Category Archives: یادیں

یقین

بِلُو بِلا صاحب نے “کرتوتوں کی سزا” کے عنوان کے تحت ایک رکشا والے کی بات بیان کی تو مجھے ایک اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ یاد آیا لیکن پہلے میں یہ بتا دوں کہ یقین کسے کہتے ہیں ۔ یقین یا ایمان ایک ہی عمل کے دو نام ہیں ۔ آج دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ مسلمان ہیں مگر بے کس اور مجبور ۔ ہر مسلمان دعوٰی کرتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ حقیقت میں یہ بات بھاری اکثریت کے صرف ہونٹوں یا زیادہ سے زیادہ زبان کی نوک سے آگے اندر نہیں جاتی ۔ دل و دماغ میں یقین غیراللہ پر ہوتا ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مسلمان اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اللہ کی مدد کیلئے پکارے اور مدد نہ آئے

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آدھی صدی کے قریب پرانا واقعہ ہے ۔بارشں نہیں ہو رہی تھی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کئی دن تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے ۔ خشک سالی کا اندیشہ تھا جس کا نتیجہ قحط ہو سکتا تھا ۔ راولپنڈی کی مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ بتایا گیا کہ شہر سے باہر پیدل جا کر پڑھی جائے گی ۔ ایک اجتماع ہیلی واٹر ورکس جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے موسوم ہوا کے قریب اور دوسرا ٹوپی رکھ میں جو بعد میں ایوب نیشنل پارک کے نام سے موسوم ہوئی ۔ یہ راولپنڈی کی دو اطراف تھیں آبادی سے باہر ۔ مرد اور لڑکے جوق در جوق گھروں سے نکلے ۔ اس وقت کے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان بھی ٹوپی رکھ پہنچے ۔ میں دوسروی طرف یعنی ہیلی واٹر ورکس کی طرف گیا ۔ وہاں اتنے لوگ تھے کہ دور دور تک زمین نظر نہ آتی تھی ۔ نہ کوئی لاؤڈ سپیکر تھا اور نہ کوئی صف بچھی تھی ۔ کرتار پورہ کی بڑی مسجد کے خطیب مولوی عبدالحکیم صاحب جو ہمارے سکول میں اُستاذ رہ چکے تھے اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے نے امامت کرائی ۔ نماز کے بعد دعا شروع ہوئی ۔ اتنی خاموشی تھی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کہ دور دور تک آواز سنائی دی ۔ امام رو رہے تھے اور مقتدی بھی سسکیاں لینے لگے ۔ نہ ہمیں وقت کا احساس ہوا نہ پتہ چلا کہ کب بادل آئے ۔ دعا ختم ہونے پر گھروں کا رُخ کیا ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ بارش شروع ہو گئی گھر پہنچنے تک تیز بارش شروع ہو چکی تھی

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ میں بھی نمازِ استسقاء پڑھی گۓي تھی مگر ایوانِ صدر میں اور مساجد میں ۔ نہ کوئی گڑگڑایا نہ کسی نے آنسو بہائے اور بادل بھی شاید دور قہقہے لگاتے رہے ہوں مگر قریب نہ آئے ۔ ايوب خان بھی جنرل اور صدر تھا اور پرویز مسرف بھی جنرل اور صدر لیکن فرق واضح ہے

بچے

یونہی ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے کچھ بچوں کی باتوں نے ذہن میں آ کر مسکرانے پر مجبور کر دیا ۔ سوچا شاید قارئین بھی محظوظ ہوں

ایک خاتون نے اپنے بھائی سے کہا “دیکھو کوئی ایسی بات نہ کہنا کہ میرا دل بیٹھ جائے “۔ پاس تین چارسالہ بچہ بیٹھا تھا بولا “ماموں ۔ نہ ۔ امی کا دل سویا ہے اُٹھ کے بیٹھ جائے گا”

ایک خاتون سے اس کا ایک بیٹا کچھ مانگ رہا تھا اُس نہ کہا “تنگ نہ کرو”۔ چھوٹا بیٹا جو 3 سال کا تھا بولا “امی کو تنگ نہیں کرو ۔ کھُلا کرو ۔ کھُلا کرو”

ایک خاتون کا بھائی کئی سال بعد اسکے گھر آیا ۔ وہ باورچی خانہ سے آ کر بھائی کے ساتھ گپ لگانے لگ گئی ۔ کچھ دیر بعد باورچی خانہ سے پٹاخ پٹاخ کی آوازیں آنے لگیں ۔ وہ باورچی خانہ میں گئی تو اس کا ساڑھے تین سالہ بیٹا بڑی چھُری پکڑے چوکی پر مار رہا تھا ۔ اس نے اسے کہا “آؤ ماموں کو سلام کرو”۔ مگر بچہ باز نہ آیا ۔ اس نے بچے سے چھُری لینے کی کوشش میں کہا “یہ مجھے دو ۔ کس کو ذبح کرنا ہے”۔ بچہ بلا توقف بولا “ماموں کو”

میرا بڑا بیٹا زکریا ابھی تين سال سے چھوٹا تھا تو میں نے اُسے ایک لیگو سیٹ [Lego] لا کر دیا ۔ وہ اسے لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا ۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ڈرائنگ روم سے پٹاخ پٹاخ کی آوازوں کے ساتھ زکریا کی آواز آئی “گندھا بچہ ۔ میں نہیں کھيلتا”۔ میں ڈرائنگ روم میں پہنچا تو دیکھا کہ زکریا بہت غُصے میں ہے اور لیگو اِدھر اُدھر پھينک رہا ہے ۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا “میں بناتا ہوں ۔ یہ گندھا ٹوٹ جاتا ہے”۔ میں نے کہا “اچھا میرے سامنے بناؤ” ۔ وہ کیا کرتا تھا کہ ايک گوٹ نيچے رکھتا اس پر کراس دوسری پھر کراس تیسری ۔ اونچا مینار بنانے کیلئے اس طرح لگاتا جاتا ۔ جب وہ اونچا ہوتا تو اور گوٹ لگاتے ہوئے ٹوٹ جاتا ۔ میں نے طریقہ سمجھایا کہ نيچے زیادہ گوٹیں لگائے پھر کم کرتا جائے ۔ اس طرح جب مینار بن کر کھڑا رہا تو زکریا خوش ہو گیا

میرے بہنوئی ہمیں ملنے واہ آئے ۔ میں گھر پر نہ تھا تو انہوں نے سوچا کہ میری بڑی بہن کو مل لیتے ہیں ۔ وہ زکریا کو جو اس وقت تقریباً تین سال کا تھا ساتھ لے گئے ۔ گھر قریب ہی تھا اسلئے پيدل ہی گئے ۔ زکریا سارا راستہ خاموش رہا ۔ واپس آتے ہوئے میرے بہنوئی نے زکریا سے کہا “آپ باتیں نہیں کرتے ۔ کیا بات ہے ؟” تھوڑی دیر بعد زکریا نے اُوپر کی طرف اشارہ کر کے کہا “وہ دیکھیں”۔ انہوں نے اُوپر دیکھا تو بجلی کی تاروں کے سوا کچھ نطر نہ آیا تو انہوں نے کہا “زکریا ۔ اُوپر کیا ہے ؟” زکریا بولا “تار پر مچھر بیٹھا ہے”

اُن دنوں ہم لبیا کے شہر طرابلس میں تھے ۔ میرا چھوٹا بیٹا تقریباً 3 سال کا تھا ۔ کہنے لگا “مجھے چاکلیٹ لینا ہے”۔ میں نے کہا “مجھے نہیں معلوم چکلیٹ کہا ملتی ہے”۔ کہنے لگا “فلاں سٹور میں”۔ میں نے کہا “مجھے معلوم نہیں یہ سٹور کہاں ہے”۔ جا کر پنسل اور کاغذ لے آیا اور ایک خانہ بنا کر کہنے لگا “یہ ہمارا گھر ہے نا”۔ پھر لکیریں لگاتا گیا اور بولتا گیا “یہاں سے باہر نکلیں پھر بائیں مُڑیں پھر داہنے مُڑیں پھر بڑی سڑک پار کریں پھر تھوڑا سا داہنی طرف جائیں ۔ یہ سٹور ہے ۔ اس کے اندر چلے جائیں پھر اِدھر جائیں پھر اُدھر تو یہاں پر چکلیٹ ہوتی ہے ۔ جا کر لے آئیں”۔ بیٹے نے میرے لئے کوئی گنجائش نہ چھوڑی تھی ۔ میں گیا تو چاکلیٹ عین اُسی جگہ تھی

میں 1964ء میں لاہور آیا تھا تو ایک دوست سے ملنے اسکے گھر گیا ۔ وہ کہنے لگا “کہیں باہر چلتے ہیں ۔ میری بہن آئی ہوئی ہے ۔ اس کے دو طوفان میل بچے ہیں وہ ہمیں سکھ سے نہیں بيٹھنے دیں گے” ۔ میں نے کہیں جانے سے انکار کر دیا اور اسے اپنے بھانجوں سے ملوانے کا کہا ۔ چند منٹ بعد وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا “میں ابھی آتا ہوں ۔ وہ ابھی کمرے میں ہیں تھوڑی دیر میں آ کر تمہاری طبیعت صاف کر دیں گے”۔ میں صحن میں چارپائی پر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھُلا اور ایک چار پانچ سالہ بچے نے جھانکا ۔ اس کے بعد ایک تین چار سالہ بچے نے جھانکا ۔ یہ عمل چند بار دہرایا گیا تو میں نےمسکرا کر بچے کو ہاتھ کے اشارے سے بُلایا ۔ وہ آیا نہیں مگر واپس جانے کی بجائے دروازے میں کھڑا رہا ۔ پھر دوسرا بھی آ کر کھڑا ہو گیا ۔ پھر وہ ايک دوسرے سے دھکم پیل کرنے لگے ۔ اتنے میں میرا دوست واپس آ گیا ۔ میں نے اسے کہا “مجھے دو چار کاغذ دے دو” ۔ وہ مجھے ایک کاپی دے گیا ۔ میں نے اس میں سے ایک ورق نکال کر اس کی چڑیا بنائی اور ان بچوں کو دکھا کر کہا “میرے پاس آؤ ۔ میں یہ چڑیا آپ کو دوں گا”۔ مگر کوئی نہ آیا ۔ میں نے چڑیا چارپائی پر رکھ کر ایک اور چڑيا بنانا شروع کر دی ۔ ایک بچہ بھاگ کر آیا اور چارپائی پر پڑی چڑیا لے گیا ۔ دوسرے نے اس سے چھين کر مچوڑ دی ۔ وہ لڑنے لگے تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا اور کہا “میں اور چڑیا بنا دیتا ہوں ۔ آپ دونوں کو بنا کر دوں گا”۔ جب میں نے دو چڑیاں بنا کر انہیں دکھائیں تو دونوں میرے پاس آ کر لے گئے اور کمرے میں چلے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد میرے پاس آئے تو ایک تھوڑی مُچڑی ہوئی چڑیا مجھے دی ۔ میں نے اسے ٹھیک کر دیا ۔ اس کے بعد ان سے باتیں شروع کیں ۔ بعد میں اپنی کتابیں لانے کو کہا ۔ وہ دونوں قاعدے لے کر آ گئے ۔ مجھے اپنا سبق سنایا ۔ پھر میں آگے پڑھا رہا تھا کہ میرا دوست کھانے پینے کا سامان لئے نمودار ہوا ۔ دیکھتے ہی کہنے لگا “واہ شنا اجمل ۔ تم نے تو شیطانوں انسان بنا دیا”

اللہ کرے ہماری قوم میں صبر کا مادہ پیدا ہو جائے تو سارے شیطان انسان بن جائیں

انسان کے تخیّل سے باہر

دنیا میں کچھ ایسے عوامل یا واقعات ہوتے رہتے ہیں جو انسان کی عقل و سوچ سے باہر ہوتے ہیں شاید انہی کو معجزہ کہا جاتا ہے ۔ یہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی کا بنایا نظام ہے ۔ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جن کو اللہ پر یقین نہ رکھنے والے نہیں سمجھ سکتے

جڑواں کائری اور بری ایل 17 اکتوبر 1995ء کو میسا چوسیٹ میموریل ہسپتال میں پیدا ہوئیں ۔ پیدائش کے وقت ہر ایک کا وزن 2 پاؤنڈ تھا اور ان کی صحت کچھ ٹھیک نہ تھی ۔ اُن دونوں کو علیحدہ rescue_hug علیحدہ اِنکیوبیٹرز میں رکھا دیا گیا ۔ کائری کا وزن بڑھنا شروع ہو گیا اور وہ صحتمند ہوتی گئی لیکن بری ایل کا وزن نہ بڑھا اور اسے کوئی افاقہ نہ ہوا ۔ وہ روتی رہتی جس سے اس کی سانس بھی رُکنے لگتی اور رنگ نیلا ہو جاتا ۔ کچھ دن بعد بری ایل کی حالت خراب ہو گئی ۔ نرس نے بہت جتن کئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر نرس نے ہسپتال کے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بری ایل کو کائری کے ساتھ اسکے اِنکوبیٹر میں ڈال دیا ۔ چند ہی لمحے بعد کائری نے کروٹ لے کر اپنا ایک بازو بری ایل پر رکھ دیا ۔ اس کے بعد بری ایل کی حالت سدھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانس ٹھیک ہو گئی اور رنگ بھی گلابی ہو گیا اور وہ صحتمند ہونے لگی

میں اُن دنوں لبیا میں تھا ہمیں پاکستان سے ڈاک ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعہ تین دن میں مل جایا کرتی تھی ۔ اپریل 1981ء میں میری بڑی بہن کا خط ملا کہ “والد صاحب تمہیں یاد کرتے ہیں”۔ میرے ذہن نے کہا کہ والد صاحب تو ہمیشہ ہی یاد کرتے ہیں ۔ یہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ میں نے دو ہفتے کی چھٹی لی اور بیوی بچوں سمیت پاکستان پہنچا ۔ سٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی اپنے گھر پہنچا تو والد صاحب کو وہاں نہ پا کر سیدھا بڑی بہن کے گھر واہ چھاؤنی پہنچا ۔ دیکھا تو والد صاحب بے سُدھ بستر پر لیٹے ہیں اور خُون چڑھایا جا رہا ہے

میں نے اپنی بڑی بہن جو ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ ہیں کو کمرہ سے باہر لیجا کر پوچھا کہ ” کیا ہوا ؟” وہ آنسو بہاتے ہوئے بولیں “سپیشلسٹس بورڈ نے نااُمید کر دیا تھا اور کہا کہ ان کے بڑے بیٹے کو بُلا لیں تو میں نے آپ کو خط لکھ دیا”۔ ہم کمرہ میں واپس گئے تو میری بیوی اور بچے پریشانی میں گُم سُم کھڑے میرے والد صاحب کی طرف دیکھے جا رہے تھے ۔ باجی نے ابا جان کو ہلا کر کہا ” ابا جی ۔ دیکھیں اجمل آیا ہے اور ساتھ بچے بھی ہیں “۔ والد صاحب نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکے ۔ میں نے آگے بڑھ کر والد صاحب کا ہاتھ چُوما اور پھر اُن کا ہاتھ پکڑے اُن کے بستر پر بیٹھ گیا

دوسرے دن صبح ڈاکٹر صاحب دیکھنے آئے تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے “اچھا کیاکہ آپ آ گئے ۔ ہم اپنے پورے جتن کر چکے تھے “۔ والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے تو والد صاحب نحیف آواز میں بولے “ڈاکٹر صاحب ۔ یہ میرا بیٹا ہے “۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے میری طرف دیکھ کر والد صاحب سے کہا “ہاں ۔ اب اِن شاء اللہ آپ جلد ٹھیک ہو جائیں”

ڈاکٹر صاحب روزانہ آتے تھے ۔ تین دن بعد والد صاحب بیٹھ کر یخنی پی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب پہنچے اور والد صاحب کو دیکھتے ہی بڑے جوش سے بولے “بزرگوار ۔ آپ نے ہمیں فیل کر دیا اور اجمل صاحب پاس ہو گئے ۔ اب اللہ کے فضل سے آپ تیزی کے ساتھ صحتمند ہو رہے ہیں”

اللہ کی کرم نوازی کہ والد صاحب دس دن میں بالکل تندرست ہو گئے ۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ صرف میرا قُرب تھا جس کو بہانہ بنا کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے شفاء دینا تھی

قارئین کی فرمائش پر

نعمان صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ سوال اُٹھائے تھے ۔ میں دوسرے کاموں میں کافی مصروف تھا اسلئے جلدی میں جواب لکھا تھا جو کہ جامع نہ تھا ۔ کئی قارئین نے اصرار کیا کہ اسے میں سرِورق پر شائع کروں اور مکمل جواب لکھوں ۔ اب جواب مکمل کرنے کوشش کی ہے اور جوابات کی ترتیب سوالات کی ترتیب کے مطابق کر دی ہے

نعمان صاحب کا تبصرہ
قصہ مختصر صرف یہ لکھ دیتے کہ بھٹو فیملی ولن اور ضیا اور ان کی باقیات پاکستان کی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ اس تاریخ میں‌سے آپ کئی شاندار کارنامے جان بوجھ کر نظر انداز کرگئے۔ جیسے

1 ۔ پاکستان کے ایٹمی منصوبے کا آغاز اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس پر کام جاری رکھنا۔
2 ۔ قوم کو ایک متفقہ آئین دینا۔
3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد رکھنا۔
4 ۔ بڑے صنعتی اداروں‌ جیسے اسٹیل مل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا، بن قاسم بندرگاہ وغیرہ کا آغاز کرنا
5 ۔ ضیاالحق کے کارنامے جیسے امریکہ سے پیسے بٹور کر مجاہد تیار کرنا اور امریکہ کی فتح کے لئے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنا۔ پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کا گڑھ بنانا اور ایجنسیوں‌کو سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرنا وغیرہ۔
6 ۔ قرض‌اتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے کے گھپلے،
7 ۔ راؤنڈ اسٹیٹ کے بھارت کے ساتھ چینی اور پیاز کی تجارت سے کروڑوں‌ روپے کے منافعے۔ وغیرہ وغیرہ

میرا جواب
1 ۔ میں کسی طرح پروگرام کے شروع میں منسلک رہا تھا ۔ صرف اتنا بتا دوں کہ واویلہ بہت ہے لیکن سوائے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاکستان آنے کے اور کچھ نہیں ہوا تھا ۔ کام 1977ء کے آخر میں شروع ہوا ۔ آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کچھ دیا بھی ہے ۔ میری اُن سے سیاسی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے مجھے دو قومی سطح کے اہم پروجیکٹس سونپے تھے اور اللہ کے فضل سے میں اُن کے اعتماد پر پورا اُترا ۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کام کیا تھا تو میں نہیں بتاؤں گا

2 ۔ متفقہ آئین وقت کی مجبوری بن گیا تھا کیونکہ 1970ء میں مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کا ووٹ بنک 33 فیصد سے کم رہا تھا ۔ آئین منظور ہوتے ہی بھٹو صاحب نے سات ترمیمات کر کے جو متفقہ آئین کا حشر کر دیا تھا وہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا ؟

3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد بھٹو صاحب نے نہیں ضیاء الحق نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر رکھی تھی ۔ اور مکمل کامیابی نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوئی

4 ۔ سٹیل مل کو بغیر متعلقہ صنعتوں کے لگانا حماقت تھی جو ناجانے کس کے مشورہ پر بھٹو صاحب نے کیا وہ آدمی تو ذہین تھے پھر نامعلوم کیا مجبوری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سٹیل مل نقصان میں جا رہی ہے ۔ بعد میں سٹیل مل کی تباہی میں ایم کیو ایم کا کردار اہم ہے جس کے 2400 کارکُن ہر ماہ ایک دن کیلئے صرف تنخواہ لینے سٹیل مل جاتے تھے ۔ ان کو 1992ء کے بعد لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان نے فارغ کیا تھا جب جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے ۔ بن قاسم پورٹ سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا اسلئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا [ایچ آئی ٹی] کی منصوبہ بندی یحیٰ خان کے دور میں ہوئی لیکن قومی دفاعی ضرورتوں نے پی او ایف کی توسیع پر مجبور کیا اسلئے تاخیر ہوئی ۔ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایچ ایم سی اور ایچ ایف ایف میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے وہ خسارے میں جا رہی تھیں اسلئے فوج کا سربراہ ایچ آئی ٹی میں سیاسی بھرتیوں کے خلاف تھا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایچ آئی ٹی پر کام ضیاء الحق کے دور میں ہوا

5 ۔ ضیاء الحق کی خامیاں بطور فوجی ڈکٹیٹر وہی تھیں جو باقی سب ڈکٹیٹرز کی تھیں اور اُن کو اتنا مشتہر کیا جا چکا ہے کہ میرےبتانے کی ضرورت نہیں رہی البتہ اُس پر چند الزامات صرف بُغز کی بنا پر ہیں ۔ پاکستان میں بندوق کلچر کی ابتداء ایف ایس ایف [Federal Security Force] سے شروع ہوئی جسے بھٹو صاحب نے پولیس اور رینجرز کے مقابلے میں آوارہ قسم کے جیالے اور دوسرے مجرم پیشہ جوانوں کو بھرتی کر کے تیار کیا تھا اور جس کے ایک جتھے نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کیلئے فائرنگ کی تھی اور ہلاک اُس کا باپ ہوا ۔ اسی کو بہانا بنا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی ۔ ضیاء الحق نے امریکہ کو براہِ راست پاکستان تو کیا افغانستان میں بھی مداخلت نہ کرنے دی جس کا مالی اور سیاسی فائدہ پاکستان کو ہواتھا ۔ ہوسکتا ہے کہ راستے [pipe line] میں کچھ فوجیوں نے بھی جیبیں بھری ہوں ۔ہیروئین کس نے اور کیوں بنائی میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اگر آپ درست کہتے ہیں تو یہ بتائیں ہیروئین اس وقت افغانستان میں کیوں سب سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان میں مْلا عمر کے دور میں بالکل بند ہو گئی تھی اور اب پاکستان میں نام نہاد طالبان ہونے کے باوجود اس کی پیداوار نہیں ہے ؟ سیاستدانوں‌کو بلیک میل کرنے کے لئے ایجنسیوں‌کا استعمال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا اور پھر بڑھتا ہی گیا ۔ بھٹو کے حُکم پر اس کے کئی شکار ہوئے جن میں غلام مصطفٰے کھر اور افتخار کھاری مشہور ہیں

6 ۔ قرض‌ اتارو ملک سنوارو کے سلسلہ میں اربوں روپے جمع ہی نہیں ہوئے تھے ۔ اس نعرے کا تعلق میاں نواز شریف سے ہے اگر گھپلا ہوا ہوتا تو بینظیر اور پرویز مشرف نے اتنے جھوٹے مقدمے نواز شریف کے خلاف بنائے تھے ایک سچا بنا کر اُس پر فتح حاصل کر لیتے

7 ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور شروع ہوا تو بازار میں پیاز ایک روپے کا 2 کلو ملتا تھا ۔ ایک سال بعد پیاز 5 روپے فی کلو ہو گیا ۔ لوگ کہتے تھے “واہ بھٹو ۔ سچ کہا تھا جب میری حکومت آئے گی تو کوئی غریب مزور پیاز سے روٹی نہیں کھائے گا “۔ [بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران ٹیکسلا میں ہونے والے جلسہ میں یہ کہا تھا] ۔ ہر سال پیاز کی فصل مڈل مین پیشگی بہت سستے داموں خرید لیتے ۔ فصل ہونے پر گوداموں میں ڈال دیتے اور دس گُنا قیمت پر بیچتے ۔ جو پیاز بچ جاتا اُسے نالوں میں پھینک دیا جاتا ۔ چینی ۔ گھی ۔ وغیرہ کا حال پیاز سے صرف اتنا مختلف تھا انہیں پھینکا نہیں سرحد پار بیچا جاتا تھا ۔ ضیاالحق کے زمانہ میں پیاز اور چینی پہلے سے کم داموں پر بکتی رہی ۔ دکانداروں کی منافع خوری روکنے کیلئے جمعہ بازار شروع کئے جہاں صرف کاشتکاروں اور آڑھتیوں کو اجازت تھی کہ سبزیاں ۔ پھل اور دوسری اشیاء بیچیں جس سے چیزیں سستی دستیاب ہونے لگیں ۔ بھارت سے آلو کی درآمد بینظیر بھٹو کے دور میں ہوئی جس پر جیالوں نے مال بنایا ۔ نئی فصل کی قیمت پر خریدا ہوا پرانا آلو بہت جلد خراب ہو گیا اور نقصان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کے کارندوں نے مہنگے داموں گھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو دیا ۔ عوام نے شور کیا تو بینظیر بھٹو نے کم قیمت پر بیچنے کا حُکم دیا ۔ یہ نقصان بھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ وہ دن اور آج کا دن اس ادارے کی حالت پتلی ہے

نعمان صاحب کی بلاگ پر بھی میرے تبصرے پڑھ لیجئے

کیا یاد کرا دیا

میرے وطن کے عضوء عضوء میں زخم لگانے والے سنگ دلوں نے ذہن اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا تا ہوں تو الفاظ ہی کوسوں دُور بھاگ جاتے ہیں اور ذہن اُن کو کھینچنے میں معذور دکھائی دیتا ہے کہاں بچپن ۔ لڑکپن اور جوانی کی باتیں اور ولولے ۔ وہ تو قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ تانیہ رحمان صاحبہ نے میرے لڑکپن کی محبوب غزل یاد دلا دی ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تانیہ رحمان صاحبہ کا شکریہ ادا کروں یا عرض کروں کہ مجھے یادِ ماضی دِلا کر تڑپایا کیوں ؟

اے جذبہ دل گر ميں چاہوں ہر چيز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے

اے دل کی خلِش چل يوں ہی سہی چلتا تو ہوں انکی محفل ميں
اس وقت مجھے چونکا دينا ۔ جب رنگ پہ محفل آجائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تيار تو ہوں ۔ پر ياد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دينا جب سامنے منزل آجائے

ہاں ياد مجھے تم کر لينا ۔ آواز مجھے تم دے لينا
اس راہِ محبت ميں کوئی درپيش جو مشکل آجائے

اب کيوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
ميں چاہتا ہوں اے جذبہ غم ۔ مشکل پہ مشکل آجائے

شاعر ۔ بہزاد لکھنوی