Category Archives: گذارش

مدد کی اشد ضرورت ہے


۔ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

۔ ۔ از راہ کرم مدد فرمایئے
۔ ۔ وِنڈوز 10 کے لئے اُردو چابی تختے کی فوری ضرورت ہے
Urdu keyboard needed for Windows 10 .
۔ ۔ فراہم فرمایئے
۔ ۔ میں آپ کا بہت بہت مشکور ہوں گا اور آپ کیلئے دعا گو رہوں گا

جیسا میرا دماغ اُلٹ پَلَٹ ویسے میرے الفاظ اُلٹ پَلَٹ

پتھر سے نہیں مجھے پتھروں پر چلنے والے باہِمتوں سے عقیدت ہے
تصویروں سے نہیں مجھے تصویر میں نظر آنے والوں سے محبت ہے
جو ہستیاں چلی گئیں ۔ مجھے اب اُن کی یادوں سے بھی اُلفت ہے
جو راستے وہ دِکھا گئیں ۔ مجھے اُن راہوں پہ چلنے سے رَغبت ہے

میرے عیب اور اللہ کی قدرت

۔ ۔ ۔ اگر آپ مجھ میں کوئی عیب دیکھیں
۔ ۔ ۔ تو
۔ ۔ ۔ مجھے ہی بتائیے گا ۔ کسی اور کو نہیں
۔ ۔ ۔ کیونکہ
۔ ۔ ۔ اُن عیبوں کو میں نے ہی دُور کرنا ہے ۔ کسی اور نے نہیں

۔ ۔ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے وہ سب کچھ جانوروں کو سکھایا ہوا ہے جو انسان سِیکھ کر اِتراتا پھرتا ہے ۔ نیچے دیئے ربط پر کلِک کر کے وِڈیو میں دیکھیئے
۔ ۔ ۔ ماہر ڈاکٹر پرندے کو جو نہ لندن کی یونیورسٹی میں پڑھا ہے نہ امریکہ کی یونیورسٹی میں
۔ ۔ ۔ کیا انسان ڈاکٹر اس پرندے سے بہتر علاج کرتے ہیں ؟
https://www.facebook.com/raj.mahen.7/videos/1019586914771300

ہونہار پاکستانی بچی

میں نے نیچے فیس بُک سے ایک تصویر نقل کی ہے ۔ یہ ایک پاکستانی بچی نور العین کی مصوری ہے جو مڈل ایسٹ فلم اینڈ کامِک کون (Middle East Film & Comic Con) نے 12 سے 17 سالہ بچوں کی مصوری کے مقابلے کیلئے چُنی ہے ۔ اتفاق سے یہ بچی میری بھانجی کی بیٹی ہے یعنی میری بڑی بہن جو جنوری 2016ء میں اللہ کو پیاری ہوئیں اُن کی نواسی

قارئین سے گذارش ہے کہ یہاں پر کلِک کر کے فیس بُک کا متعلقہ صفحہ کھولیئے اور لائِیک (Like) کا بٹن دبا کر بچی کی حوصلہ افزائی کیجئے
Noor's art

سر ورق. تبدیلی

محترمات قاریات و محترمان قارئین Blog Urdu 1
Blog Urdu 2
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میرے بلاگ کے سرِ ورق عنوان کے نیچے میں نے اپنی عرض گذاشت عرصہ دراز سے لکھی ہوئی ہے ۔ کئی بار محسوس ہوا کہ پڑھنے والے صرف روزنامچہ پڑھتے ہیں مگر عنوان اور اس کے نیچے لکھی عرض گذاشت سے صرفِ نظر کرتے ہیں اس مشاہدے یا تجربے کے نتیجہ میں آج کی تحریر کی ضرورت پیش آئی

میری سانس کا کیا بھروسہ کہاں ساتھ چھوڑ جائے
میری ذات سے وابستہ لوگو مجھے معاف کر کے سونا

بلاگران اور قارئین متوجہ ہوں

اللہ بڑا کار ساز ہے اور ہر چیز پر قادر ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم فرمائی سے میں آجکل دبئی (جمیرہ وِلیج ٹرائی اینگل) میں ہوں

متحدہ عرب امارات (یو ۔ اے ۔ ای) میں رہائش پذیر اُردو بلاگرز اور میرے بلاگز (میں کیا ہوں یا Reality is Ofter Bitter) کے قارئین سے درخواست ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو بذریعہ ای میل یا میرے بلاگ پر تبصرہ کے ذریعہ اپنے مندرجہ ذیل کوائف سے مطلع فرمائیں
مشکور ہوں گا
1۔ نام
2۔ ای میل کا پتہ
3 ۔ ٹیلیفون نمبر
4 ۔ متحدہ عرب امارات میں رہائش کا علاقہ
5 ۔ ہفتہ کے کس دن اور کتنے بجے سے کتنے بجے تک آپ فارغ ہو سکتے ہیں

میرا ای میل کا پتہ یہ ہے
iftikharajmal@gmail.com

شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش

میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟

کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی

چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں

پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟

آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں

اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے

صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ‏۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔

‏اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟

جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے