سوچتا ہوں ۔ ۔ ۔

جب اعداد و شمار دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں سوچتا ہی رہتا ہوں
کیا کوئی سیاسی سونامی آ کر
لے جائے گا اس گند کو بہا کر
یا اس بے ہنگم لُوٹ کا ختم ہونا
ہے صرف قیامت کا برپا ہونا

میں لکھ چکا ہوں کہ صرف ایک سال میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی 9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اور یہ نقصان بے قصور صارفین کے بل بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے ۔ سوئی سدرن والے ”سمجھدار“ ہیں وہ اپنے اعداد و شمار کو ہوا نہیں لگنے دیتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اعداد و شمار ہوشرُبا ہیں

ایسے وقت کہ جب سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بڑھے ہوئے نرخوں کو مزید بڑھانے پر زور دے رہی ہیں ، مُسلم لیگ ن کی رُکن قومی اسمبلی شریں ارشد خان کے مطالبے پر پیر 3 ستمبر کو وزیر اعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق 313 کمپنیوں اور اداروں میں سے ہر ایک سوئی سدرن یا سوئی نادرن کا کم از کم ایک کروڑ روپے کا نا دہندہ ہے ۔ ان میں بڑی نجی انڈسٹریل کمپنیاں ۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ۔ سی این جی سٹیشنز ۔پاکستان ریلوے ۔ فوج کے ماتحت ادارے ۔ واپڈا ۔ پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ شامل ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل صرف 41 ادارے اور کمپنیاں 75 ارب 81 کروڑ 19 لاکھ 45 ہزار روپے کے نا دہندہ ہیں

پاکستان ریلوے ۔ 11 کروڑ 20 لاکھ 91 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ۔ 8 ارب 78 کروڑ 21 لاکھ 83 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ٹاؤنشپ ڈیپارٹمنٹ ۔ ایک کروڑ 74 لاکھ 69 ہزار روپے
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ۔ 4141 ارب 80 کروڑ 51 لاکھ 33 ہزار روپے
کے ای ایس سی / کے ٹی پی ایس رہائشی کمپلیکس ۔ 3 کروڑ 67 لاکھ 86 ہزار
واپڈا (جامشورو ۔ کوٹری ۔ سکھر ۔ کوئٹہ) ۔ 2222 ارب 2 کروڑ 39 لاکھ 87 ہزار روپے
سینٹرل جیل کراچی ۔ 2 کروڑ 82 لاکھ 63 ہزار روپے
سینٹرل جیل حیدر آباد ۔ ایک کروڑ 41 لاکھ 72 ہزار
ڈپٹی ڈائریکٹر مکینیکل ڈویژن ۔ 1 سی ڈی اے برائے وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 56 لاکھ 35 ہزار روپے
ڈپٹی ڈائریکٹر ایئر کنڈیشننگ ۔ سی ڈی اے سیکرٹیریئٹ بلڈنگ ایم بلاک ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 5 لاکھ 80 ہزار
اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجیئر ۔ سٹور ورکشاپ انجنیئرنگ ڈویژن پاک پی ڈبلیو ڈی ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 80 ہزار روپے
پولیس ٹریننگ کالج سہالا ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 85 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ سی ڈی اے برائے پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 5 کروڑ 68 لاکھ 28 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 4 کروڑ 48 لاکھ 45 ہزار روپے

ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ 3 کروڑ 11 لاکھ 36 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی احسان شامی روڈ ۔ 2 کروڑ 99 لاکھ 49 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی تنصیل روڈ ۔ 2 کروڑ 43 لاکھ 9 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی عابد مجید روڈ ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 95 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ شامی روڈ ۔ ایک کروڑ 15 لاکھ 93 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ طفیل روڈ ۔ 2 کروڑ 22 لاکھ 78 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ ایسٹ بینک روڈ ۔ راولپنڈی برائے جی ایچ کیو ۔ ایک کروڑ 30 لاکھ 72 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 35 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ بلال کالونی ۔ ایک کروڑ 93 لاکھ 62 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ مانکی چوک ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 53 لاکھ 22 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ ایم ای ایس ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 55 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 46 لاکھ 14 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ اٹک ۔ ایک کروڑ 27 لاکھ 26 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ رسالپور ۔ ایک کروڑ 20 لاکھ 8 ہزار روپے
کماڈنٹ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ۔ راولپنڈی ۔ ایک کروڑ 44 لاکھ 85 ہزار روپے
چھاؤنی 47 آرٹلری بریگیڈ ۔ سرگودھا چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 22 لاکھ 86 ہزار روپے
پی ایم اے ۔ کاکول (اندرونی علاقہ) ۔ ایبٹ آباد ۔ ایک کروڑ 4 ہزار روپے

حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی شیخ مدینہ ۔ کوئٹہ ۔ ایک ارب 32 کروڑ ایک لاکھ 12 ہزار روپے
لکی انرجی (پرائیویٹ ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 27 کروڑ 41 لاکھ 95 ہزار روپے
ٹاٹا انرجی لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 83 لاکھ 7 ہزار روپے
عدنان پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 3 کروڑ 95 لاکھ 92 ہزار روپے
اولمپیا پاور جنریشن ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار روپے
نو ڈیرو پاور پلانٹ ۔ لاڑکانہ ۔ 16 کروڑ 24 لاکھ 48 ہزار
گلستان پاور ۔ کوٹری ۔ 13 کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار روپے
ندیم پاور جنریشن ۔ کوٹری ۔ 10 کروڑ 30 لاکھ 35 ہزار روپے
بھنیرو انرجی لمیٹڈ ۔ کوٹری ۔ 8 کروڑ 39 لاکھ 8 ہزار روپے

ناموسِ رسول ﷺ

مغربی اقوام جنہوں نے سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے نبیوں کو عملی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ آج پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف انداز اور مختلف اطراف سے تیر چلا رہی ہیں اور انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان اپنے نبی کے معاملے میں اتنے حساس کیوں ہیں کہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عشق رسول کے بغیر مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔ وہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ہر شے، والدین، اولاد، دوست وغیرہ سے زیادہ محبت نہیں ہوتی ۔ لیکن اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ اسلام کا مطلب ہی ”امن“ ہے

میں اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا اور دماغ میں اتنا کچھ جمع ہو گیا کہ میرے لئے اس کا اختصار ناممکن ہو گیا ۔ اللہ مُشکل کُشا نے میری مُشکل آسان فرمائی اور مجھے ایک مضمون مل گیا جس سے اقتباس حاضر ہے

غزوہ اُحد اپنے عروج پر تھا۔ دونوں طرف سے تیر چلائے جا رہے تھے اور تلوار زنی کے جوہر دکھائے جا رہے تھے۔ کفار کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیں یا شہید کر دیں۔ مشرکین ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا حملہ شدت اختیار کر گیا تو حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو دجانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے دشمنوں کو بھگاتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔ مشرکین تیر برسانے لگے۔ وہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے منتشر کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو طلحہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ ڈھال بن گئے۔ حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ میں تیر لگا تو آنکھ کا ڈیلا رخسار پر لٹک گیا۔ مشرکین کے تیروں کا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی جبکہ صحابہ کرام آپ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے تھے

حضرت ابو طلحہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر مشرکین پر تیر چلا رہے تھے۔ دوسری طرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ تلوار چلا رہے تھے اور چاروں طرف سے مشرکین کے حملے روک رہے تھے۔ مالک بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ
مبارک کا نشانہ لے کر تیر چلایا تو حضرت طلحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ سامنے کر دیا۔ تیر ان کی انگلی کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ بنی عامر بن لوی کا ایک آہن پوش سوار نیزہ لہراتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تو حضرت طلحہ نے آگے بڑھ کر اس پر وار کیا۔ اس کا گھوڑا گر گیا۔ حضرت طلحہ نے اس کا نیزہ چھین کر اس زور سے اس کی آنکھ میں چبھویا کہ وہ وہیں ختم ہو گیا

حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے جسموں پر تیر کھاتے اور دشمن کے وار سہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبل احد کی طرف محفوظ مقام پر لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے کی خبر سن کر حضرت اویس قرنی نے باری باری اپنے تمام دانت نکال دیئے تھے کہ نہ جانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کونسا دانت شہید ہوا

غزوہ احد میں حضرت طلحہ کو انتالیس زخم لگے۔ مورخین لکھتے ہیں آپ کا جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں بے شمار زخم لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں ”میں نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اور وہ بے ہوش پڑےا تھے۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی چھڑکا تو ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا سوال یہ کیا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟’ میں نے جواب دیا ”بخریت ہیں اور انہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے“۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا ‘الحمد للہ ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے’ “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو زندہ ہے حالانکہ اہل جنت سے ہے (یعنی زندہ شہید ہے) تو وہ طلحہ کو دیکھے“۔ (بحوالہ الامین صلی اللہ علیہ وسلم از محمد رفیق ڈوگر جلد دوم ص 478)۔ غزوہ احد کے دوران یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں لیکن جب اہل مدینہ کو یہ خوشخبری ملی کہ یہ افواہ بے بنیاد ہے تو کچھ خواتین کو یقین نہ آیا اور وہ خود میدان جنگ کی طرف چل دیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت سمیرا
بنت قیس گھر سے نکلیں اور بنی دینار کی خواتین کے ہمراہ جبل احد کی طرف چل پڑیں۔ وہ ہر ملنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ کسی نے بتایا ”تمہارے دونوں بیٹے نعمان اور سلیم شہید ہو گئے“۔ حضرت سمیرا نے بات سنی اَن سنی کر کے پوچھا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بتاؤ؟“ جواب ملا ”الحمد للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ہیں جیسے تم ان کو دیکھنا چاہتی
ہو“۔ حضرت سمیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سارے مصائب / غم آسان ہو گئے ہیں“۔ (الامین صفحہ 439)

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس

پردہ اُٹھتا ہے

ہماری بیوقوفی بلکہ حماقت یہ ہے کہ ہم طاقتور کی بات بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں مگر سب سے زیادہ طاقتور جس کے آگے پوری دنیا کے انسان مع اپنے تمام اسلحہ بارود کے ایک چیونٹی کی سی بھی حیثیت نہیں رکھتے اُس کی تابعداری کرنے کیلئے لاتعداد سوال ہماے دماغوں میں جنم لیتے ہیں

زیرِ نظر ہے اس وقت امریکی حکومت کی شائع کردہ خبر لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کی جو سب پڑھ چکے ہوں گے ۔ ان خبروں کے ساتھ لاتعداد مضامین بھی مسلمانوں کی درندگی ثابت کرنے کیلئے شائع ہو چکے ہیں

یوٹیوب پاکستان میں بند کر دیا گیا جس پر وہ وڈیو بھی نمودار ہوئی تھی جس میں بنغازی میں امریکی کونسلخانے میں موجود امریکی سفیر کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لیبی جوانوں کو دکھایا گیا ہے

حملے کے بعد کچھ لیبی جوان جن میں ایک کیمرہ مین ۔ ایک وڈیو گرافر اور ایک آرٹ سٹوڈنٹ بھی شامل تھے امریکی کونسلخانے میں داخل ہوئے ۔ ایک اندھیرے کمرے سے اُنہیں کسی کے کراہنے کی آواز سنا دی ۔ کمرے کا دروازہ مقفل تھا ۔ ایک آدمی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا وہاں ایک گورے کو بیہوش پڑا پایا ۔ اُسے بڑی مشکل سے کندھے پر اُٹھا کر ساتھیوں کی مدد سے کھڑکی کے راستے باہر نکالا ۔ وہ اُسے پہچان نہ سکے سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیرملکی تھا ۔ نبض دیکھی تو وہ زندہ تھا ۔ تو نعرہ بلند کیا اللہ اکبر اللہ اکبر یہ زندہ ہے

ان جوانوں نے بتایا کہ کونسلخانے میں نہ کوئی ایمبولنس تھی نہ اُنہیں طبی امداد کا کوئی اور ذریعہ یا انتظام نظر آیا۔ نہ وہاں امریکی سفارتخانے کا کوئی ملازم موجود تھا ۔ لاچار ہو کر اُسے اُٹھا کر باہر دور سڑک تک لے گئے اور ایک کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچے ۔ ڈاکٹر نے اُسے بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا کیونکہ بہت زیادہ دھوآں اُس کے پھیپھڑوں میں چکا تھا

یہ شخص لبیا میں امریکا کا سفیر کرِس سٹِیوَن تھا

(ا پ کی خبر کا خلاصہ)
جو قاری یوٹیوب نہ کھول پائیں وہ یہاں کلک کر کے کھلنے والے صفحہ پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں

خُوشبُو آ نہیں سکتی ۔ ۔ ۔

میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میں نے پہلی بار یہ شعر سنا تھا

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

اس کے ساتھ ہی ایک ضرب المثل یاد آئی ۔ ”بدبُودار کیچڑ میں اُگی سبزی بھی بدبُودار ہوتی ہے“۔ اس کا عملی ثبوت چند ماہ قبل کراچی سے ملا جہاں گندھے نالے کے پانی سے سیراب شدہ سبزیوں کی تاثیر پر بہت واویلا کیا گیا تھا

موجودہ حکومت نے پچھلے 4 سال سے احتساب کے نئے قانون کی رٹ لگا رکھی ہے اور کہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نیا قانون نہیں بننے دیتی ۔ جب کاغذ کے پھولوں پر چھِڑکی گئی خُوشبُو ختم ہوئی تو احتساب قانون کی کونپل کو لگے گندے پانی کی بدبُو نمودار ہو گئی ہے

مجوّزہ احتساب قانون کی جھلکیاں

1۔ کسی ایسے پارلیمنٹرین یا سرکاری ملازم کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں بنایا جائے گا جسے سرکاری آفس یا پارلیمنٹ چھوڑے 7 سال گزرچکے ہوں

2۔ نیک نیتی سے کی جانیوالی کسی بھی قسم کی کرپشن کو جُرم نہیں مانا جائیگا بلکہ اسے غلطی کہا جائیگا جس کی کوئی سزا نہیں ہوگی
(زبردست ۔ کل کو یہ قانون بننے کی راہ ہموار ہو گی کہ کسی نے نیک نیّتی سے زنا کیا تو اسے زنا نہیں سمجھا جائے گااور غلطی کہہ کر معاف کر دیا جائے گا)

3۔ جس دن احتساب بل کو قانون کی حیثیت ملے گی وہ اسی دن سے نافذ العمل ہوگا
(یعنی اس سے قبل کا سب معاف)

4 ۔ نئے احتساب بل کے تحت بننے والا کمیشن بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غیر ملکی دولت اور کالے دھن کی تحقیقات نہیں کرسکے گا

5۔ تاحال رائج قانون کے مطابق کرپشن ثابت ہونے پر سزا 14 سال ہے ۔ مجوّزہ قانون میں 7 سال

قوم و مُلک کے دُشمن ؟؟؟

میں بجلی کے متعلق مصدقہ مختلف حقائق لکھ چکا ہوں جن میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں
پڑھیئے اور سوچئے
بجلی کا بل زیادہ کیوں ؟
بجلی کی کمی کیوں
بجلی کہاں جاتی ہے ؟

مگر اِسے کیا کہیئے گا ؟
یہاں کلِک کر کے ایک خبر پڑھیئے اور بتایئے کہ کیا حُکمرانوں کو قوم و مُلک کے دُشمن کے سوا کچھ اور خطاب دے سکتے ہیں ؟

قدر يا قيمت ؟

آج کی دنيا ميں قدريں مفقود اور قيمت عام ہو چکی ہے
اُسے کامياب سمجھا جاتا ہے جو کم محنت سے زيادہ مالی فائدہ حاصل کرتا ہے

کامياب بننے کی بجائے قابلِ قدر بننے کيلئے محنت کيجئے
قابلِ قدر بظاہر زيادہ دے کر تھوڑا پاتا ہے
ليکن عزت و وقار پاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے
اصل کاميابی یہی ہے