تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟

لارڈ کلائيو سے لے کر 1947ء تک جتنے وائسرائے کا انتخاب ہوا وہ ہندوستان ميں سربراہ مملکت کی حيثيت سے آتے تھے ۔ ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلہ پر ذمہ داری قبول کرنے کی 3 شرائط پيش کيں ۔ 1 ۔ اپنی پسند کا اسٹاف ۔ 2 ۔ جی 130 کا وہ ہوائی جہاز جو جنگ کے دوران برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا ۔ 3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات ۔ کليمنٹ ايٹلی نے پہلی دونوں شرائط کو بے چوں و چرا منظور کرليا ليکن تيسری پر استعجاب سے کہا ”کیا یہ شہنشاہ معظم کے اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی؟(Would it not be an encroachment on H.M Government ?)” ماؤنٹ بيٹن نے کہا يہ ناگزير ہے، چونکہ مقصود يہ تھا کہ ماؤنٹ بيٹن ہندوستانی ليڈروں سے گفت و شنيد کرکے ہر فيصلے کے لئے برطانيہ آئے تو يہ مشکل مرحلہ ہوتا اس لئے کليمنٹ ايٹلی نے ايک سرد آہ بھری اور اسے بھی تسليم کرليا ۔

21مارچ 1947ء کو ماؤنٹ بيٹن بحيثيت آخری وائسرائے نئي دہلي پہنچا ۔ آئی سی ايس افسران ميں کرشنا مينن پہلا سول افسر تھا جسے ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے اپنا مشير مقرر کيا ۔ کرشنا مينن بڑا گھاگ، فطين اور اُلجھے ہوئے مسائل کا حل کرنے والا افسر تھا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھے جبکہ مہاراجہ جموں کشمير کے پاکستان سے الحاق کے بارے ميں بيان دے چکے تھے اور کرشنا مينن کے مشورے پر ہی کشمير ميں فوج کشی کی گئی تھی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے دونوں کو تھی (یعنی انگریزوں اور ہندوؤں کو)۔ کیونکہ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا ۔ ماؤنٹ بيٹن نے سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کي اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا ۔ جواہر لال نہرو نے کہا ”مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے ۔ لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتي ہے“۔ نہرو جب رخصت ہونے لگے تو ماؤنٹ بيٹن نے کہا ”پنڈت نہرو آپ مجھے برطانيہ کا وہ آخری وائسرائے نہ سمجھيں جو اقتدار کے خاتمے کے لئے آيا ہے بلکہ ہندوستان کی تعمير و ترقي کے علمبرداروں ميں ميرا شمار کيجئے“۔ پنڈت نہرو مسکرائے اور کہا ”لوگ جو کہتے ہيں کہ آپ کے پاس جادو ہے تو واقعی آج ثابت ہوگيا“۔

ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ”آپ تو اُن سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے اُن کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی“۔

لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر ہم سے اکثر يہ سوال کرتے ہيں کہ آپ اور آپ کے بزرگوں نے يہ پاکستان کيوں بنايا تھا؟ اگر يہاں يہي سب کچھ ہونا تھا تو اس سے تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے ۔ اصل بات يہ ہے کہ لوگوں کو تاريخ کا علم نہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ قائد اعظم تو متحدہ ہندوستان کے لئے راضی ہوگئے تھے ۔ امپیرئل ہوٹل ميں کونسل مسلم ليگ کے اجلاس ميں مولانا حسرت موہانی نے قائد اعظم پر کھل کر نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کيبنٹ مشن نے ہندوستان کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے (1)بنگال آسام زون (2)پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد زون (3)باقيماندہ ہندوستان زون”۔

کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری وُڈ رَووِیئٹ (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ”مسٹر جناح ۔ کیا یہ عظیم تر پاکستان کی طرف قدم نہیں ؟ (Mr. Jinnah is it not a step forward for a greater Pakistan?) ۔ قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے ہیں (Exactly you have taken the point)“

آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا ”رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال آسام پنجاب سندھ بلوچستان صوبہ سرحد”۔ صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی 1947ء کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف INDIA WINS FREEDOMکے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں ”اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے“۔ کيونکہ اُنہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک کہا ہے کہ ”دس سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا“۔ مولانا ابوالکلام آزاد ممتاز عالم دين ہيں، صاحب نسبت بزرگ ہيں، علم و فضل ميں يکتائے روزگار ہيں ليکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندو کانگريس کی تنگ نظری اور تعصب کو سمجھنے ميں غلطی کر بيٹھے

ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے يہ گل کھلائے کہ کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کيا ۔ لاہور کے ايک معروف وکيل نے جو تجزيہ کار بھی ہيں، ايک ٹی وی پروگرام ميں معروف تجزيہ نگار ڈاکٹر جميل جالبی سے پوچھا تھا ”ڈاکٹر صاحب ۔ آپ پاکستان کيوں آئے؟“ ڈاکٹر جميل جالبی نے جواب ديا ”ہم نے پاکستان بنايا ۔ ہم تو اپنے گھر ميں آئے ہيں“۔

ميڈيا سے ميری درخواست ہے کہ تاريخ پاکستان کو زيادہ سے زيادہ روشناس کرائيں ۔ محرکات تحريک پاکستان استحکام پاکستان کا موجب بنيں گے

تحریر ۔ سعید صدیقی (جو پاکستان بننے سے قبل حکومت کے ایک عہدیدار تھے اور اعلٰی سطح کی میٹنگز میں شریک ہوتے تھے)

ہماری قوم

ہماری قوم یا تو اس تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر ہے

یا پھر اس طرح مصروفِ عمل ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

روانگی

ہم نے 22 اور 23 جون 2012ء کی درمیانی شب دبئی جانا تھا ۔ 20 جون کو ایک قریبی عزیز کا میرے موبائل فون پر پیغام ملا

میرا لفظ لفظ ہے دعا دعا
میرے آنسوؤں سے دھُلا ہوا
تمہیں زندگی کی سحر ملے
تمہیں خوشیوں کا سفر ملے
تم پہ درد و غم بھی نہ آ سکے
تیری آنکھ نم بھی نہ ہو سکے
تیرا پیار جس پہ نثار ہو
وہ ھمیشہ تیرے پاس ہو
تم پہ خُوشیوں کی برسات ہو
اور طویل تیری حیات ہو
آمین

وہ انسان بہت خوش نصیب ہوتا ہے جسے بِن مانگے پُرخلوص نیک دعا ملے ۔ یہ اللہ کی مجھ پر خاص مہربانی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا کرم رہا اور ہمارے 2 ماہ بیٹے بہو بیٹی ۔ پوتے ابراھیم اور نو وارد پوتی ھناء کے ساتھ ایسے گذرے کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ یہاں واپس آنے کے بعد دن لمبے محسوس ہونے لگے ہیں ۔ اُدھر 3 سالہ پوتا ہر ہفتے کہتا ہے “دادا ۔ دادَو ۔ پھوپھو میرے گھر آ جاؤ”۔ پچھلے ہفتہ ابراھیم نے اپنے والدین سے کہا کہ ”دادا دادَو اگلے سال آئیں گے“۔ لیکن یہ گردان کہ ”پھوپھو کب آئیں گی ؟” ابھی جاری ہے ۔ ہم تو ابھی نہیں جا سکتے ۔ سوچتے ہیں کہ بیٹی (ابراھیم اور ھناء کی پھوپھو) کو بھیج دیا جائے

یہ ہمارا چھوٹے بیٹے کے ہاں چوتھا پھیرا تھا جو کہ پوتے کی پیدائش کے بعد تیسرا اور پوتی کی پیدائش کے بعد پہلا تھا ۔ دبئی کے چوتھے پھیرے کی چیدہ چیدہ باتیں اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً لکھوں گا

کونسی جماعت زیادہ مقبول ہے ؟

معروف ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کے سروے کے مطابق صورتِ حال کچھ یوں ہے

فروری مارچ 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 فیصد ۔ ۔ ۔ 27 فیصد ۔ ۔ ۔ 31 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ 41 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 33 فیصد
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 فیصد ۔ ۔ ۔ 6 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 15 فیصد ۔ ۔ ۔ 9 فیصد
خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 8 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 49 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 فیصد
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 11 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 35 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 6 فیصد

جولائی اگست 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 فیصد ۔ ۔ ۔ 28 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 25 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 7 فیصد ۔ ۔ ۔ 43 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 27 فیصد

یاد رکھنا ۔ خیال رکھنا

زندگی میں دو چیزوں کو یاد رکھنا اور ان کا خیال رکھنا
مبادا کہ وقت گذر جائے اور پچھتانا پڑے

ایک ۔ وہ شخص جس نے تمہاری جیت کیلئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا سب کچھ ہار دیا

دوسرا ۔ وہ ہستی جس کی محنت اور دعاؤں سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جِیتتے رہے اور بلاؤں سے بچتے رہے

پہلا شخص تمہارا باپ ہے
اور دوسری ہستی تمہاری ماں

کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے

عصرِ حاضر میں سائنس کی ترقی عروج پر ہے جس کے باعث کُرّہءِ ارض ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ گھر بیٹھے یا جہاں کہیں بھی ہو آدمی دو چار بار انگلیاں ہلا کر پوری دنیا کے حالات سے واقف ہو سکتا ہے ۔ معلوماتی گرم بازاری (Information boom) کے نتیجہ میں فرضی حُبِ جمہوریت نے گھر گھر میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں مگر جمہوریت ہے کہ بِلک رہی ہے

کوئی تو ایسا شہر ہوتا جہاں میرا دلدار مل جاتا
ہیں آمریت کے بدلے چہرے جہاں دیکھوں جدھر جاؤں

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ اسی لئے انسانیت کے اصولوں کو سمجھنے والوں نے اسے ابتداء ہی میں مسترد کر دیا تھا ۔

عظیم مفکّر سقراط (469 تا 399 قبل مسیح) نے کہا تھا ”جمہوریت کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ عوام کے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو نہ تو علم رکھتے ہیں ۔ نہ حکمرانی کا تجربہ اور نہ وہ عدل و انصاف کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غیرمنطقی مساوات کے تحت وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اپنی بہتری کے عمل سے ناواقف ہوتے ہیں“۔ سقراط کے بیان پر اجارا داروں کو اپنی حکمرانی خطرے میں محسوس ہوئی اور انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سُنا کر اس پر فوری عمل کیا ۔ اُن اجاراداروں کو آج کوئی نہیں جانتا مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے

ایک اور عظیم مفکّر ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کے مطابق جمہوریت ہوتی تو عوام الناس کی حکومت ہے لیکن اکثریت کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ صالح یا نیکوکار حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام الناس کی اکثریت صالح یا نیکوکار نہیں ہوتی

”جمہوریت“ بظاہر ایک آسان سا لفظ ہے ۔ جمہوریت طرزِ حکمرانی کے حق میں دلائل تو جتنے چاہیں مل جائیں گے کیونکہ کُرّہ ارض پر کہیں بھی چلے جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور تعلیم سمیت آدمی کی ہر سہولت سرمایہ داروں کی مرہونِ منت ہے ۔ آج کے دور میں کسی شخص سے (خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ) پوچھا جائے تو وہ ”جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے کا دعوٰی کرتا پایا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ”جمہوریت“ کا مطلب اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق بتاتے ہیں چنانچہ مختف گروہوں اور مختلف ادوار میں ”جمہوریت“ کا مطلب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر حکمران جمہوریت کی تفصیل اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ سرماداری نظام کے حامی جمہوریت کی تاویل آزاد تجارتی نظام بیان کرتے اور آزاد جمہوریت و معاشیاتی کُلیات جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز جیسے غریب ممالک میں عوامی حکومت اور عوامی نمائندے جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو محصور کرنے کیلئے نت نئی امدادی گٹھریوں (packages) کا اعلان کیا جاتا ہے جیسے بلوچستان پیکیج ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ جن کے خرچ ہونے کے بعد جن کیلئے تھا وہ چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا

موجودہ جمہوریت کے مطابق وہ اُمیدوار منتخب ہوتا ہے جو مقابلہ میں آنے والے ہر ایک اُمیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرے ۔ اگر ایک علاقہ میں امیدوار 2 سے زیادہ ہوں تو 50 فیصد سے کم ووٹ لینے والا کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ ایسے کامیاب اُمیدواروں کی حکومت بنے تو وہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی ۔ اگر اُمیدوار 4 یا زیادہ ہوں تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی ؟

جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنی توجہ اور قوت زیادہ تر یہ ثابت کرنے پر صرف کرتی ہے کہ مخالف پارٹی حکومت کرنے کی اہل نہیں اور اس سلسلہ میں عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ۔ چھوٹے ممالک ہی میں نہیں امریکا جیسی بڑی جمہوریت کے اندر بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے

آج کی دنیا کی بڑی قوّتیں جو اپنے تئیں ترقی یافتہ ہیں بشمول بہتاتی عالمی قوّت (World Super Power)، کے جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار اور انسانیت سے محبت کی علمبردار بنی پھرتی ہیں ۔ عمل اِن حکومتوں کا یہ ہے کہ ”جو میں کہوں وہ درست اور جو وہ کہے وہ میری مرضی کا تابع یعنی مجھے پسند ہو تو درست ورنہ غیر اخلاقی اور بعض اوقات غیرانسانی یا دہشتگردی“۔ ایک طرف قانون کہ جو شخص ہالوکاسٹ کو غلط کُجا مبالغہ آمیز بھی کہے (جو کہ وہ ہے) تو کہنے والا امریکا اور عالمی قوّتوں کا مُجرم اور اسے سزا دینے کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا اور انہی ممالک کے سہارے پلنے والے اسرائیل کو حق حاصل کہ کہنے والے کو جہاں کہیں بھی ہو اغواء کر کے لیجا کر قتل کر دے ۔ وجہ یہ کہ یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 0.19 فیصد ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا 28 فیصد سے زائد ہیں اُن کے محبوب نبی ﷺ جو کہ اللہ کے پیغمبر ہیں کی ناموسِ مبارک پر حملہ کیا جائے تو اِسے آزادیءِ اظہار کا نام دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ملعون کی زبانی مذمت تک نہیں کی جاتی

اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جس اُمیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں اس کے کردار سے واقف نہیں ہوتے اور نہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باقی نصف ذاتی وقتی ضروریات کے حصول کی تمنا لئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ 60 سے 70 فیصد لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے ان میں سے نصف سے زائد شاید ووٹ ڈالنے جانا ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور باقی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ سب اُمیدوار ان کے ووٹ کے اہل نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اگر 21 ستمبر 2012ء کو ملک کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کی کیا شکل بنتی ہے ۔ کیا یہی اُودھم مچانے والے لوگ نہیں ہیں جو ووٹ ڈالنے بھی جاتے ہیں ایک وقت پلاؤ ملنے یا ویگن پر مُفت سفر کے عوض ؟

نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت بننے کے بعد جہنیں لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے وہ مزے اُڑاتے ہیں اور باقی لوگ تین چار سال حکمرانوں کو کوستے ہیں اور اگلے انتخابات کے وقت پھر وہی ہوتا ہے جو پہلے ہو چکا ہوتا ہے ۔ جمہوریت ( Democracy) کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو جمہوریت وہ دیکھتے آئے ہیں وہ دراصل جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ انبوہ کی حکمرانی یا انبوہ گردی (mobocracy) ہے

کیوں نا ہم اپنے دماغ کو ارفع اور اعلٰی سمجھنے کی بجائے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں جو سب کچھ جانتا ہے اور کُل کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم عوام الناس کی بہتری کا بندوبست کریں ۔ اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے