راقم الحروف پر جملہ معترضہ

قیاس ہے کہ موضوع عام قارئین کی دلچسپی کا ہے اسلئے سرِ ورق جواب لکھنے کا سوچا

میری تحریر ” چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ شریکِ حیات“ شائع کرتے وقت مجھ سے غلطی ہوئی تھی جس کی میں نے تصحیح شائع کی ۔ اس پر عبدالرؤف صاحب نے لکھا ہے ۔
”محترم نہایت نازک موضوع چھیڑ دیا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیات نمبر35 ۔ 34 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ اگرچہ کہ اس آیت کے درست مفہوم کے بارے میں عصرحاضر کے اہل علم کی رائے دوسرے سے مختلف ہیں ۔ لیکن کم سے کم اس آیت میں یہ تو بلکل (بالکل) واضح ہے کہ ازواجی معاملات میں مردوں کو عورتوں پر کچھ فضیلت حاصل ہے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ کسی مخصوص مرد میں اپنی فضیلت قائم اور برقرار رکھنے کا کمال نہیں ہو تو اسکی مثال سبھی پر حُجت نہیں بنائی جاسکتی ہے ۔ افسوس آجکل بے کمال مردوں کی بہتات ہوگئی ہے اور اپنی خفگی (خِفّت) مٹانے یا چھپانے کے لیے بقول حالی
خود بدلتے نہیں دین کو بدل دیتے ہی“۔

بلا شُبہ میری عقل نامکمل اور عِلم محدود ہے

مجھے ایک ہی بات سجمھ میں آئی ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور انسان کی فطرت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنائی ہے ۔ میں نے تاریخ میں پڑھا کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ ۔ پانچوں خُلفائے راشدین رضی اللہ عنہُم اور اُن کی رعایا کے درمیان ہر لحاظ سے برابری کا تعلق تھا سوائے چند عوامل کے ۔ رعایا کو تحفظ اور رزق فراہم کرنا حاکم کے ذمہ تھا جس کے بدلے میں حاکم کی اطاعت رعایا کے ذمے تھی ۔ آنکھ کھولنے کے بعد جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جس کا میں حوالہ بھی دینا نہیں چاہتا

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ
ایک عورت جو رسول اللہ ﷺ کی ھدائت میں یقین نہیں رکھتی تھی اور جب حضور ﷺ گذرتے تو اُن پر کوڑا پھنکتی تھی ۔ اُس عورت نے چند دن اپنا فعلِ بد نہ دُہرایا تو حضور ﷺ اُس کی خیریت دریافت کرنے گئے
امیرالمؤمنین (مسلمانوں کے حاکم) جناب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے علاقہ کا جائزہ لے رہے تھے تو ایک گھرانے سے بچوں کے رونے کی آوازیں آئیں ۔ وجہ پوچھنے پر عورت نے کہا ”بھوکے ہیں ۔ عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔عمر رضی اللہ عنہ پلٹے اور باوجود خادم کی تھیلا اُٹھانے کی پیشکش کے بیت المال سے آٹے کا تھیلا اپنے کندھے پر یہ کہتے ہوئے رکھا ”پوچھ عمر سے ہوگی“ اور اُس گھرانے میں پہنچایا

ایسے عوامل سے تاریخِ اسلام بھری پڑی ہے ۔ ان عوامل کی روشنی میں ہم جب خاوند کو بیوی پر حاکم کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ بیوی غلام ہے ۔ میری صاحبِ علم خواتین و حضرات سے عرض ہے کہ قرآن شریف کی کسی آیت کا مطلب الگ سے نہ لیا کریں بلکہ پورے قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم کے عمل کی بنیاد پر لیا کریں ۔ مزید جب بھی کسی بات کو سمجھنا ہو تو اپنی عقل کو مثبت سمت میں استعمال کیا کریں

عبدالرؤف صاحب نے متذکرہ آیات کا مکمل ترجمہ نہیں لکھا اور نہ ساری متعلقہ آیات کا احاطہ کیا ہے اس سلسلہ میں ”رشتہءِ ازداج“ کے موضوع پر میری 1984ء میں پیش کردہ تقریر کو بھی پڑھ لیں ۔ ہو سکتا ہے میں نے اس میں اپنا مدعا عام فہم طریقہ سے بیان کیا ہو اور سب کی سمجھ میں آ جائے
اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر قائم کرے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ شریکِ حیات

زندگی کے ہر معاملے میں اپنی (یا اپنے) شریکِ حیات کو اعتماد میں لیجئے
اچھی زندگی کیلئے باہمی مشاورت لازمی ہے
زندگی کی گاڑی دونوں نے مل کر چلانا ہے
اسلئے کوئی بھی اہم فیصلہ تنہاء کرنا ناکامی کا سبب بن سکتا ہے

(لیکن زن مرید نہ بنیئے)

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Washington’s Nuclear Hypocrisy “

ہرن مینار اور قلعہ شیخو پورہ

میری ڈائری میں 3 مارچ 1957ء کی تحریر

ہرن مینار
مُغل بادشاہ سلیم جہانگیر نے 1606ء میں تالاب بنوایا جس کی لمبائی 892 فٹ چوڑائی 750 فٹ اور درمیان میں گہرائی 18 فٹ ہے
1606ء میں ہی تالاب کے قریب اپنے پسندید ہرن منسراج کی قبر پر ایک مینار تعمیر کرایا ۔ اس مینار کی اُونچائی 125 فٹ ہے اور اس کی چھت پر جانے کیلئے سیڑھیوں کی تعداد 106 ہے
1611ء میں دولت خانہ بنوایا گیا جو دو منزلہ ہے اور تیسرا گنبد ہے

قلعہ شیخو پورہ
موجودہ شیخو پورہ مغل باسدشاہ جہانگیر کی شکار گاہ تھی
بادشاہ جہانگیر نے اپنے نام سے منصوب ایک گاؤں جہانگیر آباد اس جگہ آباد کیا ۔ بادشاہ جہانگیر کو شیخو بھی کہا جاتا تھا چنانچہ بعد میں یہ شیخو پورہ کے نام سے معروف ہوا
بادشاہ جہانگیر نے اس جگہ 1907ء میں ایک قلعہ تعمیر کرایا جو موجوددہ شہر شیخو پورہ کے جنوب مشرق میں ہے ۔ اس قلعے کی پہلی منزل کی 27 سیڑھیاں ہیں ۔ دوسری کی 58 ۔ تیسری کی 16 اور چوتھی یی بھی 16 سیڑھیاں ہیں
بعد میں مغل بادشاہ شاہجہاں نے ایک نئی عمارت بنوائی جس کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ خیال ہے کہ شاید متذکرہ بالا دولت خانہ کی جگہ بنائی گئی ہو گی

پاکستان کیسے بنا ؟

11012966_10153118779653214_9222380873510174951_n11817059_10153118777063214_3021858139480196679_n11825166_10153118778203214_3128428457947206585_n11825665_10153118776268214_740562706423065721_n11828562_10153118777433214_928922430999369107_n11873423_10153118776053214_6951817530271428303_n11831689_10153118780843214_2477181436196316706_n11828703_10153118776648214_7369052121881447292_n11836904_10153118776488214_3557432899146615455_n11855680_10153118779183214_6839381318611571948_n11863380_10153118782053214_2846821582218262537_n11870633_10153118776043214_4847740213467946779_n11828603_10153118777713214_2155622792486963207_n11870907_10153118775908214_6303597753657785213_n11873636_10153118778863214_1949104587780971030_n یہ چند جھلکیاں اُس سزا کی ہیں جو 1947ء میں مسلمانانِ ہند کو تحریکِ آزادی چلانے اور اپنا مُلک پاکستان بنانے کے سبب دی گئی

مغربی پاکستان کے قریبی ہندوستان کے علاقوں سے جذبہ ءِ آزادی سے سرشار سوا کروڑ سے زائد مسلمان عورتیں ۔ مرد ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انہیں راستہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور تہہ تیغ کیا گیا ۔ 50 لاکھ کے لگ بھگ جوان عورتوں اور لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ ہجرت کرنے والے اِن مسلمانوں میں سے آدھے بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پائے اور جو بے سر و سامان ۔ بھوکے پیاسے پاکستان پہنچے ان میں بھی بہت سے زخمی تھے

کیا ہم اتنے ہی بے غیرت و بے حمیّت ہو چکے ہیں کہ اس مُلک کے حصول کیلئے اپنے آباؤ اجداد کی بے شمار اور بے مثال قربانیوں کو بھی بھُلا دیں ؟

میرے پاکستانی بہنو ۔ بھائیو ۔ بھانجیو ۔ بھانجو ۔ بھتیجیو ۔ بھتیجو
ہوش میں آؤ
آپا دھاپی چھوڑ کر اس مُلک کیلئے خلوصِ نیّت اور محنت سے کام کرو
جس نے ہم سب کو ایک منفرد شناخت بخشی ہے

ہم اُن لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے حوصلے اور صبر کے ساتھ سو سال جانی اور مالی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پُر امن اور مہذب جد و جہد کر کے کُرّہءِ ارض پر ایک نیا مُلک بنایا
اس مُلک کا نام پاکستان ہے یعنی پاک لوگوں کی رہائشگاہ
اسلئے
ہمیں تمام الائشوں سے پاک ہو کر محنت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا ہے
اور
اس مُلک کو مُسلمانوں کا ایک خوشحال اور مضبوط قلعہ بنانا ہے

یومِ آزادی اور ہمارا کردار

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے