عورت ۔ جنّت بھی جہنّم بھی

میں نے 6 مارچ اور 13 مارچ کو جو لکھا اس سے شاید عورتوں کی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ قاریات ان تحاریر کے سبب مجھ سے ناراض بیٹھی ہوں یا کوسنے دے رہی ہوں ۔ میں نے افسانے کبھی شوق سے نہیں پڑھے اور عملی زندگی گذاری ہے اور لکھتا ذاتی مشاہدے اور مطالعہ کے زیرِ اثر ہوں ۔ میرا مدعا کسی کی مخالفت یا عیب جوئی کی بجائے معاشرے کی بہتری کی خاطر حقائق کو برسرِ عام لانا ہوتا ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک قول رقم کیا جاتا ہے ” عورت بیک وقت جنّت کی حور اور جہنّم کی بھٹی ہے ”

میں عورت کی اول الذکر خصوصیت کی بات کروں گا اور اس میں ذاتی تجربہ کی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کُنبہ پروری کی زد میں آ جانے کا خدشہ ہے وجہ یہ ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے کُنبے کی تمام عورتیں یعنی ماں ۔ بہنیں ۔ بیوی ۔ بیٹی اور بہو بیٹیاں بہت ہمدرد اور جانثار عطا کیں ۔ چنانچہ بات مشاہدے کی

کچھ سال پرانا واقعہ ہے کہ یورپ میں جا بسنے والے ایک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھاتے پیتے والدین نے اپنی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی کی منگی اُس کی مرضی پوچھے بغیر یورپ کے ایک دوسرے شہر میں رہائش رکھنے والے اپنے جیسے خاندان کے لڑکے سے طے کر دی ۔ لڑکی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جو شادی میں تاخیر کا سبب بن رہا تھا ۔ کچھ لوگوں کو شُبہ ہونا شروع ہوا کہ لڑکی جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ایک دن وہ لڑکا ٹریفک کے حادثہ میں شدید زخمی ہو گیا ۔ ان وجوہ پر ہسپتال میں ہوش سنبھالنے کے بعد لڑکے نے لڑکی والوں کو پیغام بھجوایا کہ وہ کوئی اور اچھا لڑکا تلاش کر کے اپنی بیٹی کی شادی کر دیں ۔ والدین نے یہ بات اپنی بیٹی کو سنائی ۔ لڑکی نے سب سُن کر والدین سے لڑکے کے پاس جا کر اُسے دیکھنے کی اجازت مانگی تو وہ حیران ہوئے ۔ بیٹی کے اصرار پر اُسے اجازت دے دی

لڑکی دوسرے شہر ہسپتال میں اپنے منگیتر کے پاس پہنچی ۔ لڑکا اُسے دیکھ کر خوش ہوا اور اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ پھر اُسے بتایا کہ وہ اپاہج ہو چکا ہے اور بچ گیا تو ساری زندگی بستر پر اور ویل چیئر پر گذارے گا اسلئے وہ کسی اور کو اپنا زندگی کا ساتھی بنا لے ۔ لڑکی نے اپنے منگیتر سے کہا کہ ”جو کچھ ہوا اُس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں تو پھر اس کی سزا تمہیں کیوں ملے ۔ تمہیں ایک اچھی نرس کی ضرورت ہے اور بیوی سے بہتر اور کوئی نرس نہیں ہو سکتی“۔ لڑکے نے اُسے بہت سمجھایا اور کہا کہ ”میری خوشی اسی میں ہے کہ تم اپنی زندگی برباد نہ کرو ۔ میں اب تمہارے قابل نہیں رہا“۔ لڑکی چلی گئی اور گھر پہنچتے ہی اپنے والدین سے کہا کہ ”فوراً میری شادی میرے منگیتر کے ساتھ کر دیں“۔

شادی کیا کرنا تھی وہ لوگ لڑکے کے شہر گئے اور نکاح پڑھوا دیا ۔ اس کے بعد لڑکی نے اپنے خاوند کی تیمارداری شروع کر دی ۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ خاوند کی خدمت کرتی ہے ۔ جہاں جاتی ہے خاوند کو ساتھ لے کر جاتی ہے ۔ گاڑی سے اُتار کر ویل چیئر پربٹھاتی اور ویل چیئر کو خود چلاتی ہے ۔ کسی صورت بھی خاوند کو معذوری کا احساس نہیں ہونے دیتی

عورت جنّت کی حور نہیں تو پھر کیا ہے ؟

گمان ۔ ۔ ۔ ؟

میرے ہموطنوں کی اکثریت کافی گمان کرتی ہے ۔ ہر گمان بُرا فعل نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر ایک مسافر اپنی گاڑی پر کہیں جا رہا ہے جہاں جانے کے دو راستے ہیں ۔ ایک راستے پر وہ ماضی بعید میں گذر چکا ہے لیکن وہ لمبا ہے ۔ دوسرا راستہ چھوٹا ہے مگر اس میں سے کئی راستے نکلتے ہیں ۔ مسافر گمان کرتا ہے کہ اگر وہ چھوٹے راستے سے گیا تو ناواقف ہونے کی وجہ سے وہ بھٹک جائے گا ۔ اسلئے طویل راستہ ہی اختیار کرتا ہے ۔ یہ گمان بُرا نہیں ہے ۔ لیکن کئی گمان بُرے ہوتے ہیں اور کچھ دین کے لحاظ سے گناہ بھی ہیں ۔ میرے ساتھ بیتا گمان کرنے کا تازہ ترین تجربہ کچھ یوں ہے

جب سے ہم لاہور سے واپس آئے (ایک سال سے) ہمارے گھر کی پانی کی سپلائی کا مسئلہ بنا ہوا تھا یعنی کبھی پانی آتا ہی نہ تھا اور کبھی تھوڑا آتا تھا ۔ آئے دن قیمتاً پانی کا ٹینکر منگوانا پڑتا تھا جو ایک مہم سے کم نہ ہوتا تھا ۔ کیپٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے پانی کے ڈائریکٹر سے لے کر نیچے ڈپٹی ڈائریکٹر ۔ سب انجنیئر ۔ فورمین اور آپریٹر تک بار بار سب کی خدمت میں درخواست کی ۔ تب کہیں پیر مورخہ 12 مارچ 2012ء کو سی ڈی اے کے آدمی آئے اور اُنہوں نے میرے گھر کا پانی کا کنکشن کا معائینہ کرنے کیلئے زمین کی کھُدائی شروع کی

شروع ہی میں ایک پائپ نظر آیا جو میری معلومات کے مطابق ہمارے ایک ہمسائے کا تھا ۔ سی ڈی اے کے آدمیوں نے اس سے ہٹ کر کھدائی جاری رکھی ۔ تین فٹ کھدائی کے بعد پانی رسنا شروع ہوا ۔ جو میرے گھر کی پانی کی سپلائی والی پائپ سے نکل رہا تھا اور دوسری طرف کے ہمسائے کے گھر کی طرف سے بھی آ رہا تھا ۔ میں از راہِ ہمدردی اُنہیں بتانے گیا ۔ میرے بتاتے ہی انہوں نے کہا “آپ نے اپنا کام ٹھیک کرا کے ہمارا خراب کر دیا”۔

رات ساڑھے نوبجے میں بستر پر دراز ہوا تو مجھے یاد آیا کہ پہلے والے ہمسائے جن کے گھر کا پانی کا پائپ نظر آیا تھا نے چند سال قبل اپنی پانی سپلائی کی پائپ کی ایک جگہ سیمنٹ سے مرمت کروائی تھی ۔ میں نے اُنہیں ٹیلیفون پر پوچھا کہ اُنہوں نے پائپ کی کونسی جگہ مرمت کرائی تھی تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہاں سے پھر پانی نکلنا شروع تو نہیں ہو گیا ۔ اُنہوں نے میری پوری بات سُنے بغیر کہا ” کام کرنے والوں نے گینتی مار کے ہمارا پائپ توڑ دیا ہو گا”۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کا پانی کا پائپ سطح سے صرف چھ انچ نیچے ہے اور محفوظ ہے ۔ پانی پانچ فٹ گہرائی پر ہمارے دوسرے ہمسائے کے مکان کی طرف سے آ رہا ہے ۔ مگر اُن کا کہنا تھا “اب کل ہی پتہ چلے گا جب ہمارے گھر پانی نہیں آئے گا”

یہ ہیں نیکی کرنے کے نتیجہ میں ایک ہی وقت میں گمان کرنے کے دو واقعات ۔ اللہ محفوظ رکھے

يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ (سورت ۔ 49 ۔ آیت ۔ 12)

اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں

بد سے بدنام بُرا

جدھر جائيں جہاں جائيں
يہی کچھ سُننے کو ملتا ہے

لڑکے يہ کرتے ہيں
لڑکے وہ کرتے ہيں
لڑکے لڑکيوں کو چھيڑتے ہيں
لڑکے لڑکيوں کو گھُورتے ہيں

مانا کہ اس ميں کچھ حقيقت بھی ہے
ليکن ايک نظر ادھر بھی


میں نے “بے غیرتاں دا ٹولہ” تو نہیں سُنا لیکن ایک دن میں کہیں جا رہا تھا تو 3 نوجوان اکٹھے ٹہل رہے تھے تو کسی نے کہا ڈشکرے ۔ بعد میں میں نے کسی سے ڈشکرے کا مطلب پوچھا تو خطرناک غُنڈے بتایا گیا ۔ یہ واضح کر دوں کہ مجھے تو اُن میں کوئی غلط بات نظر نہیں آئی ۔ اُن کی نظریں بھی جھکی ہوئی تھیں اور مدھم آواز میں آپس میں باتیں کر رہے تھے

قلم منہ ميں نہ ڈالئے ورنہ ۔ ۔ ۔

بر طا نیہ میں ايک 76 سالہ خا تون پیٹ در د اور معدے کے خرابی کا شکا ر تھیں ۔ ڈاکٹروں نے سی ٹی اسکین کروایا تو معلوم ہوا کہ ان کے پیٹ میں ایک عد د قلم مو جو د ہے ۔ خا تون نے بتایا کہ یہ قلم 25 سا ل قبل وہ غلطی سے نگل گئیں تھی

ڈاکٹر وں نے جب آ پریشن کے ذریعے قلم ان کے معدے سے نکا لا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اس میں سیا ہی ابھی تک موجود تھی اور قلم بالکل صحیح کا م کررہا تھا جس سے ایک ڈاکٹر نے کا غذ پر ہیلو [Hello] کا لفظ بھی تحریر کیا

بشکريہ ۔ جنگ

سوچ معذور بناتی ہے

آئے دن سُنتے ہیں کہ لوگ مختلف طریقوں اور الفاظ سے اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں ۔ کہیں جو کالج میں پڑھایا گیا امتحانی پرچہ اس میں سے کچھ باہر ہو خواہ نصاب کے اندر ہو تو جلوس نکالے اور دفاتر جلائے جاتے ہیں ۔ کہیں اپنی محرومیوں کا رونا رو کر مالی امداد مانگی جاتی ہے

تھوڑا سا غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ معذوری غلط سوچ اور کاہلی کا نام ہے

بات جسمانی یا دماغی طور پر معذور لوگوں کی نہیں ہو رہی ۔ جسمانی طور پر معذور بھی ایسے ملتے ہیں جو تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر ۔ انجنیئر ۔ وکیل وغیرہ بن گئے اور اپنی روزی کما رہے ہیں ۔ ایسے بھی ہیں جو تعلیم حاصل نہ کر سکے اور اپنے ہُنر سے روزی کما رہے ہیں

اگر ہمت کے ساتھ محنت کی جائے معذوری بھی معذوری نہیں رہتی ۔ ایک طرف مالدار حکومتیں اربوں خرچ کر کے درجنوں انسانوں کی مدد سے جو کرتی ہیں وہ اکیلا آدمی بھی کر سکتا ہے تو دوسری طرف جسمانی اعضاء سے محروم انسان مکمل انسانوں کوپیچھے چھوڑ جاتا ہے

صرف دو مثالیں

1 ۔ رومانیاکے طالب علم رَول اوآئدا (Raul Oaida) نے گھر ميں ليگو سے اُڑن کھٹولا (Space Shuttle) تيار کر کے اسے ہيليم (Helium) گيس سے بھرے غبارے کے ساتھ باندھ کر فضاميں چھو ڑ ديا جو تھوڑے ہی وقت ميں ايک لاکھ چودہ ہزار فٹ کا فاصلہ طے کر کے خلا ميں کاميابی سے پہنچ گيا

2 ۔ کم عمر لڑکی جو بازوؤں سے محروم ہے بہترین مصوّری کرتی ہے

مرد ۔ ۔ ۔ ظُالم ہوتے ہیں ؟

بہت سوں نے سُن یا پڑھ رکھا ہو گا کہ ” ماؤں ۔ بيويوں اور لڑکيوں کے آلام و مصائب کا سبب ظالم مرد ہوتے ہيں”
يہ وقت ہے کہ مرد کے متعلق جانا جائے کہ وہ ہے کيا چيز ؟

مرد اللہ کی ايک عمدہ تخليق ہے

کيسے ؟

چھوٹی سی ہی عمر ميں وہ حالات سے مصالحت کرنا شروع کر ديتا ہے
بہنوں کيلئے اپنی چاکليٹ ۔ دوسری اشياء اور وقت کی قربانی ديتا ہے

جوان ہونے پر والدين کے چہرے پر مُسکراہٹ ديکھنے کی غرض سے اپنی محبت اور آسائش کی قربانی ديتا ہے

اپنے بيوی بچوں کی خاطر زيادہ محنت اور زيادہ وقت کام کر کے اپنا آرام قربان کرتا ہے
بيوی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر قرض تک اُٹھاتا ہے اور پھر اس کی ادائيگی کيلئے اپنا چين قربان کرتا ہے

اسی طرح وہ اپنی جوانی بغير شکائت کئے قربان کر ديتا ہے

بے تحاشہ محنت اور کوشش کے باوجود اُسے ماں ۔ بيوی اور باس [boss] کی طرف سے سرزنش ۔ طعن و تشنيع برداشت کرنا پڑتی ہے اور پھر بھی اُنہيں شکائت ہی رہتی ہے
يہيں بس نہيں ہوتا اُس کی بيوی دوسروں کی خوشی کيلئے مصالحت کرنے لگتی ہے جس کا بوجھ خاوند يعنی مرد کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے

مرد بھی جذبات رکھتے ہيں اور ان کے احترام کے مستحق ہيں

ہو سکے تو شدتِ دباؤ اور کھينچا تانی ميں گھِرے اس انسان کی جسے مرد کہا جاتا ہے اُس کی زندگی ميں کچھ قدر کيجئے
جب وہ شدتِ حالات کے نرغے ميں ٹُوٹ رہا ہو تو اس کی مدد کی کوشش کيجئے

(آزاد خیال ملک کے باشندے کے انگريزی ميں لکھے مضمون کا ترجمہ)

اُميد

جس طرح موسم بدلنے کا ايک وقت ہوتا ہے
اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ايک موسم ہوتا ہے

حالات بدلتے ہی رہتے ہيں
حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے
رات آ جائے تو نيند بھی کہيں سے آ ہی جاتی ہے

انسان وہ کامياب ہوتا ہے
جس نے ابتلاء کی تاريکيوں ميں اُميد کا چراغ روشن رکھا

اُميد اُس خوشی کا نام ہے
جس کے انتظار ميں غم کے ايام کٹ جاتے ہيں

اُميد کسی واقعہ کا نام نہيں
يہ صرف مزاج کی ايک حالت ہے

اللہ کے مہربان ہونے پر يقين کا نام اُميد ہے

سورت 39 الذُّمَر آيت 53 ۔ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ

(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو ۔ جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ