بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک آزاد منش نوجوان شہزادہ ایک نہائت خوبصورت شہزادی پر فریفتہ ہو گیا اور اُس سے شادی کی خواہش کی ۔ شہزادی نے کہا کہ فلاں دینی عالم کی نگرانی میں چلّہ کاٹو اگر تم کامیاب رہے تو میں تم سے شادی کر لوں گی ۔ نوجوان کو دین سے کوئی لگاؤ نہ تھا مگر دل کے ہاتھوں مجبور دینی عالم کے پاس جا کر قصہ بیان کیا ۔ عالم نے اسے ایک کمرے میں رہنے کی اجازت دے دی ۔ نوجوان نے چلّہ شروع کیا اور عالم کی خدمت بھی کرتا رہا ۔ جب کئی ماہ گذر گئے تو شہزادی نے قاصد بھیجا کہ احوال معلوم کرے ۔ قاصد نے آ کر بتایا کہ وہ تو اب شہزادہ لگتا ہی نہیں ۔ شہزادی کو یقین نہ آیا ۔ سواری تیار کرا کے خود وہاں جا پہنچی اور شہزادے کو کہا کہ میں تو تمہارا امتحان لے رہی تھی جس میں تم پورے اترے ۔ اب میں شادی کی منتظر ہوں ۔ شہزادہ بولا کیسی شہزادی کیسا حسن کیسی شادی ۔ مجھے یہاں وہ کچھ مل گیا ہے جو کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا ۔ شہزادی نے عالم دین سے مدد چاہی تو انہوں نے کہا بیٹی ۔ یہ تو اللہ کا تابعدار ہو گیا ہے اور اسے اللہ کے بندوں کی خدمت کا چسکا پڑ گیا ہے ۔
سو کچھ ایسا ہی مجھے عامر لیاقت حسین کے متعلق ایک کراچی والے نے اس کے لال مسجد جامعہ حفصہ پر فوج کشی کی مخالفت کرتے ہوئے وزارت سے مستعفی ہونے سے چند دن پہلے کہا تھا ۔
عامر لیاقت حسین سابق وزیرِ مملکت کی ایک تازہ تحریر
جب میں اسکول میں پڑھتا تھا تو بہت فخر سے اور بڑھ چڑھ کر یہ گیت اسکول کی اسمبلی میں سب کے ساتھ مل کرگایا کرتا تھا
آؤ بچو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
اِس قومی نغمے میں نہ جانے ایسی کیا بات تھی کہ رگوں میں دوڑتا لہو بھی کچھ دیر کے لیے سبز ہوجاتا تھااور اندر ہی اندرخواب، امیداورتوقع کے نئے پودے تناور درخت بننے کے لیے بے تاب ہوجاتے … لیکن قومی اسمبلی، اسکول کی اسمبلی سے بہت مختلف ہے…وہاں چونکہ سب جیت کر آتے ہیں اِسی لیے گیت بھی بدل جاتے ہیں…اُس وقت انداز والہانہ تھا،اب فاتحانہ ہے …اُس وقت بچوں کی اسمبلی تھی اِسی لیے صرف پاکستان نظر آتا تھا…اب قومی اسمبلی ہے اِسی لیے ”صدرِ پاکستان“ کے سوا کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا…اور پھر میں بھی سب کی طرح یہ گیت بھول گیا…کہ اقتدار کی راہداریوں میں تو لوگ سچ اور حق کو بھول جاتے ہیں یہ تو صرف ایک گیت تھا…ایک ایسا بھولا بسرا نغمہ جسے گنگنانے کے لیے آواز کی نہیں…صرف حب الوطنی کی ضرورت تھی…مگر اب سب کچھ ویسا نہیں ہے ، دھیمے سُروں کی جگہ اب خود کش حملہ آوروں کے سَروں نے لے لی ہے …آواز کے جادو پر درد بھری چیخوں کی ظالمانہ حُکم رانی ہے …اِسی لیے اب کوئی ”قومی نغمہ “ نہیں گاتا…سہمے سہمے سوز سے بس ”قومی نوحے“ پڑھے جاتے ہیں…ہرفرد نفسیاتی مریض بنتا جارہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی ممکنہ دھماکے سے قبل ہی وہ کرب سے پھٹ جائے گا… آج مجھے وہی گیت پھر یاد آرہا ہے ، مگر ویسا نہیں جیسا میں گاتا تھا…مجھے نیزوں کی نوکوں پر بچوں کے سر، خون میں لت پت ٹرینیں، انسانی جسم اگلتے کنوئیں اور وہ سوختہ نعشیں بھی دکھائی دے رہی ہیں جن کے سبب پاکستان جیسی نعمت عظیم ہم جیسے ”بے قدروں“ کو نصیب ہوئی…
فوجی جوانوں پر حملے کرنے والے جنونی اور مساجد کو ویران کرنے والے”ویر“ یہ نہیں جانتے کہ دونوں جانب بہنے والا خون ہمارا اپنا ہے …اِس کی مہک گواہی دے رہی ہے کہ یہ آج بھی اُن22لاکھ انسانی جانوں کا مقروض ہے جو تخلیقِ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو اپنے لہو کی آبیاری سے مضبوط کرگئیں…آج میں اُن شہیدوں ہی سے مخاطب ہوں…مگرخجالت و شرمندگی کے بوجھ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے
آؤ شہیدو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
جس کی خاطر تم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
پاکستان زندہ باد . . . پاکستان زندہ باد
دیر و سوات اسلام آباد میں بمباروں کا ڈیرا ہے
سفاکی اور بربادی کا اِن کے سر پر سہرا ہے
گلیوں میں کوچوں میں اِن کی دہشت کا رنگ گہرا ہے
دیکھو غور سے دیکھو کتنا مکروہ اِن کا چہرہ ہے
جاں لیتے ہیں اپنی نفرت سے یہ ہر انسان کی
جس کی خاطر تم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
گلی گلی میں بکھری ہیں لاشیں ماؤں کے لال کی
ہ لاشیں کیسی لاشیں ہیں بن جسموں کے کھال کی
نہ تو جھگڑا عورت پر ہے نہ یہ جنگ ہے مال کی
تصویریں جو ماضی کی تھیں دیکھو اب ہیں حال کی
رہی نہ قیمت سب کی نظروں میں انسانی جان کی
جس کی خاطر تم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
آزادی آزادی کہہ کر پاکستان بنایا تھا
لاکھ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند ستارہ پایا تھا
رمضاں کی ستائیس تھی قرآں کا سر پہ سایہ تھا
اپنا خوں دے کر یہ تم نے تحفہ پیارا پایا تھا
نفرت کی آندھی ہے اور آمد ہے اب طوفان کی
کیسے اب ہم سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
مسجد مسجد خون کی موجیں زخمی ہر پیشانی ہے
بے قیمت ہے خون یہاں پر مہنگا لیکن پانی ہے
ہر صبح سیلاب بکف ہے شام ہر اک طوفانی ہے
کتنی سرکش کتنی رسوا اب نسلِ انسانی ہے
صد افسوس کہ بھول گئے ہیں باتیں ہم قرآن کی
کیسے اب ہم سیر کرائیں تم کو پاکستان کی
درسِ محبت دینے والے انسانوں کا نام نہیں
سورج جیسی صبح نہیں ہے تاروں جیسی شام نہیں
کون سا گھر ہے ارضِ وطن کا جس میں اب کہرام نہیں
یاد کسی کو پیارے نبی کا آج کوئی پیغام نہیں
بھول گئے ہاں بھول گئے ہیں باتیں ہم ایمان کی
اپنے ہاتھوں کھول رہے ہیں راہیں ہم زندان کی
دیکھو شہیدو! اپنی اولادوں کی حق تلفی دیکھو!
حسرت دیکھو ،نفرت دیکھو لاشیں تم گرتے دیکھو
آزادی کے تحفے میں عزت کی پامالی دیکھو
آنکھیں بند کر کے تم دختر کی عزت لٹتے دیکھو
کیوں لگائی تھی اے پیارو! تم نے بازی جان کی
کس کی خاطر تم نے دی قربانی لاکھوں جان کی
دست دعا پر حرف دعا پر خون کے آنسو گرتے ہیں
چہروں چہروں خوف کے نغمے لکھنے والے لکھتے ہیں
دل میں بسا کر امن کی خواہش شہروں شہروں پھرتے ہیں
رہبر پھر بھی رہزن بن کر ہر رستے پر ملتے ہیں
مسلم ہوکر مان رہے ہیں باتیں سب شیطان کی
پس منظر میں رکھ دیں ہم نے باتیں رب رحمن کی
کیسے تم کو سیر کرائیں اپنے پاکستان کی
بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا ہے بازار یہاں
بغض، عداوت اور جلن کا سب کے سر پہ بار یہاں
بوڑھی لگتی ہے مروت نفرت کا ہر وار جواں
بیتے پل بس یادیں ہیں اب ایسے دن اور رات کہاں
ایسا لگتا ہے سپاہ اتری ہے یاں خاقان کی
کیسے تم کو سیر کرائیں اپنے پاکستان کی
دین، عقیدے اور مذہب کے نام پہ لاشیں گرتی ہیں
مائیں اپنے ٹکڑوں کے ٹکڑوں کو لے کر پھرتی ہیں
امیدوں کی کلیاں اس گلشن میں اب کم کھلتی ہیں
روحیں نخوت کی یاں خوشیوں کے جسموں سے چڑتی ہیں
انسانوں کی اِس بستی میں ہے کمی انسان کی
کیسے تم کو سیر کرائیں اپنے پاکستان کی
بولو شہیدو! کہو شہیدو! کیوں بنایا پاکستان
نعرہ یہ تم نے کیوں لگایا”لے کے رہیں گے پاکستان“
اپنی جنت اپنا گھر ہی کہلائے گا پاکستان