اس سے مجھے یاد آیا کہ پاکستان معرضِ وجود آنے سے کچھ پہلے کسی نے قائد اعظم سے کہا ”پاکستان میں اسلام نافذ کیا جائے گا“۔
اُنہوں نے جواب دیا ” اسلام تو اللہ کے رسول ﷺ نے 1400 سال قبل نافذ کر دیا تھا ۔ میں کون ہوتا ہوں اسلام نافذ کرنے والا“۔
سڑک پر جا رہے ہوں ۔ ڈاک خانے میں ہوں ۔ کسی بنک میں ہوں یا ٹرین یا بس پر سوار ہو رہے ہوں ۔ اکثر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کا حق مار لے اور پھر اُس پر دوسرا کوئی اعتراض بھی نہ کرے ۔ بات گول مول ہے ؟ چلیئے کچھ وضاحت کر دیتے ہیں ۔ سڑک پر آپ گاڑی میں جا رہے ہیں اور دوسری گاڑی والا زبردستی اپنی گاڑی آپ کی گاڑی کے آگے گھسیڑ دیتا ہے یا آگے نکلنے کیلئے آپ کو اپنی گاڑی ایک طرف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ آپ پیدل ہیں اور سڑک پار کرنا چاہ رہے ہیں مگر گاڑیوں والے اپنی گاڑیاں مزید تیز کر لیتے ہیں جیسے آپ اگر گذر گئے تو سڑک بند ہو جائے گی ۔ بنک یا ڈاک خانہ میں اکثر بعد میں آ کر پہلے اپنا کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ٹرین یا بس میں سوار ہوتے ہوئے دوسروں سے قبل چڑھنے کی کوشش میں دھکم پیل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی مخیّر آدمی کچھ تقسیم کرنا چاہے تو اُسے تقسیم نہیں کرنے دیا جاتا اور صرف دوسروں کا حق مارا نہیں جاتا بلکہ دینے والے سے چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دفاتر میں اپنا غلط کام نکلوانے یا درست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کھُلے دل سے پیش کی جاتی ہے
مندرجہ بالا عوامل میں پڑھے لکھے برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ متذکرہ بالا عوامل کے قوانین موجود ہیں جو گاہے بگاہے بتائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ تعلیمی اداروں اور مساجد میں پڑھایا یا بتایا بھی جاتا ہے ۔ کولہو یا راہٹ پہ جُتے بیل کو بار بار چھڑی نہیں دکھانا پڑتی ۔ بندر ۔ ریچھ ۔ طوطا ۔ کتا ۔ بلی سِدھائے جا سکتے ہیں ۔ ایک حضرتِ انسان ایسا جانور ہے جسے سدھانا بہت مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے ۔ میں نے ٹریفک کے بارے میں ٹریفک پولیس آفیسر سے بات کی تو اُس نے جواب دیا ” سر ۔ کیا کریں ۔ ہم عوام کا تربیتی پروگرام کرتے رہتے ہیں اور ہر چار چھ ہفتے بعد چیکنگ کر کے ہزاروں لوگوں کو بھاری جرمانے کرتے ہیں ۔ اس کا اثر دو چار روز کے بعد ختم ہو جاتا ہے“۔
جن عوامل کا میں نے ذکر کیا ہے اِن کے متعلق سب جانتے ہیں کہ غلط ہیں لیکن انہیں چھوڑتے نہیں ۔ البتہ انہیں اگر بوقتِ غلط عمل ہی پوچھا جائے تو وہ اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اُس کتاب (قرآن شریف) پر عمل کریں جس کا ترجمہ کبھی اُنہوں نے پڑھا نہیں یا پڑھ کر بھُلا دیا ہے ؟
امریکہ ہو ۔ جرمنی یا فرانس ۔ ہالینڈ ہو یا کوئی اور مُلک سب جگہ ٹریفک پولیس موجود نہ بھی ہو تو گاڑی چلانے والا سڑک پر لگے اشاروں کی پابندی کرتا ہے ۔ پیدل چلنے والوں کو گاڑی کھڑی کر کے راستہ دیتا ہے بوڑھوں اور بچوں کا خاص خیال کرتا ہے ۔ اپنے پیارے مُلک پاکستان میں اجارا داری اور ہڑبونگ سے کام لینے والے یہ پڑھے لکھے لوگ ممالکِ غیر یعنی امریکہ اور یورپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے مگر اپنے مُلک میں اُن کے اچھے اطوار اپنانا اپنے اُوپر حرام کر رکھا ہے ۔ میں نے اُوپر فرنگی ممالک کا نام اسلئے لکھا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ اُن ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے ۔ میں نے لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی قوانین اور اصولوں کی ایسی ہی پابندی دیکھی
اسلام ایک ضابطہءِ حیات ہے ۔ ایک لائحہءِ عمل ہے ۔ یہ مسجد یا گھر میں بند کرنے کیلئے نہیں ہے اور نہ صرف نماز پڑھتے ہوئے یا کسی کی موت پر یاد آنے والی چیز ہے ۔ اسلام ہمہ وقت ہے اور گھر ۔ گلی ۔ سڑک ۔ بازار ۔ ہسپتال ۔ دفتر ۔ مسجد سب جگہ نافذالعمل ہے ۔ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے ۔ کسی اور کا نہیں ۔ مگر صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی بدعملی کا الزام بھی دوسروں پر لگاتے ہیں ۔ حکومت یا مولوی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے تو اپنے ہموطنوں اور اپنے وطن کو بُرا کہیں گے ۔ کچھ تو یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ مُلک ہی رہنے کے قابل نہیں ۔ گویا وہ پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوئے اور نہ یہاں کا اناج کھایا ہے
ہمارے لوگوں کے مزاج کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ لاہوری دیگی چرغہ اُس وقت بھی بہت معروف اور پسندیدہ تھا جب میکڈونلڈ ۔ پِزا ہَٹ اور کے ایف سی کا دنیا میں کہیں نام نہ تھا ۔ 2009ء میں لاہور میں خیابان محمد علی جناح پر ایک دکان پر انگریزی میں لکھا دیکھا ”لاہور بروسٹ“ اور میں نے توجہ نہ دی ۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ وہ لاہوری دیگی چرغے کی دکان ہے تو میں دیگی چرغہ لینے گیا ۔
دکان دار سے پوچھا ” نام کیوں تبدیل کیا ؟“
بولا ”صاحب ۔ بناتے تو ہم دیگی چرغہ ہی ہیں ۔ کیا کریں ۔ اب لاہوری دیگی چرغہ کھانے والے بہت کم رہ گئے ۔ لوگ بروسٹ مانگتے ہیں اسلئے نام لاہور بروسٹ انگریزی میں لکھ دیا اور فروخت جو کم ہو گئی تھی بڑھ گئی ہے“۔