Category Archives: پيغام

عید الفطر مبارک


کُلُ عام انتم بخیر
سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ
مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرمائے
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین

افزائش کا اصول

جب تک گھوڑے کو پابندیوں کا عادی نہ بنایا جائے وہ ناکارہ ہوتا ہے
گیس یا بھاپ اس وقت تک انجن چلانے کے قابل نہیں ہوتی جب تک اسے دبایا نہ جائے
پانی سے بجلی پیدا نہیں کی جاسکتی جب تک اسے سرنگوں میں سے گذرنے پر مجبور نہ کیا جائے
زندگی اسی وقت سُدھر سکتی ہے جب اسے پابند ۔ مرکوز اور اچھے نظام کے تابع کیا جائے

صحت کا راز

غُصے کی حالت میں زبان دماغ سے زیادہ تیز چلتی ہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے
غُصہ کے دوران ہر منٹ میں 60 خوشگوار سیکنڈ ضائع ہوتے ہیں جو کبھی واپس نہیں مل سکتے
سخت الفاظ سے کسی کی ہڈیاں تو نہیں ٹوٹتی لیکن دل ٹوٹ جاتا ہے
اگر دوسرے آپ کے خلاف بدخوئی کریں تو آپ کا دل ٹوٹ جائے گا
اسلئے ایسے رہیئے کہ کوئی آپ کے خلاف بدخوئی پر یقین نہ کرے

مسکرائیے اور دوسروں کو بھی مسکرانے کا موقع دیجئے

خفیہ کے ادارے ۔ خوبی یا قباحت

میں نے 20 اگست 2009ءکو جو طریقہ تفتیش کی جھلکیاں پیش کی تھیں ان سے یہ تاءثر پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ خُفیہ ادارے نظامِ حکومت کا مُضر عضو ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ تفتیش کرنے والے اداروں کا اصل کردار عوام سے مخفی رہتا ہے جو اندیشوں کا سبب بنتا ہے ۔ ان اداروں میں عام طور پر سب سے گھناؤنا کردار پولیس کا محسوس ہوتا ہے لیکن اس میں بھی اچھے یعنی مفید پہلو موجود ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں پولیس کے ملازمین نے وطن یا ہموطنوں کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی ۔ پولیس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ قابض انگریز حکمرانوں نے ہندوستان کے شہریوں کی بہتری کی بجائے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے بنایا تھا اور اسے آج تک عوام دوست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان یا دوسرے اداروں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے لوگ یہ بھُول جاتے ہیں کے ان میں کام کرنے والے لوگ بھی اسی معاشرہ کا حصہ ہیں جس کا نقاد خود ہے

پولیس کے تین خُفیہ ادارے ہیں ۔ فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی[ایف آئی اے] انٹیلی جینس بیورو [آئی بی] اور کرائم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] ۔ مسلحہ افواج کے ادارے ہیں ملٹری انٹیلی جنس [ایم آئی] انٹر سروسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] ۔ سروسز انویسٹیگیشن بیورو [ایس آئی بی] اور فیلڈ انویسٹی گیشن یونٹ [ایف آئی یو] ۔ یہ سب ادارے قومی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے اور انہوں نے عام طور پر خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے ۔ حَکمرانوں نے ان اداروں کے افراد کو غلط کاموں پر لگا کر ان کا چہرہ مسخ کیا اور بعض اوقات ان سے قوم دُشمن کام بھی لئے ۔ پولیس کو تو عام طور پر اپنا کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔ مسلحہ افواج کا ایک ادارہ جو ایف آئی یو کہلاتا ہے اسے بھی بعض اوقات غلط استعمال کیا گیا ۔ یہ بھولنا نہیں چاہیئے کہ معاشرہ بھی بتدریج بہت بگڑا اور یہ لوگ بھی معاشرے کا حصہ ہیں

میرا پہلا واسطہ ایک خفیہ ادارے سی آئی ڈی سے اُس وقت پڑا جب میں 1962ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرنے کیلئے درخواست دی ۔ ایک دن سہ پہر کو میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک پولیس والا آیا اور والد صاحب کا پوچھا وہ گھر پر نہیں تھے تو کہنے لگا “آپ اُن کے بیٹے ہیں ؟” میرے ہاں کہنے پر بولا “ایس ایس پی صاحب نے بُلایا ہے ۔ آپ سے کوئی بات کرنا ہے”۔ میں چلا گیا ۔ ایسی ایس پی صاحب کا گھر قریب ہی تھا ۔ میرا نام اور کام پوچھنے کے بعد کہنے لگے “تم انجنیئر ہو نا ؟” میرے ہاں کہنے پر بولے “آپ نے جو نوکری شروع کرنا ہے وہاں سے آپ کے متعلق انکوائری آئی ہے ۔ میں نے آپ کے متعلق اُس وقت انکوائری کی تھی جب آپ انجنیئرنگ کالج لاہور داخل ہوئے تھے ۔ کسی نے درخواست دی تھی کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے نہیں ہیں بلکہ بھوپال کے رہنے والے ہیں اور آپ نے جموں کشمیر کی بنیاد پر داخلہ لیا تھا ۔ مجھے تفتیش کے بعد معلوم ہوا تھا کہ آپ جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں اور داخلہ آپ نے میرٹ پر لیا تھا ۔ میرے پاس آپ اور آپ کے خاندان کی سب معلومات موجود ہیں اسلئے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بھوپال صاحب کو بتا دینا کہ میں نے بُلایا تھا ۔ سب ٹھیک ہے”۔ میں واپس گھر آیا تو محلہ میں شور برپا تھا کہ اجمل بابو کو پولیس والا لے گیا

اس کے بعد ملازمت کے دوران مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے آئی ایس آئی سے اتنا واسطہ پڑتا رہا کہ کئی فوجی افسران سے دوستی ہو گئی ۔ میں نے عام طور پر اُنہیں معقول پایا ۔ کبھی کبھی سرپھروں سے بھی واسطہ پڑا اور میرا خاصہ اُن کے ساتھ دنگل پڑا لیکن اللہ کی کرم نوازی کہ اخیر فتح سچ کی ہوتی رہی

جب ان اداروں میں سیاسی بلکہ ذاتی بنیاد پر عہدیدار ڈالے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ حُب الوطنی کی بجائے خودغرضی اپنا لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ پھر اصل کی بجائے وہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں جن سے وہ صاحب خوش ہوں جنہوں نے اُنہیں وہاں تعینات کیا ہے ۔ بدنامی کی بڑی وجہ ان اداروں کا سیاسی استعمال ہے ۔ ان اداروں سے یہ کام صرف ملک کے فوجی آمروں ہی نے نہیں بلکہ جمہوری طریقہ سے منتخب شدہ سربراہوں نے بھی لیا

میرے مشاہدہ کے مطابق مختلف ادوار میں کئی بار آئی ایس آئی کے عہدیداران نے بہت حُب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی محنت اور عقلمندی سے معاملات نمٹائے اور غیرمحسوس طریقہ سے بڑے بڑے کام کئے ۔ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آئی ایس آئی کا ادارہ وطنِ عزیز کی صحت کیلئے ایک امرت دھارے کا کام کرتا ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس ادارے میں خدمات انجام دینے والے سب فرشتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کی اکثریت محبِ وطن ہے ۔ یہ ملکی صحت کیلئے ایک فعال اور ضروری ادارہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اس ادارے نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ملک سے باہر بھی متعدد بار اپنے ملک کی ساکھ کو مضبوط بنایا ہے اور کچھ ممالک میں پاکستان دُشمنی کو پاکستان دوستی میں بدلا ہے ۔ میں ہوائیاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں

عمر صاحب کے استفسارات اور جوابات

تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ یہ سب شرارت منظرنامہ کی ہے جنہوں نے بلاگستان کا شوشہ چھوڑا ۔ عمر احمد بنگش صاحب نے میری تحریر اور تشریح کے بعد مندرجہ ذیل اظہارِ خیال کیا ہے جو مزید وضاحت مانگتا ہے ۔ میں اللہ کی عطا کردہ سمجھ ۔ تحقیقی کتب کے مطالعہ اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں

1 ۔ چیک پوائنٹ‌حلال اور حرام کی تمیز ہے۔ اس کو جانچنے کا‌آلہ انسان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے
2 ۔ سیدھی راہ کا تعین نہایت ضروری ہے، جو میرے خیال میں‌صرف اور صرف علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے
3 ۔ اور یہ راہ بالکل ایسے ہے کہ جیسے “اک آگ کا دریا ہے ، اور ڈوب کے جانا ہے
اس کے علاوہ اگر کچھ میں‌سمجھنے میں‌ناکام رہا ہوں‌تو میری کوتاہی ۔ یہاں‌تک تو بات ٹھیک ہے ۔ لیکن دو ایک چیزیں‌ہیں‌جو مجھے کافی پریشان رکھتی ہیں
4 ۔ علم کا اصل منبع کیا ہے اور عملی طور پر علم کی کیا حیثیت ہے؟
5 ۔ ضمیر کا ماخذ‌کیا ہے؟، دماغ‌، قلب یا دونوں
6 ۔ پروفیشنل اور ذاتی زندگی دونوں صورتوں میں حق کو کیسے پہچانا جائے؟
7 ۔ کہنے کو یہ باتیں نہایت سادہ ہیں، کیونکہ تدریسی عمل میں ہم میں سے ہر ایک شخص نے بارہا یہ پڑھی ہیں۔ لیکن میرا مقصد ان کو زندگی میں عملی طور پر نافذ کرنے سے ہے۔ اس طور ضرور روشنی ڈالیے

1 ۔ انسان میں اچھے بُرے کی تمیز پیدائشی ہے ۔ میں نفسیات بالخصوص بچوں کی نفسیات کا طالب علم رہا ہوں ۔ میں انسانوں اور بچوں پر ہلکے پھُلکے تجربات کرتا رہا ہوں ۔ میں نے 6 سے 10 ماہ کے بچوں پر آزما کے دیکھا ہے کہ اُنہیں بھی اچھے بُرے کی پہچان ہوتی ہے ۔ بعد میں جب ماحول ان پر حاوی ہو جاتا ہے تو یہ پہچان معدوم یا مجروح ہو جاتی ہے ۔ نفسیات کے ماہرین لکھتے ہیں کہ رحمِ مادر میں بھی بچہ باہر کے ماحول سے متاءثر ہوتا ہے

آپ ایک ايسے بچے کے پاس جو بیٹھتا ہے مگر کھڑا نہیں ہوتا اور کبھی مٹی کے پاس نہیں گیا اس کے دودھ کی بوتل یا بسکٹ جو وہ کھاتا رہتا ہے رکھ دیجئے اور قریب ہی مٹی کا ڈھلا رکھ دیجئے اور کمرے سے باہر نکل جایئے ۔ اگر بچہ مٹی اٹھائے اور عین اس وقت آپ کمرے میں آ جائیں تو بچہ ڈر جائے گا ۔ اگر بچے نے دودھ کی بوتل یا بسکٹ اٹھایا ہو تو اس پر آپ کی آمد کا کچھ اثر نہیں ہو گا

2 ۔ سیدھی یا اچھی راہ کا تعیّن از خود ہو جاتا ہے اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا

3 ۔ سیدھی راہ آگ کا دریا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کو وہ تراوٹ بخشتی ہے جو کسی مادی چیز سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اللہ پر یقین شرط ہے

4 ۔ “علم کا منبع” میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ علم تو بذاتِ خود منبع ہے ۔ علمِ نافع انسان کو سیدھی راہ پر چلا کر کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جبکہ علمِ باطل انسان کو سبز باغ دکھا کر تباہی کی طرف لے جاتا ہے جس کا احساس بعض اوقات بہت دیر سے ہوتا ہے ۔ وہ علم بیکار ہے جس کا عملی زندگی سے تعلق نہ ہو ۔ اسے المیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں علم نہیں اسناد حاصل کرنے کا رجحان ہے ۔ عالِم یا اچھا انسان بننے کیلئے بہت کم لوگ علم حاصل کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کثیر تعداد ایم بی بی ایس کر کے طِب کا پیشہ اختیار نہیں کرتیں ۔ اس طرح ایک تو وہ اپنا عِلم ضائع کرتی ہیں دوسرے ان طلباء اور طالبات کا حق مارتی ہیں جو اِن کی وجہ سے ایم بی بی ایس کے داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ ملک میں اطِباء کی قلت ہے

5 ۔ ضمیر نہ دل میں ہے نہ دماغ میں ۔ یہ ایک احساس ہے جو اللہ تعالٰی نے ہر ذی ہوش انسان میں رکھا ہے ۔ بُرے سے بُرے آدمی کا ضمیر کسی وقت جاگ کر اسے سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے ۔ ایسے کچھ لوگ میرے مشاہدے میں آ چکے ہیں جو میرے ہمجماعت یا دفتر کے ساتھی تھے

6 ۔ حق کا سب کو علم ہوتا ہے لیکن خودغرضی اس پر پردہ ڈال دیتی ہے ۔ بات وہیں پر آ جاتی ہے جیسا میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ ” اگر کسی عمل سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو میں کیا محسوس کرتا”

7 ۔ وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا جائے یا جس پر عمل نہ ہو سکے ۔ جو لوگ حاصل کردہ علم سے استفادہ کرتے ہیں یا اس پر عمل کرتے ہیں اللہ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ وقتی تکالیف تو ہر شخص پر آتی ہیں چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق اختیار کرے ۔ تکلیف کی نوعیت فرق ہو سکتی ہے

علم انسان کو اللہ سے قریب کرتا ہے ۔ آئزک نیوٹن نے کہا تھا کہ ہاتھ کے انگوٹھے کی ایک پور کا مطالعہ ہی خالق کو پہچاننے کیلئے کافی ہے

ہم ایک ہیں

image001آج وہ دن ہے جس دن ہم ایک قوم کی حیثیت سے متعارف ہوئے لیکن ہم نے اس دن کی قدر نہ کی ۔ کوتاہ اندیشی اور خودغرضی کو اپنایا اور ہر ممکن طریقہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم قوم نہیں بلکہ بھانت بھانت کی لکڑیوں کا انبار ہیں یا بھیڑوں کا ریوڑ کہ جو چاہے ہمیں چولہے میں جھونک دے یا ہانک کر لے جائےgo-green

گیت ہم نے بہت لکھ کر گانے شروع کر دیئے جنہیں ہم ایک عام فلمی گانے کے برابر بھی حیثیت نہیںimage015 دیتے ۔
جب گیت بجتا ہے
تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اپنا مذاق اُڑاا رہے ہیں
اگر آپ واقعی پاکستانی ہیں تو پاکستان کو اپنی ایسی پہچان بنایئے کہ دنیا کے لوگ آپ کو پاکستانی جان کر آپ کا احترام کریں اور آپ پر اعتماد کریں جیسے آج سے چار پانچ دہائیاں قبل ہوا کرتا تھا

سب سے پہلے اپنی پہچان اپنے بلاگ پر لگایئے کہimage0021my-id-pak1

اللہ میرے ہموطنوں کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ وطن کیا ہوتا ہے ؟ قوم کیا ہوتی ہے ؟ اور ان کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بھی توفیق دے

زندگی کی حقیقت

ہر کوئی اپنے دوست سے کہتا ہے “ہم ہمیشہ دوست رہیں گے”۔ یہ وعدہ کتنا دیرپا ہوتا ہے ؟ کبھی کسی نے سوچا ؟

ایک وقت دو بہت گہرے دوست ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصہ بعد دوست ہوتے ہیں ۔ مزید کچھ عرصہ بعد صرف ملنا جُلنا رہ جاتا ہے اور پھر کبھی ملتے بھی نہیں

عام طور پر تو ایسے ہوتا ہے کہ اِدھر آمنا سامنا ختم ہوا ۔ اُدھر دوستی ہِرن ہو گئی جسے کہتے ہیں آنکھ اَوجھل پہاڑ اَوجھل

لیکن ہر شخص کو دوست کی ضرورت ہوتی ہے اور دوست کی مدد بھی درکار ہوتی ہے

دوستی کو اگر بے غرض اور مُخلص رکھ کر وقت اور جغرافیہ میں قید نہ کیا جائے تو دوستی کا ہمیشہ قائم رہنا ممکن ہو سکتا ہے ۔ دوست تو ہوتا ہی وہ ہے جو آڑے وقت کام آئے لیکن دوستی کی بنیاد غرض ہو تو پھر ایسا نہیں ہوتا

کبھی کبھی ایسے بے مروت شخص سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ آپ اُس کے آڑے وقت کام آئیں لیکن وہ آپ کا دوست نہ بنے اور بعض اوقات آپ کو زِک پہنچائے ۔ یہ تجربہ بھی ایک لحاظ سے اچھا ہوتا ہے کہ دوست پہچاننے میں مدد دیتا ہے

ہر شخص کی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے کہ کوئی دوست نہ ہونے کا احساس اُس کیلئے کرخت اور بعض اوقات وبالِ جان بن جاتا ہے
صرف اتنا سوچنا کہ میرا دوست ہے انسان کو بڑی بڑی پریشانیوں سے بچا لیتا ہے یا راحت کا باعث ہوتا ہے

بے لوث بھلائی کیجئے کہ بُرے وقت میں کئی لوگوں کی حقیقی دوستی کا تصور انتہائی خوشگوار اثرات کا حامل ہوتا ہے

سورت ۔ 41 ۔ سُورة فُصِّلَت یا حٰم السَّجْدَہ ۔ آیات 34 و 35 ۔ ۔ ۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر [طریقے] سے دور کیا کرو اس کے نتیجہ میں وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا ۔ اور یہ [خوبی] صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ [توفیق] صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے