Category Archives: منافقت

زرداری افتخار چوہدری اور ڈوگر ۔ ہوشیار کون ؟ آخری قسط

15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے اپنی آئینی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی جس میں وفاقی حکومت اور نیب سے کہا گیا تھا کہ این آر او کے تحت ان کے خلاف درج تمام کیسز واپس لیے جانے کے احکامات کا فائدہ انہیں دیا جائے۔ 18 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے اور27 فروری کو ڈوگر نے تمام ماتحت عدالتوں کو احکامات جاری کیے کہ این آر اوکے تحت انہیں یہ فوائد فراہم کیے جائیں۔ 28 فروری کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ ہدایت نیب اور وفاقی حکومت کو جاری کردی۔اسی دوران زرداری نے نواز شریف سے کئی ملاقاتیں کیں اور محض پی سی او ججزکو دباؤ میں رکھنے کے لیے9 مارچ 2008ء کو مشہور زمانہ معاہدہٴ مری کیا۔ اس معاہدے کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کو تیس روز میں بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ درحقیقت تیس روزکے اندر بحالی کا مطالبہ قوم سے وعدہ نہیں بلکہ پی سی او ججزکے لیے ایک ڈیڈ لائن تھی

میثاقِ مری ہونے کے چار روز بعد12 مارچ 2008ء کو ایس جی ایس کوٹیکناکیس ختم کردیا گیا۔ یہ وہی کیس تھا جس میں سپریم کورٹ نے 6 اپریل2001ء کو جسٹس ملک قیوم نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو پر فرد جرم عائدکی تھی اورکیس دوبارہ سماعت کے لیے احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی میں چلاگیا تھا۔میثاق مری پر دستخط کے چھ روز بعد 14 مارچ 2008ء کو احتساب عدالت نمبر 3 راولپنڈی نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائک اور وکیل استغاثہ دانشور ملک کی رضا مندی سے آصف علی زرداری کو بی ایم ڈبلیوکیس سے بری کردیا

پریزائیڈنگ جج صغیر احمد قادری نے اپنے حکم میں یہ بات زور دے کرکہی کہ چوں کہ یہ کیس این آر او کے دائرہ کار سے باہر ہے اس لیے بری کرنے کا یہ فیصلہ عام قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی کیس ہے جس کی سماعت کے بعد آصف زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر مشتمل سپریم کورٹ کی فل بنچ نے آصف زرداری کی ضمانت منظورکی تھی جس کے نتیجے میں ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ رہائی کے بعد وہ پاکستان سے چلے گئے تھے اور جب وہ واپس لوٹے تو افتخار محمد چوہدری معزول ہوچکے تھے اور اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں نظربند تھے

پی سی او ججز اور ان کے ماتحت ججز کی تعیناتی کے دوران ہی میثاق مری کے چند روز بعد ہی آصف زرداری کے وکیل شہادت اعوان نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آصف زرداری کو جسٹس نظام اور ان کے بیٹے کے دہرے قتل کے مقدمے میں رہا کیا جائے۔24 مارچ 2008ء کو ایک اور پی سی او جج صوفیہ لطیف نے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نعمت علی رندھاوا کی رضا مندی سے آصف زرداری کو بری کردیا۔ اس بار بھی اس فیصلے کا تعلق این آر او سے نہیں تھا

8 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن سے صرف ایک روز قبل سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج پیر علی شاہ نے آصف زرداری کو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس سے بھی بری کردیا، اس بار بھی اس فیصلے کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
9 اپریل2008ء کو میثاق مری میں دی گئی تیس روزہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف سے معاہدے پر عمل درآمدکے لیے مزید10 روزکا وقت حاصل کیا۔نواز شریف اور ان کے وکلا نے جب اس تاخیرکی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو15 اپریل2008ء کو زرداری کے وکیل یوسف لغاری نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حیدر آباد کی عدالت میں ایک درخواست پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے موکل کو مشہور زمانہ عالم بلوچ قتل کیس سے بری کیا جائے۔ درخواست پیش کرنے کے صرف ایک روز بعد 16 اپریل2008ء کو عدالت نے آصف زرداری کو بری کردیا

آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لیے دس روزکا جو مزید وقت طلب کیا تھا اس کے ختم ہونے کے بعد نواز شریف نے جو اسلام آباد میں انتظار کر رہے تھے، انہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لیے دبئی میں بات چیت کا ایک اور دور مکمل کرلیا۔ اس وقت تک پاکستان میں ہر شخص زرداری کی جانب سے ججوں کی بحالی کے حوالے سے تاخیر کی اصل وجوہات کے حوالے سے کنفیوز تھا۔ دبئی میں کئی طویل اجلاسوں کے بعد جن کی خبریں اخبارات میں بھی شائع ہوتی رہیں، 9 اور 10 مئی 2008ء کو نواز شریف اور زرداری کے درمیان لندن میں مزید مذاکرات ہوئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ہر قسم کی تاویلات کا سلسلہ شروع کردیا تھا، کیوں کہ جو عدلیہ بحال نہیں ہوئی تھی اس کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ اس دستاویز (پی سی او) کے قانونی اثر و رسوخ کی راہ ہموارکی جائے جو عوام کے ایک حقیقی خادم کے دستخط کے ساتھ جاری ہوئی تھی

13 مئی2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور پی سی او جج بن یامین نے آصف زرداری اور برطانیہ میں پاکستان کے موجودہ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس کرمنل کیس سے بری کردیا جس میں ان پر نادر تصاویر‘ نوادرات اور دیگر ممنوعہ اشیاء کے آٹھ کریٹ کسی بھی قسم کی کسٹمز ڈیوٹی ادا کیے بغیر پی آئی اے کے ذریعے سرے محل اسمگل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور اس حکم کی بنیاد بھی این آر او پر نہیں تھی۔ جہاں تک ملک قیوم کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر برقرار رہنے کا تعلق ہے تو اس موقع پر اس بات کا ذکر مناسب لگتا ہے کہ ملزم کے دونوں وکلا اور اٹارنی جنرل کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے تھا۔ ملک قیوم اور ان کے ماتحت ڈپٹی اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے جب اپنے موکل کو تمام درخواستوں میں بری کرنے کا فریضہ انجام دے لیا تو ملک قیوم کو فوری طور پر تبدیل کرکے لطیف کھوسہ کو نیا اٹارنی جنرل مقررکردیا گیا۔ اس وقت تک این آر اوکی بنیاد پر یا غیرمحفوظ اور پریشان پی سی او ججزکے ذریعے جو بھی فوائد حاصل کیے گئے اس کے نتیجے میں آصف زرداری اب تمام کرمنل کیسسز سے آزاد تھے مگر اب بھی ایک مشکل درپیش تھی۔ آصف زرداری کے استاد جنرل مشرف کرسی ٴ صدارت پر براجمان تھے ان کے این آر او اور مدد اور آشیرواد کے بغیر زرداری تمام کرمنل کیسز سے بری نہیں ہوسکتے تھے۔ آخری کیس میں بری ہونے تک آصف زرداری نے مشرف کی مذمت نہیں کی لیکن اب انہیں ایک خالی ایوان صدرکی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ7 اگست 2008ء کو آصف زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا کہ اگر نواز شریف ڈکٹیٹرکو ہٹانے میں تعاون کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی عدلیہ کو مشرف کے محاسبے کے 72 گھنٹے کے اندر بحال کردے گی۔ نواز شریف ایک بار پھر جال میں پھنس گئے اور اپنے آپ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے مگر 18 اگست 2008ء کے بعد جبکہ جنرل مشرف دونوں فریقوں کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کی وجہ سے زبردست دباؤ میں تھے، انہوں نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ زرداری نے اپنے وعدے پورے کرنے سے انحراف کیا اور اس کی بجائے پاکستان کا صدر بننے کی کوششیں شروع کردیں‘ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے محسوس کیا کہ انہیں کس طرح استعمال کیا گیا ہے۔ دوسری جانب زرداری نے یہ کہہ کر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کردیا کہ وعدے اور معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہیں۔ اس کے بعدکیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں

31 جولائی 2009ء کو اپنے تفیصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان تمام قانونی نکات پر مکمل اور جامع اظہار خیال کیا ہے جو میں نے ریویو پٹیشنز اور اپنے عزیز دوست ایڈووکیٹ ندیم احمدکی جانب سے اٹھائے تھے۔ معزز عدالت نے اس حوالے سے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ پی سی او ایک غیر اہم اور بے مقصد معاملہ ہے اور اس کے کوئی قانونی اثرات بھی مرتب نہیں ہوئے اور یہ کہ سپریم کورٹ سمیت کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ 120 دن سے زیادہ کی توسیع کرکے ایک آرڈیننس کو آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے مستقل حیثیت دے سکے۔ دیگر الفاظ میں سپریم کورٹ کسی قانونی ادرے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ این آر اوکو 120 دن سے زیادہ مستقل حیثیت دینے کوتیار نہیں، اس کے بعد آئین کے آرٹیکل89 کے تحت اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ آزاد پارلیمنٹ کو یہ قانونی خلا پُرکرنے کا موقع دیاجانا چاہیے۔ انہیں اپنے رہنماؤں کو مقدمات سے بچانے کا انتظام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے قوم کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے ۔دریں اثناء سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے نتیجے میں خاص طو ر پر پیرا نمبر 179‘ 184‘185‘ 186‘ 187اور 188 کے مطابق این آر اوکو اس کے اجراء کی تاریخ 2 فروری 2008ء کے 120 دن بعدکالعدم سمجھا جانا چاہیے۔ اس تاریخ کے بعدکوئی بھی شخص اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب جب کہ این آر او 2 فروری 2008ء کے بعد موٴثر نہیں رہا تو پاکستان کی تمام عدالتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بری کیے جانے والے تمام مقدمات کا ازسر نو جائزہ لیں، خاص طور پر وہ مقدمات جن کی بنیاد این آر او پر ہے

مندرجہ بالا تمام حقائق حیرت ناک اور افسوسناک ہیں۔ ان کی روشنی میں ہماری قوم اور ملک کے حوالے سے کئی سنگین نوعیت کے سوالات جنم لیتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ہمارے موجودہ جمہوری اداروں کو تلاش کرنے چاہئیں آخر ایک شخص واحد جس کی ترجیحات ڈھکی چھپی نہیں ہیں، آخر وہ پاکستان کی سب سے مقبول رہنما کی شہادت کے دہرے قومی سانحہ سے فائدہ اٹھانے میں کس طرح کامیاب ہوا اور اس نے ججوں پرکس طرح مسلسل دباؤ ڈالے رکھا جب کہ وہ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست سے کامیاب ہوا تھا۔ اس نے کتنی آسانی سے جنرل مشرف، نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، سب سے بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بے وقوف بنایا، ا نہیں اپنے مقاصدکے سامنے جھکنے اور صرف اپنے ذاتی مقاصد اور فوائد کے لیے اندھا دھند اپنی تقلیدکرنے پر مجبورکیا

برناڈ شا نے بادشاہوں کی تقلید کرنے کے حوالے سے وارننگ دی تھی جو آخرکار عدم تحفظ کی وجہ سے نقصان نہیں اٹھاتے اور جو عام طور پر اچھے اوصاف رکھنے والے اور نقصان نہ پہنچانے والے لوگ ہوتے ہیں اور جو ایک ایسی جمہوریت کے خواب دیکھتے رہتے ہیں جن میں معاشرے کو دیگر بااثر افرادکے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ برناڈ شا نے ایسے افراد کو ترغیب دینے والے قرار دیا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ فاتح ولیم انگلستان میں ایک بے اصول شخص تھا، وہ پورے انگلستان کو ہضم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنیاد پر انگلستان کے عوام کی خواہش کے برخلاف اپنا یہ مقصد حاصل کیا کیوں کہ اس میں وہ تمام صفات موجود تھیں جو ایک شخص کو بے اصول ثابت کرتی ہیں،کیوں کہ اس میں ایک وحشی حکمراں کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ وہ ایک سیاسی جینئس تھا اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ فرانس اور انگلستان میں کوئی کیا کہتا ہے۔ ہم ایسے شخص کوکیا کہہ سکتے ہیں

آصف علی زرداری جن طور طریقوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں پاکستان سے باہر مقیم سب سے بڑا ملزم انتخاب لڑتا ہے اور 6 ستمبر 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان کے سب سے باوقار عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صدر پاکستان کی حیثیت سے ان کے انتخاب کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں

تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ

آخر امریکہ نے ایسا کیوں کیا ؟

اُمید ہے کہ وہ قارئین مندرجہ ذیل خبر پڑھ کر اپنے رویّے پر نظرِ ثانی کریں گے جو نام نہاد پاکستانی طالبان کو غیرمُلکی حکومتوں کے ایجنٹ قرار دینے پر اسے سازشی قیاس آرائی [conspiracy theory] قرار دیتے یا اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ کسی نے مجھے اپنے خول میں بند کہا اور کسی نے کڑوی گولی نگل کر حقیقت [جو حقیقت نہیں تھی] کو مان لینے کا کہا

سرحد حکومت اور فوجی فیصلہ سازوں کے قریبی ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے صرف 5 روز قبل امریکی فوج نے افغانستان میں وزیرستان سے ملحقہ سرحد پر اپنی 8 چوکیاں خالی کر دیں ۔ ان میں سے 4 وزیرستان کے قریب تھیں جن میں زمبالی اور نورخہ کی چوکیاں بھی شامل ہیں جبکہ 4 نورستان کے علاقے میں تھیں

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکا نے شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں بھی اپنی چوکیاں ختم کر دی ہیں جس سے خدشہ ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان میں داخل ہونے کے لئے حوصلہ ملے گا۔ اس امریکی اقدام سے پاکستان کی حکومت اور فوجی حلقوں نے سخت ناپسند کیا ہے۔ صوبہ سرحد میں بھی سول اور فوجی رہنما اس پر نہ صرف حیران ہیں بلکہ اس کے جنوبی وزیرستان آپریشن پر ممکنہ اثرات سے پریشان ہیں۔ سرحد حکومت نے اسلام آباد کے متعلقہ حلقوں کو اس صورتحال پر پہلے ہی الرٹ کر دیا ہے۔ پاکستان نے اس معاملے کو امریکا کے سامنے اٹھایا ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ بشکریہ ۔ جنگ

[تبصرہ ۔ اس اقدام سے واضح ہو گیا ہے کہ اصل امریکی صدف پاکستان کی فوجی قوت کو کمزور کرنا اور پاکستان کا اسلامی تشخّص ختم کرنا ہے اور نام نہاد پاکستانی طالبان دراصل امریکا کے مال پر پلنے والے کرائے کے قاتل [mercenaries] ہیں]

زرداری افتخار چوہدری اور ڈوگر ۔ ہوشیار کون؟

پاکستان کے عوام کے لئے یہ بات اب تک پردہ راز میں ہے کہ آصف علی زرداری نے انتخابات کے بعد تمام معزول ججوں کو کیوں بحال نہیں کیا تھا؟ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بحال نہیں کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ معاہدے کیوں کئے؟ جبکہ وہ ان معاہدوں کی پاسداری بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ بھی کہ انہوں نے اس بات کا احساس کیوں نہیں کیا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کر کے ایک ایسی غلطی کر رہے ہیں جو انہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بہت زیادہ مقبول بنا دے گی۔ یہ تمام سوالات اگرچہ اب تک پردہ راز میں ہیں مگر بعض حقائق کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اس سے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں جو بیک وقت باعث صدمہ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی

فروری 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ہمدردی کی اس لہر کی وجہ سے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک وفات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کی پوزیشن میں تھے۔ انہیں اس موقع پر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے دو تحفے بھی ملے تھے ایک این آر او اور دوسرا انتہائی غیر محفوظ پی سی او جج عدلیہ کی بحالی کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرنے کو تیار تھے

فروری 2008ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے چالیس روز بعد آصف زرداری نے اول الذکر دونوں مواقع کو اپنے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا۔ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک جانب زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف این آر او کے تحت کرپشن کے تمام کیسز ختم ہوگئے دوسری جانب پی سی او ججز کا عدم تحفظ بھی ان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوا جسے استعمال کر کے آصف زرداری قتل اور جرائم کے کئی کیسز سے بری ہوگئے جو این آر او کے بغیر ایک ناممکن امر تھا

بے نظیر جب اپنے اور اپنے شوہر کے خلاف کرپشن کے تمام کیس واپس لینے کے لئے مذاکرات کر رہی تھیں اس وقت ان مذاکرات میں شامل افراد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے خلاف کرمنل کیسز واپس لینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا

انتخابات کے فوری بعد آصف زرداری رائے ونڈ گئے اور اس کے بعد نواز شریف اور زرداری نے نئے جذبوں اور گرم جوشی کا اظہار کیا۔ اب یہ دونوں ایک خاندان کی مانند تھے۔ ان دونوں نے عوام کے سامنے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری اور ان دیگر معزز جج صاحبان کو بحال کرنے کا وعدہ کیا جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان رائے ونڈ، پھر مری، پھر دبئی، پھر لندن اور اس کے بعد اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں، مذاکرات اور معاہدے ہوئے۔ دو بار یہ وعدے دو باقاعدہ معاہدوں میں بھی تبدیل ہوئے مگر ان میں سے کسی پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا

18 فروری 2008ء سے 16 مارچ 2009ء کی رات گزرنے تک وکلاء اور معزول جج جو اپنے گھروں میں شرمندگی کے عالم میں بیٹھے تھے جبکہ صحافی اور درحقیقت ملک کا ہر حساس شخص حیران تھا کہ آصف زرداری نے ناپختہ وعدے کر کے اپنی پارٹی اور حکومت کو ایک بند گلی میں کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس اقدام کی وجہ سے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی پارٹی ایک غلط راہ پر چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اس کا کوئی بنیادی موقف بھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور اس کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچا اور پیپلزپارٹی کے حلقوں میں کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ عدلیہ کے مسئلے کو زرداری نے اس طرح کیوں استعمال کیا۔ اس وقت تک ان پر عوامی خواہشات کے آگے سرنگوں ہونے کے لئے بھی زبردست دباؤ تھا

اب بھی سوال یہ ہے کہ آصف زرداری نے آخر عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو اس انداز میں کیوں حل کیا؟ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات سے صرف تین روز قبل 15 فروری 2008ء کو آصف زرداری نے پوری صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اپنی ہر بازی پی سی او ججز پر لگا دی انہیں امید تھی کہ یہ جج اپنی ملازمتوں پر برقرار رہنے کے لئے ان کے تمام مطالبات مان لیں گے۔ زرداری نے اس سے قبل نواز شریف سے جتنی بھی ملاقاتیں کی تھیں اور معزز جج صاحبان کی بحالی کے لئے جو بھی وعدے کئے تھے ان کا مقصد ڈوگر اور دیگر پی سی او جج صاحبان کو آگے بڑھانا تھا تاکہ انہیں جو کام سونپا گیا ہے وہ اسے جلد از جلد مکمل کرلیں۔ چنانچہ 15 فروری 2008ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ کے چالیس روز بعد بظاہر ان کے غمزدہ شوہر نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اور انتخابات کے نتائج کا انتظار کئے بغیر انتخابات سے صرف تین روز قبل ایک آئینی پٹیشن (D-265/2008) سندھ ہائی کورٹ میں داخل کی۔ اس پٹیشن میں انہوں نے وفاقی حکومت اور نیب سے اپنے خلاف جاری ان تمام مقدمات واپس لینے کے حوالے سے رائے طلب کی تھی جو برطانیہ، سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ درخواست دہندہ نے جس جامع انداز میں درخواست تیار کی تھی اس کے مطالعے کے بعد کسی تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی

درخواست
درخواست ہے کہ یہ معزز عدالت براہ کرم (A) قرار دے کہ کلیم نمبر 2006 فولیو 156 کے تحت مدعا علیہ کی جانب سے استغاثہ کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن، یونائیٹڈ کنگڈم میں دائر کی جانے والی درخواست قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیار کے تحت معطل کی جائے یا واپس لی جائے

(B) اور یہ کہ مستغیث نمبر 1 کی جانب سے حکومت سوئٹزرلینڈ کو دی جانے والی مشترکہ درخواست جس کے تحت انویسٹی گیشن مجسٹریٹ جنیوا نے تحقیقات شروع کی ہے اور جیسا کہ مستغیث نمبر 1 سول پارٹی کی حیثیت سے اس میں شامل ہے تو اسے قومی مصالحتی آرڈیننس 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق واپس لیا جائے یا معطل کیا جائے۔
(C) اس بات کا اعلان کیا جائے کہ ذیل میں پیش کئے جانے والے مقدمات اور ریفرنسز این آر او 2007ء کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق ختم کئے جائیں اور واپس لئے جائیں گے

(i) ریفرنس نمبر 14/2001 (اثاثہ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(ii) ریفرنس نمبر 41/2001 (ایس بی ایس ریفرنس) جو اکاؤنٹس کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iii) ریفرنس نمبر 23/2000 (اے آر وائی گولڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(iv) ریفرنس نمبر 59/2002 (بی ایم ڈبلیو کا ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ (III) راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(v) ریفرنس نمبر 35/2000 (کوٹیکناریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر III راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vi) ریفرنس نمبر 1/2001 (ریسورس ٹریکٹر ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ نمبر II راولپنڈی میں زیر التوا ہے۔
(vii) ریفرنس نمبر 6/2000 (پولوگراؤنڈ ریفرنس) جو اکاؤنٹیبلٹی کورٹ II راولپنڈی میں زیر التوا ہے جسٹس ڈوگر جو اس وقت نام نہاد چیف جسٹس بھی تھے انہوں نے آصف زرداری کو نوازنے کے لئے اپنی اطاعت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی تمام ماتحت عدالتوں کو 27 فروری 2008ء کو آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 کی سماعت میں فوری طور پر بری کرنے کا مطالبہ کیا ان پٹیشنز میں درحقیقت این آر او کے قابل عمل ہونے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پی سی او ججز کی ایک پانچ رکنی بنچ نے تمام ماتحت عدالتوں کو مندرجہ ذیل ہدایات جاری کیں

سپریم کورٹ آف پاکستان میں حقیقی عدالتی دائرہ اختیار
برعدالت
مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر (ایچ سی جے)
مسٹر جسٹس محمد نواز عباسی
مسٹر جسٹس فقیر محمد کھوکھر
مسٹر جسٹس اعجازالحسن

مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز یوسف آئینی پٹیشن نمبر 76 اور 77 آف 2007 عدالتیں اور متعلقہ حکام آرڈیننس کی دفعات کی روشنی میں کسی دباؤ کا شکار ہوئے بغیر کہ یہ پٹیشنز تاخیر کا شکار ہوئی ہیں زیادہ تیزی کے ساتھ کارروائی کریں گی

اس کے اگلے روز سندھ ہائی کورٹ کے دو پی سی او ججوں خواجہ نوید اور علی سائیں ڈنو میٹلو نے آصف زرداری کی آئینی پٹیشن (D-265/2008) کی سماعت کرتے ہوئے فوری طور پر سپریم کورٹ کی مندرجہ بالا ہدایت کی تعمیل کرتے ہوئے نیب اور حکومت کو ہدایت کی کہ وہ عدالت میں ایک رپورٹ پیش کریں جس میں اس بات کی تصدیق ہوگئی ہو کہ انہوں نے این آر او کے تحت آصف زرداری کے خلاف تمام کرپشن کیسز واپس لے لئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کی تصدیق بھی کی جائے کہ ان کی جانب سے تمام غیرملکی استغاثہ حکام سے آصف زرداری کے خلاف تمام کیسوں میں سپریم کورٹ کے مندرجہ بالا حکم کی روشنی میں ہر قسم کا تعاون ختم کر دیا ہے

آصف زرداری کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ میں بار بار سماعت کے لئے پیش ہوتی رہی۔ ہر سماعت میں عدالت نیب اور وفاقی حکومت پر زور دیتی رہی کہ زرداری کے خلاف تمام کیس واپس لئے جائیں اور سندھ ہائی کورٹ میں ان کیسوں کے حوالے سے تعمیل حکم کی رپورٹ پیش کی جائے۔ جس آئینی پٹیشن کے تحت آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے تمام کیس بالآخر ختم کئے گئے ان کی تاریخیں مندرجہ ذیل تھیں۔ 15-2-2008، 29-2-2008، 4-3-2008، 28-3-2008، 21-4-2008، 6-5-2008، 15-5-2008، 29-8-2008، 17-9-2008۔
17 ستمبر 2008ء کو نیب اور وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکلاء (جو آصف زرداری کے کنٹرول میں تھے) نے ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رضا نقوی اور نیب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالتی حکم کی تعمیل کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ کی اس دو رکنی بنچ کو پیش کی جس نے مقدمات کی واپسی کی ہدایت کی تھی۔ ان دونوں ججوں میں خواجہ نوید او علی سائیں ڈنو میٹلو شامل تھے۔ جہاں تک سوئس عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا تعلق ہے اٹارنٹی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے سوئس عدالتوں میں عدالت کے ایک خط کی نقل پیش کی جس میں پٹیشنز کے خلاف عدالتی کارروائی ختم کرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہی انویسٹی گیٹنگ مجسٹریٹ جنیوا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آصف زرداری کے خلاف کرمنل کانسپریسی کے حوالے سے عدالتی کارروائی ختم کردیں جس کے مطابق انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کے ساتھ فراڈ کیا تھا

جہاں تک برطانیہ کے مشہور سرے محل کیس کا تعلق ہے DAG نے سندھ ہائی کورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ روک ووڈ اسٹیٹ سرے (برطانیہ) میں جاری تمام کارروائی ختم کردی گئی ہے۔ بعد میں نیب ریفرنسز کے حوالے سے DAG نے اس بات کی تصدیق کی کہ زرداری کے خلاف نیب کے تمام سات ریفرنسز جن میں اثاثوں کا ریفرنس، ایس جی ایس، کوٹیکنا ریفرنس URSUS ریفرنس اور پولو گراؤنڈ ریفرنس شامل تھے اور جو پٹیشنز کے خلاف راولپنڈی کی احتساب عدالت میں زیرسماعت تھے انہیں حکومت نے واپس لے لیا ہے

DAG کے متذکرہ بالا بیان کے بعد پٹیشنز کے وکلاء ابوبکر زرداری اور حیدر علی نے اپنی پٹیشن پیش نہیں کی اور جسٹس خواجہ نوید اور علی ڈنو میٹلو نے مندرجہ ذیل حکم کے ساتھ پٹیشن خارج کردی

آرڈر شیٹ
ہائی کورٹ آف سندھ۔ کراچی
سی پی نمبر D-265 آفس 2009
16-9-2008
فاضل DAG نے بیان کیا ہے کہ حکومت پاکستان کی وضاحت پر پٹیشنز کے خلاف لوئس عدالت میں زیر التواء کرمنل پروسیڈنگ ختم کردی گئی ہے اور ہائی کورٹ آف جسٹس کوئنز بنچ ڈویژن کمرشل کورٹ لندن یوکے میں زیر التواء کارروائیاں معطل کردی گئی ہیں۔
فاضل DAG کے بیان کی روشنی میں پٹیشنز کے فاضل وکیل نے پٹیشن کی سماعت جاری رکھنے پر زور نہیں دیا۔ اسی سبب سے پٹیشن اور اس کے ساتھ موجود درخواستیں نمٹادی گئی ہیں کیوں کہ ان پر زور نہیں دیا گیا۔

جج
مندرجہ بالا ان تمام واقعات کی اسکیم ہے جنہیں ترتیب اور بیان کیا گیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آصف زرداری اور پی سی او ججز نے کس طرح ترتیب وار، بھرتی سے اور طریقے سے کام کیا جب کہ نواز شریف، وکلاء اور پوری قوم معزول ججوں کی بحالی کے بلند و بالا وعدوں کے مزے لے رہے تھے۔ (جاری ہے)

تحریر ۔ اکرم شیخ ۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ۔ بشکریہ ۔ جنگ

پتھر دل سفّاک

ایک محاورہ سکول کے زمانہ میں پڑھا تھا ۔ ” آنکھ کے اندھے نام نَین سُکھ ” ۔ دورِ حاضر میں جس طرح باقی چیزوں کی تجدید ہو رہی ہے اس محاورہ کی تجدید بھی ضروری ہے چنانچہ اس کا ہمزاد کچھ اس طرح ہونا چاہيئے ” پتھر دل سفّاک ۔ نام روشن خيال” ۔ غزہ میں ايک سکول پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں فاسفورس بم استعمال کئے گئے ۔ نیچے اس کی چند تصاویر ہیں

جولائی 2007ء میں اسلام آباد کی مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ پر اپنے ہی ملک کے بدبخت سربراہ کے حکم پر اپنی ہی فوج نے فاسفورس بم برسائے تھے جس کے نتیجہ میں سینکڑوں بے قصور کم سِن بچیاں جل کر کوئلہ ہو گئی تھیں ۔ ان یتیم اور لاوارث بچیوں کا رونے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ غزہ میں تو اقوامِ متحدہ کے مددگار موجود تھے اُنہوں نے اُن کے جلے جسموں کو صحیح طرح دفنا دیا ہو گا ۔ جامعہ حفصہ کی معصوموں کے قتل عام کی کاروائی کے بعد ان معصوموں کے جسموں کا جو کچھ بچا تھا رات کے اندھیرے میں لَوڈروں [Loaders] کے ذریعہ ڈَمپروں [Dumpers] میں بھر کر اسلام آباد کے قریبی جنگلوں میں دبا دیا گیا تھا اور جلی ہوئی جامعہ حفصہ کی عمارت کو گِرا کر ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا تاکہ اصل صورتِ حال عوام کے علم میں نہ آ سکے ۔ سِتم ظریفی یہ کہ اس بہیمانہ کاروائی کے دوران کراچی بلکہ لندن سے اسلام آباد تک ہمہ وقت اپنے حقوق کا رونا رونے والے دھاڑ رہے تھے “مار دو انہیں ۔ ختم کر دو انہیں”

داغے گئے سفید فاسفورس والے دو گولے
MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
گولے گر چکے ہیں
MIDEAST-ISRAEL-PALESTINIAN-CONFLICT-GAZA
گولے پھٹنے کا منظر
CORRECTION-MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
فاسفورس بم کی تباہ کاری ۔ بچے مکمل طور پر جل کر کوئلہ ہو چکے ہیں اور سب فرنیچر بھی راکھ ہو چکا ہے
AK00000001
MIDEAST-ISRAEL-GAZA-CONFLICT-UN
MIDEAST-PALESTINIAN-ISRAEL-GAZA
AK00000001

قانون ؟ ؟ ؟

خبر ہے کہ ہالینڈ میں 5 ہم جنس پرست جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ شادی کرنے والے پانچ افراد کا تعلق امریکی ریاست نیو یارک سے ہے جہاں قانونی طور پر ہم جنس پرستوں کی شادی ممنوع ہے ۔ اسی لئے امریکی ہم جنس پرست دیگر یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور شادی کے بعد واپس امریکا آجاتے ہیں کیونکہ اس صورت میں امریکہ میں شادی سرکاری طور پر تسلیم کی جاتی ہے

حکومتی منافقت

پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں 2010 تک ملک بھر میں 5 لاکھ ڈی ایس ایل کنکشن کا اضافہ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن اس حوالہ سے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا گیا ہے جبکہ دینی مدارس کو براڈ بینڈ نیٹ ورک میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین اتھارٹی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ کمپنیوں سافٹ ویئر ہاؤسز وزارت آئی ٹی و ٹیلی کام اور یونیورسل سروس فنڈز کے عہدیداروں نے شرکت کی ہے۔ براڈ بینڈ اسٹیک ہولڈرز گروپ (بی ایس جی) کی رپورٹ میں براڈ بینڈ سیکٹر کی ترقی کے چار شعبوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تجاویز دی گئی ہیں ان میں براڈ بینڈ انفرااسٹرکچر‘ نیٹ جنریشن براڈ بینڈ‘ براڈ بینڈ پالیسی اور ریگولیشن فریم ورک رابطے اور نیٹ ورک کا فروغ دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ کی توسیع جیسے امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔

البتہ براڈ بینڈ کو ترقی دینے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ دینی مدارس کو براڈ بینڈ نیٹ ورک میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا ہے حالانکہ ملک بھر میں 12 لاکھ سے زیادہ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات ہر سطح پر کی جارہی ہے

حکومتی شعبدہ بازی

صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ایک صدارتی آرڈی نینس پر آج یعنی جمعرات 9 جولائی کی علی الصبح دستخط کردیئے ہیں جس کے ذریعے پیٹرولیم کی مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی[Petroleum Development Levy] فوری طور پر لگا دی گئی ہے اور پٹرولیم پراڈکٹس [Petroleum Products] کی قیمتیں جنہیں کم کرنے کا نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کے حُکم پر کیا گیا تھا دوبارہ بڑھادی گئی ہیں ۔ یہ نیکی کمانے کیلئے وزارت پٹرولیم ، ایف بی آر ، اوگرا اور وزارت قانون کل سے آج صبح علی الصبح تک کام کرتے رہے

ذرائع کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تحریری سفارش پر صدر زرداری نے آرڈیننس پر دستخط کئے اور نئی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر جاری کردیا گیا