميں نکلے ہوئے تھے اور بڑے نظم اور صبر کے ساتھ کھڑے تھے

شادی پر غيرملکی 600 حکومتی نمائندوں سميت 1900 افراد کو مدعو کيا گيا تھا

اب ايک نظر اپنی طرف

ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں ۔ ہمارے ہاں نکاح بہت مختصر ہوتا ہے ۔ اس ميں نکاح خواں چند آيات کی تلاوت کرتا ہے پھر قبوليت کرواتا ہے ۔ ان چند منٹوں کيلئے بھی کوئی خاموش نہيں ہوتا بلکہ چيکڑچاڑا مچا ہوتا ہے ۔ کچھ بزرگ خاموش کراتے تھک جاتے ہيں

کہيں چند سو لوگ اکٹھے ہو جائيں وہ بدنظمی کا اعلٰی ثبوت ہوتے ہيں ۔ پوليس کو بلانا پڑتا ہے

ہمارے لوگ سربراہِ مملکت کے بچے کی شادی ديکھنے کے شوقين نہيں ہوتے ۔ وجہ يہ ہے کہ وہ عوام کے مال سے گلچھڑے اُڑا رہا ہوتا ہے اور عوام کو حقير جانتا ہے ۔ جبکہ ملکہ برطانيہ مقررہ تنخواہ ميں سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ ہمارے ايک آرمی چيف کی بيٹی کی شادی ہوئی تو کراچی ميں 7000 مہمانوں کو دعوت دی گئی اور راولپنڈی ميں 5000 مہمانوں کو ۔ کراچی ميں لوگوں نے سات نئی کاريں اس کی بيٹی کو تحفہ ميں ديں اور راولپنڈی ميں 3 کاريں دی گئيں

قارئين سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنے احساسات سے مستفيد فرمائيں

کيا اُسامہ بن لادن ايبٹ آباد ميں مارا گيا ؟

ڈان نيوز کے طلعت حسين کہتے ہيں کہ اُسامہ پہلے مر چکا تھا يا مارا جا چکا تھا ۔ ايبٹ آباد کا ڈرامہ صرف اوباما اور اس کی پارٹی کی ريٹِنگ بڑھانے کيلئے تھا جس ميں امريکا کی خفيہ ايجنسياں کامياب رہی ہيں

مندرجہ ذيل ٹی چينل کا دعوٰی ہے کہ اُسامہ بن لادن کو مارنے کا دعوٰی نويں بار کيا گيا ہے ۔ ديکھيئے وڈيو

اُسامہ مر گيا ۔ اب کيا ؟

آج صبح سويرے ميری بيگم بوليں “ٹی وی بتا رہا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ايبٹ آباد کے قريب ہلاک کر ديا گيا ہے ۔ ميرے مُسکرانے پر بيگم نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا “توبہ کرو ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ کہو”۔ ميں نے اسی وقت إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور بيگم سے کہا “يہ امريکا والے جھوٹ بول رہے ہيں اپنی عوام کو وقفے وقفے سے اسپرين کی گولی ديتے رہتے ہيں تاکہ انہيں درد کا افاقہ رہے”

ميں کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ميں نے کمپيوٹر چلا کر ای ميلز پڑھی تھيں کہ بجلی غائب ۔ ايک گھنٹے بعد بجلی آئی تو ميں سوچ چکا تھا کہ دوسرے خواتين و حضرات کا ردِ عمل ديکھا جائے ۔ صرف ايک تحرير آئی ۔ وہ بھی بطور خبر کے ۔ اس تحرير پر جو لکھنے گيا تھا اُس کی بجائے لکھاری کو دلاسہ دے کر آ گيا ۔ پھر اپنے مخزن مضامين کيلئے کچھ اور تحرير لکھنے ميں مشغول ہو گيا ۔ بجلی پھر چلی گئی ۔ پھر نيچلی منزل جا کے سارا اخبار پڑھ ڈالا ۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھايا ۔ قيلولہ کيا ۔ اوپر کی منزل پر آ کر کمپيوٹر چلايا اور خُرم صاحب کی متذکرہ بالا تحرير کو دوبارہ کھولا تو وہاں کئی تبصرے ديکھے جس سے محسوس ہوا کہ ميرے ساتھ اور لوگ بھی ہيں جو اس خبر پر يقين نہيں رکھتے ۔ ابھی ميں نے اپنے خيالات قلمبند کرنا شروع کئے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ بجلی آئی ہے تو لکھنے بيٹھا ہوں

ميرا موت ميں اتنا ہی يقين ہے جتنا اس ميں کہ ميں اس وقت لکھ رہا ہوں ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 156 ۔ ترجمہ ۔ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‏ مرنا بر حق ہے ۔ سوال صرف يہ ہے کہ کيا اُسامہ بن لادن مر گيا اور کب اور کہاں مرا ؟ ميرا جواب ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہے يا مر گيا ۔ رہا اُس کا پاکستان ميں ہونا يا مرنا تو يہ قرينِ قياس نہيں ہے ۔ اگر وہ پاکستان ميں ہوتا يا مرتا تو اس کی خبر بالخصوص موجودہ حالات ميں پاکستان آرمی کے آئی ايس پی آر سے آتی نہ کہ امريکا سے ۔ آئی ايس پی آر خاموش ہے اور حکومتی بيان مُبہم آيا ہے

امريکا کو افغانستان ميں شکست کا سامنا ہے جہاں فتح کا اعلان امريکی اہلکار کئی بار کر چکے ہيں ۔ دسمبر 2001ء ميں جب تورا بورا پر ڈيزی کٹر پھينک کر کارپٹ بومبنگ کی گئی تھی ۔ اُس وقت کے امريکی صدر جارج بُش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کيا تھا ۔ دراصل امريکی حکومت اپنی عوام کے درد کو کم کرنے کيلئے وقفوں سے اسپرين کی گولی ديتی رہتی ہے ۔ اُسامہ کی موت کی اس وقت خبر دينا بھی اسپرين کی ايک گولی سے زيادہ کچھ نہيں يا پھر ايسے وقت جب پاکستان کی فوج صرف اپنی شرائط پر مزيد تعاون کرنا چاہتی ہے پاکستانی حکومت يا فوج کو دباؤ ميں لانا مقصود ہو سکتا ہے ۔ امريکی حکمرانوں ميں عقل کی کمی ہے يا وہ بوکھلائے ہوئے ہيں کہ اپنے ہی مختلف بيانات سے خبر کو مکمل مشکوک بنا ديا ہے ۔ امريکی حکمرانوں کو چاہيئے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ق ليگ پنجاب کے صدر چوہدری پرويز الٰہی سے سيکھ ليں ۔ کس طرح اُس نے ہمارے ملک کے چالاک ترين آدمی آصف علی زرداری کو چاروں شانے چِت کر ديا ہے

حقيقت تو اللہ کو معلوم ہے اور امريکی بڑوں کو بھی معلوم ہو گی ۔ فرض کر ليتے ہيں کہ جس طرح اوبامہ نے کہا ہے امريکی ايجنسی نے کل کاروائی کر کے اُسامہ کو ايبٹ آباد ميں ہلاک کيا اور اس کاروائی ميں 2 ہيلی کاپٹروں نے حصہ ليا جن ميں سے ايک گر گيا يا گرا ليا گيا ۔ اب ان سوالوں کا کون جواب دے گا ؟

1 ۔ ايک دفاعی اہميت کے شہر “ايبٹ آباد” ميں اُسامہ قيام پذرير تھا ۔ اُسے خوراک اللہ کے فرشتے نہيں پہنچاتے تھے ۔ مگر وہ شخص جس کی شکل ٹی وی چينلز پر ديکھ ديکھ کر بوڑھوں سے بچوں تک سب کو ازبر ہو چکی ہے جان نہ سکے کہ اُسامہ اُن کے درميان رہ رہا ہے

2 ۔ حالانکہ عمارت بڑی تھی اور اس ميں کئی لوگ رہتے تھے پھر بھی فرض کر ليتے ہيں کہ کوئی نہ کبھی اس عمارت کے اندر گيا اور نہ کبھی باہر آيا ۔ پھر بھی يہ ممکن نہيں ہے کہ ايبٹ آباد کے لوگوں نے جستجو نہ کی ہو کہ اس بڑی عمارت ميں کون رہتا ہے جبکہ اگر ہميں پتہ نہ چلے کہ فلاں عمارت ميں کون رہتا ہے ؟ تو ہماری نينديں حرام ہو جاتی ہيں

3 ۔ پاکستان کی خفيہ ايجنسياں جو گڑے مُردے بھی سونگھ ليتی ہيں ۔ جہاں ان کی ذمہ دارياں سخت تھيں اسی علاقے ميں سب سے بڑا دہشتگرد مزے لُوٹ رہا تھا اور اُنہيں اس کی بھِنک نہ پڑی

4 ۔ کيا اس بات کی اجازت ہماری حکومت نے دے رکھی ہے کہ جس کا جی چاہے جہاں چاہے خُفيہ فوجی کاروائی کرے اور جسے چاہے جتنوں کو چاہے ہلاک کر دے اور اُن کے جسم بھی اُٹھا کر ليجائے ؟

5 ۔ بقول امريکی اہلکاروں کے جسم کو سمندر ميں پھينک ديا گيا ۔ کيوں ؟ اسے محفوظ کر کے امريکا ليجا کر اور اسے وہاں کے ٹی وی چينلز کو کيوں نہ دکھايا ؟ جبکہ عراق اور افغانستان ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں امريکی فوجيوں کی نعشوں کو اپنی عوام کے غيظ و غضب سے بچنے کيلئے کئی کئی سال تک عراق اور افغانستان محفوظ رکھا گيا اور تھوڑی تھوڑی نعشيں امريکا ليجائی جاتی رہيں

6 ۔ کيا پاکستانی حکومت اور ايجنسياں بالکل نااہل ہيں کہ ان کے ملک کے دفاعی اہميت کے شہر ميں ہيلی کاپٹروں کی مدد سے کاروائی ہوئی جو کم از کم 35 يا شايد 45 منٹ تک جاری رہی اور انہيں خبر تک نہ ہوئی ؟

7 ۔ لازمی امر ہے کہ ہيلی کاپٹر پاکستانی فضا ميں سينکڑوں کلوميٹر لمبا سفر طے کر کے ايبٹ آباد پہنچے ہوں گے ۔ کيا کسی ايجنسی کسی آرمی يا رينجرز فارميشن نے اُنہيں نہيں ديکھا ؟ گويا وہ سب بھی نشہ پی کر سوئے ہوئے تھے ؟

8 ۔ امريکا نے بقول امريکا افغانستان پر 2001ء ميں اسلئے حملہ کيا تھا کہ وہاں اُسامہ تھا جسے طالبان نے امريکا کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا اور وہ اُسامہ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ اُسامہ ہلاک ہو گيا ۔ اب امريکا اپنا بوريا بستر گول کر کے افغانستان سے کيوں نہيں چلا جاتا ؟

بات آخر ميں يوں بنتی ہے کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ۔ اپنے پياروں اور اپنی املاک کی حفاظت خود اپنے ہاتھ ميں لے ليں کيونکہ حکمران ۔ فوج ۔ رينجرز ۔ پوليس سب نااہل ہيں يا دشمن کے ايجنٹ ہيں ۔ ايسا نہيں ہو سکتا ايسا کبھی نہيں ہو سکتا

کيا اللہ کا کلام جھُٹلايا جا سکتا ہے ؟ نعوذ باللہ من ذالک

جب فرانسسکو مِترا 1981ء ميں فرانس کا صدر بنا تو فرانس نے مصر سے درخواست کی کہ فرعون [Ramesses II ] کی حنوط شدہ لاش تعليمی تحقيق کيلئے اُنہيں دی جائے

فرعون کی حنوط شدہ لاش فرانس پہنچی تو آثارِ قديمہ اور علم الاعضاء کے ماہرين سائنسدانوں نے اُس پر تحقيق شروع کی جن کا سربراہ پروفيسر مَورِيس بُوکيل [Professor Maurice Bucaille] تھا ۔ پروفيسر مَوريس کو صرف يہ دلچسپی تھی کہ اس فرعون کی موت کيسے واقع ہوئی تھی ۔ تحقيق کے بعد سب سائنسدان اس نتيجہ پر پہنچے کہ نعش کی کھال ميں نمک کی زيادتی اس بات کا کھُلا ثبوت ہے کہ موت کی وجہ سمندر ميں ڈوبنا تھی جہاں گلنے سڑنے سے قبل نعش کو نکال کر محفوظ کيا گيا ہو گا ليکن ايک حقيقت پروفيسر مَورائس کو پريشان کر رہی تھی کہ يہ نعش باقی سب حنوط شدہ نعشوں سے بہت زيادہ صحيح حالت ميں کيوں ہے جبکہ يہ تو سمندر سے نکالی گئی جس کی وجہ سے اسے زيادہ خراب ہونا چاہيئے تھا

سائنسدان اپنی تحقيق مکمل کر چکے تو فرعون کی نعش مصر واپس بھيج دی گئی ۔ پروفيسر مَورائس اپنی اور اپنی ٹيم کی تحقيقات پر مبنی حقائق کتاب کی صورت ميں تيار کر رہا تھا تو وہاں کسی نے اُس سے کہا کہ “مسلمان دعوٰی کرتے ہيں کہ اُنہيں فرعون کے ڈوبنے اور اسے محفوظ کرنے کے متعلق کچھ معلوم ہے”۔ پروفيسر مَورائس نے اس کی سختی سے نفی کی اور کہا کہ “سائنسی ترقی ۔ ہائی ٹيک ليبارٹری اور کمپيوٹر کے بغير اس قسم کی کوئی بھی معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے” ۔ پھر اُسے بتايا گيا کہ مسلمان قرآن نامی ايک کتاب ميں يقين رکھتے ہيں اور اس کتاب ميں فرعون کے ڈوبنے اور اس کی لاش کو انسانوں کيلئے نشانی بنانے کا ذکر ہے ۔ پروفيسر مَورائس بولا “يہ کس طرح ممکن ہے کہ 14 صدياں قبل لکھی گئی کتاب اُس نعش کی بات کرے جو 2 صدياں قبل ملی ۔ پروفيسر مَورائس سوچ ميں پڑ گيا “کيا يہ وہی شخص ہے انجيل کے مطابق جس نے موسٰی [عليہ السلام] کا پيچھا کيا تھا ؟ کيا يہ ممکن ہے کہ محمد [صلی اللہ عليہ و آلہ و سّلم] کو 14 صدياں قبل پتہ تھا ؟” پروفيسر مَورائس کی نيند حرام ہو چکی تھی ۔ اُس نے فيصلہ کيا کہ وہ سفر کرے اور جا کر عِلم الاعضاء کے مسلمان سائنسدانوں سے ملے ۔ جب اُس نے ايک مسلمان سائنسدان کے پاس جا کر اپنا سوال دہرايا تو بغير بولے وہ قرآن شريف اُٹھا لايا

سورت 10 ۔ يونس ۔ آيات 90 تا 92
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور تعدی سے ان کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ جب اس کو غرق (کے عذاب) نے آ پکڑا تو کہنے لگا میں ایمان لایا کہ جس (خدا) پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ (جواب ملا) کہ اب (ایمان لاتا ہے) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا؟ تو آج ہم تیرے بدن کو (دریا سے) نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کیلئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں

پروفيسر مَورائس نے جونہی مسلمان سائنسدان کی دکھائی ہوئی قرآن شريف کی آيت پڑھی وہاں موجود تمام لوگوں کو مخاطب کر کے بلند آواز ميں کہا
“ميں اسلام پر ايمان لاتا ہوں ميں قرآن پر ايمان لاتا ہوں”[سةبحان اللہ]
اس کے بعد وہ ملک واپس جا کر ايک دہائی تک قرآن شريف اور سائنس کا موازنہ کرتا رہا ۔ جو چيز قرآن شريف کے مخالف ہوتی اُسے رد کر ديتا ۔ آخر اس نے اپنا فيصلہ دے ديا

سورت 41 ۔ حٓم السجدہ [فُصلت]۔ آيات 41 و 42
جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا ۔ (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں) یہ با وقعت کتاب ہے ۔ جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے ۔ یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے

پروفيسر مَورائس نے ايک کتاب لکھی جس نے سارے يورپ کو ہلا کے رکھ ديا

“Quran, Torah, Bible and Science: A Study of the Holy Books in the Light of Modern Science”

مواد مہياء کرنے کيلئے ميں تحريم صاحبہ کا مشکور ہوں ۔ اللہ اُنہيں سدا خوش رکھے