بنی اسراءیل کا کردار

حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام نے کعبہ بنایا اور مشہور طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے

حضرت اسحاق علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا اللہ کا بندہ ۔ بنی اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد صحراۓ سینائی کے علاقہ میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے

جب حضرت داؤد علیہ السّلام نے طاقتور دیو ہیکل جالوت (Goliath) کو اللہ کی نصرت سے غلیل سے پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صَول نے حسبِ وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مِشل سے کر دی ۔ صَول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جِن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جنّوں کی مدد سے ایک عبادت گاہ اُس جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی

فلسطین کی ریاست 586 قبل مسیح میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو‏ ع ہوئے اور انہوں نے اُس جگہ کے قریب اپنی عبادت گاہ تعمیر کی جہاں حضرت سلیمان علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 100سال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70ء میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138ء-118ء) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن پھر بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور اُن کا واپس فلسطین آنا ممنوع قرار دے دیا

پونے پانچ سو سال کی تاریخ کا کچھ معلوم نہیں ۔ 614ء سے 624ء تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھُلی چھٹی دے دی مگر یہودیوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم و تشدّد شروع کر دیا ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے یہودیوں کی سرکوبی کی ۔ 636ء میں بازنطینی حکومت نے مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس اُن کے حوالے کر دیا ۔ اِس طرح فلسطین سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم کی اُمّت کی عملداری میں آ گیا ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639ء میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 709ء سے 715ء کے درمیان خلیفہ ولید نے اس مسجد کی تعمیرِ نو کروائی اور اُس کا نام غالباً معراج یا اِسراء کے حوالہ سے مسجد الاقصٰی رکھا ۔ 747ء کے زلزلہ سے مسجد بُری طرح متاءثر ہوئی تو نئے سرے سے مگر وسیع مسجد بنائی گئی ۔ 1033ء میں صلیبی جنگوں نے اسے خاصہ نقصان پہنچایا ۔ بعد میں صلیبی بادشاہوں نے اُسے اپنے محل میں تبدیل کر دیا ۔ 1927ء اور 1936ء کے زلزلوں سے اس کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جس کے باعث اس کی کُلی طور پر نئے سرے سے تعمیر شروع کی گئی جس کے دوران حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے پہلے کا عمارتی سامان بھی وہاں سے برآمد ہوا

636ء سے 1918ء تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اُردن بھی شامل تھا سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کی امّت مسلمہ کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے بعد کے چند سالوں کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918 میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔ 1947ء میں برطانیہ نے فلسطین اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے کر اپنی فوج وہاں سے نکالنا شروع کی اور فلسطین عربوں کی تحویل میں چلا گیا

بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زَکَرِیّا علیہ السّلام اور حضرت یحٰی علیہ السّلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے اور آج تک پہنچا رہے ہیں

دہشتگرد حکمران

چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں [ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ] اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں ۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔

اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔ ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔ دہشتگردی پر اُس کی مذمت کرنے کی بجائے اُسے نوبل امن انعام دیا گیا ۔

مسلمان تو ایک طرف عرب عیسائی اور عرب یہودی جو کہ فلسطین کے باشندے ہیں ان کو اسرائیل میں وہ مقام حاصل نہیں ہےجو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اُجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا تھا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔ 2005ء کی صورت حال نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔

Map # 6. “Israeli constructed roads” should be read as “Roads under control of Israel”.

صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد

اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکا اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا [دیکھئے اُوپر والا نقشہ] ۔ اس جنگ میں امریکا کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔

جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

اگر امریکا پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکا بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی فوجی تربیت لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکا ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی

نچلے نقشہ میں 1946ء سے اب تک فلسطین پر اسرائیل کے بتدریج غیرقانونی قبضہ کی تصویر دکھائی گئی ہے

میرے بلاگ کا دُشمن کون ؟

بلاگران بتائیں کہ میرے بلاگ کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ کیوں ہوا تھا ؟ کس نے کیا تھا ؟
معلوم نہ ہو تو ہوشیار ۔ خبردار

محترمان و محترمات

ہوا یہ کہ 27 نومبر کو صبح سویرے میں نے فلسطین کے سلسلہ کی پانچویں قسط شائع کی جس کا عنوان تھا ” برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی“۔ اس کے شائع ہونے کے چند منٹ کے اندر 3 قارئین نے اسے پڑھ لیا ۔ میں دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا ۔ دوپہر میں کمپیوٹر بند کر دیا ۔ شام کو کمپیوٹر چالو کیا تو خیال میں آیا کہ اس تحریر پر کچھ ذاتی تبصرہ کروں ۔ تبصرہ کیلئے کلِک کیا تو یہ لکھا آ گیا

Bad Request

Your browser sent a request that this server could not understand.
________________________________________
Apache/2.2.22 (CentOS) Server at www.theajmals.com Port 80

وقفہ دے کر دو تین بار کوشش کی مگر یہی لکھا آیا ۔
اس وقت تک بھی اس تحریر کو پڑھنے والوں کی تعداد 3 ہی تھی

دوسرے دن یعنی 28 نومبر کو میں نے اردو سیّارہ کھول کر وہاں اس تحریر کے عنوان پر کلک کیا تو اُوپر والی عبارت ہی لکھی آئی ۔ دیکھنے کیلئے کہ بلاگ ہوسٹ کے سرور میں کچھ مسئلہ ہو گیا ہو گا میں نے اُردو سیّارہ اور اُردو بلاگز کھول کر وہاں اس سے پہلے والی تحریر کے عنوان پر کلک کیا تو وہ کھل گئی

میں نے اپنے بلاگ میں لاگ اِن کر کے بلاگ کی ساری سیٹنگز اور ایڈیٹرز کی پڑتال کی اور سب درست پایا ۔ پھر میں نے 28 نومبر کی شائع کردہ تحریر کو حذف کر دیا اور اس تحریر کو دوبارہ شائع کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کافی پریشانی کا سامنا تھا اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ مدد کیلئے اپنے بیٹے زکریا کو ای میل بھیجی ۔ پھر خیال آیا کہ زکریا تو امریکا میں ہے وہ ہماری شام کے وقت اُٹھے گا ۔ سو ایم بلال ایم صاحب کو ای میل بھیج دی

ذہن کو تھوڑا سکون ملا تو دماغ نے کہا ”تیرے بلاگ کا دشمن کون ہے ؟ اس کی طرف توجہ کر “۔ میں نے تحریر کے عنوان میں سے ”برطانیہ کی“ اور ”صیہونیوں کی“ حذف کر کے تحریر دوبارہ شائع کر دی ۔ اور سب ٹھیک ہو گیا

بندر بانٹ اور دہشت گردی

فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اِسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947ء کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اسرائیل تین ٹکروں میں تھا جیسا کہ اُوپر والے نقشہ میں دکھایا گیا ہے ۔

صیہونیوں نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی باقاعدہ دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948ء کو ختم کر دے گا

صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے بغیر کسی کی پرواہ کئے اپنی 2000سال پرانی آرزو ” یہودی ریاست اِسرائیل” کا 14 مئی 1948ء کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنا لی جو نچلے نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکا اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔
موشے دیان جو 1953ء سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا
مناخم بیگن جو 1977ء سے 1983ء تک اسرائیل کا وزیراعظم رہا ۔
یتزہاک شمیر جو 1983ء سے 1984ء تک اور پھر 1986ء سے 1992ء تک وزیراعظم رہا ۔
ایرئل شیرون جو 2001ء سے 2006ء تک وزیراعظم رہا ۔

موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا ۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حُکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

برطانیہ کی بلا ۔ عربوں کے سر

برطانیہ کی عیّاری
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا اِس خیال سے کہ کہیں روس میں اُن کے قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میکماہون نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوۓ ایک خفیہ معاہدہ سائیکس پِیکاٹ کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا (دیکھئے نقشہ) ۔ چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے [جیسے آجکل یو این او کرتی ہے] 25 اپریل 1920ء کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی

یہودیوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق [جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی] 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929ء میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں 125کے قریب فلسطینی اور تقریباً اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جاۓ جبکہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کُچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی

جو کسی ٹی وی نے نہیں دکھایا

غزہ پر اسرائیل کے حملے کی کچھ جھلکیاں تو سب نے دیکھی ہوں گی لیکن اتنی مکمل صورتِ حال کسی ٹی وی نے نہیں دکھائی ۔ اصل صورتِ حال کا اندازہ کرنے کیلئے نیچے وڈیو دیکھیئے جو 22 نومبر 2012 کو رات 9 بج کر 58 منٹ پر فیس بک پر لگائی گئی ہے

اسرائیل کی اس وحشت بھری اور انسانیت سوز کاروائی کو انسانی حقوق کی علمبردار مغربی دنیا اسرائیل کا حق قرار دے رہی ہے ۔ قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ دنیا میں دہشتگرد کون ہے اور دہشتگردوں کو پالنے والے کون