ڈاکٹر نہیں مانتے

ڈاکٹر نہیں مانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو سائنس ایلوپیتھِک میڈیسن کے نام سے بنائی گئی ہے یہ ابھی تک نامکمل ہے ۔ میں اس کے نامکمل ہونے کی وجہ سے کئی بار تکلیف اُٹھا چکا ہوں ۔ حالیہ مثال 11 دسمبر 2012ء کی ہے ۔ ہوا یوں کہ کچھ دنوں سے پیٹ میں درد تھا اور عجیب سی گڑ بڑ تھی ۔ میں صبح ساڑھے 8 بجے معدہ کے معالج (Gaestroentrologist) کے پاس پہنچا اور اپنی حالت بیان کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے 3 قسم کی گولیاں صبح شام کھانے کو کہا ۔ اُسی دن ایک ایک گولی صبح اور ایک ایک رات کو کھا کر سویا ۔ رات کے دوران نیند کھُل گئی اور بائیں آنکھ کے نیچے تکلیف محسوس ہوئی ۔ ہاتھ لگایا تو ایسے محسوس ہوا کہ کھال اُتر جائے گی ۔ باقی رات سو نہ سکا

اُوپر والی تصویر دوائی کے استعمال سے پہلے کی ہے ۔ 12 دسمبر کو تو کچھ سُوج نہ رہا تھا ۔ 13 دسمبر کی رات تک افاقہ ہوا تو رات 9 بجے کی تصویر کھینچی جو نیچے والی ہے (موبائل فون سے خود ہی لی ہے اسلئے واضح نہیں ہے) ۔ داہنی آنکھ کے نیچے کم سوجن ہے ۔ بائیں آنکھ کے نیچے زیادہ ہے جس میں درد ہے اور خون ملی رطوبت غیرمحسوس طور پر رِستی ہے اور جلد پر سخت چھلکا سا بن رہا ہے ۔ اُبھری سطح سُرخ سے کلیجی رنگ کی ہوتی ہوئی ایک نقطے پر کالی ہو گئی ہے ۔ آگے کیا ہو گا وہ اللہ جانتا ہے

میرے ساتھ یہ پہلا نہیں آٹھواں واقعہ ہے ۔ یوں کہنا چاہیئے کے ڈاکٹر صاحبان نے اب آٹھویں بار مجھے ہاتھ دکھایا ہے

پہلی بار تو میں بچہ تھا یعنی 1948ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے پنسلین کا ٹیکہ لگایا ۔ 10 منٹ بعد میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا شروع ہوا ۔ بالآخر میں گر پڑا ۔ اُٹھا کر اُنہی ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے ۔ جب مجھے ہوش آیا تو اُنہوں نے کہا ”دل کا کمزور ہے ڈر گیا ہے”۔ میں بول پڑا ”اگر میں ڈر جاتا تو ٹیکہ لگنے کے 2 منٹ بعد ہی بیہوش ہو جاتا“۔ اگلے پندرہ سولہ سال میں جب ردِ عمل عام ہوا تو مانٹو ٹیسٹ کر کے پنِسلِیں کا ٹیکہ لگانا شروع کیا گیا ۔ پھر کچھ سال بعد پنسِلِین ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی

1957ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے سلفاڈایا زین شاید زیادہ دن کھِلا دی ۔ علاج کے بعد میں صاحب فراش ہوا ۔ انجیئرنگ کالج کی پڑھائی بھی غارت ہوئی ۔ پہلے میرے ہونٹ اور آنکھیں سُوج گئے ۔ اُس کے بعد چند ماہ میں میرے ہونٹوں ۔ ہونٹوں کے نیچے ۔ بازوؤں کے اندر کی طرف اور ٹانگوں کے اندر کی طرف جہاں جلد نرم ہوتی ہے کاسنی نشان (Violet pigments) بن گئے ۔ اس کے بعد میں جب بھی بیمار ہوتا متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے عرض کرتا کہ ”مجھے سلفا نام کی کوئی دوا نہ دیں ۔ اس کا شدید ردِ عمل ہوتا ہے“ لیکن ڈاکٹر علم والے ہوتے ہیں اور مریض جاہل اور جاہل کی کون سُنتا ہے ؟ آخر 1962ء میں ان نشانوں کے علاج کے سلسلہ میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے کہا”یاد کرو کہ یہ نشان پڑنے سے ایک سال قبل تک تمہیں کیا بیماری ہوئی اور اس کیلئے کون کونسی دوا کھائی ۔ ایک ہفتہ بعد آ کر مجھے بتاؤ”۔ ایک ہفتہ بعد سب سُن کر ڈاکٹر صاحب نے ھدائت کی ”یاد رکھو ۔ ساری زندگی تم نے وہ دوائی نہیں استعمال کرنا جس میں سلفا آتا ہو”۔

دسمبر 1964ء میں مجھے بخار ہوا تو مجھے ملیریا کی دوا دی گئی نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا ۔ 2 دن دوا کھانے کے بعد میری حالت غیر ہونے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون پر بتایا تو گویا ہوئے ”یہ دوا ایک مشہور امریکی کمپنی نے بڑی تحقیق کے بعد تیار کی ہے ۔ اس کا ردِ عمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر آپ علاج شروع نہ کرتے تو اس سے زیادہ بُرا حال ہوتا“۔ میں نے تیسرے دن بھی دوا کھا لی ۔ چوتھے دن صبح بہت مشکل سے اُٹھ کر پیشاب کرنے غسلخانہ گیا ۔ کموڈ پر بیٹھا نہیں کہ اُٹھنے کیلئے کوئی سہارا نہ تھا ۔ دیوار تھام کر کھڑے کھڑے پیشاب کرنے لگا ۔ دیکھا کہ پیشاب کلیجی رنگ کا ہے ۔ فارغ ہو کر گھر سے نکلا اور بڑی مشکل سے چل کر ٹانگے تک پہنچا اور ہسپتال گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے لیبارٹری بھیجا ۔ جار میں پیشاب کیا تو جیسے جار خون سے بھرا ہو ۔ جار لیبارٹری میں دیا اور ڈاکٹر صاحب کی طرف رُخ کیا ۔ اس کے بعد کا معلوم نہیں ۔ جب آنکھیں کھولیں تو ہسپتال کے کمرے میں بستر پڑا تھا ۔ میرے ایک بازو میں نالی لگی تھی ۔ خون چڑھایا جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد نرسنگ سپاہی آیا اور بتایا کہ میں 3 دن سے بے سُدھ پڑا تھا۔ میں نے سر اُٹھانے کی کوشش کی تو دنیا پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ مزید 7 دن اسی طرح گزرے ۔ ہو ش آیا تو گھنٹی کا تکیئے کے پاس پڑا بٹن دبایا ۔ ایک آدمی آیا ۔ اُسے ڈاکٹر صاحب کو بلانے کا کہا ۔ شام کا وقت تھا ۔ رات کی ڈیوٹی پر ڈاکٹر صاحب آئے ۔ وہ میرے دوست کیپٹن کرامت اللہ تھے (اب ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل) ۔ انہوں نے کافی خوش گپیاں کیں ۔ اللہ نے پھر بچا لیا ۔ 15 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد 7 دن آرام کی ھدائت کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا ۔ ہسپتال میں سوائے ایک بوتل خون چڑھانے کے اور کچھ نہ کیا گیااور نہ اُنہیں میری تکلیف کا سبب سمجھ میں آیا ۔ دسمبر 1965ء تک پاکستان میں کئی اور اسی طرح کے کیس ہوئے اور سب نے وہی دوا کھائی تھی جو مجھے دی گئی تھی ۔ حکومت حرکت میں آئی اور متعلقہ دوا کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا اور دوا تمام ہسپتالوں اور دکانوں سے اُٹھا لی گئی

ایک دہائی قبل میں بیمار ہوا تو دوسری دوا کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کئی چھوٹی سی نئی قسم کی گولیاں دیں رات سونے قبل ایک کھانے کا کہا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ طاقت کی دوا ہے ۔ پہلی رات میری نیند کچھ خراب رہی ۔ دوسری رات مجھ نیند نہ آئی ۔ تیسری رات نیند نہ آنے سے طبیعت بالکل اُچاٹ ہو گئی ۔ ایک عزیز ملنے آئے ۔ میرا حال سُن کر دوائیں دیکھنے لگے اور ایک گولی دکھا کر پوچھا ”یہ دوا کھائی تھی ؟“ میرے ہاں کہنے پر بولے ”کمال ہے ۔ یہ تو نیند آور گولیاں ہیں“۔ ڈاکٹر صاحب سے اگلے روز مل کر شکائت کی کہ میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولا ۔ بولے ”آپ ہر قسم کے نشے کے بہت خلاف ہیں اسلئے میں نے سوچا تھا کہ نفسیاتی اثر نہ ہو“۔

سَیپٹرین ۔ سَیپٹران ۔ بَیکٹرین پہلے ہی بند کی جا چکی تھیں ۔ ایمپسلین کا ردِ عمل بھی بُرا ہوا ۔ کو ایکسیلین کا بھی غلط ردِ عمل ہوا ۔ اَوگمَینٹِن سے بھی بھاگنا پڑا ۔ قصور کس کا ہوا ؟ کیا یہ میرا قصور ہے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند

ہر آدمی کو آزادی ہے کہ
* * * * * جو چاہے پسند کرے

لیکن

وہ اپنی پسند کے نتائج سے آزاد نہیں ہے

عقلمند پسند کا اختیار بھی سوچ سمجھ کر استعمال کرتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

اسلامی نظامِ حکومت ۔ قسط ۔ 2

قسط ۔ 1 کیلئے یہاں کلک کیجئے

منقول ہیں پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری کے کتابچہ(مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نام) میں سے چند اقتباسات

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ’’اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا‘‘

اسلام میں خلافت کا تصور
خلافت کا تصور جس سے کفر خائف ہے یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ ہے اور انسان جو حقیقت میں ایک صحیح مسلمان ہی ہو سکتا ہے روئے زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔سب انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔فوقیت صرف نیکی اور تقویٰ سے ہے۔

جیسے اللہ کی حاکمیت وسیع ہے اسی طرح اس کے خلیفے کی خلافت بھی روئے زمین پر وسیع ہے۔اسلام کے لیے کوئی ملکی حدود نہیں۔روئے زمین پر اسلام پھیلانا خلیفہ کا فرض ہے۔خلافت کے اس تصور سے مسلمانوں میں وحدت اور ایک مرکز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔جہاد کا جذبہ ابھرتا ہے ۔جب سب مسلمان برابر ہیں تو قومی اور علاقائی عصبیتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔خلافت کا یہ تصور کفر کے لیے الٹی میٹم ہے اور اسلام کے لیے توسیع کا پروگرام جس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفر مٹ نہ جائے جہاد جاری رکھو ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (البقرۃ ۔193) ‘‘ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ ’’

کفر جانتا ہے کہ خلافت الٰہیہ اور جہاد ایسے لفظ ہیں کہ ان سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو سب عصبیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور مسلمان جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس لیے کفر خلافت کے تصور کو برداشت نہیں کرتا وہ اسے ہر صورت میں مٹانا چاہتا ہے،وہ جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اللہ کو بھول کر اپنی حکمرانی کی دوڑ میں لگ جائیں۔مختلف عصبیتیں پیدا کر کے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہوں۔اسلام کی توسیع اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے چھوٹی چھوٹی اپنی جمہوریتیں بنا کر دست و
گریباں رہیں۔جب کمزور ہو جائیں تو کفر کے دست نگر رہیں۔

جمہوریت
جمہوریت مستقل ایک علیحدہ نظام ہے اسلام ایک علیحدہ نظام ہے ۔جمہوریت کو کافروں نے ایجاد کیا ہے اسلام اللہ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری ہے ۔جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اللہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سر چشمہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کی حکمرانی ہوتی ہے،وہ اپنے معاشرے کا خود ہی دستور بناتے ہیں،خود ہی قانون۔جو پارٹی اکثریت میں ہو حکومت کرتی ہے جو اقلیت میں ہو محکوم ہوتی ہے ،اس طرح انسان انسان پر حکومت کرتا ہے

اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوتی ہے ۔ اب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں راعی اور رعایا سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔اسلام میں قانون اللہ کاہوتا ہے کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکم نہیں کر سکتا ۔حکومت سب پر اللہ کی ہوتی ہے

جمہوریت میں اکثریت جو چاہتی ہے کرتی ہے۔جمہوریت میں حق نا حق جائز نا جائز اچھا برا فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ جو اکثریت منظور کر دے وہی حق اور جائز حتیٰ کہ اگر اکثریت فعل قوم لوط (sodomy) کو جائز قرار دے دے تو معاشرے میں وہ بھی جائز سمجھا جائے گا ۔جمہوریت میں اکثریت کو بالا دستی ہوتی ہے۔ اکثریت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے ،حلال کو حرام کر دے حرام کو حلال،جمہوری نظام میں سب کچھ روا ہے

اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں طاقت حق کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کا قانون ہے۔حق اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔بالا دستی حق کی ہوتی ہے ۔جو حق نہیں خواہ وہ اکثریت میں ہو اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ قرآن مجید میں ہے ۔ وَلَوْ اتَّبَعَ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (المومنون 71)”اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہو جائے“ یعنی اگر حق عوام کے تابع ہو جائے خواہ وہ اکثریت میں ہی ہوں تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے اس کاصاف مطلب ہے کہ اسلامی نظام میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ۔ اسلام میں جوں ہی جمہوریت آئی اسلامی نظام درہم برہم ہوا۔اسلام حق کی برتری چاہتا ہے

جمہوریت میں مذہب (دین) کوئی چیز نہیں مذہب (دین) ہر آدمی کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے اور پرائیویٹ مسئلہ ہے ۔ہر کوئی جو مرضی مذہب (دین) رکھے کوئی پابندی نہیں۔جمہوریت کی نظر میں اسلام اور کفر دونوں برابر ہیں۔جمہوریت لادینیت کا دوسرا نام ہے۔جمہوریت کا ذہنوں پر یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ آدمی سیکولر سا ہو جاتا ہے اور نہیں تو دینی غیرت تو ضرور ختم ہو جاتی ہے۔اسلام ایک مستقل مذہب (دین) ہے جسکی بنیاد اللہ ہی کے تصور پر ہے۔اسلام کی نگاہ میں مذہب (دین) صرف اسلام ہے،باقی سب باطل ہے ۔ فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (یونس 32) ”پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے“

اسلامی نظام میں باطل کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری ہے۔جب جمہوریت اور اسلام میں اتنا تضاد ہے تو جمہوریت اسلامی کیسے ہو سکتی ہے ؟ نظام اسلام چلانے والوں کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں دینا جمہوریت میں تو جائز ہو سکتا ہے ،اسلام میں جائز نہیں کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کو دھونس ،دھاندلی اور دھوکے سے ہر وقت ورغلایا جا سکتا ہے وہ کبھی صحیح انتخاب نہیں کر سکتے۔ یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب کردار ہوں اور خود اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں ۔ عوام کے سپر دیہ کام کر دینا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کسی بڑے کارخانے کی تنصیب کا کام دیہاتیوں کے سپرد کر دینا۔ عوام کو یہ حق دینا گویا اسلام کو عوام کے تابع کرنا ہے کہ وہ جیسا اسلام چاہتے ہیں لائیں گے مزدوروں کا اسلام لائیں گے۔ عوام کا اسلام لائیں گے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام ایک ہے۔ اصل میں یہ لوگ اپنی ذہن کی کجی کو بھی اسلام سمجھتے ہیں کیونکہ آج کل کے مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں نظریہ بڑا عجیب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں میں چل جائے سب کچھ اسلام ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اسلام سے نہیں بلکہ اسلام مسلمانوں سے بنتا ہے۔ جو کچھ مسلمان کرتے جائیں وہ اسلام بنتا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اللہ کا دین ہے مسلمانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ اگر وہ خالص رہے ،ملاوٹ بالکل بھی نہ ہو تو اسلام ہے۔ ذرا بھی ملاوٹ یا رد و بدل ہو جائے تو وہ کفر ہو جاتا ہے۔ لوگ اسلام کے تابع رہیں تو مسلمان ہیں اسلام کو اپنا تابع بنائیں تو کافر ہیں

اسلام کا تو یہ حکم ہے کہ عوام کے کسی حق پر خلیفہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اللہ کا نائب ہے۔ لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ضرور الیکشن ہو گا تاکہ خلیفہ کو بدلاجا سکے اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو۔ لہٰذا ہر پانچ سال بعد والے الیکشن کروانے میں اسلام کے اس حکم کی صریح مخالفت ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا ابطال ہے۔ نظریہ خلافت الٰہیہ کا استیصال ہے۔ آپ احادیث کو دیکھیں پھر اندازہ کریں کہ اس الیکشن بازی میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسلام میں الیکشن بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں الیکشن نہ پہلی بار جائز ہے نہ پانچ سال بعد۔ جب اسلام عوام کی حکومت کے حق کو ہی تسلیم نہیں کرتا تو الیکشنوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟ عوام کو الیکشنوں کی اجازت دینے کے معانی یہ ہیں کہ حکومت عوام کا حق ہے۔ عوام کو حکومت کا حق دینے کے معانی یہ ہیں کہ اللہ علی الاطلاق حاکم نہیں۔ زمین پر حکومت عوام کی ہے۔ جب زمین پراللہ کی حاکمیت نہ رہی تو اللہ کے احکام ماننے کا سوال کہاں رہا۔ تو پھر اسلام کہاں رہا اور یہی کفر چاہتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو ملحد اور لا دین بنائے۔ الیکشنوں میں صریحاً اسلام کی مخالفت ہے

1 ۔ الیکشن جمہوری نظام کا ایک عمل ہے تو الیکشن کروانے میں جمہوری نظام کی ترویج ہے۔ چونکہ جمہوری نظام کفر کا نظام ہے لہٰذا الیکشن کروانا گویا کفر کے نظام کو رواج دینا ہے
2 ۔ الیکشن جمہوری عمل ہے اور جمہوریت کفر کا نظام ہے اس نظام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ اللہ اور اسکی حاکمیت کوئی چیز نہیں۔ خلافت الٰہیہ کا تصور ملوکیت کا استبدادی تصور ہے۔حکومت عوام کا حق ہے عوام ہی سب کچھ ہیں ۔عوام کو چاہیے کہ الیکشن کے ذریعے اپنے اس حکومت کے حق کو استعمال کریں ۔لہٰذا الیکشن کروانا گویا اس کفریہ عقیدے کو تسلیم کرنا ہے
3 ۔ الیکشنوں کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے اللہ کا حق نہیں،الیکشن کروانا گویا عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے۔جس سے اللہ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے
4 ۔ اسلام کہتا ہے حکومت اللہ کا حق ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق و مالک وہی ہے ۔زمین پر بھی حکومت اللہ ہی کی ہے ۔زمین پر اللہ کا نائب خلیفہ ہوتا ہے۔ اس نائب کا کام اللہ کے احکام کو نافذ کرنا ہوتا ہے ۔اس نائب کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ضروری نہیں ،وہ چند ایک کا مقرر کردہ بھی ہو سکتا ہے، وہ غیر ملکی بھی ہو سکتا ہے ،وہ خود قابض بھی ہو سکتا ہے۔جو اللہ کے دین کو نافذ کرے وہ نائب ہے۔عوام اسے منتخب کر سکتے ہیں نہ معزول ۔الا یہ کہ وہ اللہ کا باغی ہو جائے ،عوام اپنے کسی حق کی وجہ سے اسے نہیں ہٹا سکتے۔

اسلامی سیاست
اسلامی سیاست کی راہ اسلامی جمہوریت کی طرح عافیت کی راہ نہیں ، بہت کھٹن ہے ، پر خطر ہے ، جان لیوا ہے ، صبر آزما ہے لیکن ہے یقینی کیونکہ جہاد کی راہ ہے، جب پہنچائے گی خواہ دیر سے پہنچائے، پہنچائے گی ٹھکانے پر۔ جمہوریت کی طرح لٹکائے ٹرخائے گی نہیں۔ اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جب آتا ہے کفر کو پچھاڑ کر آتا ہے ۔ یہ نہیں کہ کفر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کفر کے ساتھ آئے۔ اس کے آنے کا انداز قرآن بیان کرتا ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۔ ”حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا“۔ اسی لیے جمہوریت خواہ اسلامی ہو اسلام نہیں لا سکتی۔ اگر جمہوریت اپنی بے بسی میں کبھی اسلام لائے بھی تو کفر کے ہاتھوں سمجھوتہ کر کے لائے گی۔ تاکہ کفر کے لیے کاروائی کا موقعہ رہے۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ۔ ”اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا“۔ والی بات نہ بنے اور جو اسلام اسکے انداز سے نہیں آتا وہ نہیں رہتا

پاکستان کب سے اسلامی بنا ہے؟ قرار داد مقاصد کو پاس ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟ لیکن چونکہ درمیان میں جمہوریت کا ہاتھ رہا ہے اس لیے آج تک پاکستان کو اسلام کے پاؤں نہیں لگ سکے۔ اسلام کبھی نہیں آتا جب تک کفر کو پچھاڑ نہ دے کفر پر چڑھ نہ جائے کفر کو مسل نہ دے کہ وہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے اور یہ جمہوریت کے تحت کبھی نہیں ہو سکتا۔ اسلامی سیاست ہی ایسا کر سکتی ہے۔ اسلامی سیاست کیا چیز ہے؟ اسلام لانے کی اسلامی کوشش جو بھٹو اور ایوب جیسے کفر کے آئینوں سے آزاد ہو کر اسلام لانے کی نیت سے کی جائے اور اسلام پر منتج ہو۔ یہ ذہن کا بگاڑ ہے ، یہ جمہوریت کا اثر ہے کہ آئین بھٹو اور ایوب بنائیں اور ہم اسلامی بن کر ان آئینوں کی پابندی کرتے رہیں ۔ اسلام کفر کے آئینوں کے دماغ توڑنے سکھاتا ہے نہ کہ ان کی پابندی کرنا۔قرآن کہتا ہے ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ (الانبیاء 18) ۔ ”بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے۔ اور اسی وقت نابود ہو جاتاہے، تم جو باتیں بناتے ہووہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں“۔

ہمیں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھنا ہوگا ۔جمہوریت کو چھوڑ کر انکی سیاست اور تدابیر کو اپنانا ہو گا ۔ان جیسے کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان شاء اللہ کامیابی ہو گی اور اگر ہم اپنے اسلاف کو چھوڑ کر کفر کے نظام جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے تو خسر الدنیا و الآخرۃ والا ہمارا انجام ہو گا۔
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (الحدید 16)
”کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں، اور انکی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھرجب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے ،اور ان میں بہت سےفاسق ہیں“ ۔

ایک دوسرے اہلِ عِلم کی تحریر اِن شاء اللہ چند دن بعد

امن کے پُجاری ؟ ؟ ؟

بھارت میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لئے گئی ہوئی پاکستان نابینا کرکٹ ٹیم کے کپتان ذیشان عباسی کو ناشتے کی ٹیبل پر تیزاب پلا دیا گیا جس کے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی ۔ ذیشان عباسی کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا ،جہاں ان کی اینڈو اسکوپی ہوئی اور تمام رپورٹس کلیئر قرار پائیں ۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر یہ تیزاب پیٹ میں چلا جاتا تو ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے

بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام

تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو افشا ہوتا ہے کہ امن پسندی کا شور مچانے والے ہی دراصل دہشتگرد ہیں ۔ اسرائیلی افواج فلسطین میں ہوں یا بھارتی افواج جموں کشمیر میں یا امریکی افواج عراق افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و استبداد کی داستان طویل ہے ۔ اسی سلسلے میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 22 سال سے جاری کاروائی میں فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے 500 افسروں اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں

فرضی جھڑپوں ، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں 235 فوجی اہلکاروں ، 123 نیم فوجی اہلکاروں ، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابقہ عسکریت پسندوں کو ملوث پایا گیا ہے

ان کارروائیوں ملوث اہلکاروں میں شامل ہیں
فوج کے 2 میجر جنرل ، 3 بریگیڈیئر ، 9کرنل ، 3 لیفٹننٹ کرنل ، 78 میجر اور 25 کیپٹن
نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر
مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ

رپورٹ کی تفصیلات کا بیشتر حصہ اْن دستاویزات اور معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز (Coalition of Civil Societies)“ اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared People ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے ”بین الاقوامی مسند عدالت (International Tribunal)“نے حکومت سے حقِ اطلاع (Right to Information) کے قانون کے تحت طلب کی ہیں ۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز اور اے پی ڈی پی طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں

جارح اور ظالم کون ؟

میرے پاس 1946ء سے 1948ء تک صیہونی دہشتگردوں کے ظُلم و تشدد اور 1948ء سے 2000ء تک اسرائیلی افواج کے نتیجہ میں مرنے اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں اور فلسطین کی املاک کے نقصان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ ذیل میں انتفادہ کی ابتداء یعنی 29 ستمبر 2000ء سے 18 جنوری 2008ء تک اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی جوابی کاروائی کا نتیجہ کے کچھ مصدّقہ اعداد و شمار دیئے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار اسرائیل کے حواریوں اور اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ سے لئے گئے ہیں ۔ فلسطین کے حامیوں کے مطابق فلسطین کا نقصان بہت کم بتایا گیا ہے ۔ پھر بھی ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون

1 ۔ 18 سال سے کم عمر کے 1446 فلسطینی بچے ہلاک ہوئے اور 124 اسرائیلی
فلسطینی بچے روزمرہ کے کاموں جیسے سکول یا سودا لینے جاتے آتے یا میدان میں کھیلتے یا گھر میں اسرائیلی بمباری یا فوجیوں کی بے تحاشہ فارنگ سے ہلاک ہوئے

2 ۔ 6348 بالغ فلسطینی اور 1072 بالغ اسرائیلی ہلاک ہوئے

3 ۔ 39019 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں بہت سے معذور ہو گئے ۔ 8864 اسرائیلی زخمی ہوئے

4 ۔ اسرائیل کی جیلوں میں 7383 فلسطینی سیاسی قیدی ہیں جبکہ صرف ایک اسرائیلی فلسطین میں قید ہے

5 ۔ اسرائیل میں فلسطینیوں نے کوئی گھر تباہ نہیں کیا جبکہ اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کے 24145 گھر مسمار کر دیئے

6 ۔ اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں یہودیوں کی 121 بستیاں بسائی ہیں جن میں کسی ٖیر یہودی کو آنے کی آجازت نہیں ۔ اس کے علاوہ 106 فوجی چوکیاں بنائیں

7 ۔ امریکا کم از کم 3 ارب (3،00،00،00،000) ڈالر سالانہ فوجی امداد دیتا ہے

8 ۔ اسرائیل کی کاروائیوں کو روکنے کی اقوامِ متحدہ میں قرار داد امریکا کبھی منظور نہیں ہونے دیتا اور قرادادِ مذمت کی بھی مخالفت کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اسرائیل کے 65 قراد دادِ مذمت منظور ہو چکی ہیں