بہت سے لوگ طاہر القادری صاحب کی 23 دسمبر کی تقریر کے سحر میں مبتلا ہیں اور سراپا تعریف ہیں ۔ طاہر القادری صاحب کو اللہ نے مسحور کُن تقریر کرنے کا فن عطا کیا ہے جس کے باعث سامعین ان کی تقریر میں موجود کمی کی طرف نظر نہیں کر پاتے ۔ طاہر القادری صاحب کی نیت پر شک کئے بغیر بھی اگر ان کے کہے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں تضاد ملتا ہے
طاہر القادری صاحب نے پاکستان کے آئین کی تائید کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ وہ سب کچھ پاکستان کے آئین کے تحت کرنا چاہتے ہیں مگر نہ صرف ان کا مطالبہ کہ ”نگران حکومت بنانے کیلئے فوج اور اعلٰی عدلیہ کو شامل کیا جائے“ آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ 25 دسمبر کا جلسہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھا
طاہر القادری صاحب نے قرار دیا کہ اگر اُن کے مطالبہ پر عمل نہ کیا گیا اور موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کرائے گئے تو انتخابات غیر آئینی ہوں گے
کوئی عمل اگر غیر آئینی ہو تو اس کے خلاف عدالتِ عظمٰی میں درخواست دی جاتی ہے لیکن ایسی کاروائی کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا
طاہر القادری صاحب نے کہا کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے نہیں آئے اور یہ بھی کہا کہ پہلے ساری گندگی صاف کی جائے خواہ اس میں 90 دن سے زیادہ لگ جائیں
چیف جسٹس آف پاکستان واضح کر چکے ہیں کہ صرف ملک میں سول وار ہونے کی صورت میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ 90 دن کی حد آئین نے مقرر کی ہے چنانچہ اسے عبور کرنا بھی آئین کی خلاف ورزی ہو گا
طاہر القادری صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والے (بقول اُن کے) 40 لاکھ افراد وہ فیصلے کریں گے جو آج تک پارلیمنٹ کے ارکان نہیں کر سکے
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین اس کی اجازت دیتا ہے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا 14 جنوری کو اسلام آباد میں ریفرنڈم ہو گا اور طاہر القادری صاحب کے حواریوں کی رائے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کی رائے ہو گی ؟ آئین کے مطابق دونوں سوالوں کا جواب ” نہیں “ ہے
طاہر القادری صاحب نے 2 بڑی پارٹیوں (پی پی پی اور پی ایم ایل ن) کو رد بھی کیا ۔ طاہر القادری صاحب کو خیبر پختونخوا ۔ بلوچستان اور سندھ میں پذیرائی ملنے کی بہت کم توقع ہے البتہ اس اُمید میں کہ پنجاب میں گھسنے کا راستہ نکل آئے کراچی ۔ حیدر آباد یا سکھر میں ایم کیو ایم طاہر القادری صاحب کے جلسے کو کامیاب بنا سکتی ہے اور شاید اسی خیال سے ایم کیو ایم کا 50 رکنی وفد جس میں کچھ سنیئر رہنما بھی شامل تھے لاہور کے جلسے میں موجود تھا۔ پی پی پی کا کچھ نقصان ہوتا نظر نہیں آ رہا (ویسے سننے میں آیا ہے کہ 23 دسمبر کے جلسے میں پی پی پی کے کارکن بھی موجود تھے)۔ گو کہ طاہر القادری صاحب سیاست سے انکار کر رہے ہیں لیکن واقعات اور خود اُن کے الفاظ چُغلی کھا رہے ہیں کہ ساری مہم جوئی کا مقصد داہنے بازو کی جماعتوں جن کے رہنما نواز شریف بن سکتے ہیں کو حکومت بنانے سے روکنا ہے ۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری مل کر نواز شریف اور اس کی ہمخیال جماعتوں کے ووٹ توڑنے کی کوشش میں ہیں ۔ لگتا یہی ہے کہ طاہر القادری صاحب کو استعمال کرنے والے بھی وہی ہیں جو عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں
طاہر القادری صاحب نے کبھی کسی آمر کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی یہاں تک کہ اسلام آباد کے لال مسجد اور جامعہ حفصہ للبنات پر فوج کشی جس میں سینکڑوں معصوم بچیاں ہلاک ہوئیں کے خلاف تحریک چلانا تو بڑی بات ہے کبھی احتجاج نہیں کیا
طاہر القادری صاحب نے 2 مارچ 2010ء کو جہاد کے خلاف فتوٰی دیا جو کتاب کی صورت میں اُردو میں 600 اور انگریزی میں 512 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بظاہر یہ فتوٰی دہشتگردی کے خلاف ہے لیکن اصل میں فرنگیوں کو خوشی کرنے کی کوشش ہے ۔ مزید ۔ ۔ ۔
On 24 October 2010, Qadri was invited to deliver a speech entitled “Jihad: Perception and reality” to a gathering of thousands of British Muslims at the largest European multicultural gathering, the Global Peace and Unity event. Qadri stated in his speech: “Let me make it very clear and sound, let me remove any ambiguity that no leader or a group has any authority to declare jihad. If any leader or a group does that, it is terrorism and not jihad.” He added: “it is solely the prerogative of a state authority to declare jihad and only as a matter of last resort when diplomacy and all other efforts to make peace have failed.”
Qadri refutes the division of the world into two categories Dar al-Islam (the abode of Islam) and Dar al-harb (the abode of war) and that the west is the latter; Qadri instead divides the world into five categories. Qadri argues that the word “Dar al-Islam” actually implies “the abode of Peace” rather than the abode of Islam and that all countries under the United Nations (UN), whether Muslim or non-Muslim actually come under Dar al-Ahad (house of treaty) which Qadri says is the same as Dar al-Islam.