کمپیوٹر ماہرین کی مدد فوری درکار ہے

محترمات و محترمان جو بھی کمپیوٹر پر کام کرنے کی دسترس رکھتے ہیں سے التماس ہے کہ فوری طور پر میری رہنمائی فرمائیں ۔ یہ مسئلہ میرے اعصاب (nerves) پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے چنانچہ استداء ہے کہ مدد میں تساہل سے کام نہ لیجئے اور جلد میری نیک دعاؤں اور شکریئے کے حقدار بنیئے
کسی طرح میرے کمپیوٹر میں علی بابا (http://offer.alibaba.com) کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہے

میں جب کوئی ویب سائٹ یا بلاگ کھولنے کیلئے کلِک کرتا ہوں ۔ یا پہلے علی بابا کھُلنا شروع ہو جاتا ہے یا ویب سائٹ کھُلنے کے دوران رَخنہ ڈالتا ہے یا جب انگریزی سے اُردو میں جانے کیلئے En پر کلِک کرتا ہوں تو رَخنہ ڈال دیتا ہے
جب علی بابا کھُل جائے تو کام چل پڑتا ہے گو رفتار کچھ کم ہو جاتی ہے ۔ نہ کھُلے یعنی رخنہ ڈال دے تو کمپیوٹر بیچ میں پھنس کے رہ جاتا ہے اور کبھی کبھی لکھا آتا ہے کہ یہ وِڈیو نہیں کھُل سکتی ۔ اَپ گریڈ کریں ۔ حالانکہ وہ وڈیو نہیں ہوتی
ٹاسک منیجر کھول کر دیکھتا ہوں تو لکھا ملتا ہے پھر سوائے سب کچھ بند کرنے کے اور کوئی چارہءِ کار نہیں رہ جاتا ۔ لیکن ویب سائٹ کھولنے پر دوبارہ وہی چکر چل سکتا ہے

دوسرا مسئلہ جو اسی کے ساتھ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ویب سائٹ کی تحریر میں 2 یا 3 جگہ نیلی ہو جاتی ہیں یعنی لِنک بن جاتی ہیں ۔ ان پر کرسر (cursor) لے جاؤں تو ایک پوپ اَپ (pop up) کھُلتا ہے جس پر عام طور پر اَپ گریڈ (upgrade) جاوا فری لکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی کوئی شاپِنگ کا اشتہار لکھا ہوتا ہے

میں نے اوِیرا اَینٹی وائرس (Avira Antivirus) سے سکین (scan) کیا پھر اے وی جی 2015 (AVG 2015)اَینٹی وائرس (antivirus) سے سکین کیا ۔ بہت کچھ صاف ہو گیا مگر علی بابا سے جان نہیں چھوٹی

فلسطین سے ہجرت ۔ آخری حصہ

پہلی قسط یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

جب وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار میرے والدین کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔ تو میرے والد صاحب سخت پریشان ہوئے ۔ کوشش کے باوجود اپنی پریشانی میری والدہ سے چھپا نہ سکے ۔ والدہ کا بُرا حال ہو گیا ۔ میرے بڑے ماموں والد صاحب کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ والد صاحب کو کچھ نہیں سُوجھ رہا تھا ۔ سب کچھ ماموں جان کے حوالے کیا اور چند دن بعد صبح سویرے صرف کھانے پینے کا سامان کار میں رکھا اور میری والدہ اور میرے 2 بھائیوں (7 سال اور 8 ماہ) کو اپنی کار میں ساتھ لے کر فلسطین سے بصرہ (عراق) کی طرف چل پڑے ۔ فلسطین کے اندر جب یہودیوں کا علاقہ قریب آتا تو ہَیٹ پہن لیتے ۔ جب وہاں سے نکلتے تو پھر سر پر رومال باندھ لیتے ۔ اللہ سے خیریت کی دعائیں مانگتے وہاں سے نکل کر تبوک کے قریب سعودی عرب میں داخل ہوئے تو جان کو خطرہ ٹلا

اُس زمانہ میں سعودی عرب کی سڑکیں تنگ تھیں جو کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کچی تھیں ۔ 1200 سے 1300 کلو میٹر کے درمیان فاصلہ طے کرنا تھا ساتھ شیر خوار بچہ مگر کھانے پینے کا سامان بھی زیادہ نہ تھا کیونکہ جو کچھ خُشک خوراک گھر میں تھی وہی اُٹھائی تھی ۔ کار کی رفتار اُس زمانہ میں 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ تھی ۔ رات کو راستہ میں قیام کرتے 4 دن اور 3 راتوں میں یمن پہنچے ۔ اُس زمانہ میں جدّہ کی بندرگاہ پر بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے تھے اور ساری نقل و حمل یمن کی بندرگاہ عدن سے ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ اگلا بحری جہاز ایک ہفتہ بعد کراچی کیلئے روانہ ہو گا ۔ ٹکٹیں لے کر ہوٹل میں قیام کیا ۔ ہفتہ بعد بندرگاہ پہنچ کر کار کو وہیں چھوڑا ۔ صرف اپنے کپڑے ساتھ لئے اور جہاز میں سوار ہوگئے

جہاز یمن سے بمبئی گیا اور وہاں چند دن قیام کے بعد کراچی روانہ ہوا ۔ کراچی میں ایک رشتہ دار عبدالکرم صاحب جو سینٹرل ہوٹل کے مالک تھے اُنہیں والد صاحب نے چلنے سے قبل اطلاع دے دی تھی سو وہ بندرگاہ پر استقبال کیلئے پہنچے ہوئے تھے ۔ عبدالکریم صاحب نے ملتے ہی میرے والدین سے کہا ”مبارک ہو ۔ اللہ کے فضل سے بچے بخیریت سیالکوٹ پہنچ گئے ہیں“۔ (آجکل عبدالکریم صاحب کا پوتا طارق سلیم مالک ہے)

اگلے روز ریلوے سٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ ٹرین 3 دن بعد روانہ ہو گی اور وزیر آباد تک جائے گی ۔ پیشگی بُکنگ نہ تھی ۔ ٹکٹ خرید کر چلے گئے ۔ 3 دن عبدالکریم صاحب کے ہاں ہی قیام کیا پھر روانہ ہو کر شاید 3 دن میں وزیرآباد پہنچے ۔ بھاپ سے چلنے والا انجن تھا اور بھاپ بائلر کے نیچے کوئلے جلا کر حاصل کی جاتی تھی ۔ ٹرین راستہ میں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رُکتی رہی ۔ وزیر آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ کوئی بس سیالکوٹ نہیں جاتی ۔ ایک ٹانگہ لیا اور جنوری 1948ء کے پہلے ہفتے میں سیالکوٹ پہنچے

فلسطین میں والد صاحب کی رہائش طُولکرم میں تھی اور کاروبار حیفہ میں ۔ طُولکرم مسلمانوں کا علاقہ تھا اور حیفہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی ۔ والدین کے آ جانے کے کچھ ماہ بعد صیہونی دہشتگردوں نے جن کے سربراہ میناخم بیگِن اور موشے دایان تھے والد صاحب کے کاروبار پر قبضہ کر لیا اور میرے ماموں جان بچا کر مصر چلے گئے ۔ گویا ہم دوہرے مہاجر ہوئے ۔ فلسطین سے کاروبار کے لحاظ سے اور ریاست جموں کشمیر سے وطنیت اور جائیداد کے لحاظ سے

پیار کا ایک اور رُخ

میں اپنی چھوٹی پوتی ھناء کے پیار کا طریقہ لکھ چکا ہوں
میرا پوتا ابراھیم ہمارے ساتھ پیار کا زبان سے بہت کم اظہار کرتا ہے ۔ وہ ابھی ایک سال کا تھا کہ ہم ایک ماہ کیلئے دبئی گئے تو اُس نے ہمیں پہلی بار دیکھا اور چند1932351_10152391747461156_6284905569951163734_nFB دنوں میں بہت مانوس ہو گیا ۔ ابراھیم کی دادی صوفہ پر بیٹھ کر نماز پڑھتیں تو ابراھیم ہاتھ پاؤں پر چلتا اُس کے پاس پہنچ جاتا اور دادی کی ٹانگ کے سہارے اُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ۔ جب دادی رکوع یا سجدے کیلئے جھُکتیں تو وہ دادی کو گال پر چوم لیتا ۔ یہ ابراھیم کا معمول بن گیا

میں بڑے صوفہ پر بیٹھا ہوتا تو ابراھیم میرے قریب آ کر اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کا کہتا ۔ میں اُسے اُٹھا کر بٹھا دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھِسکنا شروع کرتا اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ جاتا ۔ چند منٹ بعد وہ اپنا ایک پاؤں میری ٹانگ پر رکھ دیتا ۔ تھوڑا تھوڑا کھِسکتے کسی طرح زور لگا کر ابراھیم میری گود میں پہنچ جاتا اور سر پیچھے کو جھُکا کر اُوپر میرے چہرے کی طرف دیکھتا ۔ اس پر میں اُسے گلے لگاتا اور پیار کرتا تو ابراھیم بہت خوش ہوتا ۔ یہ بھی اس کا معمول بن گیا

اگلی بار ہم گئے تو ابراھیم ڈیڑھ سال کا تھا ۔ اب طریقہ بدل گیا ۔ ابراھیم میرا ہاتھ پکڑ لیتا اور مجھے کھینچتا ہوا اپنے کمرے میں لیجاتا ۔ وہاں مجھے گیند یا دوسرے کھلونے نکالنے کا کہتا ۔ جب میں نکال کر اُسے دیتا تو خود اُن سے کھیلنے کی بجائے مجھے اُن سے کھیلنے کا کہتا ۔ میں کھیلتا اور وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ۔ کبھی مجھے بلاکس یا لِیگو سے مکان بنانے کا کہتا ۔ میں بناتا ۔ جب مکان مکمل ہونے کو ہوتا تو تھوڑا توڑ دیتا اور اسے مکمل کرنے کا کہتا ۔ ایک دن ابراھیم نے 3 بار مکان توڑا تو میں اُٹھ کر صوفہ پر بیٹھ گیا ۔ ابراھیم مجھے کنکھیوں سے دیکھتا رہا اور تھوڑی دیر بعد صوفہ پر چڑھ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے وہی کیا جو ایک سال کی عمر میں کرتا تھا۔ اس اضافے کے ساتھ کہ مجھے لپٹ کر چوم لیا ۔ میں نے ہنس کر ابراھیم کو پیار کیا تو کھِل اُٹھا ۔ بعد میں مجھے کہنے لگا اب بنائیں میں نہیں توڑوں گا

جون 2012ء میں ہم 2 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ اس دوران وہ لیگو یا جِگ سا پزل نکالتا اور خود جوڑنے لگ جاتا جہاں سمجھ نہ آتی یا اُس سے نہ بن رہا ہوتا تو میری طرف دیکھنے لگ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں تھا ۔ مطلب یہ ہوتا کہ میں مدد کروں ۔ کبھی کہتا میرے سات آنکھ مچولی ( لُکن مِیٹی یا چھپن چھوت ۔ انگریزی میں ہائیڈ انیڑ سِیک) کھیلو

اس سال ہم جنوری میں 3 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ ابراھیم ماشاء اللہ ساڑھے 4 سال کا تھا اور نرسری سکول جاتا تھا ۔ کبھی کاغذ پر لکھ کر I love Dada مجھے دے جاتا اور کبھی I love Dado لکھ کر اپنی دادی کو دیتا ۔ ایک دن کاغذ پر خلائی جہاز (Space Ship) بنا کر اُس میں ایک پائلٹ بنا دیا اور سامنے ایک عورت بنا کر اُسے کے ہاتھ میں بڑا سا گُلدستہ بنا دیا ۔ پھر آ کر بتانے لگا کہ خلائی جہاز میں دادا ہیں (انجنیئر جو ہوا) ۔ اور گلدستہ والی دادی ہیں ۔ جب واپسی میں چند دن رہ گئے تو 2 بڑے کاغذ لے کر ان پر اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ بنائے جس طرح کا اُسے سکول سے ملا تھا اور نیچے لکھا دستخط ۔ ابراھیم ۔ ایک دادا کیلئے تھا اور ایک دادی کیلئے (Certificate of Good Performance for Dada, Signed by: Ebrahim )
کبھی کہتا آئی پیڈ پر میرے ساتھ ساتھ ٹینس وغیرہ کھیلو

گذشتہ عیدالاضحےٰ پر ہمارے پاس اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ دن میں کم از کم ایک بار ابراھیم میرے قریب آ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں ۔ میں پکڑ کر گودی میں بٹھاتا تو مجھ سے لپٹ جاتا ۔ واپس جانے سے ایک دن قبل ابراھیم نے اپنی دادی سے ایک کاغذ مانگا ۔ تو اُنہوں نے دے دیا ۔ اُس پر کچھ لکھنے لگا تو دادی کہیں اور مصروف ہو گئیں ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ کاغذ میز پڑا پایا تو اُٹھا کر دیکھا ۔ اس پر لکھا تھا ” I love you”

کون کہتا ہے پاکستان غریب ہے ؟

اُمید ہے کہ آپ ” اے اہلِ وطن ۔ کبھی سوچا آپ نے ؟“ پڑھ چکے ہوں گے ۔ اسی حوالے سے ایک اور

پاکستان کو اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے ۔ جس میں سب سے اہم ذہانت اور کام کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ایک بچے کا اپنے گاؤں میں بنایا ہوا سول انجنیئرنگ کا ماڈل دیکھیئے اور اس بچے کی ذہانت اور سوچ کی داد دیجئے
Bright Boy

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” I Am Just A Kid “

فلسطین سے ہجرت

والد صاحب مارچ 1930ء میں مصر گئے تھے ۔ چند سال بعد دادا جان جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں تھے نے تقاضا کیا کہ ”مجھ سے اب کاروبار نہیں سنبھالا جاتا اسلئے واپس آ جاؤ“ ۔ سو والد صاحب مصر میں کام سمیٹ کر واپس آ گئے اور جنوبی ہندوستان میں دادا جان کا کاروبار سنبھال لیا جس میں فوج کو ضروریاتِ زندگی کی سپلائی کا کام بھی شامل تھا ۔ برطانیہ سے نیا کرنل کوارٹر ماسٹر تعینات ہوا ۔ اُس نے دادا جان کو ”بلڈی انڈین“ کہہ کر مخاطب کیا تو دادا جان نے اُسے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ۔ وہ وائسرائے ہند کا رشتہ دار تھا ۔ اُسی دن دہلی روانہ ہوا اور دادا جان کی کمپنی کو بلیک لسٹ کروا دیا ۔ اُنہی دنوں والد صاحب کو فلسطین میں کاروبار مل گیا اور وہ سب کو اپنے گھر جموں میں چھوڑ کر فلسطین چلے گئے ۔ وہ کبھی والدہ صاحبہ کو ساتھ لیجاتے کبھی ہندوستان چھوڑ جاتے تھے ۔ 1946ء میں آئے اور والدہ صاحبہ اور میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ فلسطین لے گئے ۔ فلسطین میں 1947ء میں اللہ نے مجھے ایک اور بھائی عطا کیا

فلسطین میں یورپ سے آئے یہودیوں (صیہونیوں) نے فلسطین کے باسی مسلمانوں پر حملے اور اُن کی املاک پر قبضہ شروع کر دیا ۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے محلے جانا یا اس کے قریب سے گذرنا موت کو آواز دینا بن چکا تھا

اگست 1947ء تک ہمارے علاقے یعنی ریاست جموں کشمیر میں کوئی گڑبڑ نہ تھی اور سب کو کامل یقین تھا کہ جموں کشمیر پوری ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ ریاست پاکستان کا حصہ ہی بنتی تھی ۔ اگست 1947ء کے آخر میں معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو کٹھوعہ کے راستے جموں کشمیر کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔ ستمبر 1947ء میں بھارت سے آئی ہوئی ہندو مہاسبھا ۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور اکالی دَل کے مسلحہ دستوں نے بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے صوبہ جموں کے دیہات میں مسمانوں کی مار دھاڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے بات شہر جموں تک پہنچی ۔یہ خبریں جب فلسطین پہنچیں تو میرے والدین پریشان ہوئے اور واپسی کا سوچنے لگے ۔ جموں سے اپنی ہجرت کا حال تو میں لکھ چکا ہوں ۔ دیکھئے پیراگراف 26 تا 31 ۔

اکتوبر شروع ہو چکا تھا ۔ والد صاحب کچھ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ بمبئی کے راستے جموں جائیں یا پاکستان ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کوئی ہوائی جہاز نہیں جا رہا اور بمبئی جائیں تو بھارت سے کسی مسلمان کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ پریشانی میں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار اُنہیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔