نعمان صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ سوال اُٹھائے تھے ۔ میں دوسرے کاموں میں کافی مصروف تھا اسلئے جلدی میں جواب لکھا تھا جو کہ جامع نہ تھا ۔ کئی قارئین نے اصرار کیا کہ اسے میں سرِورق پر شائع کروں اور مکمل جواب لکھوں ۔ اب جواب مکمل کرنے کوشش کی ہے اور جوابات کی ترتیب سوالات کی ترتیب کے مطابق کر دی ہے
نعمان صاحب کا تبصرہ
قصہ مختصر صرف یہ لکھ دیتے کہ بھٹو فیملی ولن اور ضیا اور ان کی باقیات پاکستان کی تاریخ کے ہیرو ہیں۔ اس تاریخ میںسے آپ کئی شاندار کارنامے جان بوجھ کر نظر انداز کرگئے۔ جیسے
1 ۔ پاکستان کے ایٹمی منصوبے کا آغاز اور امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس پر کام جاری رکھنا۔
2 ۔ قوم کو ایک متفقہ آئین دینا۔
3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد رکھنا۔
4 ۔ بڑے صنعتی اداروں جیسے اسٹیل مل، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا، بن قاسم بندرگاہ وغیرہ کا آغاز کرنا
5 ۔ ضیاالحق کے کارنامے جیسے امریکہ سے پیسے بٹور کر مجاہد تیار کرنا اور امریکہ کی فتح کے لئے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنا۔ پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کا گڑھ بنانا اور ایجنسیوںکو سیاستدانوںکو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرنا وغیرہ۔
6 ۔ قرضاتارو ملک سنوارو کے اربوں روپے کے گھپلے،
7 ۔ راؤنڈ اسٹیٹ کے بھارت کے ساتھ چینی اور پیاز کی تجارت سے کروڑوں روپے کے منافعے۔ وغیرہ وغیرہ
میرا جواب
1 ۔ میں کسی طرح پروگرام کے شروع میں منسلک رہا تھا ۔ صرف اتنا بتا دوں کہ واویلہ بہت ہے لیکن سوائے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پاکستان آنے کے اور کچھ نہیں ہوا تھا ۔ کام 1977ء کے آخر میں شروع ہوا ۔ آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کچھ دیا بھی ہے ۔ میری اُن سے سیاسی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے مجھے دو قومی سطح کے اہم پروجیکٹس سونپے تھے اور اللہ کے فضل سے میں اُن کے اعتماد پر پورا اُترا ۔ اگر آپ پوچھیں گے کہ کام کیا تھا تو میں نہیں بتاؤں گا
2 ۔ متفقہ آئین وقت کی مجبوری بن گیا تھا کیونکہ 1970ء میں مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کا ووٹ بنک 33 فیصد سے کم رہا تھا ۔ آئین منظور ہوتے ہی بھٹو صاحب نے سات ترمیمات کر کے جو متفقہ آئین کا حشر کر دیا تھا وہ آپ کو کسی نے نہیں بتایا ؟
3 ۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کی بنیاد بھٹو صاحب نے نہیں ضیاء الحق نے جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر رکھی تھی ۔ اور مکمل کامیابی نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوئی
4 ۔ سٹیل مل کو بغیر متعلقہ صنعتوں کے لگانا حماقت تھی جو ناجانے کس کے مشورہ پر بھٹو صاحب نے کیا وہ آدمی تو ذہین تھے پھر نامعلوم کیا مجبوری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک سٹیل مل نقصان میں جا رہی ہے ۔ بعد میں سٹیل مل کی تباہی میں ایم کیو ایم کا کردار اہم ہے جس کے 2400 کارکُن ہر ماہ ایک دن کیلئے صرف تنخواہ لینے سٹیل مل جاتے تھے ۔ ان کو 1992ء کے بعد لیفٹیننٹ جنرل صبیح قمرالزمان نے فارغ کیا تھا جب جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف تھے ۔ بن قاسم پورٹ سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا اسلئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا [ایچ آئی ٹی] کی منصوبہ بندی یحیٰ خان کے دور میں ہوئی لیکن قومی دفاعی ضرورتوں نے پی او ایف کی توسیع پر مجبور کیا اسلئے تاخیر ہوئی ۔ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایچ ایم سی اور ایچ ایف ایف میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے وہ خسارے میں جا رہی تھیں اسلئے فوج کا سربراہ ایچ آئی ٹی میں سیاسی بھرتیوں کے خلاف تھا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایچ آئی ٹی پر کام ضیاء الحق کے دور میں ہوا
5 ۔ ضیاء الحق کی خامیاں بطور فوجی ڈکٹیٹر وہی تھیں جو باقی سب ڈکٹیٹرز کی تھیں اور اُن کو اتنا مشتہر کیا جا چکا ہے کہ میرےبتانے کی ضرورت نہیں رہی البتہ اُس پر چند الزامات صرف بُغز کی بنا پر ہیں ۔ پاکستان میں بندوق کلچر کی ابتداء ایف ایس ایف [Federal Security Force] سے شروع ہوئی جسے بھٹو صاحب نے پولیس اور رینجرز کے مقابلے میں آوارہ قسم کے جیالے اور دوسرے مجرم پیشہ جوانوں کو بھرتی کر کے تیار کیا تھا اور جس کے ایک جتھے نے احمد رضا قصوری کو ہلاک کرنے کیلئے فائرنگ کی تھی اور ہلاک اُس کا باپ ہوا ۔ اسی کو بہانا بنا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی ۔ ضیاء الحق نے امریکہ کو براہِ راست پاکستان تو کیا افغانستان میں بھی مداخلت نہ کرنے دی جس کا مالی اور سیاسی فائدہ پاکستان کو ہواتھا ۔ ہوسکتا ہے کہ راستے [pipe line] میں کچھ فوجیوں نے بھی جیبیں بھری ہوں ۔ہیروئین کس نے اور کیوں بنائی میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اگر آپ درست کہتے ہیں تو یہ بتائیں ہیروئین اس وقت افغانستان میں کیوں سب سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے جبکہ افغانستان میں مْلا عمر کے دور میں بالکل بند ہو گئی تھی اور اب پاکستان میں نام نہاد طالبان ہونے کے باوجود اس کی پیداوار نہیں ہے ؟ سیاستدانوںکو بلیک میل کرنے کے لئے ایجنسیوںکا استعمال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا اور پھر بڑھتا ہی گیا ۔ بھٹو کے حُکم پر اس کے کئی شکار ہوئے جن میں غلام مصطفٰے کھر اور افتخار کھاری مشہور ہیں
6 ۔ قرض اتارو ملک سنوارو کے سلسلہ میں اربوں روپے جمع ہی نہیں ہوئے تھے ۔ اس نعرے کا تعلق میاں نواز شریف سے ہے اگر گھپلا ہوا ہوتا تو بینظیر اور پرویز مشرف نے اتنے جھوٹے مقدمے نواز شریف کے خلاف بنائے تھے ایک سچا بنا کر اُس پر فتح حاصل کر لیتے
7 ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور شروع ہوا تو بازار میں پیاز ایک روپے کا 2 کلو ملتا تھا ۔ ایک سال بعد پیاز 5 روپے فی کلو ہو گیا ۔ لوگ کہتے تھے “واہ بھٹو ۔ سچ کہا تھا جب میری حکومت آئے گی تو کوئی غریب مزور پیاز سے روٹی نہیں کھائے گا “۔ [بھٹو نے انتخابی مہم کے دوران ٹیکسلا میں ہونے والے جلسہ میں یہ کہا تھا] ۔ ہر سال پیاز کی فصل مڈل مین پیشگی بہت سستے داموں خرید لیتے ۔ فصل ہونے پر گوداموں میں ڈال دیتے اور دس گُنا قیمت پر بیچتے ۔ جو پیاز بچ جاتا اُسے نالوں میں پھینک دیا جاتا ۔ چینی ۔ گھی ۔ وغیرہ کا حال پیاز سے صرف اتنا مختلف تھا انہیں پھینکا نہیں سرحد پار بیچا جاتا تھا ۔ ضیاالحق کے زمانہ میں پیاز اور چینی پہلے سے کم داموں پر بکتی رہی ۔ دکانداروں کی منافع خوری روکنے کیلئے جمعہ بازار شروع کئے جہاں صرف کاشتکاروں اور آڑھتیوں کو اجازت تھی کہ سبزیاں ۔ پھل اور دوسری اشیاء بیچیں جس سے چیزیں سستی دستیاب ہونے لگیں ۔ بھارت سے آلو کی درآمد بینظیر بھٹو کے دور میں ہوئی جس پر جیالوں نے مال بنایا ۔ نئی فصل کی قیمت پر خریدا ہوا پرانا آلو بہت جلد خراب ہو گیا اور نقصان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ اسی طرح بینظیر بھٹو کے کارندوں نے مہنگے داموں گھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو دیا ۔ عوام نے شور کیا تو بینظیر بھٹو نے کم قیمت پر بیچنے کا حُکم دیا ۔ یہ نقصان بھی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو برداشت کرنا پڑا ۔ وہ دن اور آج کا دن اس ادارے کی حالت پتلی ہے
نعمان صاحب کی بلاگ پر بھی میرے تبصرے پڑھ لیجئے