بينظير بھٹو نے 24 ستمبر 1990ء کو ايک خط امريکی سنيٹر پیٹر گلبرائتھ کو بھيجا تھا جس کا اُردو ترجمہ اور عکس پيشِ خدمت ہے
عزیز پیٹر گلبرائتھ
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے اُن احسانات کا کس طرح شکریہ ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے خاندان پر کرے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ میری حکومت کی برطرفی کے احکامات جی ایچ کیو میں لکھے گئے اور میرے لئے فوج سے ٹکر لینا ممکن نہیں تھا تو وہ میری حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے
میں پہلے ہی کانگریس میں موجود دوستوں بالخصوص اسٹیفن سولاران سے درخواست کر چکی ہوں کہ وہ صدر بش کہ ذریعے صدر اسحاق اور پاکستانی فوج پر بھرپور دباؤ ڈلوائیں کہ وہ لوگ مجھے نا اہل قرار نہ دیں کیونکہ یہ بہت ناانصافی ہو گی بلکہ جمہوری اُصولوں کی بھی منافی ہو گا جن کے لئۓ ہم نے بہت جدوجہد کری ہے
جب تک میں حکومت میں تھی تو میں نے نیوکلیَر ہھتیاروں پر کڑی نظر رکھی پر اب مجھے اس حکومت کے ارادوں کا اندازہ نہیں
یہ بہت بہتر ہو گا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی اور معاشی امداد روک دی جائے اور تمام عالمی ادارے جیسے ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف کو ہدایت دی جائے کہ پاکستانی حکومت کو ہر طرف سے ڈرایا جائے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جانے والی تمام امداد روک دی جائے تاکہ عام پاکستانی کی زندگی مکمل طور پر رُک جائے
ایف ۔ 16 طیاروں اور اُن کے فاضل پرزہ جات کی رسد کی روک تھام بھی فوج کی عقل ٹھکانے لے آئے گی
عزیز پیٹر بھارتی وزیرِ اعظم پر بھی اپنا اثر استعمال کر کے پاکستانی فوج کو سرحد پر پھنسانے کی کوشش کریں تاکہ فوج میرے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے ۔ کاش راجیو گاندھی بھارت کے وزیرِاعظم ہوتے تو بہت سے کام آسان ہو جاتے
شکريہ ۔ پُرشوق تسليمات کے ساتھ
آپ کی مخلص
بے نظیر بھٹو