Category Archives: یادیں

دل کا داغ جو مٹ نہ سکا

کچھ اصحاب کی خواہش پوری کرتے ہوئے میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا
کچھ اصحاب کے کی خواہش پر میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں

ایک خواہش

شاعر نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

دم نکلنا تو بہت بڑی بات ہے میں نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں کہ جس کے پورا ہونے میں کوئی اور فرد شامل ہو ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے بزرگوں کی تربیت کا اثر ہے یا کہ میرے اساتذہ کی تعلیم کا یا دونوں کا کہ میرے دل و دماغ میں زیادہ تر ایک خواہش ہی رہی ہے جو اُس وقت پیدا ہوئی جب میں چھٹی جماعت (اواخر 1948ء) میں پڑھتا تھا ۔ اس خواہش کے سبب مجھے کبھی ذہنی اور کبھی مالی زک اُٹھانا پڑی ۔ اس کے باوجود یہ خواہش الحمدللہ بدرجہ اتم موجود رہی اور اب تک قائم ہے

اس خواہش کو بیان کرنے کیلئے مجھے دو دہائیاں قبل مناسب زبان مل گئی اور میں نے اِسے جلی حروف میں لکھ کر اپنے مطالعہ کے کمرے میں نمایاں جگہ پر لگا دیا ۔ آتے جاتے نہ صرف میری نظر اس پر پڑتی بلکہ جو بھی اس کمرے میں داخل ہوتا اُس کی نظر اس پر پڑتی

ہم جولائی 2009ء میں لاہور چلے گئے اور فروری 2011ء میں واپس آئے ۔ مجھے شدید کالا یرکان (Hepatitis C) ہو جانے کی وجہ سے میں جون 2011ء تک زیرِ علاج رہا ۔ قبل ازیں 28 ستمبر 2010ء کو سر پر شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے میرا حافظہ بگڑ چکا تھا چنانچہ جب میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں گیا تو مجھے یاد نہ تھا کہ میں نے کوئی کاغذ الماری کے شیشہ پر چپکایا تھا ۔ خواہش باقی تھی لیکن وہ کاغذ الماری کے شیشے اور میرے ذہن دونوں سے غائب ہو چکا تھا

سردیوں سے قبل میں الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ وہ کاغذ مجھے ملا ۔ میں نے سنبھال کر رکھا کہ اسے نئے کاغذ پر لکھ کر لگانا ہے ۔ حافظہ نے پھر ساتھ نہ دیا ۔ اب مجھے کچھ اور تلاش کرتے ملا تو میں نے اپنے بلاگ پر محفوظ کرنے کا سوچا

میری خواہش

اے خدا جذبہءِ اِیثار عطا کر ہم کو
جو گُفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو

زندگی اِک نعمتِ رَبّانی ہے
آؤ اِس کی کچھ تعظیم کریں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں میں تقسیم کریں

روانگی

ہم نے 22 اور 23 جون 2012ء کی درمیانی شب دبئی جانا تھا ۔ 20 جون کو ایک قریبی عزیز کا میرے موبائل فون پر پیغام ملا

میرا لفظ لفظ ہے دعا دعا
میرے آنسوؤں سے دھُلا ہوا
تمہیں زندگی کی سحر ملے
تمہیں خوشیوں کا سفر ملے
تم پہ درد و غم بھی نہ آ سکے
تیری آنکھ نم بھی نہ ہو سکے
تیرا پیار جس پہ نثار ہو
وہ ھمیشہ تیرے پاس ہو
تم پہ خُوشیوں کی برسات ہو
اور طویل تیری حیات ہو
آمین

وہ انسان بہت خوش نصیب ہوتا ہے جسے بِن مانگے پُرخلوص نیک دعا ملے ۔ یہ اللہ کی مجھ پر خاص مہربانی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا کرم رہا اور ہمارے 2 ماہ بیٹے بہو بیٹی ۔ پوتے ابراھیم اور نو وارد پوتی ھناء کے ساتھ ایسے گذرے کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ یہاں واپس آنے کے بعد دن لمبے محسوس ہونے لگے ہیں ۔ اُدھر 3 سالہ پوتا ہر ہفتے کہتا ہے “دادا ۔ دادَو ۔ پھوپھو میرے گھر آ جاؤ”۔ پچھلے ہفتہ ابراھیم نے اپنے والدین سے کہا کہ ”دادا دادَو اگلے سال آئیں گے“۔ لیکن یہ گردان کہ ”پھوپھو کب آئیں گی ؟” ابھی جاری ہے ۔ ہم تو ابھی نہیں جا سکتے ۔ سوچتے ہیں کہ بیٹی (ابراھیم اور ھناء کی پھوپھو) کو بھیج دیا جائے

یہ ہمارا چھوٹے بیٹے کے ہاں چوتھا پھیرا تھا جو کہ پوتے کی پیدائش کے بعد تیسرا اور پوتی کی پیدائش کے بعد پہلا تھا ۔ دبئی کے چوتھے پھیرے کی چیدہ چیدہ باتیں اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً لکھوں گا

لڑکپن کی باتيں قسط 1 ۔ بادنُما

ميں ايک دستاويز کی تلاش ميں اپنے دارالمطالعہ ميں مختلف الماريوں ميں پڑی ہوئے کاغذات کے انباروں کو کھنگال رہا تھا کہ کچھ لڑکپن کی کارستانياں ہاتھ لگيں جو کاغذ کے خستہ ہو جانے کے باوجود نمعلوم کس طرح ضائع ہونے سے کئی دہائياں بچی رہيں ۔ انہيں ديکھ کر اُس زمانہ کی ياديں تازہ ہوئيں ۔ ايک فہرست ملی ميرے سميت ہماری دسويں جماعت حصہ الف مسلم ہائی سکول راولپنڈی کے طلباء کی جس ميں ان کے پنجاب يونيورسٹی کے 1953ء ميں دسويں کے امتحان ميں حاصل کردہ نمبر بھی لکھے ہيں ۔ يہ دستاويزات رفتہ رفتہ منظرِ عام پر لائی جائيں گی ۔ آج مزيد دو کا ذکر

يہ سکول ميں نويں جماعت کی ميری عام استعمال کی بياض [rough copy] کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر جو اشعار لکھے ہيں يہی ميرے لئے مشعلِ راہ رہے اور شايد انہی کی بناء پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے زندگی ميں کامياب کيا ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

نيچے ميری انجنيئرنگ کالج کے پہلے سال کی عام استعمال کی بياض کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر ميں نے اپنے لئے ھدايات لکھی تھيں اور ہر ماہ کی پہلی تاريخ کو انہيں پڑھ کر ميں اپنے کردار و عمل کو پرکھتا تھا کہ ميں جامد ہوں ۔ مائل بہ تنزل ہوں يا کہ ترقی کی طرف گامزن ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

بچپن کی ياد اور ہماری حالتِ زار

جب ميں سيکنڈ سٹينڈرڈ [شايد تیسری جماعت کے برابر] کا امتحان دے رہا تھا ۔ ميں نے اختياری مضمون موسيقی کا امتحان ديا تو جو گانا ميں نے موسيقی کے ساتھ گا کر اوّل انعام حاصل کيا تھا اْس کے بول يہ تھے

نگری ميری کب تک يونہی برباد رہے گی
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

2 جنوری کو ڈاکٹر عبدالقدير خان کی تحرير “اپنا ہُنر بيچتا ہوں” پڑھتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ يہ گانا برصغیر کے مشہور اِنقلابی شاعر نواب شبّیر حسن خان جوش فلم ڈائريکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کے اصرار پر انہوں نے فلم ”ایک رات“ کيلئے لکھا تھا ۔ ايک اور دلچسپ حقيقت يہ ہے کہ ڈبلیو زیڈ احمد صاحب اليکٹريکل انجيئر تھے اور انہوں نے ہميں انجيئرنگ کالج کے پہلے سال ميں پڑھايا بھی تھا ۔اس فلم کيلئے لکھنے پر معاوضہ ملا تھا جس کا نواب شبّیر حسن خان جوش صاحب کو قلق تھا اور انہوں نے يہ شعر لکھا

نہ ہوگا کوئی مجھ سا بھی تیرہ قسمت
میں کم بخت اپنا ہُنر بیچتا ہوں

انہوں نے ہندوستانیوں کی حالت زار بھی یوں بیان کی

سنا تو ہوگا تو نے ایک انسانوں کی بستی ہے
جہاں جیتی ہوئی ہر چیز جینے کو ترستی ہے

ڈاکٹر عبدالقدير خان لکھتے ہيں
چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں اسی لئے بیچنے والے کے نام سے اس کا پیشہ جُڑ جاتا ہے جیسے سبزی فروش، گندم فروش، موتی والا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک اور نہایت مکروہ اور قابل ہتک نام بھی ہے اور وہ ہے ”وطن فروش“ جسے عرف عام میں غدّار کہتے ہیں۔ بلکہ یہ نام یا لقب غدّار سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے کیونکہ غدّار تو ایک گروپ، فرقہ یا چند لوگوں سے بے وفائی کرتا ہے لیکن وطن فروش تو اپنے ہم وطنوں کی عزّت، غیرت، حمیت، جان و مال کا سودا کردیتا ہے۔ تاریخ میں ایسے وطن فروشوں کی کئی کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے نسلیں تا قیامت اُن پر لعنت بھیجتی رہینگی۔ سب سے مشہور مثال ہمارے سامنے بنگال کے میر جعفر اور دکن کے میر صادق کی ہے۔ جن کا ذکر علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں یوں کیا ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن
میر جعفر نے اگر نواب سراج الدولہ کے ساتھ غدّاری نہ کی ہوتی تو ہماری تاریخ مختلف ہوتی اور تمام انگریز وہیں نیست و نابود کردیے جاتے۔ اسی طرح میر صادق نے ٹیپو سلطان کے ساتھ غدّاری کی اور جنوبی ہند پر انگریزوں کا راج قائم ہوگیا ۔ بڑی بڑی حکومتیں غدّاری کے سبب فنا ہوگئیں

پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاسی لوگ اور بیورو کریٹس حکومت کے ہم نوا بن کر اقتدار اور دولت دونوں حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ایک صاحب ہیں جنھوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے دن ہمارے سامنے مٹھائی بانٹی اور آج ان سے بڑا مخالفین کو لعن طعن کرنے والا ملک میں نہیں ۔ پرویز مشرف کے آرمی چیف بننے اور حکومت پر قبضہ کرنے سے پیشتر ہی فوج کو اور عوام کو اس کے کردار کے بارے میں تمام باتوں کا علم تھا۔ جوں ہی اس نے حکومت پر ناجائز قبضہ کیا تو اپنے ساتھ لٹیروں کا ایک گروہ ملا لیا۔ ملک کی عزّت و وقار کو چند ٹکوں میں بیچ دیا ۔ ہمیں امریکی کالونی بنادیا ۔ اپنے ہزاروں شہریوں کو قتل کردیا اور دوسروں سے کرایا۔ اپنے لوگ بیچ کر اس بارے میں اپنی کتاب میں فخریہ اس کی رقم وصول کرنے کا ذکر کیا۔ عورتیں، بچّے، علماء، بزرگ سیاستداں نواب اکبر بگتی وغیرہ کو شہید کیا۔ چوروں لٹیروں کے اربوں روپے کے قرضے معاف کردیئے

ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں سرفروشوں کی عزّت کی جاتی تھی مگر اب ہم ضمیر فروشوں ، غدّاروں اور منافقوں کو ہیرو بنائے پھرتے ہیں ۔ اب وطن فروشوں نے ملک کے اندر ایسی پالیسیاں اختیار کرلی ہیں کہ بجائے جنگ کے ہم اقتصادی ، مالی اوراخلاقی طور پر ختم ہو کر پرانے غدّاروں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے

ڈاکٹر عبدالقدير خان نے ايک وطن فروش جماعت علی شاہ کا ذکر نہيں کيا جسے پرويز مشرف نے انڈس واٹر کميشن کا سربراہ بنايا تھاکہ پاکستان کے پانيوں کے حقوق حفاظت کرے اور وہ 30 ستمبر 2011ء کو ريٹائر ہوا ۔ جماعت علی شاہ پاکستان کے حق کی بجائے بھارت کے ناجائز اقدامات کی حفاظت کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے 2002ء سے 2009ء تک مقبوضہ جموں کشمير کی سرزمين پر دريائے سندھ کا پانی روکنے کيلئے دو بڑے ڈيم بنا لئے ۔ ايک 57 ميٹر اُونچا نمُو بازگو کے مقام پت دريائے سندھ پر اور دوسرا 42 ميٹر اُونچا دريائے سندھ ميں شامل ہونے والی سورو ندی پر چتّر کے مقام پر ۔ ان 2 ڈيموں ميں 4238400000 مکعب فٹ پانی روکا جا سکتا ہے ۔ مزيد يہ کہ پاکستان کے ماحول کی حفاظت کے نام پر بھارت نے اقوامِ متحدہ سے 482083 ڈالر امداد بھی حاصل کر لی مگر جماعت علی شاہ اپنی قوم کو بيوقوف بناتے رہے کہ بھارت کچھ نہيں کر رہا ۔ کمال يہ ہے کہ 23 ستمبر 2011ء کو جماعت علی شاہ کی کارستانياں معلوم ہونے پر اُسے ايگزِٹ کنٹرول لسٹ پر رکھا گيا تھا مگر وہ کنيڈا جا پہنچا ہے

مقبوضہ جموں کشمير ميں بھارت کی طرف بنائے جانے والے ڈيموں کے متعلق ميں ماضی ميں اپنے بلاگ پر اور اخبار ميں لکھتا رہا ہوں ۔ ميں نے اس سلسلہ کی آخری تحرير اسی بلاگ پر 31 جولائی 2010ء کو لکھی تھی

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

ميں اس سے قبل پہلا سوال ۔ دوسرا سوال ۔ ذرائع اور معلومات لکھ چکا ہوں

مشاہدہ

1970ء کے اليکشن ميں ذولفقار علی بھٹو کی پيپلز پارٹی اکثريت حاصل نہيں کر سکی تھی اور اس نے مغربی پاکستان ميں سادہ اکثريت حاصل کی تھی جو مغربی پاکستان کے کُل ووٹوں کے 33 فيصد کی حامل تھی اور مغربی پاکستان کی بقيہ 67 فيصد ووٹ لينے والی آدھی درجن جماعتوں کا اتحاد ٹوٹنے کا نتيجہ تھی

مجيب الرحمٰن کی عوامی ليگ جو مشرقی پاکستان میں بھاری اکثريت سے جيتی تھی نے قومی سطح پر بھی اکثريت حاصل کر لی تھی اسلئے قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس مشرقی پاکستان ميں بُلايا گيا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور جلسہ عام ميں کہا تھا کہ “جو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس ميں شريک ہونے کيلئے جائے گا ہم اُس کی ٹانگيں توڑ ديں گے”۔ اور مزيد کہا تھا “اُدھر تم اور ادھر ہم”۔

جب يحیٰ خان تنازعہ کے حل کيلئے مشرقی پاکستان ميں مجيب الرحمٰن سے بات چيت کر کے واپس آ رہے تھے تو ڈھاکہ ايئر پورٹ پر اُنہوں نے واضح الفاظ ميں کہا تھا کہ
“ميں مجيب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت دوں گا”۔
مغربی پاکستان پہنچنے پر يحیٰ خان ذوالفقار علی بھٹو سے ملے ۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان ميں فوجی کاروائی شروع ہو گئی جو ناقابلِ فہم تھی

ميں دسمبر 1971ء کے شروع ميں ايک اہم قومی کام کے سلسلہ ميں پروازيں بند ہونے کے باعث ٹرين پر راولپنڈی سے کراچی روانہ ہوا ۔ ٹرين ڈھائی دن بعد کراچی پہنچی ۔ ميرا قيام فوج کے ٹرانزٹ کيمپ ميں رہا جہاں فوجی افسران کے ساتھ تبادلہ خيال ہوتا رہا ۔ باخبر رہنے کيلئے ميں ايک اچھی قسم کا ٹرانسسٹر ريڈيو ساتھ لے کر گيا تھا جس پر ميں صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک خبريں سُنتا رہتا تھا ۔ اعلان ہوا کہ 12 دسمبر کو صدرِ پاکستان محمد يحیٰ خان قوم سے خطاب کريں گے ۔ نہ صدر کی تقرير نشر ہوئی اور نہ کسی نے تقرير نشر نہ کرنے کے متعلق کوئی اعلان کيا
مگر ڈھاکہ پر 16 دسمبر کو بھارت کا قبضہ ہونے کے بعد صدر يحیٰ خان کی ايک تقرير نشر کی گئی جو حالات سے کوئی مطابقت نہ رکھتی تھی ۔ اس ميں يہ بھی کہا گيا تھا کہ “پاکستان کے دفاع کيلئے ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا ديں گے” ۔
اگر اس تقرير کو 16 دسمبر سے قبل يا يوں کہيئے کہ جيسا کہ اعلان ہوا تھا 12 دسمبر کو ہی نشر کيا جاتا تو يہ تقرير وقت کے مطابق نہائت موزوں ہوتی

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نمائندہ کے طور پر اقوامِ متحدہ ميں جنگ بند کروانے کيلئے گئے مگر زکام کا بہانہ کر کے ہوٹل ميں پڑے رہے
اقوامِ متحدہ ميں شايد پولينڈ نے ايک قراداد پيش کی تھی جو پاکستان کے حق ميں تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اجلاس ميں گئے بھی تو اداکاری کرتے ہوئے ايسے ہی کوئی کاغذ پھاڑ کر يہ تاءثر ديا کہ اُنہوں نے قرارداد پھاڑ دی ہے اور غصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے

يہاں ذکر کرنا بيجا نہ ہو گا کہ کچھ سالوں سے وطنِ عزيز ميں بڑے ماہرانہ انداز ميں ڈھاکہ يونيورسٹی کے طلباء سے خطاب کے حوالے سے ايک غلط واقعہ پھيلايا جا رہا ہے جو کہ کبھی ہوا ہی نہيں کہ ”مشرقی پاکستان کی عليحدگی کا عمل تو اُس وقت شروع ہو گيا تھا جب محمد علی جناح نے بنگاليوں پر اُردو زبان تھوپ دی تھی“۔
يہ يقينی طور پر پاکستانيوں کو گمراہ کرنے کی معاندانہ کوشش ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل ہی بنگال سے چوٹی کے 3 رہنما قائد اعظم کے پاس بمبئی ميں پہنچے اور اُن سے درخواست کی کہ وفاق کو مضبوط رکھنے کيلئے يہ ضروری ہے کہ اُردو کو قومی زبان بنايا جائے کيونکہ يہی ايک زبان ہے جسے مسلمانانِ ہند کے مجوّزہ وطن کے تمام علاقوں ميں سمجھا جاتا ہے ۔ ميں اس وقت متعلقہ دستاويزات پيش نہيں کر سکتا ۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ اس سلسلہ ميں مولانا محمد علی جوہر کا ايک مضمون بھی ہے جو 1970ء کی دہائی اور شائد 1980ء کی دہائی ميں بھی ۔ اُردو کے تعليمی نصاب کا حصہ تھا ۔ 3 دہائياں قبل اس سلسلہ ميں تحقيق کے بعد ميں نے بھی ايک مضمون لکھا تھا ۔ کاش اُس کا مسئودہ مجھے مل جائے

تجزيہ

گرچہ بُت ہيں جماعت کی آستينوں ميں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا اِلَهَ اِلاَلله

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا کہنا ”جو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس ميں شريک ہونے کيلئے جائے گا اُس کی ہم ٹانگيں توڑ ديں گے“ اور ”اُدھر تم اور ادھر ہم“۔ کيا ہر قيمت پر بادشاہ بننے کی خواہش نہ تھی ؟

يحیٰ خان شرابی اور زانی تھا ايک الگ بات ہے ليکن اُسے جاننے والوں اور 2 بار ميرا اُن سے سرکاری طور پر واسطہ پڑا کے مطابق وہ بھولنے والا شخص نہيں تھا اور بات کا پکّا تھا ۔ جب اس نے اعلان کر ديا تھا کہ ”ميں مجيب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت دوں گا“ تو پھر اپنا قول نبھانے کی بجائے مشرقی پاکستان ميں فوجی کاروائی کيوں کی ؟ اس کا جواب صرف مجبوری ہی ہو سکتا ہے

ذوالفقار علی بھٹو کی اتنی زيادہ بات کيوں مانی گئی ؟ ظاہر ہے کہ اُس کے پيچھے کوئی ايسی طاقت تھی جس نے يحیٰ خان جيسے آدمی کو قابو کيا ہوا تھا ۔ آخر وہ کون تھا يا تھے؟

12 دسمبر کے بعد صدرِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے کمانڈر اِن چيف يحیٰ خان کہاں تھے ؟ خيال رہے چيف آف آرمی سٹاف کے ماتحت صرف آرمی ہوتی ہے جبکہ کمانڈر اِن چِيف کے ماتحت تمام افواجِ پاکستان ہوا کرتی تھيں

جيسا کہ ب ۔ 6 سے بھی اخذ کيا جا سکتا ہے واضح طور پر يحیٰ خان 12 دسمبر 1971ء سے صدر نہيں رہے تھے
يحیٰ خان کو 12 دسمبر کو گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ گرفتار کرنے والے 6 سِنيئر جرنيل تھے [4 آرمی کے اور 2 ايئر فورس کے] ۔ يہ سب مرزائی تھے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اقوامِ متحدہ کے اجلاس کيلئے صدر يحیٰ خان نے نہيں بلکہ ان قابض جرنيلوں نے بھيجا تھا
بھٹو صاحب امريکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل ميں اسلئے پڑے رہے کہ ڈھاکہ پر بھارت کا قبضہ ہو جانے تک اقوامِ متحدہ کی کاروائی نہ ہو سکے ۔ بعد ميں جب اجلاس ميں قرارداد پيش کی گئی جس کی ايک شق يہ تھی کہ فوجيں اپنی حدود ميں جائيں پھر بنگلہ ديش کا حل تلاش کيا جائے تو بھٹو صاحب گرمی دکھا کر اجلاس سے باہر نکل آئے تاکہ بنگلہ ديش کا معاملہ پکا ہو جائے اور اُن کو آدھے پاکستان کی بادشاہی مل سکے
انہی جرنيلوں نے بعد ميں ذوالفقار علی بھٹو [ايک سوِلين] کو ملک کا چيف مارشل لاء ايڈمنسٹريٹر بنايا جو کسی قانون کے مطابق جائز نہ تھا

اگر بھٹو سانحہ مشرقی پاکستان ميں ملوّث نہيں تھے تو حمود الرحمٰن کميشن رپورٹ اور کمشنر ڈھاکہ کی کتاب کا مسؤدہ کيوں ضائع کئے ؟

سانحہ مشرقی پاکستان کا آخر کوئی تو ذمہ دار تھا ۔ ذمہ دار فوجی يا سويلين کے خلاف کاروائی کيوں نہ کی گئی ؟

ميرے متذکرہ بنگالی دوست آرتھوپيڈک سرجن تھے اور 1971ء ميں پاکستان آرمی ميں ميجر تھے اور جنوری 1972ء سے بنگلہ ديش آرمی ميں ۔ ميرے اس بنگالی دوست نے مجھے 1978ء ميں کہا تھا ”مشرقی پاکستان کو بنگلہ ديش بنانے کی سازش ميں 3 ليڈر شريک تھے جن میں 2 پاکستانی تھے ۔ ایک کو اُس کی فوج کے ميجر نے ہلاک کر ديا (شيخ مجيب الرحمٰن) اور دوسرے کا حال اِن شاء الله ان سے بھی بُرا ہو گا“۔
ميں نے کہا ” دوسرا یحیٰ خان ؟“
جواب ملا ”ذوالفقار علی بھٹو“۔

آج ميں سوچتا ہوں کہ بنگالی ڈاکٹر نے درست پيشين گوئی کی تھی
ذرا غور فرمايئے
ذوالفقار علی بھٹو کو بطور قاتل پھانسی ہوئی
چھوٹا بيٹا اچانک کيسے مر گيا آج تک واضح نہيں ہوا
بڑے بيٹے کو اس کے اپنے بہنوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے داماد نے ہلاک کروا ديا
بڑی بيٹی کو اس کے خاوند [ذوالفقار علی بھٹو کے داماد] کی ملی بھگت سے ہلاک کر ديا گيا
بيوی کو سونے کيلئے ٹيکے سالہا سال لگائے جاتے رہے بالآخر وہ اس دنيا کو چھوڑ کر سُکھی ہوئی
چھوٹی بيٹی باپ کی جائيداد سے محروم پرديس ميں بيٹھی بمشکل اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر رہی ہے
پوتی اور پوتا دادا کی ہر قسم کی وراثت سے محروم خوف ميں زندگی بسر کر رہے ہيں

آخر ميں يہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہماری قوم [گُستاخی معاف ۔ قوم تو ہے ہی نہيں ۔ ايک بے ہنگم ہجوم ہے] نے اس اتنے بڑے سانحہ سے کوئی سبق نہيں سيکھا ۔ لوگ آج کہيں سندھی ۔ کہيں پختون ۔ کہيں پنجابی ۔ کہيں مہاجر ۔ کہيں خدائی خدمتگار ۔ کہيں آزاد خيال ۔ کہيں لاشاری ۔ کہيں بھٹو ۔ کہيں سيّد ۔ کہيں گُوجر ۔ کہيں طالبان ۔ کہيں کسی اور قوميت کا رولا رَپا ڈالے ہوئے ہيں
کوئی پاکستانی خال خال ہی نظر آتا ہے
کيا يہ لوگ مُلکی حالات کو سابق مشرقی پاکستان کے حالات سے زيادہ خراب نہيں کر چکے ؟

کسی سيانے کہا تھا
عقلمند دوسروں کے تجربہ سے سبق ليتا ہے
عام آدمی اپنے تجربہ سے سبق ليتا ہے
احمق اپنے تجربہ سے بھی سبق نہيں ليتا

ميرے ہموطن فلمی کہانيوں اور ناولوں پر تو يقين کر ليتے ہيں ۔ سيانوں کی باتوں کو قابلِ غور نہيں سمجھتے

دعا

اے ميرے الله تو ہی ہے بنانے والا ۔ امان دینے والا ۔ پناہ میں لینے والا۔ زبردست دباؤ والا۔ صاحب عظمت ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل سے فانی طاقتوں کا خوف نکال کر اپنی اطاعت بھر دے
اے ميرے الله مہربان رحم کرنے والے ۔ قادر و کريم ۔ تو ہی بادشاہ ہے اور پاک سب عیبوں سے ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل ميں مادی محبت کی جگہ اپنے رسول کی محبت بھر دے
اے ميرے الله تو ہی صورت گری کرنے والا اور زبردست حکمتوں والا ہے اور جانتا ہے جو پوشیدہ ہے اور جو ظاہر ہے ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل سے نفاق کو نکال کر اللہ کے بندوں کی محبت بھر دے
اے ميرے الله ميرے اور کُل کائنات کے خالق ۔ مالک ۔ رازق اور حازق ۔ سب کی دعائيں سننے والے ۔ ميری اور ميرے ہموطنوں کی تمامتر خاميوں سے درگذر فرماتے ہوئے يہ عاجزانہ عرض سُن لے
ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل ميں اپنے اس وطن کی جو آپ ہی نے عطا کيا تھا خدمت کا جذبہ پھر سے جگا دے

يہ بھی پڑھ ليجئے


DAWN, 25th March, 2004, Thursday, 03 Safar, 1425
BD: who cast the first stone?


By Akhtar Payami

The sky lit up with fire-balls amidst the deafening sound of gun-shots. The dark night was pierced by multi-coloured searchlight leaving no room even for a shadow to escape.

Simultaneously, microphones blared to announce that an indefinite curfew had been imposed on the unfortunate city of Dhaka. It was a full-fledged battle against invisible enemies. Nobody cared to count the dead. This happened about the midnight of March 25, 1971. The following day, on March 26, the independence of Bangladesh was proclaimed by word of mouth and through a clandestine radio broadcast. This was the beginning of the end.

It is not yet known who cast the first stone. Sheikh Mujibur Rahman’s daughter and former prime minister of Bangladesh, Sheikh Hasina, claims that the announcement was contained in a hand- written press statement by the Sheikh himself.

Thereafter copies of the statement were distributed all over East Pakistan. On the other hand, General Ziaur Rahman’s party, the Bangladesh Nationalist Party, maintains that it was the general who proclaimed independence.

It is one of those secrets with which Pakistan’s chequered history is littered. It is not yet clear who drafted the Lahore Resolution which is a major historical document.

Chaudhry Khaliquzzaman and Nawab Ismail are said to be the two persons who generally drafted all resolutions of the All-India Muslim League. But none of them was present when the resolution was for the first time presented before the March 23 meeting in Lahore.

It is still believed by some that the term ‘states’ mentioned in the original resolution was a typographical mistake which was later corrected by Muslim League legislators in 1946. But were the legislators competent to amend a resolution adopted by the Muslim League Council? This is another story.

Similarly the authorship of Sheikh Mujib’s famous Six Points is still shrouded in mystery. Several unconfirmed stories are in circulation. The text of the Six Points was amended several times as tension mounted in the unhappy relationship between East Pakistan and the central government.

The Awami League leaders insisted on maximum autonomy for the eastern wing. Even at that stage when a revolutionary situation was already in the making nobody talked of independence. Sheikh Mujib’s famous speech of March 7 at the Race Course ground fell short of a call for independence.

But it would be presumptuous to think that the people of the former East Pakistan had launched a movement for the implementation of the Lahore Resolution.

The issue was never raised by the leading politicians of the eastern wing. They had their own grievances, some of which were genuine and should have been thoroughly examined. At a much later stage, however, the Lahore Resolution did provide an impetus to the people of East Pakistan in their struggle for independence.

When the people and the rulers were locked in confrontation and all top leaders of the Awami League had left for Calcutta where they had formed a government in exile, Sheikh Mujib chose to stay back in his Dhanmandi house. He waited for the Pakistan Army and offered no resistance. He was promptly arrested and taken to West Pakistan.

The widely reported famous dialogue between Zulfikar Ali Bhutto and Mujib further strengthens the argument that Mujib believed in the federal structure of Pakistan and sought constitutional remedy of the problem. When Bhutto informed the Sheikh (he had been in solitary confinement for a long time) that he (Bhutto) was the president of Pakistan, Mujib replied: “How can you be the president of Pakistan? I am the leader of the majority party.” Till that moment, it can be argued, Mujib had faith in the unity of the country and did not know that Bangladesh had already emerged as an independent state.

Although Mujib was personally grateful to India for all the assistance that it had offered to his people in their hour of trial, in his heart of hearts, he nursed a feeling of bitterness for New Delhi. He had told some trusted journalists that he could easily achieve freedom with India’s support, “but I would never go to a banya (trader).”

Even after liberation, there were fewer Hindu ministers in his first cabinet than were in the Pakistan days. The Indian army, after its victory, had plans for a longer stay in Bangladesh. But Mujib felt the pulse of the people who were opposed to the presence of the conquering army.

He rushed to New Delhi, met Mrs Indira Gandhi and expedited an early withdrawal of Indian troops. Even when National Awami Party leader Maulana Abdul Hamid Khan Bhashani had strongly advocated complete independence, the Awami League did not endorse his views. Maulana Bhashani had a much better understanding of the people’s choice.

He knew that in this unpredictable situation, nothing less than independence would satisfy them. It was a struggle against the injustices meted out to the people of the eastern wing over more than two decades. It is a fact that they suffered neglect and apathy at the hands of those who wielded power in West Pakistan.

On one occasion when East Pakistan chief minister Ataur Rahman Khan returned from Rawalpindi, he told correspondents at Dhaka airport that he could not get approval for an important project from the central government “as it was easy to convince the minister but difficult to please the section officer.” Such was the hostile relationship between the administrations in the two wings.

It was only during the brief period of General Yahya Khan that some measures were contemplated and taken for ameliorating the conditions of East Pakistan.The headquarters of several government corporations were shifted to Dhaka. A few promotions were made in the superior services cadre. But these measures were much too late and could not serve any purpose.

The army action of March 25 put the final seal on the fate of united Pakistan. It created a bitterness which was not easy to remove. In that hostile environment, it was impossible to think that the situation would improve with the help of any military intervention. Even at that time many sensible people had warned the authorities against taking harsh actions.

The situation needed political measures. Instead a harsh policy was devised. The only political step taken was to hold by- elections for the seats vacated en masse by the elected representatives of the people in East Pakistan. It was indeed a futile exercise as the voters completely boycotted it.

When a full-scale war began in December 1971, the Pakistan Army had to confront the entire population of East Pakistan. And those who did not join the “rebels” were termed collaborators by the new power wielders of the eastern wing and “Muslims of Indian origin” by successive governments in Pakistan.

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات

ميں اس سے قبل پہلا سوال اور دوسرا سوال اور ذرائع لکھ چکا ہوں ۔ اب ان ذرائع [الف] سے حاصل ہونے والی معلومات [ب] کا خلاصہ پيشِ خدمت ہے

ب ۔ 1 ۔ جن بنگالی پروفيسر صاحبان سے ميری 1957ء ميں ملاقات رہی مشرقی پاکستان کی جامعات کے پروفيسر صاحبان تھے جو لندن سے سائنس ميں پی ايچ ڈی کی اسناد يافتہ تھے ۔ يہ لوگ بہت مُشفق ۔ مُنکسر اور مُحِبِ وطن پاکستانی تھے ۔ ہم نے ان سے اچھے آداب ۔ تعليم سے لگن اور مُلک و قوم کيلئے محنت کا سبق سيکھا

ب ۔ 2 ۔ بنگالی انجنيئر جو ميرے زيرِ تربيت رہے محبِ وطن پاکستانی تھے اور محنت سے کام سيکھتے تھے ۔ وہ 1970ء ميں واپس مشرقی پاکستان چلے گئے تھے ۔ جب مُکتی باہنی کا شور شرابا زوروں پر تھا ان ميں سے ايک پر مُکتی باہنی کی طرف سے الزام عائد کيا گيا کہ وہ غدار ہے اور اگر نہيں تو بنگلا ديش کا جھنڈا اُٹھا کر جلوس کے آگے چلے ۔ وہ شادی شدہ اور ايک چند ماہ کے بچے کا باپ تھا ۔ مُکتی باہنی کے لوگوں سے ڈر کر ايک جلوس ميں جھنڈہ اُٹھا ليا ۔ اس کی بناء پر ايک فوجی افسر نے اُسے اُس کی بيوی چند ماہ کے بچے اور فيکٹری کے افسران کے سامنے گوليوں کی بوچھاڑ سے ہلاک کروا ديا ۔ اُس کی بيوی نے فوجی افسر کے پاؤں پکڑ کر رو کر فرياد کی کہ ميرے خاوند کو نہ مارو ۔ مجبور انسان کو مت مارو ۔ مگر گولی چلانے کا حکم دے ديا گيا ۔ ديکھنے والے افسران ميں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے سويلين افسران بھی موجود تھے وہ خاموش رہے ۔ يہ واقعہ اُنہوں نے ہی مجھے سنايا

ب ۔ 3 ۔ ميرے دوست سِول انجينئر نے بتايا کہ مشرقی پاکستان ميں ساہوکاروں کا راج تھا جن کی بھاری اکثريت ہندو تھی ۔ بھارت سے آئے ہوئے بہاری مسلمان جو مالدار تھے ہندو ساہوکاروں سے پيچھے نہ تھے ۔ مچھيرے جو ساری زندگی مچھلياں پکڑ کر ساہوکاروں کی تجورياں بھرتے تھے اُنہيں مچھلی پکڑنے کی اجازت تھی کھانے کی نہيں ۔ مچھيروں کی کشتياں ساہوکار کی ملکيت تھيں ۔ ساہوکاروں کا قرض کبھی ختم نہيں ہوتا تھا ساری عمر سود ادا کرتے بيت جاتی تھی

ڈھاکہ يونيورسٹی ميں ہندو پروفيسر کافی تھے اور بارسوخ تھے ۔ وہ جو زہر بنگالی مسلمان نوجونوں کے کانوں ميں گھولتے رہے اس نے اُنہيں اپنے ہی ملک سے متنفّر کيا ہوا تھا مگر انتظاميہ اپنی عياشيوں ميں مگن تھی ۔ اُس کے سنائے ہوئے واقعات ميں سے 2 لکھ رہا ہوں ۔ ميرے دوست نے بتايا “ميں مشرقی پاکستان پہنچنے کے بعد ڈھاکہ کے ايک ہوٹل ميں ٹھہرا تھا ۔ اگلے روز ايک درميانی عمر کا آدمی اپنے ساتھ ايک جوان لڑکی لئے ہوئے آيا اور بولا ۔ ‘صاب ۔ يہ لڑکی آپ کا سب کام کرے گی ۔ ہر قسم کا کام ۔ آپ کے پاس ہی رہے گی ۔ ميں نے اُسے ٹال ديا ۔ بات ميری سمجھ ميں آ گئی تھی ۔ ميں نے وہاں فيلڈ ايريا يعنی ديہات ميں ديکھا کہ عام عورتوں کے پاس ايک چادر جسے وہ ساڑھی کی طرح باندھ ليتيں تھيں کے علاوہ پہننے کو کوئی اور لباس نہ تھا اور نہ دھونے کيلئے صابن ۔ وہ جوہڑ يا دريا ميں گھس کر ساڑھی اُتار ديتيں اور پانی ميں مَل کر پھر وہی گيلی ساڑھی زيبِ تن کر کے باہر نکل آتيں”۔

ب ۔ 4 ۔ ميرے نائب مشرِ ماليات دوست جو 1968ء ميں مشرقی پاکستان گئے تھے 3 سال بعد وسط 1971ء ميں واپس آئے ۔ اُنہوں نے بتايا “مشرقی پاکستان ميں سير اور اپنی اصلاح کی غرض سے تبليغ والوں کے ساتھ جانا شروع کيا اور بہت علاقوں کے متعلق معلومات حاصل ہوئيں ۔ ” ايک گھنٹہ سے زيادہ متواتر بولتے ہوئے جو کچھ اُنہوں نے بتايا تھااُس کا خلاصہ يہ ہے

ڈھاکہ يونيورسٹی ميں کچھ ہندو پروفيسر تو 1947ء سے ہی موجود تھے مگر 1965ء کے بعد مزيد ہندو نمعلوم کہاں سے آتے رہے اور پروفيسر تعينات ہوتے رہے ۔ يہ لوگ ناپُختہ ذہن طلباء ميں بنگالی قوميت جگاتے اور مغربی پاکستان کے خلاف رائے ہموار کرتے ۔ شيرِ بنگال ٹيپو سلطان کی جگہ رابندر ناتھ ٹيگور کی مداح سرائی کرتے اور علامہ اقبال کی جگہ ايک مسلمان نام کے دہريئے شاعر [اس وقت نام ميرے ذہن ميں نہيں آ رہا] کی حُبُ البنگلہ کو اُجاگر کرتے ہوئے بنگالی قوميت اُبھاری جاتی تھی ۔ 1970ء کے شروع سے ہی محبِ وطن بنگالی مسلمانوں نے آواز اُٹھانا شروع کی کہ ڈھاکہ يونيورسٹی ميں اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے ۔ وہ 1971ء کے شروع ميں خود کچھ طلباء کے ساتھ ڈھاکہ يونيورسٹی ہوسٹل گئے جہاں کے رہائشی طلباء نے بڑے وثوق سے کہا کہ “فلاں فلاں کمروں ميں بہت اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے ۔ اُن کی شکائت پر يونيورسٹی انتطاميہ نے کچھ نہيں کيا ۔ ايسا کيوں ہو رہا ہے ؟ اُن کی سمجھ ميں نہيں آرہا تھا ۔ ڈھاکہ کی انتظاميہ اور حکومت مشرقی پاکستان بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہيں دے رہی تھی”۔

مشرقی پاکستان کی بھارت کے ساتھ سرحد جنگلوں ۔ نديوں اور دلدلوں کی زمين ہے جہاں سے سرحد پار کرنے والے کو روکنا ناممکن ہے ۔ 1966ء سے بھارت نے تربيت يافتہ جنگجو خُفيہ طور پر مشرقی پاکستان ميں داخل کرنا شروع کر ديئے تھے جنہوں نے مُکتی باہنی بنائی جس ميں مشرقی پاکستان کے مسلمان بہت کم تھے

ان صاحب نے کئی چشم ديد واقعات سنائے جن ميں سے ايک يہ ہے ۔ جب وہ سلہٹ ميں تھے تو فوجی ايک آدمی کی تلاش ميں وہاں پہنچے جس کا اُنہيں صرف نام معلوم تھا چنانچہ وہ اس نام کے ايک جوان کو گرفتار کرنے اُس کے گھر پہنچ گئے ۔ محلہ والوں نے لاکھ سمجھايا کہ يہ جوان تو شريف اور محنتی ہے ۔ گھر سے باہر کبھی نہيں رہا تو دوسرے شہر جا کے اس نے کيسے کاروائی کی ؟ مگر فوجی نہ مانے اور اُسے پکڑ کر لے گئے جس کے بعد اُس کا سراغ نہ ملا ۔ بعد ميں انہی ميں سے ايک فوجی نے آ کر دُکھ کا اظہار کيا کہ اُن سے غلطی ہوئی مگر کمانڈر کا حُکم تھا ہم مجبور تھے

ب ۔ 5 ۔ ميں 1976ء ميں لبيا گيا تھا ۔ وہاں اپنے دوست بنگالی ڈاکٹر سے استفسار کرتا رہتا تھا ۔ اُس نے جو واقعات مجھے کئی ملاقاتوں کے دوران سنائے اُن سے اُوپر ب ۔ 3 کے تحت بيان کی گئی باتوں کی تصديق ہوئی مزيد کا خلاصہ يہ ہے

ہندو ساہوکار وں اور ڈھاکہ يونيورسٹی کے پروفيسروں نے پاکستان بننے کے بعد بھارت کو ہجرت نہ کی بعد ميں ہندو پروفيسروں کی تعداد ميں اضافہ ہوتا رہا

پھر 1969ء ميں خبر عام ہوئی کہ کچھ سالوں سے مشرقی پاکستان ميں بہت سے ايسے لوگ آ کر رہائش پذير ہو رہے ہيں جو کہ بنگالی بولتے ہيں مگر وہ مشرقی پاکستان کے رہنے والے نہيں ہيں ۔ يہ باتيں زبان زدِ عام تھيں اور عوام پريشان تھے مگر انتظاميہ ان سے قطع نظر اپنے آپ ميں مگھن تھی

مُکتی باہنی کے لوگ جن ميں مشرقی پاکستان کے لوگ بہت کم تھے بنگالی قوميت اُبھارتے ۔ مغربی پاکستان کے خلاف پنجابی کہہ کر پروپيگنڈا کرتے اور اس سلسلہ ميں اشتہار لگاتے اور بانٹتے تھے جن ميں10 بے بنياد دعوے تھے ۔ اس وقت مجھے ان دعوں ميں سے يہ ياد ہيں
1 ۔ افسر سب پنجابی ہيں جن کا مغربی پاکستان سے تعلق ہے
2 ۔ چاول سارا بنگال ميں پيدا ہوتا ہے اور اس ميں سے آدھا مغربی پاکستان کو بھيج ديا جاتا ہے جس کے بدلے وہاں سے کچھ نہيں آتا
3 ۔ پاکستان کا سارا زرِ مبادلہ صرف پٹ سن کی برآمد سے حاصل کيا جاتا ہے اور اسے مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ کيا جاتا ہے
4 ۔ مغربی پاکستان والے بنگاليوں کو اچھوت سمجھتے ہيں

مجيب الرحمٰن نے اس پروپيگنڈے سے اور ديہات کے غريب عوام کو دھمکياں دے کر ہی اليکشن جيتا تھا۔ اگر اليکشن سے قبل انتظاميہ اپنا فرض ادا کرتی تو مجيب الرحمٰن مشرقی پاکستان ميں اکثريت حاصل نہيں کر سکتا تھا

يہاں ميں يہ حقيقت بيان کر دوں کہ ايوب خان کی حکومت نے شروع ہی ميں يہ قانون بنايا تھا کہ
1 ۔ جو مغربی پاکستان کا رہنے والا مشرقی پاکستان ميں ملازمت کرے گا يا مشرقی پاکستان کا رہنے والا مغربی پاکستان ميں ملازمت کرے گا اُسے ماہانہ الاؤنس ديا جائے گا جو خاصہ تھا 20 يا 30 فيصد ۔ اس کے علاوہ ہر 3 سال کی ملازمت کے بعد ايک ماہ کی چھُٹی اور پورے خاندان کا ہوائی جہاز اور ريل کے سفر کا کرايہ ديا جائے گا
2 ۔ اسی طرح جو مغربی پاکستان کا رہنے والا مشرقی پاکستان کی لڑکی سے شادی کرے گا يا مشرقی پاکستان کا رہنے والا مغربی پاکستان کی لڑکی سے شادی کرے گا اُسے سپيشل الاؤنس ديا جائے گا
3 ۔ مشرقی پاکستان کے ايل ايس ايم ايف ڈاکٹر کو فوج ميں اُسی طرح بھرتی کيا جائے گا جس طرح مغربی پاکستان کے ايم بی بی ايس ڈاکٹر کو بھرتی کيا جاتا ہے

1970ء ميں يہ خبر پھيل گئی تھی کہ ڈھاکہ يونيورسٹی ميں مکتی باہنی کے نام کی ايک خفيہ جماعت قائم ہو چکی ہے اور يونيورسٹی کے فلاں ہوسٹل ميں اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے مگر نہ يونيورسٹی کی انتظاميہ نے اور نہ مشرقی پاکستان کی انتظاميہ نے اس پر کوئی توجہ دی ۔ اس کے نتيجہ ميں مختلف يونيورسٹيوں اور کالجوں کے محبِ وطن طلباء نے شمس اور بدر کے نام سے دو جماعتيں مُکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کيلئے بنائيں ۔ 1971ء ميں جب مُکتی باہنی نے دھونس دھاندلی اور محبِ وطن بنگاليوں کا قتل شروع کيا تو شمس اور بدر کے جوانوں نے مُکتی باہنی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کيا جس کے نتيجہ ميں طلباء کے ساتھ دوسرے محبِ وطن بنگالی جوان بھی شامل ہونا شروع ہوئے ۔ جب فوجی کاروائی شروع ہوئی تو بجائے اس کے کہ شمس و بدر سے مدد لی جاتی يا اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک کيا گيا جو مُکتی باہنی کے ساتھ ہونا چاہيئے تھا
لبيا ميں ميرے ايک پاکستانی ساتھی کو بھارتی ہندو نے ايک وڈيو دی تھی ۔ اس ميں دکھايا گيا تھا کہ ڈھاکہ ميں دوسری منزل کے ايک کمرے ميں خون آلود لاشيں پڑی ہيں اور خون بہتا ہوا سيڑھيوں سے نيچے تک چلا گيا ہے مگر لاشيں گرانے والے جو وہاں سے نکل رہے تھے اُن کے چہرے نہيں دکھائے گئے تھے ۔ ميں نے بنگالی دوست سے اس کا ذکر کيا تو اُس نے کہا “جس علاقے ميں کُشت و خون ہوا وہاں مجيب الرحمٰن کے مخالف لوگ رہتے تھے اور اس علاقہ ميں مکتی باہنی والوں نے قتلِ عام کيا تھا ۔ ايسی وڈيوز ميں دراصل محبِ وطن بنگاليوں کی لاشيں دکھا کر اُنہی کے خلاف پروپيگنڈا کيا گيا تھا
ميں نے پوچھا کہ انتظاميہ اور فوج کيا کر رہے تھے ؟ تو جواب ملا کہ انتظاميہ تو لگتا تھا کہ بزدل تھی اور فوجی اندھا دھند کاروائی کرتے تھے ۔ مجرم تو کاروائی کر کے بھاگ جاتے تھے اور بے قصور ہلاک ہوتے تھے جس سے عوام ميں بھی فوج کے خلاف بد دلی پيدا ہوئی
مجيب الرحمٰن کے بنگلہ ديش بنانے کے بعد بھی بنگاليوں کی اکثريت کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہی رہيں جس کا ثبوت وہ قرار داد ہے جو لاکھوں بنگاليوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھيجی تھی کہ بنگلہ ديش کو منظور نہ کيا جائے

ب ۔ 6 ۔ حمودالرحمٰن کميشن بنايا گيا جس نے اپنی رپورٹ براہِ راست ذوالفقار علی بھٹو کو دينا تھی ۔ رپورٹ دی گئی ۔ اس کا کچھ حصہ ذوالفقار علی بھٹو نے جلا ديا اور باقی رپورٹ بھی بغير کسی اور کے ديکھے غائب ہو گئی

سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جو صاحب وہاں کمشنر تھے ۔ بھارت کی قيد سے رہائی پانے کے بعد جب وہ بقيہ پاکستان ميں پہنچے تو اُنہوں نے ايک کتاب سانحہ مشرقی پاکستان اور اس کی وجوہات پر لکھی ۔ شائع کرنے کی اجازت کيلئے اس کتاب کا مسؤدہ اُنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ديا ۔ جو اُنہيں نہ واپس ملا اور نہ پتہ چلا کہ وہ کہاں گيا

دسمبر 1971ء کے آخری دنوں ميں ايک اعلٰی سرکاری عہديدار سے معلوم ہوا کہ 16 دسمبر 1971ء کو سکوتِ ڈھاکہ سے 2 دن قبل جنرل امير عبداللہ خان نيازی بار بار ٹيليفون کرتے رہے کہ اُس کی جنرل يحیٰ خان سے بات کرائی جائے مگر يحیٰ خان کا ٹيليفون ايک عورت اُٹھاتی جس کا لہجہ پاکستانی نہيں تھا وہ انگريزی ميں کہتی کہ يحیٰ خان کوئی کال لينا نہيں چاہتے
اپنی 15 دسمبر کو واپسی سے قبل مگر 12 دسمبر کے بعد ميں نے ٹرانزٹ کيمپ کراچی ميں بھی فوجی افسران کو پريشانی سے ايک دوسرے سے استفسار کرتے سُنا تھا کہ “چيف کہاں ہے ؟”

جيسا کہ اوپر ب ۔ 5 ميں ذکر ہے لاکھوں محبِ وطن بنگاليوں کے دستخطوں سے قراداد بذريعہ برطانيہ پاکستان ميں ذوالفقار علی بھٹو کو بنگلہ ديش نامنظور کرنے کيلئے بھيجی گئی تھی ۔ يہ قراداد ملنے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور ميں پيپلز پارٹی کے ايک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کيا ۔ جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی پيپلز پارٹی کے کارکنوں ميں يہ خبر پھيل گئی کہ بنگلہ ديش منظور کيا جائے گا ۔ پيپلز پارٹی کی اکثريت کو يہ منظور نہ تھا ۔ بھٹو صاحب جلسہ گاہ ميں پہنچ گئے مگر حاضريںِ جلسہ نے اُنہيں تقرير نہ کرنے دی ۔ احتجاج ہوتا رہا ۔ 45 منٹ سے زائد کوشش کرنے کے باوجود بھٹو صاحب تقرير نہ کر سکے
اس کے بعد اسلامک کانفرنس کے اجلاس کا پاکستان ميں اہتمام کر کے بھٹو صاحب نے اس ميں بنگلا ديش منظور کرا ليا

معذرت ۔ مضمون کی طوالت کے باعث مجھے ايک اور قسط ميں جانا پڑا ہے جو آخری ہے