مٹیریل کہاں سے آتا ہے ؟

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 3 دن ساری فیکٹریوں کا تعارفی دورہ کرایا گیا ۔ پھر مطالعاتی اور تربیتی پروگرام کیلئے 6 ماہ مختلف ورکشاپس میں بھیجا گیا اور 2 ماہ کیلئے ڈیزائن اینڈ ڈرائینگ آفس میں ۔ جنوری 1964ء میں میرا سمال آرمز گروپ میں مستقل طور پر تقرر ہوا ۔ (یہ فیکٹری اللہ کے کرم سے 1967ء میں میرے ہاتھوں ویپنز فیکٹری میں تبدیل ہوئی)۔ اُن دنوں سمال آرمز گروپ کے سربراہ ایک ورکس منیجر اور میرے سمیت 2 اسسٹنٹ ورکس منیجر ۔ 8 فورمین اور باقی ماتحت عملہ تھا ۔ 4 بڑی اور ایک چھوٹی ورکشاپس تھیں ۔ ان میں سے ایک بڑی ورکشاپ خالی تھی یعنی وہاں کوئی مشین وغیرہ نہ تھی ۔ انفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کی پروڈکشن بند ہو جانے کے بعد کوئی کام نہیں ہو رہا تھا سوائے چند فالتو پرزوں کی تیاری کے جو انفیلڈ رائفل کیلئے بنائے جا رہے تھے

رائفل جی تھری کی پلاننگ ہو چکی تھی ۔ ڈویلوپمنٹ شروع ہونے والی تھی ۔ ایک بڑی ورکشاپ میں درآمد شدہ پرزوں سے رائفل جی تھری کی اسمبلی ہونا تھی اور اسی ورکشاپ کے دوسرے حصہ میں جی تھری بیرل کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی ۔ مجھے اس ورکشاب کا انچارج بنا دیا گیا ۔ میرے باس (ورکس منیجر) 6 ماہ پلاننگ کیلئے جرمنی گذار کے آئے تھے لیکن کام شروع ہونے سے معلوم ہوا کہ اسمبلی کیلئے چند فکسچر نہ آرڈر کئے گئے اور نہ پی او ایف میں بنوائے گئے تھے جو میرے گلے پڑ گئے اور مجھے ایسا کوئی مستری نہ دیا گیا جو نیک نیّتی سے کام کرے ۔ خیر ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ بھُگتنا پڑا ۔ یہ تو دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ اب آتے ہیں اصل موضوع ” مٹیرئل“ کی طرف

درآمد شدہ پرزوں سے اسمبلی کر نا 6 ماہ کا منصوبہ تھا لیکن دو ماہ بعد بیرل اور دوسرے پرزوں کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی تاکہ جب درآمد شدہ پُرزے ختم ہو جائیں تو اپنے تیار کردہ پرزے رائفل بنانے کیلئے موجود ہوں
ابھی ایک ماہ گذرا تھا کہ میں نے اپنے باس سے کہا ”رائفل میں براہِ راست استعمال ہونے والے سب مٹیرئل تو آرڈر کئے جا رہے ہیں ۔ جو مٹیرئل استعمال ہوتے ہیں اور رائفل کا حصہ نہیں بنتے اُن کا کیا بند و بست ہے ؟“
اُنہوں نے ایک فورمین کا نام لے کر اُسے پوچھنے کا کہا ۔ میں اُس فور مین کے پاس گیا اور پوچھا
اُس نے جواب دیا ”سٹور سے”۔
میں کہا ”یہ سٹور میں کہاں سے آتے ہیں ؟ ان کی پلاننگ کون کرتا ہے ؟ آرڈر کون اور کب کرتا ہے ؟“
بولے ”نیوٹن بُوتھ نے منگوائے تھے جب فیکٹری بنی تھی“۔

نیوٹن بُوتھ کے بعد غلام فاروق آئے اُن کے بعد جنرل حاجی افتخار اور اب جنرل اُمراؤ خان تھے ۔ اس دوران کسی کے ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی ؟ یہ ایک بڑا سوال تھا
پچھلے ماہ کے کچھ تجربوں کے بعد منیجر صاحب سے مزید بات بیکار تھی ۔ کچھ دن بعد جنرل منیجر دورے پر آئے ۔ مجھ سے پوچھا ” کوئی مُشکل ؟“ اُن سے بھی وہی سوال پوچھ لیا جو منیجر صاحب سے پوچھا تھا ۔ خاموشی سے چلے گئے ۔ مجھے ڈویلوپمنٹ کے کام کے ساتھ رائفل جی تھری کے معاملات کیلئے ٹیکنکل چیف کے سیکریٹری کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی ۔ ایک دن مجھے میٹنگ میں بُلایا گیا ۔ میٹنگ ختم ہونے پر سب افسران چلے گئے ۔ مجھ سے ٹیکنیکل چیف نے حال احوال پوچھا تو میں نے اپنی پریشانی بتائی ۔ وہ ہنس کر کہنے لگے ”تم مین سٹور کے سربراہ کو مل کر مٹیرئل کی سپلائی کا موجودہ طریقہ کار معلوم کرو پھر محکمہ پرچیز میں جا کے اُن کا طریقہ کار دیکھو ۔ اس کے بعد اس سب کا م کے طریقہ کار کے متعلق ایک منصوبہ بنا کر براہِ راست مجھے دو ۔ معلومات حاصل کرنے میں کوئی دقعت ہو تو میرے پی اے سے مدد لینا“۔ پھر پی اے کو بُلا کر کہہ دیا ”سٹور اور پرچیز کے سربراہان کو بتا دیں کہ اجمل بھوپال اُن کے پاس آئیں گے“۔

پہلے ہی میں گھنٹہ دو گھنٹے روزانہ فالتو بیٹھتا تھا ۔ ایک اور ذمہ داری میرے سر پر آ پڑی تھی لیکن میں خوش تھا کہ مسئلہ حل ہونے کی راہ نکل آئی ۔ میں نے صبح 7 بجے سے رات 8 بجے تک روزانہ کام کر کے ایک ماہ کے اندر ایک مسؤدہ تیار کیا جس میں میٹیرئل کی پلاننگ ۔ مجاز افسر سے منظوری ۔ ٹینڈرنگ ۔ انتخاب کئے گئے مٹیریل کی ڈیمانڈ اور اُس کی منظورٰی ۔ آرڈرنگ ۔ وصولی ۔ سٹورنگ ۔ اور متعلقہ ورکشاپ کو اجراء سمیت تمام عوامل شامل کئے ۔ یہ مسؤدہ میں نے اگلی میٹنگ کے بعد ٹیکنکل چیف کے حوالے کر دیا

شاید دو ہفتے بعد سٹورز کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اُن کا کام کر دیا اور آئیندہ میرے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ میں حیران تھا کہ میں نے کیا کر دیا ۔ میں نے کہا ” آپ کی بڑی نوازش اور مہربانی ہے ورنہ میں نے تو اپنی طرف سے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی“۔ کچھ دن بعد سٹورز کے ایک افسر میرے پاس آئے اور مجھے ایک لمبی چوڑی نوٹیفیکشن دکھائی ۔ میں نے دیکھا کہ یہ من و عن وہ مسؤدہ ہے جو میں نے ٹیکنیکل چیف کو دیا تھا جسے پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نفاذ کیلئے جاری کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ ناچیز کو ملازمت کی ابتداء ہی میں ایسی کامیابی عطا فرمائی تھی ۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو وہ افسر کچھ پریشان ہوئے لیکن جلد سنبھل کر بولے ”واقعی اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔ اس کام کا پچھلے 10 سالوں میں تجربہ کار لوگوں کو یاد نہ آیا اور آپ نے ایک سال میں انجام دے دیا ۔ آپ نے بہت اچھا طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ جب کسی وضاحت کی ضرورت ہوئی تو میری مدد کیجئے گا“

وقت گذرتا گیا ۔ مئی 1976ء میں مجھے لبیا بطور ایڈوائزر حکومتِ لبیا بھیج دیا گیا ۔ مارچ 1983ء میں واپس پی او ایف کی ملازمت بطور پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ شروع کی ۔ ستمبر 1985ء میں اُس وقت کے چیئرمین نے ناراض ہو کر وہاں سے ہٹا کر جنرل منیجر ری آرگنائزیشن لگا دیا جو ایم آئی ایس کا حصہ تھا مگر ناکارہ (کھُڈا لائین) اسامی سمجھی جاتی تھی ۔ جن صاحب سے میں نے ٹیک اَوور کیا وہ دن بھر بیٹھے اخبار اور کتابیں پڑھتے رہتے تھے ۔ میں نے کام کا پوچھا تو بولے ”کوئی کام نہیں ہے ۔ کرسی آرام کیلئے ہے ۔ موج میلہ کرو“۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میں نے اپنے لئے کام پیدا کر لیا ۔ تمام سنیئر اسامیوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے مسؤدے تیار کرتا اور پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشنز کرواتا رہا ۔ یہ کام وقت کو پانی کی طرح غٹ غٹ پیتا تھا ۔ 2 سال میں ختم ہوا

پھر میں نے تجویز دی کہ اِنوَینٹری کو کمپیوٹرائز کیا جائے ۔ یہ تجویز آگے چل پڑی لیکن مجھے شامل کئے بغیر ۔ پہلے چیئرمین چلے گئے ۔ جب معاملہ نئے آنے والے چیئرمین کے پاس پہنچا تو انہوں نے ممبر پی او ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز ۔ متعلقہ محکموں یعنی سٹورز اور پرچیز کے سربراہان جو جنرل منیجر ہوتے ہیں اور تمام فیکٹریوں کی سربراہان جو ایم ڈی ہوتے ہیں کی مشترکہ میٹنگ بُلائی (اُن دنوں میں کسی محکمہ کا سربراہ نہیں تھا) ۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون آیا ۔ میرے پی اے نے بتایا چیئرمین آفس سے ٹیلیفون ہے ۔ بات کی تو ٹیلیفون کرنے والے نے اپنا تعارف کرائے بغیر کہا ”بھوپال صاحب ۔ چیئرمین صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں“۔ میں جا کر حسبِ معمول سٹاف آفیسر ٹُو چیئرمین کے دفتر میں پہنچا تو وہ دفتر میں نہیں تھے ۔ میں چیئرمین کے پرائیویٹ سیکریٹری کے پاس گیا ۔ وہ بولا ”چیئرمین کانفرنس روم میں ہیں ۔ وہاں سے کسی نے ٹیلیفون کیا ہو گا“۔ میں کانفرنس روم میں داخل ہوا تو وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے ۔ میں نے سلام کیا تو چیئرمین صاحب نے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ جب میں بیٹھ گیا تو اُنہوں نے سٹورز کے جنرل منیجر کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ بولے ”جناب ۔ یہ موجودہ طریقہ کار آج سے 23 سال قبل بھوپال صاحب نے ہی وضع کیا تھا جو کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اسلئے اِنوؒنٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے ان سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ میری درخواست ہے کہ پروجیکٹ ان کے ذمہ کیا جائے“۔ سو فیصلہ ہو گیا اور میں قادرِ مطلق کی کرم فرمائی سے ناکارہ سے پھر کار آمد آدمی بن گیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور میرے ہاتھوں پاکستان کا سب سے بڑا اور پہلا کمپیوٹرائزڈ اِنوینٹری منیجمنٹ سسٹم بن کر انسٹال بھی ہوا ۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے کئی سینئر افسران میرے شاگرد بنے اور واپس جا کر اپنے اداروں میں اس سسٹم کو ڈویلوپ کروایا ۔ ایک بریگیڈیئر صاحب میرے پی او ایف چھوڑنے کے 10 سال بعد اتفاقیہ طور پر ایک دفتر میں ملے اور مجھے اُستاذ محترم کہہ کر مخاطب کیا حالانکہ وہ سروس میں مجھ سے کم از کم 5 سال سنیئر تھے ۔ مجھے یاد نہیں تھا مگر اُنہوں نے یاد رکھا تھا ۔ جن صاحب کے پاس ہم بیٹھے تھے اُنہیں مخاطب کر کے بولے ”یہ بھوپال صاحب میرے اُستاد ہیں ۔ اِنہوں نے مجھے کمپیوٹر پر اِنوَینٹری منیجمنٹ سکھائی تھی“۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔

اور کہیئے کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (سورۃ 3 ۔ آل عمران ۔ آیۃ 26) ۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ نصیب یا قسمت

نصیب یا قسمت ایسی چیز یا طاقت نہیں ہے کہ اس کے سہارے یا انتظار میں بیٹھے رہیں
قسمت کو کوسنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا
قسمت جو کچھ بھی ہے وہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے

ہاں ایک ایسی چیز ہے جو ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے اور اس سے اپنی قسمت کو سنوارا جا سکتا ہے
وہ ہے خلوصِ نیت اور محنت سے کام کرنا
آج ہی سے لگن اور محنت سے کام شروع کیجئے

اِن شاء اللہ قسمت خود آ کر آپ کے قدم چُومے گی

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” How the nations end ? “

اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون

میں اپنے ماضی میں اپنی یادداشت کو چلاتا دُوربہت دُور چلا جاتا ہوں ۔ مجھے 1946ء تک کی بھی اہم باتیں یا واقعات یاد آ جاتے ہیں ۔ لیکن اِن میں وہ دن نظر نہیں آتا جب ہم دوست بنے تھے ۔ بس اتنا مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے تھے جب وہ اپنی والدہ (میری پھّوپھو) کی وفات کے بعد اپنی 2 بڑی بہنوں کے ساتھ ہمارے ہاں رہنے لگا تھا اور ہماری دوستی شروع ہو ئی تھی
وہ مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ ہم اکٹھے کھیلتے اور ہنسا کرتے ۔ کبھی کبھی تو ہنستے ہنستے بُرا حال ہو جاتا تھا

ہماری دوستی اتنی گہری تھی کہ پچھلی 7 دہائیوں میں جہاں کہیں بھی رہے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں رہے ۔ ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ۔ زندگی کے نشیب و فراز اور نامساعد حالات ہماری دوستی کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ ہمارا نہ کبھی جھگڑا ہوا نہ ہم کبھی آپس میں ناراض ہوئے

شادی کے بعد اُس نے کراچی میں کاروبار شروع کیا جو چل پڑا ۔ اُس کی 2 بیٹیاں تھیں جو جامعہ کراچی میں پڑھتی تھیں جب 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کے حق پرستوں نے کراچی کی زمین اُس کے خاندان کیلئے تنگ کر دی ۔ وہ جوان بیٹیوں کی عزت محفوظ کرنے کی خاطر بیوی 2 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کو اپنی کار میں بٹھا کر چلاتا ہوا 3 دن میں لاہور پہنچا جہاں اُسے پھر الف بے سے آغاز کرنا پڑا ۔ میاں بیوی ہر قسم کا چھوٹا موٹا کام کرتے رہے ۔ بیٹیاں بیٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے رہے ۔ اُس دور میں بھی میں نے اُسے ہمیشہ مسکراتے دیکھا ۔ چار پانچ سال میں معاشی پہیئہ چل پڑا تو بچوں کی شادیاں کیں

وہ متعدد بار معاشی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنا مگر نہائت بُرے وقت میں بھی اُس نے الحمدللہ ہی کہا ۔ زندگی میں 2 بار اُس نے مجھے صرف اتنا کہا ”میں نے ماموں جی (میرے والد) کا کہا نہ مان کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی”۔
(اگست 1947ء سے کچھ دن قبل وہ تینوں بہن بھائی اپنی بھابھی کو ملنے سیالکوٹ گئے تھے ۔ اُن کے صرف ایک بھائی تھے جو سب بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ 3 بڑی بہنیں تھیں جن کی شادیاں والدہ کی زندگی میں ہو گئی تھیں ۔ بھائی ہندوستان سے باہر کہیں کاروبار کرتے تھے ۔ اُن کے ہمارے ہاں سے جانے کے بعد ہمارے شہر سمیت ہندوستان میں قتل و غارت گری شروع ہو گئی اور وہ واپس ہمارے ہاں نہ آ سکے ۔ 1947ء کے آخر میں ہم ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو راولپنڈی میں رہائش اختیار کی ۔ کچھ سال والد صاحب روزگار کی تگ و دو میں رہے ۔ جب کاروبار چل پڑا تو والد صاحب نے سیالکوٹ جا کر اُس کی بڑی 2 بہنوں کی شادیاں کرائیں اور اُسے اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے تھے ۔ مگر اس کے دوستوں نے اُسے ٹکنے نہ دیا اور کچھ ماہ رہ کر وہ واپس چلا گیا تھا)

لگ بھگ 70 سالہ دوستی اُسے نہ روک سکی اور 5 اکتوبر بروز اتوار یعنی عید الاضحےٰ سے ایک دن قبل وہ اس دارِ فانی سے رُخصت ہو گیا
اِنَّا لِلہِ و اِنَّا اِلَہِ راجِعُون

حج و عيدالاضحےٰ مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیراً والحمدُللہِ کثیِراً و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک ۔ اللہ ان کا حج قبول فرمائے

سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے

جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُن کی قربانی قبول فرمائے
اللہ کریم مجھے اور میرے ہموطنوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے

قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

گوہرِ نایاب مِلتا ہے مٹی کے گھروندوں میں

Gold Medalist جی سی یونیورسٹی کے پانچویں کے تقسیمِ اسناد میں ایم بی اے میں اوّل آ کر سونے کا تمغہ حاصل کرنے والا عرفان حسن ایک مستری کا بیٹا ہے اور اس کی ماں لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے بیٹے کی فیسیں پوری کرتی رہی

.

.

.
سونے کا تمغہ ملنے کے بعد عرفان ماں باپ کے پاؤں چوم کر اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ ننکانہ کے رہائشی عرفان حسن نے کہا کہ اسے اپنے ماں باپ پر فخر ہے
Dunya News – Gold Medalist kisses parents… by dunyanews

نہ مانیئے لیکن غور ضرور کیجئے

٭ عراق پر قبضے کے بعد 2003 میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ دینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور 2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے

٭ برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

٭ کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے (جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا) سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے

٭ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا ۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں

٭ امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا ۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں ۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگا دئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میّسر رہتا ہے

٭ اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ۔ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے

٭ وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اس وقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی ۔ جے یو آئی ۔ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کے تو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

٭ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبر ون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف قادری صاحب کے دشمن نمبر ون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتر رہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سرور اسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں

ماخذ ۔ جرگہ