میری جولائی 1954ء کی ڈائری سے
“Philosophy can do nothing which religion can not do better than philosophy; and religion can do a great many other things which philosophy can not do at all.”
میری جولائی 1954ء کی ڈائری سے
“Philosophy can do nothing which religion can not do better than philosophy; and religion can do a great many other things which philosophy can not do at all.”
میں نے ڈائری میں 31 مارچ 1958ء کو لکھا
یوں تو دنیا کے مختلف شہروں میں بہت سے بلند و بالا مینار ہیں جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے کچھ کم شاندار نہیں مگر سنگین مینار چوٹی سے زمین تک خوبصورت اور بلند اور قدیم سوائے قطب مینار کے اور کوئی نہیں ۔ قطب مینار خالص پتھر کا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بلندی 238 فٹ ہے ۔ مینار میں چوٹی تک 378 سیڑھیاں ہیں ۔ اس مینار کا پہلا درجہ اگرچہ رائے پتھورا کے زمانہ کا بنا ہوا ہے مگر 1193ء میں اسلامی فتوحات مکمل ہو جانے پر سُلطان قطب الدن ایبک نے اس پر چار درجوں کا اضافہ کرایا اور اس مینار کو مازنہ قرار دے کر اس نسبت سے ایک عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے معروف ہوئی ۔ جس مسجد کا ماذنہ اتنا بُلند ہو اس کی وسعت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ بت خانہ کے صحن میں ماذنہ اور مسجد کا ہونا اور بت خانہ کا بھی قائم رہنا اور لوہے کی لاٹ ہندو راج کا نشان سب کا ملا جُلا ایک جگہ ایک ہزار سال قائم رہنا یہ نظارہ سوائے دہلی کے اور کسی جگہ نظر نہیں آئے گا ۔ اب حال یہ ہے کہ نہ بُت خانہ میں پوجا ہوتی ہے نہ مسجد میں نماز نہ ماذنہ سے اذان
سُلطان قطب الدین ایبک کے انتقال کے بعد سلطان شمس الدین التمش 627 ھ بمطابق 1229ء میں مسجد قوت الاسلام میں تین درجوں کا اضافہ کیا جس پر اسلامی پرچم نہائت شان سے لہرایا کرتا تھا اور اسلام کے شیدائی شمس الدین التمش نے ہر درجہ پر جلی حروف میں آیاتِ قرآنی کندہ کروائیں ۔ قطب مینار نیچے سے 48 فٹ گول ہے اور اُوپر تک گاؤ دُم ہوتا چلا گیا ہے ۔ یہ ایسی خوبصورتی سے بنایا گیا ہےکہ تحریر سے باہر ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بڑی بڑی سِلیں اس زمانہ میں جبکہ آلاتِ جرثقیل اور سائنٹفک آلات موجود نہ تھے تو کس طرح اس بلندی پر پہنچ کر لگائی گئی تھیں کہ آج ایک ہزار سال ہو گئے لیکن اُکھڑنے کا نام نہیں لیتیں ۔ قطب مینار کی بنیاد کس ساعتِ سعید میں رکھی گئی ہو گی کہ ہندوؤں کے زمانہ میں اس کا پہلا درجہ بنا ۔ مسلمانوں نے اسے سربلند کیا ۔ ان کے عروج و کمال کو دیکھا ۔ پھر ان کے زوال کو بھی دیکھا اور نجانے کب تک انقلابِ لیل و نہار کا مشاہدہ کرتا رہے گا
اہم بات
جب 1950ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اٹلی میں موجود پِسا (Pisa) کے مینار کے تِرچھا یعنی ایک طرف کو جھُکا ہوا ہونے کا چرچا ہو رہا تھا والد صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ قطب مینار شروع دن سے ہی عمودی نہیں بلکہ کچھ تِرچھا بنا ہوا ہے جبکہ پِسا کا مینار تعمیر کی خامی کی وجہ سے جھُکنا شروع ہو گیا ہے ۔ مزید قطب مینار کی اُونچائی پِسا کے مینار سے 53 فٹ زیادہ ہے اور قطب مینار کی عمر پِسا کے مینار سے 180 سال زیادہ ہے مگر پروپیگنڈہ کے ذریعہ پِسا کے مینار کو عجوبہ قرار دیا جا رہا ہے اور قطب مینار کا نام کوئی نہیں لیتا
میری اگست 1954ء کی ڈائری میں لکھا ہے
اللہ کا خوف عقلمندی کی ابتداء ہے
اور
ذات پاک کا عِلم سمجھ کی بنیاد ہے
ناکامی کو دل میں جگہ نہ دیجئے
ناکامی دل میں مایوسی پیدا کرتی ہے
اور
کامیابی کو دماغ میں جگہ نہ دیجئے
کامیابی دماغ میں تکبّر پیدا کرتی ہے
میری ڈائری میں 3 مارچ 1957ء کی تحریر
ہرن مینار
مُغل بادشاہ سلیم جہانگیر نے 1606ء میں تالاب بنوایا جس کی لمبائی 892 فٹ چوڑائی 750 فٹ اور درمیان میں گہرائی 18 فٹ ہے
1606ء میں ہی تالاب کے قریب اپنے پسندید ہرن منسراج کی قبر پر ایک مینار تعمیر کرایا ۔ اس مینار کی اُونچائی 125 فٹ ہے اور اس کی چھت پر جانے کیلئے سیڑھیوں کی تعداد 106 ہے
1611ء میں دولت خانہ بنوایا گیا جو دو منزلہ ہے اور تیسرا گنبد ہے
قلعہ شیخو پورہ
موجودہ شیخو پورہ مغل باسدشاہ جہانگیر کی شکار گاہ تھی
بادشاہ جہانگیر نے اپنے نام سے منصوب ایک گاؤں جہانگیر آباد اس جگہ آباد کیا ۔ بادشاہ جہانگیر کو شیخو بھی کہا جاتا تھا چنانچہ بعد میں یہ شیخو پورہ کے نام سے معروف ہوا
بادشاہ جہانگیر نے اس جگہ 1907ء میں ایک قلعہ تعمیر کرایا جو موجوددہ شہر شیخو پورہ کے جنوب مشرق میں ہے ۔ اس قلعے کی پہلی منزل کی 27 سیڑھیاں ہیں ۔ دوسری کی 58 ۔ تیسری کی 16 اور چوتھی یی بھی 16 سیڑھیاں ہیں
بعد میں مغل بادشاہ شاہجہاں نے ایک نئی عمارت بنوائی جس کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ خیال ہے کہ شاید متذکرہ بالا دولت خانہ کی جگہ بنائی گئی ہو گی
یہ چند جھلکیاں اُس سزا کی ہیں جو 1947ء میں مسلمانانِ ہند کو تحریکِ آزادی چلانے اور اپنا مُلک پاکستان بنانے کے سبب دی گئی
مغربی پاکستان کے قریبی ہندوستان کے علاقوں سے جذبہ ءِ آزادی سے سرشار سوا کروڑ سے زائد مسلمان عورتیں ۔ مرد ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انہیں راستہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور تہہ تیغ کیا گیا ۔ 50 لاکھ کے لگ بھگ جوان عورتوں اور لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ ہجرت کرنے والے اِن مسلمانوں میں سے آدھے بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پائے اور جو بے سر و سامان ۔ بھوکے پیاسے پاکستان پہنچے ان میں بھی بہت سے زخمی تھے
کیا ہم اتنے ہی بے غیرت و بے حمیّت ہو چکے ہیں کہ اس مُلک کے حصول کیلئے اپنے آباؤ اجداد کی بے شمار اور بے مثال قربانیوں کو بھی بھُلا دیں ؟
میرے پاکستانی بہنو ۔ بھائیو ۔ بھانجیو ۔ بھانجو ۔ بھتیجیو ۔ بھتیجو
ہوش میں آؤ
آپا دھاپی چھوڑ کر اس مُلک کیلئے خلوصِ نیّت اور محنت سے کام کرو
جس نے ہم سب کو ایک منفرد شناخت بخشی ہے
ہم اُن لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے حوصلے اور صبر کے ساتھ سو سال جانی اور مالی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پُر امن اور مہذب جد و جہد کر کے کُرّہءِ ارض پر ایک نیا مُلک بنایا
اس مُلک کا نام پاکستان ہے یعنی پاک لوگوں کی رہائشگاہ
اسلئے
ہمیں تمام الائشوں سے پاک ہو کر محنت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا ہے
اور
اس مُلک کو مُسلمانوں کا ایک خوشحال اور مضبوط قلعہ بنانا ہے
عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں
” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں
اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے
یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی
آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11
إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے