بابائے مشین گن

اَج ہینجوں دِل وچ میرےآیا ایہہ خیال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آج یونہی دِل میں میرے آیا یہ خیال)
میں لکھ دیواں اپنے ماضی داکُج حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں لکھ دوں اپنے ماضی کا کچھ حال)
ہُن تے مینوں کوئی آکھے دماغی بیمار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اب تو مجھے کوئی کہے دماغی بیمار)
موُرکھ کوئی کہندا ۔ کوئی تعصب پال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بیوقوف کوئی بُلاوے ۔ کوئی متعصب)
گل پرانی نئیں اِک زمانہ جیئا وی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بات پرانی نہیں ایک زمانہ ایسا بھی تھا)
اَیس نکمّے نُوں مَن دے سی سمجھدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اِس نکمے کو مانتے تھے سمجھدار)
عوام دِتا سی بابائے مشین گن دا خطاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عوام نے دیا تھا بابائے مشین گب کا خطاب)
ساتھی افسر بُلاندے سی محترم اُستاذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ساتھی افسر مخاطب کرتے تھے ۔ محترم اُستاذ)

(یہ بند میں نے اُن دنوں کی اُردو میں لکھا ہے جب اس زبان کو اُردو کا نام دیا گیا تھا یعنی آج سے 2 صدیاں قبل ۔ موجودہ اُردو خطوط وحدانی میں لکھ دی ہے ۔ دیگر میں شاعر نہیں ۔ التماس ہے کہ قارئین شاعری کے اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے مطلب اور نیچے دیئے حقائق پر غور فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا)

میں نے یکم مئی 1963ء کو پولی ٹیکنک انسٹیٹوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر کی کُرسی چھوڑ کر پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) کی ملازمت کم معاوضہ پر اسلئے اختیار کی کہ عملی کام سیکھ کر درست انجنیئر بنوں پھر اپنے عِلم اور تجربہ کو انجنیئرنگ کے طالب عِلموں تک پہنچاؤں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے مُلک میں انتظامی ڈھانچے کے بادشاہ سب سادے گریجوئیٹ ہیں جنہیں ٹیکنیکل اہلِ وطن کا پنپنا نہیں بھاتا (خیال رہے کہ وہ انجیئر ۔ ڈاکٹر ۔ ایم ایس سی فزکس یا کیمسٹری ۔ ایم کام ۔ ایم اے اکنامکس سب کو نالائق سمجھتے ہیں جس کی وجہ ان کا تعصب ہے)۔ خیر ۔ یہ انکشاف تو بہت بعد میں ہوا ۔ اسلئے پہلے بات میری یا ادارہ پی او ایف کی مُشکلات اور اُن کے حل کیلئے میری محنت کی

میں اس سلسلے میں قبل ازیں 2 واقعات ”گھر کی مُرغی“ اور ”کرے کوئی بھرے کوئی“ عنوانات کے تحت لکھ چُکا ہوں ۔ آج کچھ اور

مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے پلاننگ کرنے کے سلسلہ میں اواخر 1966ء میں مجھے جرمنی اُس فرم میں بھیج دیا گیا جس سے معاہدہ ہو چکا تھا ۔ معاہدہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں مشین گن کے متعلق ٹیکنیکل تفصیلات مہیاء نہیں تھیں ۔ صرف مشین گن کا ماڈل ایم جی ون اے تھری (MG1A3) درج تھا ۔ میں نے اُس وقت جواز مہیاء کرتے ہوئے معاہدے میں کچھ نئی شقیں ڈلوا دیں تھیں جن میں سے ایک شق تھی کہ اگلے 20 سال میں اس ماڈل میں جو بھی تبدیلی یا بہتری لائی جائے گی دونوں فریق اس کی معلومات ایک دوسرے کو دینے کے پا بند ہوں گے

جرمنی میں ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے میں اپنے طور پر فیکٹری میں چلا جاتا ۔ یہاں ایک واقعہ تفننِ طبع کی خاطر ۔ جرمن لوگ کہتے ہیں ”Wasser ist fuer washung (پانی دھونے کیلئے ہوتا ہے)“ اور بیئر پیتے ہیں ۔ وہاں رواج تھا کہ تعارفی ملاقات میں بیئر پیش کی جاتی تھی (بیئر پانی سے سستی تھی) ۔ ورکشاپ میں مشین لگی تھی جس میں سکے ڈال کر کوکا کولا اور سیوَن اَپ نکالے جا سکتے تھے ۔ میں کبھی کوکا کولا کی 2 بوتلیں نکال کر ورکشاپ کے فورمین کے دفتر میں چلا جاتا اور یہ میری رُم ہے کہہ کر فورمین کو پیش کر دیتا اور کسی دوسرے کو سیون اپ پیش کرتے ہوئے کہتا کہ یہ میری جِن ہے ( یہ نام میں نے نویں جماعت میں ناول ٹیژر آئی لینڈ میں پڑھے تھے) ۔ یہ اخراجات میں اپنی جیب سے قومی خدمت کیلئے کرتا تھا ۔ اللہ سُحانُہُ و تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی اور جرمن انجیئروں میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔ چنانچہ میں ذاتی سطح پر وہ ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جو مجھے سرکاری طور پر نہیں مِل سکتی تھیں

پہلی چیز جو میں دیکھی ۔ ایم جی وَن اے تھری میں ایک انرشیا بولٹ تھی جس کے ایک طرف پِن (Pin) اور دوسری طرف سلِیو (Sleeve) تھی جبکہ وہاں جو ایم جی جوڑی جارہی تھی اس کے دونوں طرف سلِیوز تھیں ۔ میں نے حسبِ معمول دو بوتلیں سیون اپ کی نکالیں اور فورمین کے کمرے میں جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد فورمین فارغ ہو کر آیا اور آتے ہی کہا ”از راہ مہربانی بتایئے کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں ؟ (Was Ich fuer zie can tuen bitte)“ یہ جرمنوں کی عادت ہے وہ بڑی میٹھی زبان بولتے ہیں ۔ میں نے بوتل پیش کرتے ہوئے حقیقت بتائی ۔ وہ کہنے لگا ”یہ ایم جی تھری بن رہی ہے“۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی تو اُس نے بتایا ”میں جنگِ عظیم دوم میں نیوی میں تھا اور برما کے محاذ پر لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران گنر جلدی میں انرشیا بولٹ اُلٹی ڈال دے تو مشین گن فائر نہیں کرے گی“۔

اس فور مین سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی اور گہری نظر دیکھ کر وہ ایک دن 15 منٹ کی ٹی بریک کے دوران جب سب دُور بیٹھ کر چائے پینے میں مشغول تھے مجھے ورکشاپ میں لے جا کر مشین گن کی ہاؤسنگ دکھاتے ہوئے پوچھا ”یہاں کچھ دیکھ رہے ہو ؟“ میں نے غور کیا تو سوراخ جس میں سے کارتوس چلنے کے بعد خالی کھوکھے باہر نکلتے ہیں اُس کی شکل اور سائز ایم جی ون اے تھری سے مختلف لگا ۔ میں نے اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور دفتر کی طرف چل پڑا ۔ راستہ میں بولا ”آج میں آپ کو کچھ پلاؤں گا ۔ کیا پئیں گے جوس یا کافی ؟“ میرے کہنے پر اُس نے کافی منگائی (میں جانتا تھا کہ جوس کافی مہنگا ہے)۔ کہنے لگا ”یہ بھی ایم جی تھری کی ہاؤسنگ ہے ۔ ایم جی ون اے تھری میں کبھی کبھار کارتُوس چلنے کے بعد کھوکھا باہر نکلتے ہوئے اس سورخ میں پھنس جاتا ۔ جس سے مشین گن چلنا بند ہو جاتی تھی اور حادثہ کا بھی خدشہ تھا ۔ اسلئے فوج کی شکایت پر اس کے ڈیزائین میں ہماری کمپنی نے تبدیلی کی“۔

میں نے اپنے دفتر میں جا کر جرمن انجنیئر سے بات کی ۔ وہ مجھے اپنے باس پلاننگ انجیئر کے پاس لے گیا ۔ پلاننگ انجنیئر نے کہا ”یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے ۔ آپ کا نقطہ نظر میری سمجھ میں آ گیا ہے ۔ میں ٹیکنیکل چیف سے بات کروں گا“۔ اور وہ اُٹھ کر غالباً ٹیکنیکل چیف کے پاس چلا گیا ۔ اگلے روز اُس نے بتایا ”میں نے بات کی ہے ۔ بہتر ہو گاکہ آپ ٹیکنیکل چیف کو خود ٹیکنیکل معلومات اور معاہدے کی شقّات کے حوالے سے بات کریں ۔ میں نے کہا ”چیک کریں ۔ اگر ٹیکنیکل چیف فارغ ہوئے تو ابھی چلتے ہیں“۔ میں نے اپنے (پاکستانی) باس کو کہا تو اُنہوں نے کہا ”مجھے سمجھا دو ۔ میں ٹیکنیکل چیف کے پاس جاؤں گا ۔ تمہارا اُن کے پاس جانا درست نہیں ۔ وہ چیف ہے“۔ خیر میں نے اپنے باس کو سب کچھ واضح کیا ۔ وہ جرمن پلاننگ انجنیئر کے پاس گئے مگر واپس آ کر کہا ”میں نے سوچا ہے کہ تم ہی چلے جاؤ“۔ چند منٹ بعد پلاننگ انجنیئر آیا اور ہم دونو چل پڑے ۔ پیچھے سے ایک جرمن انجنیئر نے آ کر میرے کان میں کہا ”چیف نے آپ کو بُلایا تھا ۔ آپ نے اپنے باس کو کیوں بھیج دیا ؟ میرے باس نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ کے جانے کی ضرورت نہیں مسٹر اجمل جائے گا“۔ (خیال رہے یہ رویّہ ہمارے ملک میں عام پایا جاتا ہے جو میرے خیال کے مطابق ہماری بدقسمتی ہے)

میری بات چیف نے غور سے سُنی اور میرے نقطہ نظر کو سراہتے ہوئے کہا ”میں ایک دو دن میں بتاؤں کا“۔ واپسی پر پلاننگ انجنیئر نے مجھے بتایاکہ معاملہ معاہدے کا ہونے کی وجہ سے صرف ادارے کا بورڈ ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ دو تین دن بعد جرمن انجنیئر نے آ کر کہا ”مسٹر اجمل ۔ چلیئے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں آپ کو بلایا ہے“۔ راستہ میں بولا ” آپ کو صبح بلایا گیا تھا مگر آپ کی بجائے آپ کے باس چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنا مؤقف ہی واضح نہ کر سکے تو ٹیکنیکل چیف نے مجھے کہا کہ آپ کو بلا لاؤں“۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کرسی پر بیٹھا تو چیف نے مجھے بولنے کا اشارہ دیا ۔ میں چیف کی طرف منہ کر کے بولنے لگا تو چیف نے ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف اشارہ کر کے کہا” آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟“

میں بات سمجھ گیا اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بات شروع کی ۔ وہ اعتراضات کرتے رہے اور میں دلائل دیتا رہا“۔ آخر ٹیکنیکل چیف جو ابھی تک صرف مُسکرا رہے تھے چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بولے” میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا جو میرے مطابق درست ہے“۔ اس پر چیف فار کمرشل افیئرز نے ڈائریکٹر سیلز سے اُس کا نظریہ دریافت کیا تو وہ چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پاکستان میں معاہدہ کے مسؤدے پر بحث ہونے لگی تھی تو ممبر پی ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز نے مسٹر اجمل کو بُلا لیا تھا اور اسی کی بحث اور مہیاء کردہ جواز کے نتیجہ میں معاہدے میں چند نئی شقیں ڈالی گئی تھیں ۔ آج جس شق کے تحت انہوں نے بات کی ۔ یہ ان میں سب سے اہم شق ہے “۔

چیف فار کمرشل افیئرز کچھ دیر سوچ میں پڑے رہے پھر بولے ”آپ درست کہتے ہیں“۔ اس میٹنگ کے دوران وہ نہائت سنجیدہ رہے لیکن اب وقفہ کے بعد مسکرا کر میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ” اب آپ نے ہمیں بھی اپنی کی ہوئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے“۔ میں نے خوشی کا اظہار اور شکریہ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی

یہی چیف ٹیکنیکل اور ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز 1968ء میں میری ایجاد کے نتیجے میں مجھے جرمنی لے جانے کیلئے ایک چھوٹے پرائیویٹ ہوائی جہاز پر پاکستان پہنچ گئے تھے

مندرجہ بالا تبدیلیوں اور میرے ڈیزائین کردہ سوراخ (Polygon profile bore) والی نالی (barrel) کے ساتھ میں نے مشین گن کا نام ایم جی ون اے تھری (MG1A3) کی بجائے ایم جی ون اے تھری پی (MG1A3P) رکھ دیا جو آج تک رائج ہے ۔ اس کے بعد ایم جی ون اے تھری پی اور ایم جی تھری میں صرف یہ فرق رہ گیا کہ ایم جی تھری میں ڈِس اِنٹریگیٹِنگ بَیلٹ (disintegrating belt) استعمال ہوتی ہے جسے بھرنے کیلئے خاص مشین درکار ہوتی ہے ۔ اس کے استعمال شُدہ لنکس کو اکٹھا کرنا اور بھرنے کیلئے فیکٹری پہنچانا مُشکل ہوتا ہے خاص کر میدانِ جنگ سے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایم جی ون اے تھری پی میں لِنکڈ بَیٹ (linked belt) استعمال ہوتی ہے جس میں 50 کارتوسوں کا ایک لِنک ہوتا ہے ۔ ایسے 5 لِنکس کو جوڑ کر 250 کارتوسوں کی بَیلٹس بنا لی جاتی ہیں ۔ اس میں مشین کے علاوہ ہاتھ سے بھی کارتوس بھرے جا سکتے ہیں صرف بھرنے کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ اِن لِنکس کو استعمال کے دوران بالخصوص میدانِ جنگ میں ہاتھ سے جوڑ کر بَیلٹ کی لمبائی بڑھائی جا سکتی ہے اور استعمال شدہ بَلٹس میدان جنگ میں بھری جا سکتی ہیں اور خالی بَیلٹس میدانِ جنگ سے واپس لائی جا سکتی ہیں ۔ انہی حقائق کی بنا پر ایم جی تھری کا ڈیزائن اپنایا نہیں گیا تھا

میں اُس اللہ الرّحمنٰ الرّحیم اور قادر و کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چاروں طرف مخالفتیں ہونے کے باوجود میری نا اہلیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے اُس باری تعالیٰ نے ہمیشہ میرا سر بلند رکھا
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سوچ

بولنے کی رفتار کم رکھیئے لیکن سوچنے کی تیز

اپنا علم دوسروں میں بانٹیئے ۔ اس سے آدمی ہمیشہ زندہ رہتا ہے

سوچیئے کہ آپ اس پر عمل کرتے ہیں ؟

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Drone Strikes Declared Illegal By European Union “

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواب

سوتے ہوئے یا جاگتے میں بھی خواب دیکھنا جُرم نہیں ہے
لیکن
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پورے ہوں تو زیادہ مت سویئے
خاص کر جاگتے ہوئے مت سویئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Good Time For savages “

ذرا نم ہو ۔ ۔ ۔

قصور کے نواحی گاؤں کے ایک غریب دُکاندار طالب علم سعید احمد نے انٹر امتحانات میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے ۔قصور سے 30 کلومیٹر دور کھڈیاں کے قریبی گاؤں ساندہ Qasur 2nd Position 2014کلاں کے محنت کش رحمت علی کے صاحبزادے سعید احمد نے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈرل سکول کھڈیاں سے 934 نمبر حاصل کئے۔ سعید احمد گاؤں سے 5 کلومیٹر دور سائیکل پر سکول جاتا اور شام کو اپنے گھر میں قائم دکان میں سودا سلف بیچ کر تعلیمی اخراجات پورا کرتا رہا

سعید احمد کے والد کا کہنا ہے کہ اس کا بیٹا اس پر بوجھ نہیں رہا ۔ اس کا ہاتھ بٹاتا ہے، اس کے اچھے مستقبل کے لئے حکومت سے بھی امید یں ہیں۔ رحمت علی کے عزیز رشتہ دار، اساتذہ اور اہل محلہ،بھی بہت خوش ہیں ۔ سعید احمد نے ثابت کردیا کہ حصول کا شوق ہو اور لگن سچی ہو تو غربت راہ کی دیوار نہیں بنتی

سچے قائد کی یاد میں

آج 11 ستمبر ہے ۔ 66 سال قبل یہی تاریخ تھی کہ ہند و پاکستان کے مسلمانوں کا عظیم رہنما اس دارِ فانی سے ملکِ عدم کو کوچ کر گیا
مجھے وہ وقت یاد ہے جب اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں مسلمانانِ ہند کی جد و جہد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے کالج کے لڑکوں کے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگائے تھے
بن کے رہے گا پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان ۔
What do you want – Pakistan
پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الاللہ
مسلم لیگ کے راہنماؤں کی طرف سے یہ خصوصی اجازت ہمیں صرف ایک دن کیلئے ایک مخصوص علاقہ کے اندر دی گئی تھی ۔ ہر بچے نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے تھے

قائدِ اعظم کی خواہشات اور ارادوں کے مطابق
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو ایک خودار ۔ باوقار اور ایماندار قیادت دے سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو جدید ۔ ترقی یافتہ اور پُرامن ملک بنا سکے

کوئی ہے جو ہم سے نام نہاد ترقی اور تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لے لے
کوئی ہے جو ہم سے بدامنی اور مذہب یا روشن خیالی کے نام پر کی جانے والی انتہاء پسندی لے لے
کوئی ہے جو ہمیں ہمارا 1948ء والا غیر ترقی یافتہ لیکن خلوص بھرا پاکستان واپس کر دے
کوئی ہے جو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس کر دے

ہمیں 1948 کا پاکستان چاہئیے

مزمل ریاض شیخ کی 2007ء میں لکھی گئی تحریر

کابینہ کااجلاس تھا، اے ڈی سی نے پوچھا سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی، چونک کر سر اٹھایا اورسخت لہجے میں فرمایا ”یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے، اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے بات جاری رکھی ”جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں۔“ اس حکم کے بعد کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ پیش نہ کیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا آپ نے حساب منگوا لیا ، کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں حکم دیا یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں، دو تین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کیلئے تھیں فرمایا یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لئے جائیں۔ باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لئے تھیں فرمایا ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے۔

برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستان کے دورے پر آ رہا تھا برطانوی سفیر نے درخواست کی ”آپ اسے ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں ، ہنس کر کہا، میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ آنا پڑے گا“ ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزٹنگ کارڈ سامنے رکھا آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ”اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے“ یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا اس نے اپنے کارڈ پر نام کے نیچے ”برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان“ لکھوا دیا تھا۔

زیارت میں سردی پڑ رہی تھی کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیئے دیکھے تو بہت پسند فرمائے ریٹ پوچھا بتایا دو روپے، گھبرا کر بولے یہ تو بہت مہنگے ہیں عرض کیا سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں فرمایا میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہئے۔ موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ”بیٹی میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں“ نرس نے عرض کیا سر میں پنجاب سے ہوں میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں آپ میری ٹرانسفر پنجاب کر دیں اداس لہجے میں جواب دیا ”سوری بیٹی یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں“

اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا فائل وزارت خزانہ پہنچی تو وزیر خزانہ نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا ”گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں“ آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کردیا اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا ، گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ”اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“

یہ آج سے 60 برس پہلے کا پاکستان تھا وہ پاکستان جس کے سربراہ محمد علی جناح تھے لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آگئے جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے، سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دیئے جاتے ہیں دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے۔ جس ملک میں سربراہ مملکت وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں پانچ پانچ کروڑ روپے کا اعلان کر دیتے ہیں وزارت خزانہ کے انکارکے باوجود پورے پورے جہاز خرید لئے جاتے ہیں جس میں صدروں اور وزیر اعظم کے احکامات پر سیکڑوں لوگ بھرتی کئے گئے اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوئے اتنے لوگ نوکریوں سے نکالے گئے اور اتنے لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کرترقی دی گئی جس میں موزے تو رہے ایک طرف ، بچوں کے پوتڑے تک سرکای خزانے سے خریدے گئے جس میں آج ایوان صدر کا ساڑھے 18 اور وزیر اعظم ہاؤس کا بجٹ 20 کروڑ روپے ہے جس میں ایوان اقتدارمیں عملاً بھائیوں بھتیجوں بھانجوں بہنوں بہنوئیوں اور خاوندوں کا راج رہا جس میں وزیر اعظم ہاؤس سے سیکرٹریوں کو فون کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا ”میں صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں“ جس میں امریکا کے نائب وزیر کے استقبال کے لئے پوری کی پوری حکومت ایئر پورٹ پرکھڑی دکھائی دیتی ہے اور جس میں چائے اور کافی تو رہی دور ، کابینہ کے اجلاس میں پورا لنچ اور ڈنر دیا جاتا ہے اور جس میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت 16 کروڑ غریب لوگ رہ رہے ہیں

جب قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھاجب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائد اعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا ۔ قائد اعظم اس خطرے کے باوجود سیکورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت ماڈرن بلٹ پروف گاڑیوں، ماہر سیکورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلو میٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے ہم اس ملک میں مساوات رائج نہیں کر سکے