الزامات اور حقیقت

Flag-1الزام ۔ 1 ۔ الیکشن ٹربیونلز دھاندلی کے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گئے
حقیقت ۔ مئی 2013 کے الیکشن کے بعد ہارنے والے امیدواروں میں سے 410 نے 14 الیکشن ٹربیونلز میں پٹیشنز دائر کیں ۔ جولائی تک 292 پٹیشنز جو کُل درخواستوں کا 73 فیصد بنتا ہے پر فیصلے دے دیئے گئے تھے ۔ ماضی کے الیکشنز کے مقابلہ میں موجودہ الیکشن ٹربیونلز کی یہ کارکردگی بہترین ہے

الزام ۔ 2 ۔ الیکشن ٹربیونل کے متعصب ججوں کو الیکشن کمیشن نے ناقص طریقہ کار کے ذریعہ تعینات کیا
حقیقت ۔ ماضی میں ہائی کورٹ کے جج حضرات کو ہی انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواستیں نمٹانے کا فریضہ سونپا جاتا تھا جس کے لئے وہ اپنے معمول کے مقدمات سننے کے بعد ٹائم نکالتے تھے۔ اس بار ریٹائرڈ ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا اور ان کا کام صرف اور صرف الیکشن پٹیشنز کو سننا ہے تا کہ فیصلے جلدی ہوں ۔ ان ججوں کو چُننے میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ متعلقہ صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس حضرات کی سفارش پر انہیں الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا

الزام ۔ 3 ۔ الیکشن ٹربیونلز جان بوجھ کر سست روی کا شکار ہیں
حقیقت ۔ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن ٹربیونل مقررہ 120 دن میں اپنا کام مکمل نہ کر سکے مگر اس کی ایک اہم وجہ ہارنے والے امیدواروں کا اپنا رویہ ہے ۔ مثال کے طور پرتحریک انصاف کے عثمان ڈار بمقابلہ خواجہ آصف کیس میں ٹربیونل نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ درخواست گزار (عثمان ڈار) عدالت کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے رہے ۔ عدالتی احکامات کے جواب میں وہ بیرون ملک کاروباری دوروں کا بہانہ بنا کر پیش نہ ہوئے ۔ اس پر عدالت نے محسوس کیا کہ درخواست گزار کی کیس میں دلچسپی باقی نہیں۔ اس بنا پر عدالت نے درخواست گزار کو 30000 روپے جرمانہ جمع کرانے کا کہا مگر یہ رقم بھی جمع نہ کرائی گئی ۔ درخواست گزار کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس درخواست کو الیکشن کمیشن نے خارج کر دیا

الزام ۔ 4 ۔ اگر الیکشن ٹربیونل پی ٹی آئی کے کیسوں کا فیصلہ دے دیں تو ن لیگ کی حکومت ختم ہو جائے گی
حقیقت ۔ قومی و صوبائی انتخاب ہارنے والے تحریک انصاف کے امیدواروں میں سے صرف 58 امیدواروں نے الیکشن ٹربیونلز میں دھاندلی کی درخواستیں دائر کیں۔ ان درخواستوں میں سے 39 کیسوں میں الیکشن ٹربیونل فیصلہ دے چکے ہیں اور کسی ایک بھی کیس میں تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار اپنا الزام ثابت نہ کر سکا ۔ تحریک انصاف کی صرف 19 درخواستوں کا فیصلہ آنا باقی ہے اور اگر ان تمام کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں بھی ہو جائے تو بھی سیاسی صورت حال بدلنے کا کوئی امکان نہیں

الزام ۔ 5 ۔ چار حلقوں میں بے مثال قسم کی دھاندلی ہوئی
حقیقت ۔ حلقہ این اے 110 ان چار حلقوں میں شامل ہے ۔ فیفن کے مطابق اس حلقہ میں کوئی ایک بھی انتخابی خلل اندازی نہیں ہوئی ۔ اس کے برعکس حلقہ این اے 1 میں جہاں سے عمران خان جیتے تھے فیفن کے مطابق 58 انتخابی خلل اندازیاں ریکارڈ کی گئیں
مزید یہ کہ اب تک الیکشن پیٹیشنز کے جو فیصلے ہو چکے ہیں ان کے مطابق صرف دو ارکان اسمبلی کے الیکشن کو دھاندلی کی بناء پر کلعدم قرار دیا گیا ہے اور یہ دونوں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے
الف ۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقے پی ایس 93 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے حفیظ الدین منتخب ہوئے تھے ۔ جماعتِ اسلامی کے عبدالرزاق نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن داخل کی کہ حفیظ الدین الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد پر جیتے ہیں ۔ دھاندلی ثابت ہو گئی اور الیکشن ٹربیونل نے حفیظ الدین کے انتخاب کو کلعدم قرار دے کر عبدالرزاق کو مُنتخب قرار دے دیا
ب ۔ این اے 19 ہری پور سے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر راجہ میر زمان جیتے تھے ۔ ہارنے والے نے ڈاکٹر راجہ میر زمان پر دھاندلی۔ جعلی ووٹوں اور جعلی پیلٹ پیپروں کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل میں پیٹیشن دائر کی ۔ ٹربیونل نے صرف دوبارہ گنتی کا حُکم دیا تو پٹیشنر کو کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ پٹیشنر نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی کہ ووٹ اور بیلٹ پیپر چیک کئے جائیں جو کہ جعلی ہیں اور ان کا کوئی سرکاری رہکارڈ نہیں ۔ ثابت ہوا کہ 6 پولنگ سٹیشنوں پر لاتعداد جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر راجہ میر زمان کی رُکنیت معطل کر دی اور ان 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا

الزام ۔ 6 ۔ الیکشن ٹربیونل مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں
حقیقت ۔ اب تک الیکشن درخواستوں کے نتیجے میں ن لیگ کے 10 اراکین کو ناکام قرار دیا جا چکا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکین کو انہیں ناکام قرار نہیں دیا گیا ۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے صرف 3 اراکین کے خلاف فیصلے دے کر انہیں ناکام قرار دیا گیا ۔ ان فیصلوں سے سب سے زیادہ فائدہ آزاد امیدواروں کو ہوا جن کی تعداد 8 ہے جبکہ اس کے بعد پی پی پی کے 6 درخواست گزاروں کے حق میں فیصلے کئے گئے
جیسا کہ الزام ۔ 5 میں لکھا ہے ۔ پی ایس 93 میں الیکشن ٹریبیونل نے ووٹوں میں دھاندلی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار دے کر پٹیشنر جو پی ٹی آئی کی ساتھی جماعت اسلامی کا ہے کو کامیاب قرار دے دیا ۔ جبکہ این اے 19 ہری پور میں جہاں پٹیشنر مسلم لیگ ن کا ہے ووٹوں میں دھاندلی کے باوجود الیکشن ٹربیونل نے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار نہیں دیا اور سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کلعدم قرار نہ دیا اور صرف 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار نے پی ایس 93 کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کی تھی

الزام ۔ 7 ۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں تو حکومت تحریک انصاف کی طرف سے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ پورا کیوں نہیں کرتی
حقیقت ۔ ان 4 حلقوں کا معاملہ پہلے ہی عدلیہ کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن ٹربیونل ہی عدالتی انکوائری کے ذریعہ کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں یا الیکشن ٹربیونل کے بعد سپریم کورٹ فیصلہ دے سکتی ہے ۔ حکومت اس معاملہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی

الزام ۔ 8 ۔ ن لیگ نے دھاندلی کر کے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو ہرا دیا
حقیقت ۔ جہانگیر ترین کا حلقہ 154 متنازعہ 4 حلقوں میں شامل ہے ۔ اگرچہ الزام ن لیگ پر لگایا گیا کہ اُس نے دھاندلی کر کے جہانگیر ترین کو ہرایا مگر دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس حلقہ سے ن لیگ کا امیدوار ہارنے والوں میں بھی تیسرے نمبر پر رہا جبکہ جیتنے والے آزاد امیدوارمحمد صدیق بلوچ ہیں

الزام ۔ 9 ۔ پی پی پی نے بھی 4 حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ کی حمایت کی
حقیقت ۔ پی پی پی اس بات پر خوش ہے کہ تحریک انصاف کی دھاندلی سے متعلق تمام تر توجہ پنجاب میں ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں
پیپلز پارٹی بُری طرح ناکام ہوئی ۔ متنازعہ 4 حلقوں میں پی پی پی کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد ایک فیصد ۔ 1 اعشاریہ 6 فیصد ۔ 2 اعشاریہ 9 فیصد اور 5 فیصد تھی جس کی بنا پر اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط کر دی گئی ۔ ان حالات میں پی پی پی کیوں نہ چاہے گی کہ ان حلقوں میں الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جائے

الزام ۔ 10 ۔ احتجاجی تحریک شروع کرنے سے پہلے تحریک انصاف نے تمام قانونی و آئینی تقاضے پورے کر لئے
حقیقت ۔ قانون کے مطابق الیکشن سے متعلق دھاندلی کا مسئلہ صرف الیکشن ٹربیونل کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے ۔ الیکشن میں دھاندلی سے متعلق کل درخواستوں کے 73 فیصد کیسوں کا فیصلہ ٹربیونل دے چکے ۔ ان فیصلوں کے خلاف کوئی بھی پارٹی قانونی طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پچھلے 2 ہفتوں سے روزانہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کے خلاف جس قدر تضحیک اور ذلّت آمیز زبان استعمال کر رہا ہے اور جو بے بنیاد گٹیا الزامات اُن پر لگا رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے ۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کی طرف سے بھیجے گئے ہتکِ عزت اور ہرجانہ کے قانونی نوٹس کے جواب میں عمران خان نے جو لکھا ہے واضح کرتا ہے کہ عمران خان کتنا سچا اور کس کردار کا مالک ہے ۔ ملاحظہ ہو جواب کی نقل ۔ ۔ ۔

عمران خان نے لکھا ہے ”عدلیہ کے خلاف کوئی توہین آمیز یا بدنیتی پر مبنی الفاظ استعمال نہیں کئے ۔ جو کچھ کہا وہ صرف مایوسی کا اظہار تھا کیونکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے کوئی انصاف نہیں مل سکا۔ امید ہے آپ (افتخار محمد چوہدری) ذاتی مقدمہ بازی کے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔ آپ کے عہد ساز فیصلوں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی “۔

عمران خان نے مقدمہ بعنوان ”سندھ ہائی کورٹ بار بنام وفاق پاکستان“ کے فیصلے کی تعریف بھی کی اور لکھا ”مستقبل میں جب کبھی کسی فوجی بلکہ کسی سولین مُہِم جُو کے دل میں اقتدار پر شب خون مارنے کی خواہش اُٹھے گی ۔ آپ کا وہی فیصلہ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو گا ۔ جس طرح آپ نے اپنی متحرک عدالتی قیادت کے ذریعے مُلک کے پس ماندہ طبقوں کو سستا اور فوری انصاف دلانے کی بھرپور کوششیں کیں ہم آج اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں ۔ آپ کی عظیم خدمات کے معترف ہیں“ ۔

مزید لکھا ہے ” آپ نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی اورعدلیہ کی آزادی کیلئے کام کیا ہے ۔ 9 مارچ اور 3 نومبر 2007ء کو آپ ایک ایسے شخص سے لڑے جو ملک کے اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی حربوں سے قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لڑائی میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ آپ نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور فوجی آمر کا مقابلہ کیا ۔ پوری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے ۔ میں بھی اس پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ آپ یقیناً ان تمام اعزازات اور تمغوں کے شایان شان ہیں جو آپ کو ملے ۔ بلاشبہ آج بھی پوری قوم کا سر آپ کے کارہائے نمایاں پر فخر سے بلند ہے ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی ہے مگر اُمید ہے کہ آپ درگزرسے کام لیں گے اوربردباری کا ثبوت دیں گے“۔

ماہرین انٹرنیٹ کی مدد درکار ہے

السلام علیکم خواتین و حضراتFlag-1
صرف ماہرین نہیں وہ بھی مدد فرمائیں جو اپنے آپ کو ماہر نہیں سمجھتے کیونکہ ” مہمان فقیروں کے ہوئے ہیں بادشاہ اکثر“۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب ایجادات ماہرین کی نہیں ہیں بلکہ متعدد ایسے لوگوں کی ہیں جو متعلقہ مضمون جانتے ہی نہ تھے

میرا مسئلہ
میرے کمپیوٹر میں کسی طرح وائرس گھُس گئی اور ونڈوز کو ناقص کر دیا ۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میرے پاس جاپان کا بنا ہوا ایپسن ایل ایکس 800 پرنٹر ہے جو سیریل پورٹ سے جوڑا جاتا ہے ۔ ونڈوز 7 پر یہ پورٹ نہیں چلتی چنانچہ مجھے ونڈوز ایکس پی ہی انسٹال کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے اسے انسٹال کیا ہے تو نامعلوم مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے یا کچھ اور سبب ہے کہ میں ایکسپلورر کا بٹن دباتا ہوں تو بعض اوقات ایکسپلورر کھُلنے کا انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہوں پھر کیا دیکھتا ہوں کہ درجن بھر ٹَیب (Tab) نمودار ہو جاتے ہیں لیکن ویب سائیٹس نہیں کھُلتیں یا یُوں کہیئے کہ کھُلنے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں اور میں کچھ کام نہیں کر سکتا جب تک ان سب کو حذف (delete) نہ کر لوں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین بن بُلائے مہمان ویب سائٹس کھُل جاتی ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل زیادہ بار کھُلتی ہے ۔ میں موزِلّافائرفوکس استعمال کرتا ہوں
http://free.gamingwonderland.com

یہ عمل میرے اعصاب پر بھاری ہے ۔ اسلئے سب سے درخوست ہے کہ اس مرض سے نجات حاصل کرنے کیلئے میری مدد فرمائیں ۔ ممنونِ احسان ہوں گا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواہشات اور حقوق

Flag-1آپ جو چاہیں ۔ خواب دیکھیئے
آپ جو بننا چاہیں ۔ بنیئے
آپ جہاں جانا چاہیں ۔ جایئے
بلاشُبہ آپ کے پاس ایک ہی زندگی ہے اور آپ اس کا بھرپور استعمال چاہتے ہیں
مگر یاد رکھیئے کہ
دوسرے بھی آپ ہی جیسی خواہشات اور حقوق رکھتے ہیں

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Afghan Refugees

قرض اور میں

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم تو واضح ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے
سورت النسآء آیت 58 ۔ اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو ۔ یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے ۔ بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہےFlag-1

نامعلوم میرے ہموطنوں میں قرض لے کر واپس نہ کرنا یا لمبی تاخیر کرنا کی عادت کیسے در آئی ؟
البتہ میرے ایسے ہموطن بھی ہیں جن کی امداد اس اُمید پر کی جائے کہ رقم شاید واپس نہ ملے اور وہ واپس کر دیتے ہیں

وسط رمضان میں کاشف صاحب کی مجبوری (پریشانی) پڑھ کر ماضی کی جو تلخ و شیریں یادیں میرے ذہن میں اُبھریں میں نے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں لیکن رمضان مبارک کے بھرپور جدول اور عیدالفطر کے بعد قومی موضوعات کے باعث شائع نہ کر سکا ۔ سو آج پیشِ خدمت ہے

میں نے دیکھا تھا کہ والد صاحب نے جسے بھی اُدھار دیا ۔ وہ رقم واپس نہ ملی یا پھر عرصہ دراز پر محیط اقساط میں کچھ ملی باقی نہیں ۔ غریب مقروضوں کو رہنے دیتا ہوں کہ مجبوری ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان بھی ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 280 ۔ اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
چنانچہ صرف دو مالدار آدمیوں کی بات کرتا ہوں

1 ۔ ایک شخص نے 1949ء میں میرے والد صاحب کے 30000 روپے دینا تھے ۔ 20000 روپے لمبے عرصہ پر محیط چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا کئے پھر موصوف دنیا سے کُوچ کر گئے ۔ میرے والد صاحب بھی جولائی 1991ء میں چل بسے ۔ والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد مقروض صاحب کا بیٹا 10000 روپے مجھے دینے آیا ۔ میں نے صرف اتنا کہا ”محترم آج اس رقم کی کیا قیمت رہ گئی ہے ؟ پھر بھی والد صاحب کی زندگی میں ادا کر دیتے تو بہتر ہوتا“۔
خیال کیجئے کہ 1949ء میں ایک روپے کے ملتے تھے
(1) اچھی گندم کا آٹا 6 کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(2) خالص دودھ8 لیٹر ۔ ۔ ۔ یا
(3) دیسی گھی ایک کلو گرام ۔ ۔ ۔ یا
(4) بکرے کا صاف کیا ہوا گوشت سوا کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(5) دیسی مرغی کے انڈے 24

2 ۔ دوسرے صاحب نے 1975ء میں والد صاحب کو 250000 روپے دینا تھے ۔ اُن کے پیچھے بھاگ بھاگ کے قسطوں میں 1991ء میں والد صاحب کے فوت ہونے تک آدھی رقم وصول کی اور بقیہ آدھی رقم نہیں ملی

والد صاحب کے تجربہ کی بناء پر میں نے جب بھی کسی کو رقم دی یہ سوچ کر دی کہ واپس نہیں ملے گی ۔ دو اصحاب جن سے رقم واپس ملنے کی توقع تھی اُن میں سے ایک نے واپس نہ کی اور دوسرے نے جو میرا بہترین دوست تھا 10 سال بعد واپس کی
جسے یہ سوچ کر رقم دی تھی کہ واپس ملنا مُشکل ہے اُس نے واپس کر دی ۔ یہ واقعہ تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے

میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا (1959ء) ۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور رازداری سے بات کی کہ فلاں لڑکے کی مالی حالت بہت خراب ہے اُس کے والد بیمار ہو گئے ہیں ۔ اُسے مدد کی اشد ضرورت ہے ۔ کچھ میں نے کیا ہے ۔ کچھ آپ کر دیں ۔ اگر اس نے واپس نہ کئے تو انجنیئرنگ کے بعد ملازمت ملنے پر میں واپس کر دوں گا”۔

جس لڑکے کی مدد کرنا تھی میں اُسے جانتا تھا کیونکہ 1955ء تک میرے والد صاحب نے اُس کے والد کو اپنی دکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر پرچون صابن بیچنے کی اجازت دی ہوئی تھی جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شریف سفید پوش لوگ تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اُسے کب تک رقم چاہیئے تو کہا ”فائنل امتحان تک کا خرچہ اُسے چاہیئے ۔ ابھی تو میں دے دوں گا ۔ آپ کے پاس اسلئے آیا ہوں کہ تین چار ماہ میں بند و بست کر لیں“۔ اُن دنوں میری مالی حالت بھی اچھی نہ تھی ۔ میرے والد صاحب 3 سال سے بیمار چلے آ رہے تھے اور اُن کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں نے 4 ماہ تک کا وعدہ کر لیا اور بچت میں لگ گیا جو کہ انتہائی مُشکل کام تھا ۔ اللہ نے مہربانی کی اور میں نے 4 ماہ میں 1500 روپیہ اکٹھا کر کے دے دیا اور اس بات کو بالکل بھُلا دیا

انجنیئرنگ کے بعد ملازمت شروع کی اور ماہ و سال گذرتے گئے ۔ اوائل 1965ء میں مجھے ایک خط ملا جس میں 1500 روپے کا بنک ڈرافٹ تھا ۔ اور ایک خط تھا جس میں شکریہ کے ساتھ تاخیر ہو جانے کی معافی مانگی تھی ۔ تاخیر کی وجہ اُس کے والد صاحب پر چڑھا قرض پہلے اُتارنا تھی ۔ اللہ کے بندے نے اپنا پتہ نہیں لکھا تھا

خاص بات یہ ہے کہ اُسے میری راولپنڈی شہر میں جھنگی محلہ کی رہائش کا علم تھا اور 1958ء کے بعد میری اس سے ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ ہم 1964ء میں سیٹیلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ اُسے میری نئی رہائشگاہ کا کیسے علم ہوا ؟ کچھ دن بعد مجھے اُس لڑکے کا خط ملا جو مجھ سے پیسے لے کر گیا تھا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اُس نے میرا پتہ اُس سے پوچھا تھا اور اُس نے واپڈا میں اپنے کے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک دوست سے میرا پتہ معلوم کر کے اُسے لکھا تھا

مطالبات کا تجزیہ

میں تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے انجنیئر ہوں اور میرے انجنیئر بننے کا سبب اللہ کی مدد کے بعد میرا اس پیشے سے عشق ہے ۔ اسلئے میں کاغذی نہیں عملی طور پر انجنیئر ہوں ۔ انجنیئرنگ کی بنیاد منطق پر ہے ۔ اس لئے میں ہر چیز کو ریاضی (Mathematics) کے دائرے میں پرکھنے کا عادی ہوں ۔ میں نے عمران خان کے مطالبات و اعلانات اور زمینی حقائق کی جمع تفریق ضرب تقسیم جذر اور لاگ سب کر کے دیکھا ہے ۔ جو نتیجہ نکلا ہے اُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے

1 ۔ الیکشن کو بوگس اور جعلی قرار دیا ۔ ۔ ۔ خود اور ساتھی سب اسی الیکشن کے ذریعہ مختلف اسمبلیوں کے ممبر بنے اور ایک صوبے میں حکمران بھی ہیں ۔ ساتھ ہی ان سہولیات کے ناطے سوا سال سے لُطف اُٹھا رہے ہیں چنانچہ خود سب بھی بوگس اور جعلی ہیں

2 ۔ عوام کو تلقین کی ہے یوٹیلٹی بل اور ٹیکس ادا نہ کریں ۔ ۔ ۔ خود (الف) سب تنخواہ وصول کر رہے ہیں جس میں سے ٹیکس کٹتا ہے (ب) منسٹر ہاوسز ۔ کے پی ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز میں سرکاری بجلی اور ائیرکنڈیشنر وغیرہ کی سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں (ج) پختونخوا حکومت کے بجٹ کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ وفاقی حکومت کے ان قابل تقسیم محاصل سے آتا ہے جو وفاقی ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے (د) وزیراعلیٰ اور وزیر احتجاج کیلئے بھی سرکاری خرچے پر سرکاری گاڑی میں اسلام آباد آتے اور اسلام آباد کے اندر بھی اِدھر اُدھر جاتے آتے ہیں

3 ۔ اسلام آباد کی ایڈمنسڑیشن سے کئے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آج شام ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے اور دوسرے مرد ۔ عورتوں اور بچوں سے زندگی کی قربانی مانگتے ہیں ۔ ۔ ۔ عمران خان نے اپنے بیٹے مارچ سے 2 دن قبل برطانیہ واپس بھیج دیئے جس کا اعلان جلسے میں عمران خان نے خود بھی کیا

4 ۔ قومی ۔ بلوچستان ۔ سندھ اور پنجاب اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا (ابھی استعفے دیئے نہیں) ۔ ۔ ۔ (الف) بلوچستان میں تحریکِ انصاف کا کوئی ممبر نہیں ۔ سندھ میں 168 میں سے 4 ۔ پنجاب میں 371 میں سے 29 اور قومی اسمبلی میں 342 میں سے 34 ممبر ہیں(ب) خیبر پختونخوا جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اُس کا ذکر نہیں کیا ۔ خیبر پختونخوا میں 124 میں سے 46 ممبر تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ وہاں 3 جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے جو مستعفی ہونے کو تیار نہیں ۔ آئین کے تحت وزیرِ اعلیٰ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں لیکن اُن کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آ جائے تو ایسا نہیں کر سکتے چنانچہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان مؤثر نہیں ہو گا

5 ۔ سول نافرمانی کا اعلان کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ تحریکِ انصاف سول نافرمانی کی تحریک کیسے چلا سکتی ہے جبکہ ایک صوبے میں حکمرانی کر رہی ہے ؟

6 ۔ دیانتداری اور اپنے لئے نہیں قوم کی خاطر سب کچھ کرنے کا دعویٰ ہے ۔ ۔ ۔ عمران خان کے ساتھ دائیں بائیں جہانگیر ترین ۔ شاہ محمود قریشی ۔ اعظم سواتی اور شیخ رشید کھڑے ہیں ۔ شاہ محمود پچھلے الیکشن میں پی پی پی کے ساتھ تھے ۔ اعظم سواتی ہارس ٹریڈنگ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں ۔ باقی دو پرویز مشرف کی آمریت کا حصہ تھے ۔ ایسے میں یہ بلند بانگ دعوے کیا معنی ؟

7 ۔ پشاور آندھی اور سیلاب کی زد میں تھا۔ 16 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ۔ ۔ ۔ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ سمیت اسلام آباد میں محو رقص رہے

8 ۔ 10 لاکھ نفوس پر مشتمل مارچ کا دعویٰ بار بار کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ تعداد روزانہ کی بنیاد پر اور دن رات کے مختلف اوقات میں گھتی بڑھتی رہی ۔ مبالغہ بھی کیا جائے تو تعداد 25000 سے زیادہ کسی دن کسی وقت نہ ہوئی جو کہ 10 لاکھ کا ڈھائی فیصد ہے

9 ۔ آخر میں یہاں کلک کر کے دیکھیئے پاکستان میں کونسی تبدیلی لائی جا رہی ہے

حقیقت کا خلاصہ لکھ دیا ہے ۔ فیصلہ کرنا ہر آدمی کا اپنا حق ہے

عمران خان کی نواز شریف سے ناراضگی کا سبب

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر براجمان ہیں ۔ دونوں وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کابینہ سے استعفے طلب کر رہے ہیں تاہم حکومت ڈاکٹر طاہر القادری کی نسبت عمران خان کے بارے میں زیادہ تشویش رکھتی ہے کیونکہ عمران خان اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں گھسنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں ۔جو لوگ عمران خان کے آزادی مارچ کو سفینہ غم دھاندلی سمجھ رہے تھے انہیں عمران خان کے بدلتے ہوئے لب ولہجے میں نواز شریف کے خلاف ذاتی غصہ غلبہ پاتا ہوا نظر آ رہا ہے

کیا عمران خان کے اس غصے کی وجہ صرف 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہو گا۔ آج میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر کروں گا جو مجھے خود عمران خان نے بتائے یا جن کا میں عینی شاہد ہوں

ایک دفعہ عمران خان نے مجھے 1987ء کا ایک واقعہ سنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اکتوبر 1987ء میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ایک دن قذافی اسٹیڈیم لاہور میں دونوں ٹیموں کے درمیان ایک وارم اپ میچ تھا ۔ صبح جب دونوں ٹیمیں اسٹیڈیم میں پہنچیں تو کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری شاہد رفیع نے عمران خان کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف آج پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرینگے

یہ سن کر عمران خان حیران رہ گئے کیونکہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تو وہ تھے اور نواز شریف کی کرکٹ ٹیم میں اچانک شمولیت کے بارے میں انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ عمران خان نے یہ سمجھا کہ نوازشریف صرف ایک نمائشی کپتان کا کردار ادا کریں گے اور صرف پویلین میں بیٹھ کر میچ دیکھیں گے لیکن کچھ ہی دیر میں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان ویوین رچرڈز اور نواز شریف گراؤنڈ کے اندر داخل ہو کر ٹاس کر رہے ہیں ۔ نواز شریف نے ٹاس جیت لیا اور بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ نواز شریف پویلین میں آکر انہیں کہیں گے کہ اب باقی میچ آپ سنبھالیں اور اوپننگ کیلئے اپنے بلے بازوں کو گرائونڈ میں بھیجیں ۔ نواز شریف پویلین میں آئے اور مدثر نذر سے کہا کہ آپ نے اوپننگ کرنی ہے ۔ پوری ٹیم یہ جاننا چاہتی تھی کہ مدثر نذر کے ساتھ دوسرا اوپننگ بلے باز کون ہوگا لیکن نواز شریف نے خاموشی کے ساتھ خود ہی پیڈ باندھنے شروع کر دیئے

مدثر نذر نے بیٹنگ پیڈز کے ساتھ ساتھ تھائی پیڈ، سینے کو بچانے کیلئے چیسٹ پیڈ، آرم گارڈ اور ہینڈ گلوز کے ساتھ ساتھ اپنا سر بچانے کیلئے ہیلمٹ بھی پہن رکھی تھی کیونکہ اسے دنیا کے تیز ترین اور سب سے خطرناک فاسٹ باؤلروں کا مقابلہ کرنا تھا جنہیں کالی آندھی کہا جاتا تھا۔ عمران خان نے دیکھا کہ مدثر نذر کے مقابلے پر نواز شریف نے صرف بیٹنگ پیڈز اور ہینڈ گلوز پہنے اور سر پر دھوپ سے بچاؤ والا سفید ہیٹ سجایا ہوا تھا ۔ نواز شریف نے مسکراتے ہوئے مدثر نذر سے کہا کہ ’’چلیں جی ‘‘۔ مدثر نذر نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں بلے باز گراؤنڈ میں داخل ہوگئے ۔ عمران خان نے پریشان لہجے میں کرکٹ بورڈ کے حکام سے کہا کہ ایک عدد ایمبولینس کا بندوبست کرلو ۔ گراؤنڈ میں پہنچ کر مدثر نذر کی بجائے نواز شریف نے پہلی گیند کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے ساڑھے چھ فٹ لمبے فاسٹ باؤلر کی پہلی گیند نواز شریف کے بلے سے دور تھی اور وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی۔ دوسری گیند پر نواز شریف کلین بولڈ ہو گئے۔ عمران خان بتاتے ہیں کہ نواز شریف کوئی گیند کھیلے بغیر واپس پویلین میں آئے تو ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔ عمران خان کو ایسا لگا کہ نواز شریف محض اس لئے خوش ہیں کہ انہوں نے ایک دن کیلئے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی پر قبضہ کر لیا ہے لیکن وہ نواز شریف کی بہادری کے قائل بھی ہو گئے

بعد کے سالوں میں نواز شریف نے شوکت خانم میموریل ہاسپیٹل کی تعمیر میں عمران خان کی کافی مدد کی لیکن دونوں کے درمیان فاصلے کم نہ ہو سکے۔ 2007ء میں نواز شریف، عمران خان، قاضی حسین احمد، محمود خان اچکزئی اور کچھ دیگر رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کی حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری نے دسمبر 2007ء میں نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کر لیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے عمران خان سے کہا کہ وہ بھی انتخابات میں ضرور حصہ لیں لیکن عمران بار بار مجھے کہتے تھے کہ نواز شریف نے ہمیں زبان دی ہے وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے گا ۔ لیکن جب مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو عمران خان نے اپنا سر پکڑ لیا

2009ء میں نواز شریف اور عمران خان نے مل کر معزول ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے تھے لہٰذا وہ زیر زمین چلے گئے اور طے پایا کہ جب نواز شریف کا قافلہ راولپنڈی پہنچے گا تو عمران خان منظر عام پر آ جائیں گے ۔ نوازشریف کا قافلہ گوجرانوالہ تک پہنچا تو زرداری حکومت نے ججوں کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور نواز شریف نے لانگ مارچ ختم کر دیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ان سے مشورہ کئے بغیر لانگ مارچ ختم کیا اور ایک دفعہ پھر اپنے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت دیا

2013ء کی انتخابی مہم ختم ہونے میں دو دن باقی تھے ۔ میں نے اسلام آباد میں نواز شریف کا انٹرویو کیا جو اسی شام جیو ٹی وی پر نشر ہونا تھا ۔ اس انٹرویو میں نواز شریف نے عمران خان کے بارے میں بڑی سخت زبان استعمال کی تھی ۔ اسی شام عمران خان لاہور میں ایک حادثے میں زخمی ہو گئے۔ نواز شریف صاحب نے مجھے کہا کہ ان کا انٹرویو نشر نہ کیا جائے کیونکہ اس میں عمران خان کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تھی انکے زخمی ہونے کے بعد یہ زبان مناسب نہیں ہے ۔ نواز شریف نے اس شام اپنا جلسہ ملتوی بھی کر دیا اور عمران خان کیلئے صحت کی دعا کی

انتخابات سے اگلے روز نواز شریف نے ہاسپیٹل جاکر عمران خان کی عیادت کی

مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) اور آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف نے ان سے معذرت کرلی اور پی ٹی آئی کو صوبے میں حکومت بنانے دی

ان سب اقدامات کے باوجود عمران خان اور نواز شریف میں فاصلے کم نہیں ہوئے

عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو خیال تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے ذریعہ آئندہ دھاندلی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن اب تو وہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر نواز شریف سے استعفٰے مانگ رہے ہیں ۔حکومت کے کچھ وزراء کو اس پورے کھیل کے پیچھے کچھ مغربی طاقتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے جو نواز شریف حکومت کی چین کےساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے خائف ہیں ۔ ان وزراء کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو اس کھیل میں شامل کچھ غیر سیاسی عناصر، صحافیوں، ٹی وی چینل مالکان اور بعض کاروباری شخصیات کے بارے میں ثبوت مل چکے ہیں تاہم ابھی تک کوئی ادارہ اس میں ملوث نظر نہیں آتا

عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کو کلین بولڈ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ یہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں بلکہ سیاست کا میدان ہے ۔ اس میدان میں نواز شریف کا تجربہ عمران خان سے زیادہ ہے اور اگر عمران خان نے کسی امپائر کی ملی بھگت سے نواز شریف کو حکومت سے نکال بھی دیا تو نواز شریف سیاسی مظلوم بن جائیں گے اور عمران خان کو کچھ نہیں ملے گا ۔ عمران خان مڈٹرم انتخابات کے راستے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں ۔ اقتدار میں آکر وہ طالبان سے مذاکرات پر زور دیں گے ۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ عمران خان اقتدار میں آ سکیں گے یا نہیں ؟

تحریر ۔ حامد میر