بلند رہے پرچم ميرے وطن کا

اس دور ميں جبکہ چاروں طرف مايوسی کے اندھرے چھائے ہوئے ہيں ۔ کہيں نہ کہيں روشنی کی کرن پھوٹتی ہے تو اپنے مريل جسم ميں تازگی کا احساس جاگ اُٹھتا ہے

اسکردو [بلتستان] کے نواحی گاؤں سدپارہ سے تعلق رکھنے والے معروف کوہ پیما حسن سدپارہ نے آکسیجن ٹینک کے استعمال کے بغیر نیپال میں واقع دنیا کی بلندترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر کے دنیا کے بلند ترین مقام پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا ۔ حسن سدپارہ کی کامیابی پر اسکردو میں آج جشن کا سماں ہے

حسن سدپارہ نے گزشتہ رات 4 بجے کیمپ 4 سے مُہِم شروع کی اور آج صبح 6 بجے انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی پر قدم رکھا ۔ انہوں نے اس مشکل ترین مُہِم کو حوصلے اور جرات سے کامیاب بنایا

حسن سدپارہ نے اپنے پروفشنل کیرئیر کا آغاز 1999ء میں المعروف قاتل پہاڑ نانگا پربت کی کامیاب مُہِم سے کیا تھا ۔ 2004ء میں دنیا کی دوسری بلند ترين چوٹی کے ٹو سر کی اور اس کے بعد براوٹ پیک ۔ گشہ بروم ون اور ٹو کو سرکر کے پاکستان میں واقع 8000 میٹر سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا منفرد اعزازحاصل کیا

خدمت ۔ عوام دوستی ۔ حق پرستی ؟؟؟

جب پاکستان کی داغ بيل ڈالی جا رہی تھی تو قاعد اعظم محمد علی جناح اور پاکستان بنانے کی سب سے بڑی دُشمن مسلمان جماعت [جو اُن دنوں انگريز حکومت کی پِٹھُو تھی] نے اپنا نام خدائی خدمتگار رکھا ہوا تھا ۔ پھر عوامی ۔ عوام اور حق پرست کے استعارے شروع ہوئے ۔ آج 12 مئی کے حوالے سے ميں ايم کيو ايم کے ايک ايسے نوجوان کی خود نوشت پيش کر رہا ہوں جس کے خاندان نے ايم کيو ايم کيلئے مال و جان کے نظرانے پيش کئے تھے ۔ يہ تحرير دوسری بار شائع کی جا رہی ہے ۔ پہلی بار ميں نے 14 مئی 2007ء کو شائع کی تھی

بدلتے دِل ۔ سانحہ کراچی

دل کو بدلنا آسان کام نہیں لیکن کوئی ایک چھوٹا یا بڑا حادثہ کبھی ایک دل کو اور کبھی بہت سے دلوں کو بدل کے رکھ دیتا ۔ سُنا ۔ پڑھا اور میری زندگی کا تجربہ بھی ہے کہ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے اسلئے انسان کو ہر چیز یا عمل میں بہتر پہلو کو تلاش کرنا چاہیئے ۔ صدر جنرل پرویز نے 9 مارچ سے شروع ہونے والے ہفتہ میں ایسی حماقتیں کیں جن سے سب پریشان ہوئے لیکن ان حماقتوں نے اُس تحریک کو جنم دے دیا جو حزبِ مخالف چلانے میں ناکام رہی تھی ۔ اللہ اس تحریک کو جلد کامیابی سے ہمکنار کرے اور ہمارے وطن میں عوم کا خیال رکھنے والی مضبوط جمہوریت قائم ہو جائے ۔ اور ڈکٹیٹر شپ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خلاصی ہو جائے ۔

12 مئی کو جو کچھ کراچی میں ہوا وہ کراچی والوں سے بہتر کون جانتا ہے ؟ اس کا اچھا پہلو جو میرے علم میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے جانثار خاندانوں کی نئی نسل جس کو 10 مئی تک “قائد صرف ایک [الطاف حسین]” اور “جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے” کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہ تھا اُس نوجوان نسل کے کئی ارکان کے دل 11 اور 12 مئی کے واقعات نے بدل کے رکھ دیئے ہیں ۔

ایک پڑھا لکھا نوجوان جو ایم کیو ایم کے علاقہ کا باسی ہے اور جس کا خاندان الطاف حسین کے جان نثاروں میں شامل ہے ۔ جس کے چچا نے 12 سال قبل الطاف حسین کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تھا اور اس کو سلام آج بھی اس کے محلے میں ہر طرف لکھا ہوا ہے ۔ اُس نوجوان نے 11 مئی کو دیکھا کہ ایئرپورٹ کو جانے والے تمام راستوں پر ٹرالر ٹرک ۔ ٹینکر اور بسیں کھڑی کر کے ان کے ٹائروں میں سے ہوا نکال دی گئی ہے ۔ پھر شام کو اس نے دیکھا کہ خود کار ہتھیاروں سے لیس جوانوں نے مورچے سنبھال لئے ہیں اور کچھ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 12 مئی کو ہسپتالوں میں چلے جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی ایسا شخص طِبّی امداد نہ لینے پائے جو ایم کیو ایم کا نہ ہو ۔

دوسرے دن یعنی 12 مئی کو صبح 10 بجے اس نے ڈرگ روڈ اسٹیشن کے قریب دیکھا کہ اس کے ساتھی ریپیٹر اور کلاشِن کوف قسم کے خود کار ہتھیار الخدمت فاؤنڈیشن کی ایمبولینس میں بھر کر لے جا رہے ہیں ۔ اس نے دیکھا کہ شاہراہ فیصل سب کیلئے بند ہے مگر ایم کیو ایم کے جوان ہتھیار لئے آزادی سے گھوم رہے ہیں ۔پھر اس نے دیکھا کہ ایک جوان شخص گِڑگڑا کر التجائیں کر رہا ہے کہ مجھے جانے دو ۔ وہ اپنے بچے کی لاش ہسپتال سے گھر لے کر جا رہا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا خدا کیلئے مجھے جانے دو تا کہ میں اپنے اس معصوم بچے کے کفن دفن کا بندوبست کر سکوں ۔ ایک لمحہ آیا کہ ایم کیو ایم کے اس پڑھے لکھے نوجوان کے جسم نے ہلکی سی جھرجھری لی اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔ 12 بجے کے قریب پہلی فارنگ ہوئی اور وہ خلافِ معمول گھر چلا گیا اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد اُس کے دل نے اچانک اس کی ملامت شروع کردی کہ آج تک تیرا خاندان جو دلیری دکھاتا رہا وہ دراصل ایک مجبوری اور ضرورت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی درندگی تھی ۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے گا جس کیلئے اس کے چچا نے جان دی تھی وہ انسان نہیں درندہ ہے ۔ وہ قاتلوں کا قائد ہے مہاجروں کا نہیں ۔ رات تک اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ مرنے والے پختونوں کے علاوہ سب اُس کی طرح مہاجروں کے بچے ہیں جن کا قصور یہ ہے کہ وہ الطاف حسین کی درندگی کی حمائت نہیں کرتے ۔

یہ کہانی یا افسانہ نہیں حقیقت ہے ۔ یہ ایم کیو ایم کے گڑھ میں رہنے والے صرف ایک نوجوان کی آپ بیتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے کئی اور پڑھے لکھے نوجوان ہوں گے جو اس پراگندہ ماحول اور خونی سیاست سے تنگ آ کر 12 مئی کو تائب ہوئے ہوں گے لیکن وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہوئے شائد ڈر رہے ہوں مگر اس نوجوان نے اپنی دلیری کا رُخ بدلتے ہوئے نہ صرف ایم کیو ایم کے لیڈران کو تحریری طور پر اپنے دل کی تبدیلی کی اطلاع کر دی ہے بلکہ الطاف حسین کو 12 مئی کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ اس نوجوان ۔ اس جيسے دوسرے جوانوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ میری محبِ وطن قارئین سے بھی التماس ہے کہ وہ بھی اُن کے لئے خصوصی دعا کریں

شکريہ محترم شکريہ

ميں نے اپنے طور پر محمد علی مکی صاحب سے ايک سوال کھُلے عام نہيں بذريعہ ای ميل پوچھا اور اُنہوں نے شايد عوام الناس کی بہتری کی خاطر اسے مُشتہر کر ديا کيونکہ ہمارے مُلک ميں سب کام عوام کی بہتری کيلئے ہوتے ہيں ڈاکے ڈالنا لاشيں گرانا سميت ۔ مجھے محمد علی مکی صاحب سے کوئی گلہ نہيں کيونکہ ميں عام آدمی ہوں اور عام آدمی صرف برداشت کرنے کيلئے ہوتا ہے

البتہ محمد علی مکی صاحب کا شکريہ ميرے متعلق تحرير لکھنے کا ۔ کسی نے کہا تھا “بدنام ہوں گے تو کيا نام نہ ہو گا ؟”
مزيد ميں محمد علی مکی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے محترم اور چچا جيسے القاب سے نوازا ۔ گو بات کچھ ايسی ہے “محترم ۔ ميں آپ کا سر پھوڑنے کی گستاخی کر لوں”
اور محمد علی مکی صاحب کا ايک بار پھر شکريہ مجھے لينکس بنا کر بھيجنے کا ۔ اب تک تو ميں اپنی علالت کی وجہ سے اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکا تھا مگر محمد علی مکی صاحب کی سيکولرزم کی تھيوری کے تحت مجھے اس بارے ميں سوچنا پڑے گا ۔ اگر محمد علی مکی صاحب کی بنائی ہوئی لينکس استعمال کرتا ہوں تو ميں بھی محمد علی مکی صاحب جيسا ہو جاؤں گا جو محمد علی مکی صاحب کيلئے سُبکی کا باعث ہو گا ۔ کہاں وہ علم و ذہانت کا سمندر اور کہاں ميں 2 جماعت پاس عام سا آدمی

محمد علی مکی صاحب نے ميرے متعلق لکھا ہے کہ “ان کے بلاگ کے مطابق ان کا مقصد اپنی زندگی کے تجربات نئی نسل تک پہنچانا ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کم اور نظریات زیادہ پہنچانا چاہتے ہیں”

محمد علی مکی صاحب صرف ميرے بلاگ کو جانتے ہيں اور وہ بھی جزوی ۔ نہ کبھی مجھے ملے ہيں نہ کبھی ٹيليفون پر مجھ سے بات کی ہے تو پھر انہيں ميرے نظريات سے کيسے واقفيت ہوئی ؟ ہاں ۔ سنا ہے کہ اعلٰی ذہن کے لوگ بند لفافہ ديکھ کر اندر پڑے خط کا مضمون سمجھ جاتے ہيں ۔ ويسے ميرے بلاگ پر مختلف نظريات کی تحارير موجود ہيں جن سے ميرا مُتفق ہونا ضروری نہيں

محمد علی مکی صاحب کی ذہانت بھی قابلِ تعريف ہے کہ ميرے سوال کا جواب تو ديا نہيں مگر کمال ہوشياری سے توپوں کا رُخ ميری طرف موڑ ديا اور مجھ پر خود ساختہ ليبل بھی چسپاں کر ديئے ۔ يہی عصرِ جديد کا طرّہ امتياز ہے

محمد علی مکی صاحب خود تو خدا کی ہستی کو متنازعہ بنانے کيلئے اپنا سارا عِلم اور ذہانت بروئے کار لاتے ہيں اور ميرے سوال کے جواب ميں اُسی خدا کی کتاب سے ايک آيت اور اسی کے رسول کا ايک فرمان نقل کئے ہيں جو مجھے اپنی جان سے زيادہ محترم ہيں مگر ميرے سوال کا جواب کسی صورت نہيں بنتے ۔ محمد علی مکی صاحب کا زور پھر بھی اسی پر رہا ہے کہ مجھے يا مجھ جيسے کو بہر صورت اور بہر طور سيکولر ثابت کريں جبکہ اُن کے سيکولرزم کی بنياد ہی ناقص ہے

بے علم ہوتے ہوئے بھی ميں اتفاق سے علم کی اہميت سے واقف ہوں ۔ ميں جہاں پی ايچ ڈی سے سيکھنے کی کوشش کرتا ہوں وہاں اَن پڑھ لوگوں سے بھی سيکھتا ہوں ۔ ميں بزرگوں سے سيکھتا ہوں اور بچوں سے بھی ۔ ميں نے چوپايوں اور پرندوں سے بھی سيکھا ہے اور حشرات الارض سے بھی ۔ ميں نے محمد علی مکی صاحب کے عِلم کے خزانوں سے بھی استفادہ کی کوشش کی مگر مايوسی کے سوا کچھ نہ ملا

کتابيں ميں نے بھی بہت پڑھی ہيں ۔ زمين کے متعلق آدمی لاکھ کتابيں پڑھ لے مگر جب تک پاؤں زمين پر نہ رکھے اُسے احساس نہيں ہو گا کہ زمين سخت ہے ۔ نرم ہے ۔ پتھريلی ہے ۔ ريتلی ہے يا دلدل يا يہ سخت زمين ۔ نرم زمين ۔ پتھريلی زمين ۔ ريتلی زمين يا دلدل ہوتی کيا ہے ؟ اسلئے تجربے کو اہميت دی جاتی ہے اور اسی لئے ايک عالمی شہرت يافتہ مفکر نے کہا تھا

عمل سے زندگی بنتی ہے جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللہ تعالٰی محمد علی مکی صاحب کو جزائے خير دے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم کرے

انسانيت اور حقوق کے پرچارک کا اصل رُوپ

آج پاکستانی عوام اپنے مُلک کے اندر اپنے ہموطنوں کی امريکی ڈرون حملوں سے ہونے والی درجنوں بلکہ سينکڑوں ہلاکتوں کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہيں ۔ پاکستانيوں کيلئے لئے تو يہ نئی بات ہو سکتی ہے ليکن امريکا کا يہ پرانا کارو بار اور شرمناک دھندہ ہے جو انسانيت اور بھائی چارے کی چادر تان کر پچھلی سوا صدی سے شد و مد کے ساتھ جاری ہے ۔ فرق صرف يہ ہے کہ دوسرے ممالک ميں اُن کے حکمرانوں کے تعاون يا اجازت کے بغير بيگناہوں کا کُشت و خون اور غير ممالک کی املاک پر قبضہ کيا گيا ليکن پاکستان ميں يہ ڈرون حملے اور دراندازی ملک کے صدر [پہلے پرويز مشرف اور 3 سال سے آصف علی زرداری] کے تعاون سے جاری ہے

امريکا کا دعوٰی ہے کہ القاعدہ ايک دہشتگرد تنظيم ہے ۔ امريکا کا يہ بھی دعوٰی ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمہ کيلئے القاعدہ کا خاتمہ ضروری ہے ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ ميں امريکا اب تک 9 لاکھ سے زيادہ انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ اپنے اس مؤقف کے برعکس امريکا لبيا کی حکومت کے خلاف جن لوگوں کو دولت اور اسلحہ مہياء کر رہا ہے وہ القاعدہ ہی کے لوگ ہيں ۔ امريکی وزيرِ خارجہ ہيلری کلنٹن لبيا کی جنگ کے متعلق لبيا کے باغيوں کے جس سربراہ “محمود جبريل” سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں وہ القاعدہ کا نمائندہ “محمود جبريل” ہی ہے

پچھلے 121 سالوں ميں امريکا نے انسانيت اور حقوق کے نام پر 50 ممالک ميں کم از کم 130 بار جارحانہ دخل اندازی کی جس کا اصل مقصد وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنا يا کم از کم امريکی اجاراداری قائم کرنا تھا ۔ اس شيطانی مقصد کے حصول کيلئے لاکھوں بے قصور شہريوں کو بے دردی سے ہلاک کيا گيا جن ميں بوڑھے عورتيں اور بچے بھی شامل تھے

امريکا کی جارحانہ دخل اندازيوں کی فہرست

پاناما ميں 8 بار ۔ 1895ء ۔ 1901 تا 1904ء ۔ 1908ء ۔ 1912ء ۔ 1918 تا 1920ء ۔ 1958ء ۔ 1964ء اور 1989ء
نکاراگوآ ميں 7 بار ۔ 1894ء ۔ 1896ء ۔ 1898ء ۔ 1899ء ۔ 1907ء ۔ 1910ء اور 1912ء سے 1933ء
ہنڈوراس ميں 7 بار ۔ 1903ء ۔ 1907ء ۔ 1911ء ۔ 1912ء ۔ 1919ء ۔ 1924ء تا 1925ء اور 1983ء تا 1989ء
چين ميں 7 بار ۔ 1894ء تا 1895ء ۔ 1898ء تا 1900ء ۔ 1911ء تا 1914ء ۔ 1922ء تا 1926ء ۔ 1927ء تا 1934ء ۔ 1948ء تا 1949ء اور 1958ء
کيوبا ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1902ء ۔ 1906ء تا 1906ء ۔ 1912ء ۔ 1917ء تا 1933ء ۔ 1961ء اور 1962ء
ڈومينيکن ريپبلک ميں 6 بار ۔ 1903ء تا 1904ء ۔ 1914ء ۔ 1916ء تا 1924ء اور 1963ء تا 1966ء
يوگوسلاويہ ميں 6 بار ۔ 1919ء ۔ 1946ء ۔ 1991ء تا 1992ء اور 1993ء تا 1994ء
فليپينز ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1910ء ۔ 1948ء تا 1954ء ۔ 1989ء اور 2002ء
ايران ميں 5 بار ۔ 1946ء ۔ 1953ء ۔ 1980ء ۔ 1984ء اور 1987ء تا 1988ء
ہيٹی يا ہائٹی مين 4 بار ۔ 1891ء ۔ 1914ء تا 1934ء ۔ 1987ء تا 1994ء اور 2004ء تا 2005ء
کوريا 3 بار ۔ 1894ء تا 1896ء ۔ 1904ء تا 1905ء اور 1945ء تا 1953ء
گوآٹے مالا ميں 3 بار ۔ 1920ء ۔ 1954ء اور 1966ء تا 1967ء
يمن ميں 3 بار ۔ 2000ء ۔ 2002ء اور 2004ء
لائيبيريا ميں 3 بار ۔ 1990ء ۔ 1997ء اور 2003ء
چلّی ميں کم از کم 2 بار ۔ 1891ء اور 1964ء تا 1974ء
ميکسيکو کم از کم 2 بار ۔ 1913ء اور 1914ء تا 1918ء
پورٹو ريکو ميں 2 بار ۔ 1898ء اور 1950ء
السلويڈور ميں 2 بار ۔ 1932ء اور 1981ء تا 1982ء
جرمنی 2 بار ۔ 1948ء اور 1961ء
لاؤس ميں 2 بار ۔ 1962ء اور 1971ء تا 1973ء
سوماليہ کم از کم 2 بار ۔ 1992ء تا 1994ء اور 2006ء
عراق ميں 6 بار ۔ 1958ء ۔ 1963ء ۔ 1990ء تا 1991ء اور 1991ء تا 1993ء جو ابھی تک جاری ہے
افغانستان ميں 2 بار ۔ 1998ء اور 2001ء جو ابھی تک جاری ہے
لبيا ميں 3 بار ۔ 1981ء ۔ 1986ء تا 1989ء اور 2011ء جو جاری ہے

مزيد يہ کہ امريکی افواج نے دونوں عظيم جنگوں ميں مندرجہ ذيل ممالک کے خلاف بھر پور حصہ ليا ۔ ارجنٹائن ۔ ساموآ ۔ روس ۔ گوآم ۔ ترکی ۔ يوروگوئے ۔ يونان ۔ ويتنام ۔ انڈونيشيا ۔ کمپوچيا ۔ عمان ۔ ميسی ڈونيا ۔ شام ۔ ہندوستان ۔ بوليويا ۔ ورجن آئی لينڈز ۔ زائر [کانگو] ۔ سعودی عرب ۔ کويت ۔ لبنان ۔ غرناطہ ۔ انگولا ۔ سوڈان ۔ البانيہ ۔ بوسنيا اور کولمبيا

استفادہ مندرجہ ذيل کُتب ۔ بشکريہ دی نيوز

A briefing on the history of US military interventions by Dr Zoltan Grossman

From wounded knee to Libya: A Century of US military interventions by Dr Zoltan Grossman
A brief history of US interventions: 1945 to Present by William Blum
Killing Hope: US Military and CIA Interventions Since World War II by William Blum

William Blum writes:
The unending American quest for supremacy has continued unabated since its first involvement in the affairs of Argentina in 1890.

Dr Zoltan Grossman also writes:
“How American policy makers have been intervening in other countries for a long time, the backgrounds of these actions and the loss of civilian lives as a result of these military offensives.”

He further write, “Since the September 11 attacks on the United States, most people in the world agree that the perpetrators need to be brought to justice, without killing many thousands of civilians in the process. But unfortunately, the US military has always accepted massive civilian deaths as part of the cost of war. The military is now poised to kill thousands of foreign civilians, in order to prove that killing US civilians is wrong.”

He writes in an article published in the “Z magazine” of US in October 2001, “The media have told us repeatedly that some Middle Easterners hate the US only because of our “freedom” and “prosperity.” Missing from this explanation is the historical context of the US role in the Middle East, and for that matter in the rest of the world. This basic primer is an attempt to brief readers who have not closely followed the history of US foreign or military affairs, and are perhaps unaware of the background of US military interventions abroad, but are concerned about the direction of our country toward a new war in the name of “freedom” and “protecting civilians.”

Dr Zoltan Grossman maintains, “The United States military has been intervening in other countries for a long time. In 1898, it seized the Philippines, Cuba, and Puerto Rico from Spain and in 1917-18 became embroiled in World War I in Europe. In the first half of the 20th century it repeatedly sent Marines to “protectorates” such as Nicaragua, Honduras, Panama, Haiti, and the Dominican Republic. All these interventions directly served corporate interests, and many resulted in massive losses of civilians, rebels, and soldiers.”

Grossman goes on to write,” In the early 1960s, the US returned to its pre-World War II intervention role in the Caribbean, directing the failed 1961 Bay of Pigs exile invasion of Cuba, and the 1965 bombing and Marine invasion of the Dominican Republic during an election campaign. The CIA trained and harboured Cuban exile groups in Miami, which launched terrorist attacks on Cuba, including the 1976 downing of a Cuban civilian jetliner near Barbados. During the Cold War, the CIA would also help to support or install pro-US dictatorships in Iran, Chile, Guatemala, Indonesia and many other countries around the world.”

He asserts, “Even when the US military had apparently defensive motives, it ended up attacking the wrong targets. After the 1998 bombings of two US embassies in East Africa, the US “retaliated” not only against Osama Bin Laden’s training camps in Afghanistan, but a pharmaceutical plant in Sudan that was mistakenly said to be a chemical warfare installation. Bin Laden retaliated by attacking a US Navy ship docked in Yemen in 2000. After the 2001 terror attacks on the United States, the US military is poised to again bomb Afghanistan, and possibly move against other states it accuses of promoting anti-US “terrorism,” such as Iraq and Sudan.”

In one of the concluding paragraphs of his afore-cited article, Dr Grossman views,” Such a campaign will certainly ratchet up the cycle of violence, in an escalating series of retaliations that is the hallmark of Middle East conflicts.

Afghanistan, like Yugoslavia, is a multiethnic state that could easily break apart in a new catastrophic regional war. Almost certainly more civilians would lose their lives in this tit-for-tat war on “terrorism” than the 3,000 civilians who died on September 11.”

بھٹو کے خط کا عکس

ميں نے پچھلے ماہ ايک تحرير “معترف ۔ چاپلوس يا منافق ؟” کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ اس ميں ذوالفقار علی بھٹو کے اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر علی مرزا کے نام ايک خط کا ترجمہ اور خط کا انگريزی متن نقل کيا تھا ۔ اتفاق سے مجھے اُس خط کا عکس دستياب ہو گيا ہے جو نيچے ديکھا جا سکتا ہے ۔ يہ خط حکومتِ پاکستان کے محافظ خانہ ميں موجود ہے طلب اور ہمت ہو تو ديکھا جا سکتا گو موجودہ حکومت کے دور ميں بہت مشکل کام ہے