میں نے بولنا کیسے سیکھا

کالج پہنچنے تک میں سوائے اپنے چند قریبی دوستوں اور بہن بھائیوں کے کسی کے سامنے بولتا نہیں تھا ۔ اساتذہ اور بڑوں کے سامنے جان جاتی تھی ۔ اگر کوئی بزرگ موجود ہوں تو میں اپنے بہن بھائیوں سے بھی بات نہ کرتا تھا ۔ کچھ قریبی عزیز بزرگ تو کہا کرتے تھے ” اجمل ۔ تمہارے بولنے میں پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟“ میں اس کا بھی کوئی جواب نہ دے پاتا تھا

گیارہویں جماعت میں گارڈن کالج راولپنڈی میں داخل ہوا ۔ کالج میں دو ادبی (literary) کلب تھیں ۔ ہر طالب علم از خود ان کا رُکن بن جاتا تھا ۔ جس کا رول نمبر جُفت ہو وہ منروا (Minerva) کلب کا اور جس کا طاق ہو وہ بار (Bar) کلب کا ۔ سو میں منروا کلب کا رکن تھا جس کے سرپرست پروفیسر خواجہ مسعود تھے جو ہمیں ریاضی پڑھاتے تھے ۔ ہمارا پہلا پیریڈ ریاضی کا ہوتا تھا ۔ خواجہ مسعود صاحب نام بُلا کر حاضری لیا کرتے تھے ۔ ہماری جماعت میں 3 افتخار تھے افتخار علی ۔ افتخار احمد اور میں ۔ خواجہ مسعود صاحب پہلے کو علی دوسرے کو افتخار اور مجھے بھوپال کہتے تھے ۔ یہیں سے میرا نام بھوپال زبان زدِ عام ہوا ۔ گیارہویں میں دوسرا مہینہ تھا کہ پروفیسر خواجہ مسعود صاحب نے مجھے حُکم دیا ” بھوپال ۔ تم 2 ہفتے بعد کالج اسمبلی میں تقریر کرو گے ۔ چلو میں تم سے رعائت کرتا ہوں کہ موضوع تمہاری پسند کا ہو گا“۔

میرے تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین سِرک گئی ۔ وہاں تو بول نہ سکا ۔ حلق ہی بند ہو گیا تھا ۔ سارا دن بڑی مُشکل سے گزارا ۔ چھُٹی تک ہمت اِدھر اُدھر سے اکٹھی کی اور پروفیسر صاحب کے دفتر میں جا کر عرض کی ”سر ۔ میں نے تو آج تک 10 لڑکوں کے سامنے کچھ پڑھا نہیں ۔ آدھے کالج کے سامنے تقریر ۔ ۔ ۔“ باقی حلق ہی میں رہ گیا ۔ میں نے بڑی مشکل سے جو ہمت اکٹھی کر کے باندھی تھی وہ نجانے کہاں چلی گئی تھی ۔ پروفیسر صاحب نے فیصلہ سُنا دیا ”میٹرک میں تم نے سکالرشپ لیا ۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں 5 ٹیسٹ لئے ۔ 3 میں اول 2 میں دوم آئے ۔ تقریر کرنا کونسا مُشکل ہے ۔ جاؤ تیاری کرو ۔ اچھا ۔ کچھ پوچھنا ہوا تو بتا دوں گا“۔

تین دن سوچتے گذر گئے کہ کیا کروں ؟ کہاں جاؤں ؟ اپنے آپ کو ڈانٹ پلائی کہ 3 دن ضائع کر دیئے پھر کاپی پنسل پکڑ کر بیٹھ گیا لیکن ذہن بے بس کہ تقریر کیا لکھوں ؟ یہ ۔ نہیں ۔ وہ اچھا ہے ۔ نہیں نہیں ۔ یہ بھی مشکل ہے ۔ دل ہی دل میں مُشکل کُشا سے التجاء کی ۔ پھر لیٹ گیا ۔ اچانک میرے مولا نے دماغ میں ڈالا

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۔ ترجمہ ۔ اللہ تعالٰی کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ۔ (سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 103)

تھوڑا سا دماغ پر زور دیا تو موضوع بنا ” قومیت بنظریہ اسلام“۔
ہیں ؟ مگر لکھوں گا کیا ؟ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔ پنسل ہاتھ میں اور کاغذ گتے پر سامنے ۔ خیر کافی تگ و دو کے بعد دماغ کچھ کام کرنے لگا اور جو اُوٹ پٹانگ دماغ میں آیا لکھ ڈالا ۔ ایک دن اس کی ترتیب درست کرنے میں لگا ۔ تیسرے روز پروفیسر صاحب کو دکھانے لے گیا تو اُنہوں نے دیکھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ”اب مقررہ دن کو ہال ہی میں سنُوں گا ۔ چلو ایک ہِنٹ (hint) دے دیتا ہوں ۔ گھر میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ایک بار بول لینا“۔

اگلے دن تقریر کو دو تین بار پڑھا اور نوک پلک درست کی ۔ پھر اکیلے میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگا تو یہ دنیا کا سب سے مُشکل کام پایا ۔ 3 دن اس کوشش میں گذرے ۔ جب احساس ہوا کہ باقی 6 دن رہ گئے ہیں تو ہواس باختہ ہونے کو تھے کہ خیال ہی خیال میں مقوّی القلب معجون کھائی اور آئینے کے سامنے ڈٹ گیا کہ آج تو کشمیر فتح کر ہی لینا ہے ۔ اللہ اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔ سو تیسری کوشش میں اللہ نے مہربانی فرمائی اور میں نے پوری تقریر آئینے میں اپنی شکل دیکھتے پڑھ ڈالی

آخر یومِ حساب (تقریر کا دن) آ گیا ۔ ایک انجانے خوب کے زیرِ اثر پورے 8 بجے ہال میں داخل ہوا ۔ ہال لڑکوں سے بھرا ہوا تھا ۔ لگ بھگ 300 لڑکے تھے جن میں کئی مجھ سے کافی بڑے تھے ۔ جو جگہ خالی نظر آئی بیٹھ گیا ۔ سرپرست (پروفیسر خواجہ مسعود) صاحب آئے اور سیدھے سٹیج پر پہنچ کر اپنی ڈائری کھولی پہلے مقرر کو بُلانے کیلئے ۔ میرا دل ایسے دھڑکنے لگا جیسے کارٹون میں ٹام کے نرغے میں آنے پر جیری کا دھڑکتا ہے ۔ تھرڈ ایئر کے لڑکے کا نام پکارا گیا تو میری سانس بحال ہوئی ۔ اُس نے تقریر شروع کی ۔ آدھے منٹ بعد کچھ بھول کر کاغذ سے پڑھا ۔ ہُوٹنگ شروع ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہی ۔ شور کی وجہ سے تقریر کم ہی سمجھ آئی ۔ اس کے بعد سیکنڈ ایئر کے لڑکے کا نام پکارا گیا ۔ اُس کا بولنے کا طریقہ کچھ مسکین سا تھا ۔ لڑکوں نے اس سے خوب فائدہ اُٹھایا اور ایک لفظ سُننے نہ دیا ۔ وہ سٹیج سے اُترا تو گویا میری سانس رُک گئی لیکن آرٹس (آجکل ہیومینِٹیز) کے فرسٹ ایئر کے طالبعلم کا نام بولا گیا اور میری جان میں جان آئی ۔ یہ صاحب ہمارے مکان سے ملحقہ مکان کے باشندے تھے ۔ اُنہوں نے سیدھے سیدھے کاغذ ہاتھ میں پکڑا اور جیٹ ہوائی جہاز کی رفتار سے پڑھنا شروع کر دیا ۔ لڑکوں نے شور مچایا ۔ مِنتیں کیں لیکن بے سود ۔ 5 منٹ کا وقت ختم ہو گیا تو پروفیسر صاحب نے گھنٹی بجائی پھر بجائی ۔ تیسری گھنٹی بجنے کے بعد موصوف اپنے کاغذ سنبھالتے ہوئے سٹیج سے اُترے

ہال میں سرپرست پروفیسر صاحب کی آواز گونجی ”افتخار اجمل بھوپال“۔
میں نے دل کو سمجھایا ”بیوقوف نہ بن ۔ آج تیری عزت یا ذلت کا فیصلہ ہونا ہے ۔ یہ سب تو بیوقوف بیٹھے ہیں ۔ ڈٹ جا ان کے سامنے“۔
اور اپنی ٹانگوں کو گھسیٹتا ہوا سٹیج پر پہنچا ۔ پوری تقریر والے کاغذ میز پر رکھے اور چھوٹا پُرزہ جس پر موٹی موٹی باتیں لکھی تھیں ہاتھ میں پکڑ کر تن کر کھڑا ہو گیا (اندر سے جان نکلی ہوئی تھی)۔ ہال میں بیٹھے لڑکے دھُندلے سائے نظر آ رہے تھے ۔ سامنے کی دیوار پر چھت کے قریب نظر رکھتے ہوئے دل میں بسم اللہ الرّحمٰن الّرحیم پڑھا اور بولا
جنابِ صدر ۔ میرے سنیئر دوستو اور ہمجماعت ساتھیو
آج میرا موضوع ہے ” قومیت بنظریہ اسلام“
چند آوازیں اُبھریں جو مجھے سمجھ نہیں آئیں (کانوں میں سائیں سائیں ہو رہا تھا) ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کہا گیا تھا ” اوئے مولوی ۔ حدِ ادب مولانا وعظ کرنے لگے ہیں ۔ وغیرہ“۔
میں نے تقریر شروع کی ۔ بمُشکل آدھا منٹ گذرا تھا کہ آوازیں بند ہو گئیں ۔ میں نے ہمت کر کے نظر تھوڑی نیچے کی تو مجھے ایک لڑکا نظر آیا جس نے اُنگوٹھا اُوپر کر کے میری حوصلہ افزائی کی ۔ میں نے دلیر ہو کر باقی لڑکوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ۔ مجھے سب اپنی طرف متوجہ نظر آئے ۔ پھر کیا تھا ۔ میں نے ایک منجھے ہوئے مقرر کی طرح کبھی اِدھر کبھی اُدھر دیکھتے اور ہاتھ ہلاتے ہوئے بھرپوری تقریری اداکاری کی ۔ پونے پانچ منٹ بعد جب میری تقریر ختم ہوئی تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔ کچھ لڑکے تو کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے ۔ میرے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ اُبھری ۔ میں سٹیج سے اُتر کر اپنی نشست پر پہنچا تو میرے دوستوں نے کھڑے ہو کر بھرپور تالیوں سے میرا استقبال کیا ۔
جب میں بیٹھ چکا تو پروفیسر صاحب نے جذباتی طریقہ سے اعلان کیا ”بھوپال اس مہینے کا بہترین مقرر قرار پایا ہے ۔ ایسی 7 تقریروں پر اسے بہترین مقرر کی شیلڈ دی جائے گی“۔ ہال پھر تالیوں سے گونج اُٹھا

اس دن اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے مجھ پر ایسی مہربانی کر دی کہ میں نڈر ہو گیا اور بڑی بڑی محفلوں میں بھی اپنا مدعا بیان کر کے لوگوں کو قائل کرنے لگا ۔ انجنیئرنگ کالج سے فراغت کے بعد مختلف موضوعات پر تحقیق کرتا اور قومی سطح کی محفلوں میں تقریر کرتا ۔ اللہ کی مزید کرم فرمائی ہوئی اور ایک گمنام اجمل بھوپال پاکستان کے تعلیم یافتہ حلقوں میں پہچانا جانے لگا ۔ اللہ نے چھپر پھاڑ کے عنایات مجھ پر برسائیں اور 1970ء تک میرا نام مغربی جرمنی کے انجنیئرنگ حلقوں میں جانا پہچانا ہو گیا اور 1980ء تک لبیا اور بیلجیئم کے انجنیئرنگ حلقوں میں بھی معروف ہوا
اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی (سورت 53 النّجم آیت 39)
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

تہمت اور عمل

آج صبح ساڑھے سات بجے ایک خبر پڑھی تو سلطان باہو کا کلام دماغ میں گھوم گیا جو قارئین کی نظر کر دیا تھا
جی چاہا تھا کہ دماغ میں پیدا ہونے والے جن الفاظ نے سلطان باہو کے کلام کی یاد دلائی تھی وہ بھی اُس کے ساتھ ہی لکھ دوں لیکن اسے سلطان باہو سے گستاخی سمجھتے ہوئے اپنا قلم اور کلام روک لیا جو متعلقہ خبر کے ساتھ پیشِ خدمت ہے

دوسرے نُوں راہ ہر کوئی دسے
آپے راہ تے سدھی چلنا اَوکھا
غیر دی اَکھ وِچ تنکا وِی دِسے
اپنی اَکھ دا شہتِیر نہ دِسدا
لوکاں نوں کرپٹ کہنا سوکھا
پر اپنے آپ نوں بچانا اَوکھا
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا
(آخری شعر سلطان باہو کا ہے)

خیبر پختونخوا کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس سال میں عمران خان نے 4 بار سرکاری ہیلی کاپٹر بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ سے بنوں ۔ کوہاٹ ۔ منگورہ اور پشاور جانے کیلئے استعمال کیا

اَوکھا

راہ دے وِچ کھلَونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (راستہ میں کھڑا رہنا مُشکل)
اپنا آپ لُکاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اپنے آپ کو چھپانا مُشکل)
اَینی وَدھ گئی دُنیاداری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اتنی ہو گئی دنیا داری)
کلَیاں بہہ کے رونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (رونے کیلئے خلوَت پانا مُشکل)
داغ محبت والا باہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (داغ محبت کا باہو)
لگ جاوے تے دھونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ (لگ جائے تو دھونا مُشکل)
کلَیاں عِشق کمانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اکیلے عشق کا حاصل بھی مُشکل)
کسے نُوں یار بنانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کو دوست بنانا بھی مُشکل)
پیار پیار تے ہر کوئی بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پیار پیار تو سب کہتے ہیں)
کر کے پیار نبھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کر کے پیار نبھانا مُشکل)
دُکھاں تے ہر کوئی ہَس لیندا ۔ ۔ (دُکھوں پر سب ہنس تو لیتے ہیں)
کِسے دا درد وٹاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کا درد بانٹنا ہے مُشکل)
گلاں نال نئیں رُتبے مِلدے ۔ ۔ ۔ (باتوں سے بُلندی حاصل نہیں ہوتی)
جوگی بھَیس بناؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (فقیر بن کے رہنا بھی مُشکل)
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا ۔ (کوئی کسی کی بات نہیں سُنتا)
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگوں کو سمجھانا بھی ہے مُشکل)

کلام ۔ سلطان باہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Unparalleled Impunity??? “

کمپیوٹر ماہرین کی مدد فوری درکار ہے

محترمات و محترمان جو بھی کمپیوٹر پر کام کرنے کی دسترس رکھتے ہیں سے التماس ہے کہ فوری طور پر میری رہنمائی فرمائیں ۔ یہ مسئلہ میرے اعصاب (nerves) پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے چنانچہ استداء ہے کہ مدد میں تساہل سے کام نہ لیجئے اور جلد میری نیک دعاؤں اور شکریئے کے حقدار بنیئے
کسی طرح میرے کمپیوٹر میں علی بابا (http://offer.alibaba.com) کہیں چھپ کر بیٹھ گیا ہے

میں جب کوئی ویب سائٹ یا بلاگ کھولنے کیلئے کلِک کرتا ہوں ۔ یا پہلے علی بابا کھُلنا شروع ہو جاتا ہے یا ویب سائٹ کھُلنے کے دوران رَخنہ ڈالتا ہے یا جب انگریزی سے اُردو میں جانے کیلئے En پر کلِک کرتا ہوں تو رَخنہ ڈال دیتا ہے
جب علی بابا کھُل جائے تو کام چل پڑتا ہے گو رفتار کچھ کم ہو جاتی ہے ۔ نہ کھُلے یعنی رخنہ ڈال دے تو کمپیوٹر بیچ میں پھنس کے رہ جاتا ہے اور کبھی کبھی لکھا آتا ہے کہ یہ وِڈیو نہیں کھُل سکتی ۔ اَپ گریڈ کریں ۔ حالانکہ وہ وڈیو نہیں ہوتی
ٹاسک منیجر کھول کر دیکھتا ہوں تو لکھا ملتا ہے پھر سوائے سب کچھ بند کرنے کے اور کوئی چارہءِ کار نہیں رہ جاتا ۔ لیکن ویب سائٹ کھولنے پر دوبارہ وہی چکر چل سکتا ہے

دوسرا مسئلہ جو اسی کے ساتھ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ویب سائٹ کی تحریر میں 2 یا 3 جگہ نیلی ہو جاتی ہیں یعنی لِنک بن جاتی ہیں ۔ ان پر کرسر (cursor) لے جاؤں تو ایک پوپ اَپ (pop up) کھُلتا ہے جس پر عام طور پر اَپ گریڈ (upgrade) جاوا فری لکھا ہوتا ہے اور کبھی کبھی کوئی شاپِنگ کا اشتہار لکھا ہوتا ہے

میں نے اوِیرا اَینٹی وائرس (Avira Antivirus) سے سکین (scan) کیا پھر اے وی جی 2015 (AVG 2015)اَینٹی وائرس (antivirus) سے سکین کیا ۔ بہت کچھ صاف ہو گیا مگر علی بابا سے جان نہیں چھوٹی

فلسطین سے ہجرت ۔ آخری حصہ

پہلی قسط یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

جب وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار میرے والدین کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔ تو میرے والد صاحب سخت پریشان ہوئے ۔ کوشش کے باوجود اپنی پریشانی میری والدہ سے چھپا نہ سکے ۔ والدہ کا بُرا حال ہو گیا ۔ میرے بڑے ماموں والد صاحب کے ساتھ ہی ہوتے تھے ۔ والد صاحب کو کچھ نہیں سُوجھ رہا تھا ۔ سب کچھ ماموں جان کے حوالے کیا اور چند دن بعد صبح سویرے صرف کھانے پینے کا سامان کار میں رکھا اور میری والدہ اور میرے 2 بھائیوں (7 سال اور 8 ماہ) کو اپنی کار میں ساتھ لے کر فلسطین سے بصرہ (عراق) کی طرف چل پڑے ۔ فلسطین کے اندر جب یہودیوں کا علاقہ قریب آتا تو ہَیٹ پہن لیتے ۔ جب وہاں سے نکلتے تو پھر سر پر رومال باندھ لیتے ۔ اللہ سے خیریت کی دعائیں مانگتے وہاں سے نکل کر تبوک کے قریب سعودی عرب میں داخل ہوئے تو جان کو خطرہ ٹلا

اُس زمانہ میں سعودی عرب کی سڑکیں تنگ تھیں جو کہیں ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کچی تھیں ۔ 1200 سے 1300 کلو میٹر کے درمیان فاصلہ طے کرنا تھا ساتھ شیر خوار بچہ مگر کھانے پینے کا سامان بھی زیادہ نہ تھا کیونکہ جو کچھ خُشک خوراک گھر میں تھی وہی اُٹھائی تھی ۔ کار کی رفتار اُس زمانہ میں 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہ تھی ۔ رات کو راستہ میں قیام کرتے 4 دن اور 3 راتوں میں یمن پہنچے ۔ اُس زمانہ میں جدّہ کی بندرگاہ پر بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوتے تھے اور ساری نقل و حمل یمن کی بندرگاہ عدن سے ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ اگلا بحری جہاز ایک ہفتہ بعد کراچی کیلئے روانہ ہو گا ۔ ٹکٹیں لے کر ہوٹل میں قیام کیا ۔ ہفتہ بعد بندرگاہ پہنچ کر کار کو وہیں چھوڑا ۔ صرف اپنے کپڑے ساتھ لئے اور جہاز میں سوار ہوگئے

جہاز یمن سے بمبئی گیا اور وہاں چند دن قیام کے بعد کراچی روانہ ہوا ۔ کراچی میں ایک رشتہ دار عبدالکرم صاحب جو سینٹرل ہوٹل کے مالک تھے اُنہیں والد صاحب نے چلنے سے قبل اطلاع دے دی تھی سو وہ بندرگاہ پر استقبال کیلئے پہنچے ہوئے تھے ۔ عبدالکریم صاحب نے ملتے ہی میرے والدین سے کہا ”مبارک ہو ۔ اللہ کے فضل سے بچے بخیریت سیالکوٹ پہنچ گئے ہیں“۔ (آجکل عبدالکریم صاحب کا پوتا طارق سلیم مالک ہے)

اگلے روز ریلوے سٹیشن گئے تو معلوم ہوا کہ ٹرین 3 دن بعد روانہ ہو گی اور وزیر آباد تک جائے گی ۔ پیشگی بُکنگ نہ تھی ۔ ٹکٹ خرید کر چلے گئے ۔ 3 دن عبدالکریم صاحب کے ہاں ہی قیام کیا پھر روانہ ہو کر شاید 3 دن میں وزیرآباد پہنچے ۔ بھاپ سے چلنے والا انجن تھا اور بھاپ بائلر کے نیچے کوئلے جلا کر حاصل کی جاتی تھی ۔ ٹرین راستہ میں ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر رُکتی رہی ۔ وزیر آباد پہنچ کر معلوم ہوا کہ کوئی بس سیالکوٹ نہیں جاتی ۔ ایک ٹانگہ لیا اور جنوری 1948ء کے پہلے ہفتے میں سیالکوٹ پہنچے

فلسطین میں والد صاحب کی رہائش طُولکرم میں تھی اور کاروبار حیفہ میں ۔ طُولکرم مسلمانوں کا علاقہ تھا اور حیفہ میں یہودیوں کی اکثریت تھی ۔ والدین کے آ جانے کے کچھ ماہ بعد صیہونی دہشتگردوں نے جن کے سربراہ میناخم بیگِن اور موشے دایان تھے والد صاحب کے کاروبار پر قبضہ کر لیا اور میرے ماموں جان بچا کر مصر چلے گئے ۔ گویا ہم دوہرے مہاجر ہوئے ۔ فلسطین سے کاروبار کے لحاظ سے اور ریاست جموں کشمیر سے وطنیت اور جائیداد کے لحاظ سے

پیار کا ایک اور رُخ

میں اپنی چھوٹی پوتی ھناء کے پیار کا طریقہ لکھ چکا ہوں
میرا پوتا ابراھیم ہمارے ساتھ پیار کا زبان سے بہت کم اظہار کرتا ہے ۔ وہ ابھی ایک سال کا تھا کہ ہم ایک ماہ کیلئے دبئی گئے تو اُس نے ہمیں پہلی بار دیکھا اور چند1932351_10152391747461156_6284905569951163734_nFB دنوں میں بہت مانوس ہو گیا ۔ ابراھیم کی دادی صوفہ پر بیٹھ کر نماز پڑھتیں تو ابراھیم ہاتھ پاؤں پر چلتا اُس کے پاس پہنچ جاتا اور دادی کی ٹانگ کے سہارے اُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ۔ جب دادی رکوع یا سجدے کیلئے جھُکتیں تو وہ دادی کو گال پر چوم لیتا ۔ یہ ابراھیم کا معمول بن گیا

میں بڑے صوفہ پر بیٹھا ہوتا تو ابراھیم میرے قریب آ کر اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کا کہتا ۔ میں اُسے اُٹھا کر بٹھا دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھِسکنا شروع کرتا اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ جاتا ۔ چند منٹ بعد وہ اپنا ایک پاؤں میری ٹانگ پر رکھ دیتا ۔ تھوڑا تھوڑا کھِسکتے کسی طرح زور لگا کر ابراھیم میری گود میں پہنچ جاتا اور سر پیچھے کو جھُکا کر اُوپر میرے چہرے کی طرف دیکھتا ۔ اس پر میں اُسے گلے لگاتا اور پیار کرتا تو ابراھیم بہت خوش ہوتا ۔ یہ بھی اس کا معمول بن گیا

اگلی بار ہم گئے تو ابراھیم ڈیڑھ سال کا تھا ۔ اب طریقہ بدل گیا ۔ ابراھیم میرا ہاتھ پکڑ لیتا اور مجھے کھینچتا ہوا اپنے کمرے میں لیجاتا ۔ وہاں مجھے گیند یا دوسرے کھلونے نکالنے کا کہتا ۔ جب میں نکال کر اُسے دیتا تو خود اُن سے کھیلنے کی بجائے مجھے اُن سے کھیلنے کا کہتا ۔ میں کھیلتا اور وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ۔ کبھی مجھے بلاکس یا لِیگو سے مکان بنانے کا کہتا ۔ میں بناتا ۔ جب مکان مکمل ہونے کو ہوتا تو تھوڑا توڑ دیتا اور اسے مکمل کرنے کا کہتا ۔ ایک دن ابراھیم نے 3 بار مکان توڑا تو میں اُٹھ کر صوفہ پر بیٹھ گیا ۔ ابراھیم مجھے کنکھیوں سے دیکھتا رہا اور تھوڑی دیر بعد صوفہ پر چڑھ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے وہی کیا جو ایک سال کی عمر میں کرتا تھا۔ اس اضافے کے ساتھ کہ مجھے لپٹ کر چوم لیا ۔ میں نے ہنس کر ابراھیم کو پیار کیا تو کھِل اُٹھا ۔ بعد میں مجھے کہنے لگا اب بنائیں میں نہیں توڑوں گا

جون 2012ء میں ہم 2 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ اس دوران وہ لیگو یا جِگ سا پزل نکالتا اور خود جوڑنے لگ جاتا جہاں سمجھ نہ آتی یا اُس سے نہ بن رہا ہوتا تو میری طرف دیکھنے لگ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں تھا ۔ مطلب یہ ہوتا کہ میں مدد کروں ۔ کبھی کہتا میرے سات آنکھ مچولی ( لُکن مِیٹی یا چھپن چھوت ۔ انگریزی میں ہائیڈ انیڑ سِیک) کھیلو

اس سال ہم جنوری میں 3 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ ابراھیم ماشاء اللہ ساڑھے 4 سال کا تھا اور نرسری سکول جاتا تھا ۔ کبھی کاغذ پر لکھ کر I love Dada مجھے دے جاتا اور کبھی I love Dado لکھ کر اپنی دادی کو دیتا ۔ ایک دن کاغذ پر خلائی جہاز (Space Ship) بنا کر اُس میں ایک پائلٹ بنا دیا اور سامنے ایک عورت بنا کر اُسے کے ہاتھ میں بڑا سا گُلدستہ بنا دیا ۔ پھر آ کر بتانے لگا کہ خلائی جہاز میں دادا ہیں (انجنیئر جو ہوا) ۔ اور گلدستہ والی دادی ہیں ۔ جب واپسی میں چند دن رہ گئے تو 2 بڑے کاغذ لے کر ان پر اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ بنائے جس طرح کا اُسے سکول سے ملا تھا اور نیچے لکھا دستخط ۔ ابراھیم ۔ ایک دادا کیلئے تھا اور ایک دادی کیلئے (Certificate of Good Performance for Dada, Signed by: Ebrahim )
کبھی کہتا آئی پیڈ پر میرے ساتھ ساتھ ٹینس وغیرہ کھیلو

گذشتہ عیدالاضحےٰ پر ہمارے پاس اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ دن میں کم از کم ایک بار ابراھیم میرے قریب آ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں ۔ میں پکڑ کر گودی میں بٹھاتا تو مجھ سے لپٹ جاتا ۔ واپس جانے سے ایک دن قبل ابراھیم نے اپنی دادی سے ایک کاغذ مانگا ۔ تو اُنہوں نے دے دیا ۔ اُس پر کچھ لکھنے لگا تو دادی کہیں اور مصروف ہو گئیں ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ کاغذ میز پڑا پایا تو اُٹھا کر دیکھا ۔ اس پر لکھا تھا ” I love you”