لڑکپن کی باتيں قسط 4 ۔ رنگِ زماں

قبل ازیں باد نما ۔ وطن اور افسانہ یا حقیقت لکھ چکا ہوں

جن دنوں ميں نويں دسويں جماعت ميں پڑھتا تھا ميں اور ميرے 3 دوست جمعہ کو مرکزی جامع مسجد راولپنڈی ميں نمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد بانسانوالا بازار ۔ راجہ بازار ۔ لياقت روڈ ۔ مری روڈ اور سرکلر روڈ سے ہوتے ہوئے گھروں کو چلے جايا کرتے تھے ۔ ميں جھنگی محلہ ميں اپنے گھر اور باقی اپنے اپنے ۔ ايک دن نماز کے بعد جب ہم لوگ لياقت روڈ پر سنيما کے سامنے سے گذر رہے تھے تو ہم نے ديکھا کہ ايک جوان جو مسجد میں نماز پڑھ کر نکلا تھا سنيما کا ٹکٹ لينے کيلئے قطار ميں کھڑا ہے

انہی دنوں چُست لباس کا فيشن چلا اور لباس چُست ہوتے قميض جسم کے ساتھ يوں چِپکی کہ جيسے جسم پر رکھ کے سِی گئی ہو ۔ شلوار کا گھير نہائت مختصر ہو گيا اور دوپٹہ سُکڑ کر اور بَل کھا کے رَسی کی صورت اختيار کر گيا ۔ اس لباس کو ٹیڈٰی لباس (Teddy Dress) کا نام دیا گیا تھا ۔ شاید ٹائڈی (Tidy) کو ٹیڈی بنا دیا گیا ہو

شام کے وقت گھر ميں بيٹھا تھا کہ ميرا دماغ گھومنے لگا ۔ ميں نے کاغذ پنسل پکڑی اور لکھنے لگ گيا ۔ يہ نظم ميرے ساتھيوں نے کسی رسالے ميں بھی چھپوا دی تھی جس کا نام اس وقت ميرے ذہن ميں نہيں

ہر موڑ پہ تُم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ ۔ ۔ ۔ خاموش يہ سب سَيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھئيٹر کو جاتے ہيں مسجد سے نکل کر ۔ ۔ ۔ اسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک تو رُخسار پہ پاؤڈر ۔ ۔ ۔ يہ دُخترِ مِلت ہے رواں ديکھتے جاؤ
نازک ہوئی دخترِ مِلت کی طبيعت ۔ ۔ ۔ دوپٹہ بھی ہوا اس پہ گراں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے ۔ ۔ ۔ انساں ہيں بنے ٹَيڈی ديکھتے جاؤ
ہے اَوجِ ترقی کی طرف جاتا زمانہ ۔ ۔ ۔ اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ

بندہ حاضر

درست طریقہ تو خدمتگار سے خدمتگار (server to server) سب کچھ مُنتقل کرنا ہے لیکن بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب سوچا کہ اسے اپنے کمپیوٹر پر اُتار (download) لیا جائے ۔ خیال تھا کہ 9 مئی کو ڈاؤن لوڈ شروع ہو جائے گا مگر ہو نہ سکا کیونکہ وفاقی وزیر برائے بجلی کے اعلان کہ “غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اب نہیں ہو گی” بجلی بغیر اعلان زیادہ جانی شروع ہو گئی ۔ اس ناکامی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 12 مئی کو ایک تحریر شائع کر ڈالی ۔ اسی دوران نئے خدمتگار کے انتخاب کیلئے ماہرین سے مشورے بھی جاری رہے ۔ پھر غیر ملک میں مقیم ایک مہربان سے درخواست کی کہ وہ ہمارا کام کر دیں ۔ اُنہوں نے ہدائت کر دی کہ پہلے ہم سب کچھ کا اپنے کمپیوٹر پر محفوظہ اُتار (backup download) لیں ۔ یہ کام وقفے وقفے سے کافی ذہنی اور جسمانی کوفت سے مکمل ہوا جس کے بعد اُن صاحب کو مطلع کیا گیا کہ منتقلی کا کام شروع کریں ۔ اس طرح توقع سے کچھ دن زیادہ ہی لگ گئے ہیں

کہتے ہیں خالی بیٹھے شیطان سوجھے سو میں نے خالی بیٹھنا سیکھا ہی نہیں ۔ متذکرہ دنوں میں بلاگ کو نہ چھیڑنے کا عہد تھا ۔ سوچا اب میں کیا کروں ؟

پہلا کام ۔ میں نے مختلف ذرائع سے تفتیش کی کہ بجلی جاتی کہاں ہے ؟ نتیجہ میں دھماکہ خیز کوائف مل گئے لیکن اس کا بیان پھر کسی دن
دوسرا کام ۔ کمپیوٹر اور مانیٹر کیلئے علیحدہ علیحدہ یو پی ایس لگائے ہوئے ہیں ۔ مانیٹر والے یو پی ایس میں نئی بیٹری ڈالنے کے بعد وہ 10 منٹ تک چلتا ہے پھر کم ہوتے ہوتے تین چار ماہ بعد اِدھر بجلی گئی اُدھر پھڑک سے مانیٹر بند ۔ کبھی کوئی فائل برباد کبھی ونڈوز کا بیڑہ غرق ۔ سوچا کہ بجلی کا بند ہونا تو میں روک نہیں سکتا کچھ اپنا ہی بندوبست کیا جائے ۔ تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ایل ای ڈی مانیٹر اسلام آباد میں آ گئے ہیں ۔ دل پر پتھر رکھ کر اپنے پیارے دیرینہ ساتھی فِلِپس کے 17 انچ کے چپاٹ (flat) مانیٹر 107ای 5 (resolution 1024X768) کی فُرقت اور اپنے زر کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا اور نئے زمانے کی طرح ہرجائی بنتے ہوئے اے او سی کے 20 انچ الٹرا سلِم (ultra slim) ایل ای ڈی مانیٹر (resolution 1600X900) سے دوستی کا ارادہ کیا ۔ ملاحظہ ہو
.

حیف وہ قوم

“خلیل جبران کی روح سے معذرت کے ساتھ اور موجودہ حالات کے حوالے سے میں خلیل جبران کی نظم “حیف وہ قوم (Pity The Nation)” میں مندرجہ ذیل اضافہ کروں گا” ۔ ۔ ۔ یہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالتِ عظمٰی کے تفصیلی فیصلہ میں تعارفی جملہ ہے بند 3 کا جو جسٹس آصف کھوسہ کی 6 صفحات پر مشتمل اضافی تحریر کا حصہ ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے بقایا بند 3 کا ترجمہ ۔ مکمل اضافی تحریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور عدالتِ عظمٰی کے پورے بنچ کا فیصلہ یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

حیف وہ قوم جو مذہب کے نام پر قومیت حاصل کرے لیکن مذہب کی بنیاد سچ ۔ دیانتداری اور احتساب کو اہمیت نہ دے

حیف وہ قوم جو جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دے لیکن اسے صرف ووٹ ڈالنے کیلئے قطار لگانے تک محدود رکھے اور جمہوری اقدار کی حوصلہ شکنی کرے

حیف وہ قوم جس کی تعظیم کا معیار حصولِ مقصد اور اعلٰی عہدہ و اختیار ہو

حیف وہ قوم جو اخلاقی معیار کو حقارت سے نطر انداز کرے اور دنیاوی مفاد کی پرورش کرے

حیف وہ قوم جو مُجرم کو غازی اور مہذب آدمی کو کمزور سمجھے

حیف وہ قوم جو دانا آدمی کو بیوقوف سمجھے اور مکّار آدمی کی تعظیم کرے

حیف وہ قوم جو آئین تو منظور کرے لیکن سیاسی مفاد کو آئینی ترجیحات پر بھاری رکھے

حیف وہ قوم جو سب کیلئے انصاف کا مطالبہ تو کرے لیکن جب انصاف اُس کی سیاسی وابستگی پر اثرانداز ہو تو طیش میں آ جائے

حیف وہ قوم جس کے ملازم اپنے آئینی حلف کو صرف عہدہ سنبھالنے کا ذریعہ سمجھیں

حیف وہ قوم جو اپنے رہنما کا انتخاب بطور نجات دہندہ کرے لیکن توقع رکھے کہ وہ تمام قوانین کو اپنے حواریوں کی خاطر توڑے مروڑے

حیف وہ قوم جس کے رہنما قانون کی حکمرانی کی خاطر قربانی دینے کی بجائے عدالت کی حُکم عدولی کر کے شہید بننا چاہیں

حیف وہ قوم جس کے رہنما جُرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں

حیف وہ قوم جس کی رہنمائی قانون کا مذاق اُڑانے والے کریں اور اُنہیں احساس نہ ہو کہ بالآخر قانون اُن پر ہنسے گا

حیف وہ قوم جو قانون کی حُکمرانی کیلئے تحریک تو چلائے لیکن جب اس کے بڑے قانون کی گرفت میں آنے لگیں غُل غپاڑہ مچائے

حیف وہ قوم جو عدالت کے فیصلے سیاسی عینک سے دیکھے اور عدالت کی بجائے عدالت سے باہر وکالت کے جوہر دکھائے

حیف وہ قوم جو کمزور اور غریب کو سزا دے لیکن اپنے طاقتور اور بلند مرتبہ لوگوں کا حساب لینے سے شرمائے

حیف وہ قوم جو قانون کے سامنے مساوات کیلئے شور مچائے لیکن مفاد پرستانہ فیصلے اُنہیں محبوب ہوں

حیف وہ قوم جو دماغ کی بجائے دل سے رہنمائی لے

واقعی حیف وہ قوم جو بد معاشی یا کمینگی اور عالی مَنشی میں امتیاز نہ کر سکے

قارئین کی توجہ کیلئے

میں نے اس بلاگ کی ہوسٹنگ امریکا کی ایک معروف اور قابلِ اعتماد کمپنی کے سرور پر رکھی ہوئی تھی ۔ پی ٹی سی ایل کی مہربانیوں کے نتیجہ میں پی ٹی سی ایل اور اُن کے طفیلی انٹر نیٹ رکھنے والے قارئین کو میرا بلاگ کھولنے میں دقعت ہوتی تھی

قارئین کی فرمائش پر میں نے وطنی کمپنی کی ہوسٹنگ لے لی اور وہی ہوا جس کا انتباہ انہی دنوں چند تجربہ کار قارئین نے کر دیا تھا

چنانچہ مجھے ہوسٹنگ تبدیل کرنا پڑ رہی ہے اپنے بلاگ اور دیگر مواد کا جو میرے بلاگ سے کہیں زیادہ ہے کا ڈاؤن لوڈ آج اِن شاء اللہ شروع کر دیا جائے گا ۔ نئی ہوسٹنگ لینے اور بلاگ اُس پر منتقل کرنے میں چند دن لگ جائیں گے

اسلئے ہو سکتا ہے کہ میرا بلاگ آج کے بعد کچھ دن نہ کھلے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سلام

ہم لوگ بروز جمعہ 20 اپریل 2012ء کو لاہور گئے اور ارادہ 23 اپریل کو واپسی کا تھا لیکن اللہ کو ایسا منظور نہ ہوا اور ہم 26 اپریل کو واپس آ سکے جس کی وجہ میں بعد میں لکھوں گا پہلے ذکر اُن 2 خطوط کا جو دیکھنے میں شاید چھوٹی چھوٹی باتوں میں آئیں لیکن ہیں بہت اہم باتیں جن کا انسان کے عمل اور کردار سے تعلق ہے مگر اسے بدقسمتی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہم لوگ ان کرنے میں نہایت چھوٹی باتوں پر عمل نہیں کرتے جبکہ ان پر عمل کرنے والے اعلٰی درجہ پاتے ہیں

میں نے لاہور گلبرگ مین مارکیٹ کے قریب ایک درزی کی دکان پر یہ اشتہار نما پیغام چسپاں دیکھا تو مجھے اپنا لڑکپن اور نوجوانی کا زمانہ یاد آ گیا جب میں اپنے ساتھیوں کی تصحیح کیا کرتا تھا ۔ میں نے صاحبِ دکان سے اجازت لے کر اس کی تصویر بنائی کہ قارئین کی خدمت میں پیش کر سکوں

دوسرا خط اِن شاء اللہ جلد آئیندہ فی الحال لاہور میں رُکنے کی وجہ

بڑھائی اس میں نہیں کہ آدمی اپنی گاڑی سب سے آگے لے جائے بلکہ اس میں ہے کہ گاڑی اصول یا قانون کے مطابق چلائے ۔ روزانہ سڑکوں پر ٹریفک کے حادثات ہوتے ہیں جن میں مالی نقصان کے ساتھ قیمتی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں لیکن گاڑی چلانے والے اکثر لوگ پھر بھی گاڑی چلانے کے اصول و قوانین کی کھُلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ 23 اپریل کو لاہور میں ہم ڈی ایچ اے سے واپڈا ٹاؤن کی طرف جا رہے تھے جہاں دوپہر کا کھانا کھا کر ہم نے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونا تھا ۔ پیکو روڈ دوہری اور کشادہ سڑک ہے ۔ ایک چوراہا آیا جہاں ایک دوہری اور کشادہ سڑک پیکو روڈ کو کاٹ رہی تھی ۔ رفتار کم کر کے دونوں اطراف جائزہ لے کر چوراہے میں داخل ہوئے ۔ داہنے بائیں اور سامنے کوئی گاڑی نہ تھی ۔ چوراہے کو آدھا عبور کر چکے تھے کہ سامنے سے ایک تیز رفتار سوزوکی پِک اَپ اچانک نمودار ہوئی اور داہنی طرف مُڑ کر ہمارے سامنے سے گذرنے کی کوشش کی ۔ فوراً بریک لگا کر گاڑی کو داہنی طرف موڑنے کے باوجود ہماری گاڑی کا سامنے کا بایاں حصہ سوزوکی پِک اَپ سے ٹکرا گیا ۔ گاڑی کی باڈی کا نقصان تو ہوا مگر چلنے کے قابل تھی جبکہ سوزوکی پِک اَپ چلنے کے قابل نہ رہی ۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ کسی آدمی کو کوئی جسمانی نقصان نہ ہوا ۔ دوپہر کا کھانا کھا کر گاڑی ورکشاپ میں دی جو درست ہو کر 26 اپریل کی دوپہر کو ملی اور ہم اسلام آباد روانہ ہوئے

کاش وہ آئے روزانہ ہماری گلی میں

آپ غلط سمجھے ۔ میں کسی خوبصورت دوشیزہ کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے تو کبھی جوانی میں بھی یہ تمنا نہ کی تھی ۔ پھر آیا کون ؟ ذرا تحمل سے پڑھیئے

ہمارے علاقے میں روزانہ بلا ناغہ 24 گھنٹے میں 6 بار بجلی ایک ایک گھنٹے کیلئے بند ہوتی ہے جسے فی زمانہ لوڈ شیڈنگ کہا جاتا ہے ۔ دن میں 7 سے 8 بجے تک ۔ 11 سے 12 بجے تک ۔ 3 سے 4 بجے تک ۔ رات میں بھی انہی اوقات میں ۔ بعض دن بونس کے طور پر زیادہ بار بجلی بند ہوتی ہے لیکن یکم مئی بروز منگل رات کو نہ 7 سے 8 بجے بجلی بند ہوئی اور نہ 11 سے 12 بجے ۔ وجہ یہ کہ ہمارے گھر کے سامنے جو مکان ہے اُس کے ساتھ والے مکان میں وزیرِ اعظم صاحب نے آنا تھا ۔ وزیرِ اعظم صاحب کی آمد کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ متذکرہ مکان میں رہائش پذیر بڑے سرکاری افسر جو وزیرِ اعظم صاحب کے رشتہ دار ہیں کی بیٹی کی شادی پچھلے ہفتہ ہوئی تھی ۔ وزیرِ اعظم صاحب اُس کی مبارک دینے آئے تھے

سوچتا ہوں کہ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب کو احساس نہیں کہ لوگوں کو بجلی بند ہونے سے کیا تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جہاں وہ رہتے ہیں یا جاتے ہیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی

وزیرِ اعظم کی آمد سے کچھ قبل حکم دیا گیا کہ جو کوئی جہاں ہے وہیں رہے اور حرکت نہ کرے یعنی اگر کوئی کسی کمرے یا ٹائیلٹ میں رفع حاجت کیلئے گیا تھا تو وہ اس کمرے یا ٹائیلٹ ہی میں رہے اور جو کمرے یا ٹائیلٹ سے باہر تھا اور اندر جانا چاہتا تھا وہ اب باہر ہی رہے جب تک وی آئی پی آ کر واپس نہ چلے جائیں ۔ یہ حُکم اُس گھر میں رہنے والوں کیلئے بھی تھا جن کے ہاں وزیراعظم صاحب آ رہے تھے ۔ ہماری گلی کے ایک رہائشی اپنے بچوں کو لے کر آ رہے تھے اُنہیں رات 9 بجے کے بعد تک گلی میں گھُسنا تو کُجا گلی سے بہت دُور روکے رکھا گیا

گو شادی کچھ دن قبل ہو چکی تھی پھر بھی اہلِ خانہ نے وزیر اعظم صاحب کیلئے مناسب کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ وزیراعظم صاحب کے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب نے کھانے کی تمام چیزوں اور پھلوں کے رس کا باقاعدہ ٹیسٹ کیا اور پھر سب کو خود چکھا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم صاحب نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا سوائے سادہ پانی کے جو نیسلے کی بند بوتل میں تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بوتل وزیراعظم صاحب کے ساتھ ہی آئی ہو

یہ سب کچھ سُنتے ہوئے میرے ذہن میں پرائمری سکول کے زمانے میں سُنی ہوئی شہنشاہ کی کہانی گُھوم رہی تھی ۔ کہانی کے مطابق شہنشاہ کے کوئی چیز کھانے یا پینے سے پہلے ان کا ملازم اسے چکھتا تھا

اِن لوگوں کو اپنی زندگی تو اتنی پیاری ہے لیکن عوام کی زندگیوں کو بے مُول کیوں سمجھتے ہیں ؟ کیا یہ عوام کے نمائندے کہلانے کے قابل ہیں ؟