اسلام اور ہم

نجیب عالم صاحب نے لکھا ” میرے نزدیک قرآن کا قانون یعنی دین اسلام نافذ کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے ۔اور نہ ہی یہ کسی مفتی ، کسی عالم ،کسی مولوی ، کسی مسلک یا فرقے کی تحریک کی وجہ سے آئے گا کیونکہ دین اسلام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نافذ کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھول کر بھی بتا دیا۔بس اب اس پر عمل درآمد کرنا ہے“ ۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ پاکستان معرضِ وجود آنے سے کچھ پہلے کسی نے قائد اعظم سے کہا ”پاکستان میں اسلام نافذ کیا جائے گا“۔
اُنہوں نے جواب دیا ” اسلام تو اللہ کے رسول ﷺ نے 1400 سال قبل نافذ کر دیا تھا ۔ میں کون ہوتا ہوں اسلام نافذ کرنے والا“۔

سڑک پر جا رہے ہوں ۔ ڈاک خانے میں ہوں ۔ کسی بنک میں ہوں یا ٹرین یا بس پر سوار ہو رہے ہوں ۔ اکثر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کا حق مار لے اور پھر اُس پر دوسرا کوئی اعتراض بھی نہ کرے ۔ بات گول مول ہے ؟ چلیئے کچھ وضاحت کر دیتے ہیں ۔ سڑک پر آپ گاڑی میں جا رہے ہیں اور دوسری گاڑی والا زبردستی اپنی گاڑی آپ کی گاڑی کے آگے گھسیڑ دیتا ہے یا آگے نکلنے کیلئے آپ کو اپنی گاڑی ایک طرف کرنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ آپ پیدل ہیں اور سڑک پار کرنا چاہ رہے ہیں مگر گاڑیوں والے اپنی گاڑیاں مزید تیز کر لیتے ہیں جیسے آپ اگر گذر گئے تو سڑک بند ہو جائے گی ۔ بنک یا ڈاک خانہ میں اکثر بعد میں آ کر پہلے اپنا کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ٹرین یا بس میں سوار ہوتے ہوئے دوسروں سے قبل چڑھنے کی کوشش میں دھکم پیل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ اگر کوئی مخیّر آدمی کچھ تقسیم کرنا چاہے تو اُسے تقسیم نہیں کرنے دیا جاتا اور صرف دوسروں کا حق مارا نہیں جاتا بلکہ دینے والے سے چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دفاتر میں اپنا غلط کام نکلوانے یا درست کام جلدی کروانے کیلئے رشوت کھُلے دل سے پیش کی جاتی ہے

مندرجہ بالا عوامل میں پڑھے لکھے برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ متذکرہ بالا عوامل کے قوانین موجود ہیں جو گاہے بگاہے بتائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ تعلیمی اداروں اور مساجد میں پڑھایا یا بتایا بھی جاتا ہے ۔ کولہو یا راہٹ پہ جُتے بیل کو بار بار چھڑی نہیں دکھانا پڑتی ۔ بندر ۔ ریچھ ۔ طوطا ۔ کتا ۔ بلی سِدھائے جا سکتے ہیں ۔ ایک حضرتِ انسان ایسا جانور ہے جسے سدھانا بہت مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے ۔ میں نے ٹریفک کے بارے میں ٹریفک پولیس آفیسر سے بات کی تو اُس نے جواب دیا ” سر ۔ کیا کریں ۔ ہم عوام کا تربیتی پروگرام کرتے رہتے ہیں اور ہر چار چھ ہفتے بعد چیکنگ کر کے ہزاروں لوگوں کو بھاری جرمانے کرتے ہیں ۔ اس کا اثر دو چار روز کے بعد ختم ہو جاتا ہے“۔

جن عوامل کا میں نے ذکر کیا ہے اِن کے متعلق سب جانتے ہیں کہ غلط ہیں لیکن انہیں چھوڑتے نہیں ۔ البتہ انہیں اگر بوقتِ غلط عمل ہی پوچھا جائے تو وہ اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اُس کتاب (قرآن شریف) پر عمل کریں جس کا ترجمہ کبھی اُنہوں نے پڑھا نہیں یا پڑھ کر بھُلا دیا ہے ؟

امریکہ ہو ۔ جرمنی یا فرانس ۔ ہالینڈ ہو یا کوئی اور مُلک سب جگہ ٹریفک پولیس موجود نہ بھی ہو تو گاڑی چلانے والا سڑک پر لگے اشاروں کی پابندی کرتا ہے ۔ پیدل چلنے والوں کو گاڑی کھڑی کر کے راستہ دیتا ہے بوڑھوں اور بچوں کا خاص خیال کرتا ہے ۔ اپنے پیارے مُلک پاکستان میں اجارا داری اور ہڑبونگ سے کام لینے والے یہ پڑھے لکھے لوگ ممالکِ غیر یعنی امریکہ اور یورپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے مگر اپنے مُلک میں اُن کے اچھے اطوار اپنانا اپنے اُوپر حرام کر رکھا ہے ۔ میں نے اُوپر فرنگی ممالک کا نام اسلئے لکھا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ اُن ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے ۔ میں نے لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی قوانین اور اصولوں کی ایسی ہی پابندی دیکھی

اسلام ایک ضابطہءِ حیات ہے ۔ ایک لائحہءِ عمل ہے ۔ یہ مسجد یا گھر میں بند کرنے کیلئے نہیں ہے اور نہ صرف نماز پڑھتے ہوئے یا کسی کی موت پر یاد آنے والی چیز ہے ۔ اسلام ہمہ وقت ہے اور گھر ۔ گلی ۔ سڑک ۔ بازار ۔ ہسپتال ۔ دفتر ۔ مسجد سب جگہ نافذالعمل ہے ۔ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے ۔ کسی اور کا نہیں ۔ مگر صورتِ حال یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی بدعملی کا الزام بھی دوسروں پر لگاتے ہیں ۔ حکومت یا مولوی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے تو اپنے ہموطنوں اور اپنے وطن کو بُرا کہیں گے ۔ کچھ تو یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ مُلک ہی رہنے کے قابل نہیں ۔ گویا وہ پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوئے اور نہ یہاں کا اناج کھایا ہے

ہمارے لوگوں کے مزاج کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ لاہوری دیگی چرغہ اُس وقت بھی بہت معروف اور پسندیدہ تھا جب میکڈونلڈ ۔ پِزا ہَٹ اور کے ایف سی کا دنیا میں کہیں نام نہ تھا ۔ 2009ء میں لاہور میں خیابان محمد علی جناح پر ایک دکان پر انگریزی میں لکھا دیکھا ”لاہور بروسٹ“ اور میں نے توجہ نہ دی ۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ وہ لاہوری دیگی چرغے کی دکان ہے تو میں دیگی چرغہ لینے گیا ۔
دکان دار سے پوچھا ” نام کیوں تبدیل کیا ؟“
بولا ”صاحب ۔ بناتے تو ہم دیگی چرغہ ہی ہیں ۔ کیا کریں ۔ اب لاہوری دیگی چرغہ کھانے والے بہت کم رہ گئے ۔ لوگ بروسٹ مانگتے ہیں اسلئے نام لاہور بروسٹ انگریزی میں لکھ دیا اور فروخت جو کم ہو گئی تھی بڑھ گئی ہے“۔

مجھے بچایئے

نامعلوم کب مجھ سے کوئی غلطی ہوئی کہ اس نے آ کر میرے کمپیوٹر میں براؤزر پر قبضہ جما لیا ہے
http://www.istartsurf.com

فی الفور آگے بڑھیئے اور میری مدد کیجئے قبل اس کے کہ میرا کوئی نقصان ہو جائے
میں اسے کیسے اپنے کمپیوٹر سے بھگاؤں ؟
میں نے سب جتن کر لئے مگر یہ جانے کا نام نہیں لیتا
سُنا ہے کہ یہ کمپیوٹر سے بہت کچھ چوری کر لیتا ہے اور بڑا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے
تمام ماہرینِ خواتین و حضرات سے فوری مدد کی درخوست ہے

کیا امریکہ سب سے غریب مُلک ہے

اگر اقوامِ متحدہ کی آخر 2013ء میں دنیا میں مہاجرین کی تعداد اور پناہ دینے والے ممالک کے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارا پاکستان دنیا کا امیر ترین مُلک ہے یا یوں کہیئے کہ ہمارے ہموطن دنیا میں سب سے زیادہ وسیع القلب ہیں اور امریکہ سب سے غریب مُلک ہے ۔ ایتھوپیا سے بھی زیادہ غریب
Refugees 2013

قطب مینار

میں نے ڈائری میں 31 مارچ 1958ء کو لکھاQutub Minar Delhi
یوں تو دنیا کے مختلف شہروں میں بہت سے بلند و بالا مینار ہیں جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے کچھ کم شاندار نہیں مگر سنگین مینار چوٹی سے زمین تک خوبصورت اور بلند اور قدیم سوائے قطب مینار کے اور کوئی نہیں ۔ قطب مینار خالص پتھر کا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بلندی 238 فٹ ہے ۔ مینار میں چوٹی تک 378 سیڑھیاں ہیں ۔ اس مینار کا پہلا درجہ اگرچہ رائے پتھورا کے زمانہ کا بنا ہوا ہے مگر 1193ء میں اسلامی فتوحات مکمل ہو جانے پر سُلطان قطب الدن ایبک نے اس پر چار درجوں کا اضافہ کرایا اور اس مینار کو مازنہ قرار دے کر اس نسبت سے ایک عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے معروف ہوئی ۔ جس مسجد کا ماذنہ اتنا بُلند ہو اس کی وسعت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ بت خانہ کے صحن میں ماذنہ اور مسجد کا ہونا اور بت خانہ کا بھی قائم رہنا اور لوہے کی لاٹ ہندو راج کا نشان سب کا ملا جُلا ایک جگہ ایک ہزار سال قائم رہنا یہ نظارہ سوائے دہلی کے اور کسی جگہ نظر نہیں آئے گا ۔ اب حال یہ ہے کہ نہ بُت خانہ میں پوجا ہوتی ہے نہ مسجد میں نماز نہ ماذنہ سے اذان

سُلطان قطب الدین ایبک کے انتقال کے بعد سلطان شمس الدین التمش 627 ھ بمطابق 1229ء میں مسجد قوت الاسلام میں تین درجوں کا اضافہ کیا جس پر اسلامی پرچم نہائت شان سے لہرایا کرتا تھا اور اسلام کے شیدائی شمس الدین التمش نے ہر درجہ پر جلی حروف میں آیاتِ قرآنی کندہ کروائیں ۔ قطب مینار نیچے سے 48 فٹ گول ہے اور اُوپر تک گاؤ دُم ہوتا چلا گیا ہے ۔ یہ ایسی خوبصورتی سے بنایا گیا ہےکہ تحریر سے باہر ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بڑی بڑی سِلیں اس زمانہ میں جبکہ آلاتِ جرثقیل اور سائنٹفک آلات موجود نہ تھے تو کس طرح اس بلندی پر پہنچ کر لگائی گئی تھیں کہ آج ایک ہزار سال ہو گئے لیکن اُکھڑنے کا نام نہیں لیتیں ۔ قطب مینار کی بنیاد کس ساعتِ سعید میں رکھی گئی ہو گی کہ ہندوؤں کے زمانہ میں اس کا پہلا درجہ بنا ۔ مسلمانوں نے اسے سربلند کیا ۔ ان کے عروج و کمال کو دیکھا ۔ پھر ان کے زوال کو بھی دیکھا اور نجانے کب تک انقلابِ لیل و نہار کا مشاہدہ کرتا رہے گا

اہم بات
جب 1950ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اٹلی میں موجود پِسا (Pisa) کے مینار کے تِرچھا یعنی ایک طرف کو جھُکا ہوا ہونے کا چرچا ہو رہا تھا والد صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ قطب مینار شروع دن سے ہی عمودی نہیں بلکہ کچھ تِرچھا بنا ہوا ہے جبکہ پِسا کا مینار تعمیر کی خامی کی وجہ سے جھُکنا شروع ہو گیا ہے ۔ مزید قطب مینار کی اُونچائی پِسا کے مینار سے 53 فٹ زیادہ ہے اور قطب مینار کی عمر پِسا کے مینار سے 180 سال زیادہ ہے مگر پروپیگنڈہ کے ذریعہ پِسا کے مینار کو عجوبہ قرار دیا جا رہا ہے اور قطب مینار کا نام کوئی نہیں لیتا

میاں بیوی ایک دوسرے کی بات کم سمجھتے ہیں

میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں

ہر شوہر (اور ہر بیوی) یہ دعوٰی کرتا (یا کرتی) ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا (یا جانتی) ہے ۔ اس کے باوجود اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ شوہر ان کی بات نہیں سُنتے ۔ اس کے برعکس اکثر شوہروں کو یہ شکائت ہوتی ہے کہ ان کی بیگم ان کی بات دھیان سے نہیں سُنتی ۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نہ جاننا ہے

اکثر میاں بیوی طے کر لیتے ہیں کہ ان کی (یا کے) شریکِ حیات ان کے بارے میں سب کچھ جانتی (یا جانتے) ہیں لہٰذا آپس میں کچھ بتاتے ہوئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن جب کسی دوسرے سے بات ہوتی ہے تو اُسے بات تفصیل سے بتائی جاتی ہے چنانچہ عام طور پر میاں بیوی کی نسبت دوسرے بات سمجھ لیتے ہیں ۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کر لینا کی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت نکلتا ہے

قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے اشارے کنائے یا مختصر جُملے سے کام لیتے ہیں اس گمان میں کہ سمجھ آجائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ذہن کو جھٹکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس جب ہم کسی اجنبی سے بات کرتے ہیں تو ہم ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اُسے ہر چیز اچھی طرح سے سمجھاتے ہیں

یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں گہرے دوستوں کا بھی ہے جو اسی زعم میں ہوتے ہیں کہ دوسرا اُسے اچھی طرح جانتا ہے اور بات وضاحت کے ساتھ نہیں کرتا ۔ نتیجہ غلط فہمیوں اور جھگڑوں میں نکلتا ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔دل و دماغ

ناکامی کو دل میں جگہ نہ دیجئے
ناکامی دل میں مایوسی پیدا کرتی ہے
اور
کامیابی کو دماغ میں جگہ نہ دیجئے
کامیابی دماغ میں تکبّر پیدا کرتی ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Earthquake predicted by animals “