Category Archives: معلومات

ترقی یافتہ آزاد دنیا کی حالت

دی ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں اپنی ایک سروے رپورٹ کا خلاصہ شائع کیا ہے جس کے مطابق امریکہ کی 27 یونیورسٹیوں کی 150000 طالبات سے اُن پر جبری جنسی زیادتی (Forced Sexual Attacks) کے بارے میں پوچھا گیا تھا ۔ ان لڑکیوں کے جوابات پر مبنی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں اوسط 23 فیصد طالبات جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں ۔ ان میں خاصی تعداد زنا بالجبر کا نشانہ بنیں ۔ طالبات کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں جنسی زیادتی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں
نیچے آخر میں متذکرہ سروے کا خلاصہ دیکھیئے

متذکرہ سروے میں اپنی مرضی سے جنسی تعلق یا زنا شامل نہیں ہے ۔ صرف مرضی کے خلاف زبردستی کی گئی جنسی زیادتیوں کے اعداد و شمار ہیں ۔ یہ حالت اُس معاشرے کی ہے جہاں بغیر شادی جنسی تعلقات رکھنا رواج بن چکا ہے اور اسے قانونی ۔ معاشرتی اور اخلاقی طور پر بُرا نہیں جانا جاتا ۔ اس بالرضا فعلِ بد سے شاید ہی کوئی فرد بچا ہو ۔ یہی نہیں بلکہ اُس معاشرے میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم جنس پرستی کو بھی بُرا نہیں جانا جاتا ۔ وہاں شراب پینے کی بھی اجازت ہے اور نائٹ کلب بھی عام ہیں جہاں جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہے

کمال یہ ہے کہ ان قباحتوں سے بچنے کیلئے اُن مُلکوں میں ہر قسم کی اَینٹرٹینمنٹ ۔ کھیلیں ۔ تھِئیٹر اور دوسری سہولتوں کی بھی کوئی کمی نہیں کہ کہا جائے کہ ایسی سہولتوں کا نہ ہونا ہے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانا ہے

یہ اُن لوگوں کا معاشرہ ہے جو لبرلزم اور روشن خیالی کے نام پر مغربی تہذیب کو پاکستان میں پھیلا کر ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار بالخصوص شرم و حیا کے خاتمہ کے خواہاں ہیں ۔ اللہ ہمیں اس شیطانیت سے بچائے اور سیدھی راہ پر قائم کرے

Percentage prevalence of sexual assault for UNDERGRADUATE women
Cal. Tech = 13 . . . . . . . . . . . . . . . Texas A&M University = 15
Iowa State University = 19 . . . . . . . . University of Texas = 19
Case Western Reserve U. = 20 . . . . University of Florida = 20
University of Pittsburgh = 21 . . . . . . . . Purdue University = 22
University of Arizona = 22 . . . . . . . . Columbia University = 23
Cornell University = 23 . . . . . Washington U. in St. Louis = 23
Ohio State University = 24 . . . . . . . . . Univ. of Minnesota = 24
Univ. of N.C. = 24 . . . . . . . . . . . . . . University of Oregon = 24
University of Virginia = 24 . . . . . . . . . . . Brown University = 25
Michigan State University = 25 . . . . . . Harvard University = 26
Univ. of Missouri = 27 . . . . . . . University of Pennsylvania = 27
Dartmouth College = 28 . . . . . . . . . . . Univ. of Wisconsin = 28
Yale University = 28 . . . . . . . . . U. of Southern California = 30
University of Michigan = 30
Average of 27 universities = 23

w2-sexassault0922clra
w2-sexassault0922clrb
w2-sexassault0922clrc

قارئین کی فرمائش پر

امریتا پرتم 31 اگست 1919ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہوئی تھی ۔ وہ 1947ء میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔31 اکتوبر 2005ء کو بھارت میں فوت ہو ئی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی 100 کے لگ بھگ کُتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ پنجابی میں مندرجہ ذیل نظم امریتا پریتم نے 1947ء کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں بھارت میں اُسے زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہندوستان کے باقی علاقوں کی نسبت پنجاب اور جموں (ریاست جموں کشمیر) میں بہت زیادہ قتلِ عام ہوا تھا ۔ مسلمانوں کے کھیتوں میں کھڑی فصلیں اور محلوں کے محلے جلا دیئے گئے تھے
مجھے یاد نہیں کہ میں نے یہ نظم کب پڑھی تھی مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ قارئین کی فرمائش پر ہر شعر کے متصل اُردو ترجمہ لکھا ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کِتَھوں قَبراں وِچَون بَول ۔ ۔ ۔ آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول
تے اَج کتابِ عشق دا ۔ کوئی اگلا ورقہ پھَول ۔ ۔ ۔ اور آج کتابِ عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لِکھ لِکھ مارے وَین ۔ ۔ ۔ ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین
اج لَکھاں دِھیآں رَودیاں ۔ تَینُوں وارث شاہ نُوں کَیہن ۔ ۔ ۔ آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں
اُٹھ دردمَنداں دیا دردِیا ۔ اُٹھ تک اپنا پنجاب ۔ ۔ ۔ اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہُو دی بھری چناب ۔ ۔ ۔ آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتی زہر رَلا ۔ ۔ ۔ کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا
تے اَوہناں پانَیاں نے دَھرت نُوں دِتا پانی لا ۔ ۔ ۔ اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب
ایس زرخیز زمین تے لوُں لوُں پھُٹیا زہر ۔ ۔ ۔ اِس زرخیز پر جا بجا کونپلیں پھُوٹی زہر کی
گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں فُٹ فُٹ چڑھیا قہر ۔ ۔ ۔ بالِشت بالِشت چھڑھی سُرخی اور فُٹ فُٹ چڑھا قہر
ایہو ولی سی واء فیر وَن وَن وَگی جھَگ ۔ ۔ ۔ ایسی چلی تھی ہوا پھر طرح طرح کی نکلی جھاگ
اوہنے ہر اِک بانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا ۔ ۔ ۔ اُس نے ہر ایک بانس کی بانسری دی سانپ بنا
پہلا ڈنگ ماردیاں ۔ منتر گئے گواچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار ہی ڈَسنے سے ۔ جوگی مَنتر بھول گئے
دوجے ڈنگ دی لگ گئی جانے خانے نُوں لاگ ۔ ۔ ۔ دوسری بار ڈسنے سے جیسے گھروں کو جاگ لگ گئی
ناگاں کِلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ ۔ ۔ ۔ سانپوں کے زہریلے دانت منہ میں اور بس ڈَسنا ہی ڈَسنا
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ ۔ ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھے پنجاب کے سارے اعضاء نیلے پڑ گئے
وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر، ترکّلے اوں ٹُٹی تند ۔ ۔ ۔ حلق سے گیت نکنے بند ہوئے اور ترکّلے کی تانی بھی ٹوٹ گئی
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرَکھّڑے کُوکر بند ۔ ۔ ۔ علاقے کی دوستاں ختم ہوئیں اور چرکھّڑی کی آواز بھی بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ ۔ ۔ ۔ سیج سمیت کِشتیاں بہا دی گئیں
سنے ڈالیاں پینگ اج ۔ پِپلاں دِتی توڑ ۔ ۔ ۔ مع ٹہنیوں کے جھولے پیپل کے درختوں نے توڑ دیئے
جِتھے وَجدی پھُوک پیار دی اَو وَنجلی گئی گواچ ۔ ۔ ۔ جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم
رانجھے دے سب ویر ۔ اج بھُل گئے اَوس دی جاچ ۔ ۔ ۔ رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانا
دھرتی تے لہو وسیا ۔ تے قَبراں پَیّئاں چَون ۔ ۔ ۔ دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے
پرِیت دِیاں شہزادیاں ۔ اج وِچ مزاراں رَون ۔ ۔ ۔ پیار کی شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھی روئیں
اج تے سبے کیدو بن گئے حُسن عشق دے چور ۔ ۔ ۔ آج تو سب ہی کیدو بن گئے حسن و عشق کے چور
اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور ۔ ۔ ۔ آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور

اسلامی موسیقی ؟ ؟ ؟

اسلام قبول کرنے کے محرک کے متعلق ایک برطانوی نَو مُسلم کی آپ بیتی کی تلخیص کر کے ترجمہ شائع کیا تھا ۔ اس پر دہلی (بھارت) سے ایک محترمہ نے سوال پوچھا ۔ میں نے جواب میں لکھا ”میں نہیں جانتا اسلامی موسیقی کیا ہوتی ہے“۔ اس کے بعد کراچی سے ایک محترمہ نے وکی پیڈیا پر لکھے کا حوالہ دیا ۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ اس امر کی وضاحت ہو جانی چاہیئے

قرآنی آيات اور احاديث گانے بجانے كے آلات اور موسيقی كی مذمت پر دلالت كرتے ہيں اور انہيں استعمال نہ كرنے كا كہتے ہيں ۔ قرآن مجيد راہنمائی كرتا ہے كہ ايسی اشياء كا استعمال گمراہی اور اللہ تعالٰی كی آيات كو مذاق بنانے كا باعث ہے جيسا كہ اللہ تعالٰی كا فرمان ہے
”اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھی ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كی راہ سے روك سكيں اور اسے مذاق بنائيں ۔ يہی وہ لوگ ہيں جن كے لئے ذلت آميز عذاب ہو گا (سورۃ 13 لقمان آیت 6)“۔

صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانی جائز ہے اور يہ بھی صرف عورتوں كے لئے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتی ہيں تاكہ نكاح كا اعلان اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئی حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائی و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو اور نہ ہی عشق و غرام كے كلمات ہوں اور يہ كسی واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں بلكہ صرف عورتيں ہی سُنيں اور نہ ہی اعلانيہ اور اونچی آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہی بُرا كام كر رہے ہيں كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے لئے دف كے علاوہ كوئی اور موسيقی كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں مثلاً بانسرى گٹار، سارنگی وغيرہ بلكہ يہ برائی ہے ۔ صرف انہيں دف بجانے كی اجازت ہے ليكن مردوں كے لئے دف وغيرہ ميں سے كوئی بھی چيز استعمال كرنی جائز نہيں ۔ نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہی كسی اور موقع پر بلكہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تو مردوں كے لئے لڑائی كے آلات اور ہُنر سيكھنے مشروع كئے ہيں كہ وہ تير اندازی اور گھڑ سواری اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائی جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں ۔ ديكھيں مجموع الفتاوی ابن باز (3/423 و 424)

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں کہ يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولٰی جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہی شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں اور نہ ہی عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين اور تقوٰی و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كی محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائی جاتی اور نہ ہی تالی اور سارنگی اور بانسرى بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدی كے آخر ميں بدعت ايجادى كی گئی اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا ۔ ديكھيں مجموع الفتاوى (11/569)

اور رہا ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامی نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے اور ان ميں موسيقی بھی ہوتی ہے تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقی اور گانا ہی ہے اور اسے اسلامی نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے اور يہ گانے كا بدل نہيں سكتے تو ہمارے لئے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں بلكہ ہم تو اچھی اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندی كی جگہ لائينگے اور انہيں اسلامی سمجھ كر سُننا اور اس سے عبادت كی نيت كرنا بدعت شمار ہو گی جس كی اللہ نے اجازت نہيں دی

تفصیل
اكثر علماء كرام نے لہو الحديث كی تفسير گانا بجانا اور آلات موسيقی اور ہر وہ آواز جو حق سے روكے بيان كی ہے امام طبری ابن ابی الدنيا اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے درج ذيل آيت كی تفسير ميں مجاہد رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے ۔ فرمان باری تعالٰی ہے ”اور ان ميں سے جسے بھی تو اپنی آواز بہكا سكے بہكا لے اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھی اپنا شريك بنا لے اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھی وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں (سورت 17الاسراء آیت 64 و 65)
مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ گانا اور آلات موسيقی اور بانسری وغيرہ ہيں اور طبری نے حسن بصری سے ان كا قول نقل كيا ہے كہ اس كی آواز دف ہيں ديكھيں (جامع البيان ۔ 15 / 118-119) ۔ ذم الملاہی ( 33 ) تلبيس ابليس (232 )
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ”يہ اضافت تخصيص ہے جس طرح اس کی طرف گھڑ سوار اور پيادے كی اضافت كی گئی ہے چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالٰی كی اطاعت كے بغير ہو اور ہر وہ آواز جو بانسری يا دف يا ڈھول وغيرہ كی ہو وہ شيطان كی آواز ہے”۔ ديكھيں اغاثۃ اللھفان (1 / 252)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابن ابی ليلی كی سند سے حديث بيان كی ہے وہ عطاء سے بيان كرتے ہيں اور وہ جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ كے ساتھ نكلے تو ان كا بيٹا ابراہيم موت و حيات
كی كش مكش ميں تھا ۔ رسول كريم صلی اللہ عليہ و سلم نے بيٹے كو گود ميں ركھا تو ان كی آنكھوں سے آنسو بہنے لگے تو عبد الرحمن كہنے لگے ” آپ رونے سے منع كرتے ہيں اور خود رو رہے ہيں ؟“
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”ميں رونے سے منع نہيں كرتا بلكہ دو احمق اور فاجر قسم كی آوازوں سے منع كرتا ہوں ۔ ايك تو مزامير شيطان اور موسيقی كے آلات اور نغمہ كے وقت نكالی جانے والی آواز سے اور دوسرى مصيبت كے وقت چہرے پيٹنے اور گريبان پھاڑنے كےساتھ آہ بكا كرنے كی آواز ۔ سنن ترمذی حديث نمبر (1005)
امام ترمذى كہتے ہيں ”يہ حديث حسن ہے اور اسے امام حاكم نے المستدرك (4/43) اور بيہقی نے السنن الكبری (4/69) اور الطيالسی نے مسند الطيالسی حدی نمبر اور امام طحاوی نے شرح المعانی (4/29) ميں نقل كيا ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار ديا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ كہتے ہيں ”اس سے مراد گانا بجانا اور آلات موسيقی ہيں ۔ ديكھيں تحفۃ الاحوذی (4/88)

صحيح حديث ميں نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا يہ بھی فرمان ہے ”ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقی حلال كر لينگے اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگی تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہيں گے كل آنا تو اللہ تعالٰی انہيں رات كو ہی ہلاك كر ديگا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا

امام بخاری نے اسے صحيح بخاری (10/51) ميں معلقا روايت كيا ہے اور امام بيہقی نے سنن الكبری (3/272) ميں اسے موصول روايت كيا ہے اور طبرانی نے معجم الكبير (3/319) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان (8/265) ميں روايت كيا ہے اور ابن صلاح نے علوم الحديث (32 ) ميں اور ابن قيم نے اغاثۃ اللھفان (255) اور تہذيب السنن (2/1270-272) اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (10/51) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ (1/140) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ميں كہتے ہيں ۔ المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور قرطبی نے جوہری سے نقل كيا ہے كہ معازف گانا ہے اور ان كی صحاح ميں ہے كہ يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور ايك قول يہ بھی ہے كہ يہ گانے كی آوازيں ہيں اور دمياطی كے حاشيہ ميں ہے معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں ۔ ديكھيں فتح البارى (10/55) ۔ اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ۔ اس كی وجہ دلالت يہ ہے كہ معازف سب آلات لہو كو كہا جاتا ہے ۔ اس ميں اہل لغت كے ہاں كوئی اختلاف نہيں اور اگر يہ حلال ہوتے تو اسے حلال كرنے كی بنا پر مذمت نہ كی جاتی اور نہ ہی اس كا حلال كرنا شراب اور زنا كے ساتھ ملايا جاتا ۔ديكھيں اغاثۃ اللہفان (1/256)

اس حديث سے گانے بجانے كے آلات كی حرمت ثابت ہوتی ہے اور اس حديث سے كئی طرح استدلال ہوتا ہے
پہلی وجہ ۔ نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا فرمان وہ حلال كر لينگے ۔ يہ اس بات كی صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں ۔ تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنی گانے بجانے كے آلات بھی شامل ہيں
دوم ۔ ان گانے بجانے والی اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كی حرمت قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اگر ان معازف اور گانے بجانے والی اشياء كی حرمت ميں اس حديث كے علاوہ كوئی ايك آيت يا حديث نہ بھی وارد ہوتی تو اس كی حرمت كے لئے يہی حديث كافی تھی اور خاص كر اس طرح كے گانے كی حرمت ميں جو آج كل لوگوں ميں معروف ہے ۔ يہ وہ گانے ہيں جس ميں فحش اور گندے قسم كے الفاظ استعمال ہوتے ہيں اور اسے مختلف قسم كی موسيقی و ساز اور طبلے و ڈھول اور سارنگی و بانسری اور پيانو و گِٹار وغيرہ كے ساز پائے جاتے ہيں اور اس ميں آواز ہيجڑوں اور فاحشہ عورتوں كی ہوتی ہے ۔ ديكھيں حكم المعازف للالبانی اور تصحيح الاخطاء و الاوھام الواقعۃ فی فھم احاديث النبی عليہ السلام تاليف رائد صبری (1/176)

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں معازف ہی وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دی تھی كہ آخری زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئيں گے جو شراب و زنا اور ريشم كی طرح اسے بھی حلال كر لينگے ۔ يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتی ہے كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے اور يہ حديث جس طرح شراب اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كی مذمت پر دلالت كرتی ہے ۔ اسی طرح اس كی حرمت اور اسے حلال كرنے والے كی مذمت پر بھی دلالت كرتی ہے ۔ گانے بجانے اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والی آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالٰی نے گانا بجانا اور آلات موسيقی مباح كئے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے اور عظيم قسم كی برائی كا مرتكب ہوا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہميں شيطان اور خواہشات كی اطاعت سے محفوظ ركھے اور اس سے بھی بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے ۔ اس ميں كوئی شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالٰی اور اپنے دين سے جہالت ہے ۔ بلكہ يہ تو اللہ تعالٰی اور اس كی شريعت پر جھوٹ بولنے كی جسارت و جراءت ہے
اللہ تعالٰی سے ہم سلامتی و عافيت كی دعا كرتے ہيں
مزيد تفصيل كے لئے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں
تلبيس ابليس (237) المدخل ابن حجاج (3/109) الامر بالاتباع والہنی عن الابتداع للسيوطی ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابی الدنيا
الاعلام بان العزف حرام ابو بكر
جزائری تنزيہ الشريعۃ عن الاغانی الخليعۃ
تحريم آلات الطرب للالبانی
واللہ اعلم
الشيخ محمد صالح المنجد

اذان کا اثر

ہمارے مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جن پر اذان کی آواز کوئی اثر نہیں کرتی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلاح وہی پاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے ۔Convert آج مختصر سوانح عمری ایک شخص رُونی کی جو سکاٹ لینڈ کا ایک غیر مُسلم رہائشی تھا ۔ اُس کی کبھی کسی مسلمان سے ملاقات بھی نہ ہوئی تھی ۔ اپنی سوانح عمری میں رُونی لکھتے ہیں

میں نے زندگی بھرکبھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا اور نہ کبھی کسی مسلمان سے میری ملاقات ہوئی تھی ۔ میں ترکی میں چھٹیاں گذارنے گیا ۔ وہاں اذان کی آواز سنی جس میں اتنی کشش تھی کہ میں ترکی سے اسکاٹ لینڈ کے شہر اینفرینس پہنچتے ہی ایک مقامی کُتب خانے گیا اور قرآن کریم کا انگریزی ترجمے پر مشتمل نسخہ خریدا ۔ میں نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اس نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے میرے اندر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ میں نے قرآن کریم کو 3 بار مکمل پڑھا اور ہر بار پہلے کی نسبت زیادہ آگاہی حاصل ہوئی
میں نے اسلام کے بارے میں مطالعے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پرنومسلم حضرات کے بارے میں بھی پڑھا جن کےقبول اسلام کا ہر ایک کا اپنا منفرد سفر تھا مگر ان میں جو چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ہر ایک نے اسلام کو شعوری طورپر قبول کیا اور باریک بینی سے مطالعے کے بعد دائرہءِ اسلام میں داخل ہوا

میں نے انٹرنیٹ پر عربی میں نماز کا طریقہ سیکھا اور قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔ اسلامی موسیقی سُنی۔ موسیقی میری کمزوری تھی ۔ اس لئے اسلامی موسیقی سے بھی بہت محظوظ ہوا ۔ بہر حال اسلام کے بارے میں حقائق تک پہنچنے میں 18 ماہ کا عرصہ لگا ۔ ڈیڑھ سال کے بعد میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا ۔ نماز پنجگانہ شروع کردی ۔ ماہ صیام کے روزے رکھے ۔ حلال وحرام کی تمیزشروع کردی

میرے محلے میں ایک چھوٹی مسجد بھی ہے ۔ میں مسجد پہنچا ۔ اپنا تعارف کرایا اور اندر داخل ہوگیا ۔ مسجد میں موجود تمام لوگ حیران ہوئے ۔ انہوں نےمجھے اسلام کے بارے میں اہم معلومات پرمبنی کُتب دیں ۔ اب میں اس مسجد کے اہم ارکان میں سے ایک ہوں

تاریخی حقائق ۔ سابق سینیٹر کی زبانی

میں خود اس معاملہ میں ذاتی طور پر شریک تھا اور اس معاہدہ کو برادرم محمد خان جونیجو صاحب اور ان کے وزیر خارجہ اور دوسرے رفقائے کار کی ہمالیہ سے بڑی غلطی سمجھتا ہوں

آج افغان جہاد اور اس کے مضمرات کے بارے میں جس کا جو دل چاہتا ہے گوہر ا فشانی کرتا ہے لیکن انہیں تاریخی حقائق اور پالیسی کے اہم امور اور دلائل دونوں سے اتنی بے اعتنائی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے

جنیوا معاہدہ پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہوئی تھی ۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی بریفنگ کے لئے بھی ان کیمرہ (in camera) اہتمام کیا گیا تھا اور اس میں اصل پیش کار (Presentator) مرحوم جنرل حمید گل صاحب تھے جس کو جونیجو صاحب نے درمیان میں اچانک مداخلت (Abraptly intercept) کرکے رکوادیا تھا جس پر ہم نے احتجاج بھی کیا تھا۔ اس پرِیزینٹیشن (Presentation
) میں جو دلائل اور حقائق بڑے محکم انداز میں پیش کئے جارہے تھے وہ جونیجو صاحب کی خواہش کے خلاف تھے اور ارکان پارلیمنٹ پر اس کا گہرا اثر دیکھا جارہا تھا ۔ جینوا معاہدہ کے سلسلے میں ان کے موقف کو سراسر غلط اور ملک اور پورے علاقے کے لئے تباہ کن سمجھتا تھا اور سمجھتا ہوں مگر ان کی نیت پر شبہ نہیں کرتا۔ ان کو غلط مشورہ دیا گیا۔ ان کو خود ان معاملات کا وہ ادراک نہیں تھا جو ایک وزیر اعظم کو ہونا چاہئے اور وہ ملک کو مارشل لاء اور فوج کی بالا دستی کے نظام سے نکالنے میں جلدی میں تھے جس کا دوسروں نے فائدہ اٹھایا۔

صاحبزادہ یعقوب خان صاحب ان معاملات پر بے حد مضطرب پریشان اور دل گرفتہ تھے۔ لیکن بڑے دکھ سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم صاحب نے ان کی رائے کو کوئی وزن نہ دیا۔ حد یہ ہے کہ جنیوا معاہدہ کا اصل مسودہ بھی ان کو نہ دیا گیا۔ دفتر خارجہ کے لوگ بلاشبہ ان کا بہت احترام کرتے تھے لیکن ان میں یہ خوش خلقی (Courtesy) نہیں تھی کہ اپنے سابق وزیر خارجہ کو وہ مسودہ دے سکیں

جنیوا معاہدہ افغانستان میں تنازع کے اصل فریقوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ ان کو الگ (Side step) کرکے کیا جارہا تھا۔ تحریکات آزادی میں حکومت وقت اور مزاحم قوتوں کا کردار اصل ہوتا ہے۔ جنیوا معاہدہ میں اصل کردار اقوام متحدہ، روس، امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کا تھا مگر مسئلہ کے اصل فریق اس میں بھی نہ تھےجس نے سارے مجوزہ انتظام کو صرف روس اور امریکہ کے مذاکرات کے تابع کردیا۔ پاکستان اور افغان عوام اور مجاہدین کے مفاد کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ ہم نے بار بار متوجہ کیا اور صاحبزادہ صاحب اس میں پیش پیش تھے اور یہی موقف جنرل ضیاء الحق کا اور آئی ایس آئی کا تھا کہ اصل مسئلہ صرف روسی فوجوں کے انخلاء کا نہیں۔ بلاشبہ وہ بہت ہی اہم اور اولین ضرورت ہے مگر یہ کافی یا لازمی نہیں ہے

دوسرا مرکزی مسئلہ جو شاید سب سے اہم افغانستان میں حکمرانی کے نئے بندوبست کا ہے اور اس کے طے کئے بغیر فوجوں کا انخلاء نئے مصائب کا باعث ،خانہ جنگی کا سبب اور پورے علاقے کے لئے تباہی کا باعث ہوگا اور سب سے زیادہ پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرے گا جس کی زمین پر اس وقت تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجر موجود تھے ۔ ہمیں یقین تھا کہ کابل میں نئے اور اصل فریقین کے درمیان سیاسی انتظام کے بغیر نہ افغانستان میں امن آسکتا ہے اور نہ پاکستان سے مہاجرین کی واپسی ممکن ہوگی

لیکن جنیوا معاہدہ میں ان تمام پہلوئوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور افغانستان میں تصادم، خلفشار اور خانہ جنگی کے جاری رہتے ہوئے پاکستان کے لئے آزمائش اور جو کچھ حاصل ہوا تھا اس کو نہ صرف خاک میں ملانے بلکہ نئی دشمنیاں پیدا کرنے اور دوستوں کو دشمنوں میں اور محسنوں کو مخالفین میں تبدیل کرنے کا نسخہ تھا جس پر اس وقت کی قیادت نے امریکی اور روسی منصوبہ میں شریک کار بن کر فاش
غلطی کی اور آج تک اس کے نتائج کو پاکستان اور افغانستان دونوں مظلوم قومیں بھگت رہی ہیں

بشکریہ ۔ حامد میر

یومِ ولادت قائدِ اعظم کے حوالے سے

اللہ کے حُکم سے پاکستان بنانے والے مسلمانانِ ہند کے عظیم راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کا آج یومِ ولادت ہے ۔ میں اس حولے سے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہوئی چند اہم تحاریر کے عنوان مع روابط لکھ رہا ہوں ۔ اُمید ہے کہ قارئین اان سے مُستفید ہوں گے
پڑھنے کیلئے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے

قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء

اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت

قائد اعظم اور قرآن

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟

حُسن جوانی

بابا عالم سیاہ پوش نے کہا تھا
حُسن جوانی دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام
(مکمل اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمایئے)

اسی موضوع پر میں میاں محمد بخش کے شعر جو 3 اکتوبر 2015ء کو بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ نقل کر رہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ شعر میں نے ایک اہم موقع پر پہلی بار سُنے تھے اور مُجھے لکھنے والے کی کھوج ہوئی تھی ۔ 19 اپریل 1974ء کو سابق آرمی چیف اور صدر محمد ایوب خان نے وفات پائی ۔ اُس وقت کی حکومت (ذوالفقار علی بھٹو کی) نے ایوب خان کا جنازہ اسلام آباد میں اُن کی رہائشگاہ سے وقت مقررہ سے ایک گھنٹہ قبل زبردستی اُٹھوا دیا اور ٹرک پر رکھ کر لیجانے لگے جبکہ فیصلہ کندھوں پر لیجانے کا ہوا تھا ۔ جب ٹرک چلا تو سوگوار لوگ سڑک پر ٹرک کے آگے لیٹ گئے ۔ پولیس نے اُنہیں زبردستی اُٹھانا شروع کر دیا ۔ اس بھگدڑ میں ایک سُریلی آواز اُبھری ۔ ایک سپاہی جو لاٹھیاں برسا رہا تھا ایکدم پیچھے ہٹ گیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے

سدا نہ مانیئے حُسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغیں بُلبل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مَرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا

کلام بابا عالم سیاہ پوش

بھاگا والیو ۔ نام جپُوں مَولا نام نام ۔ نام جپُوں مَولا نام نام
بندہ مَکری ۔ تولے تَکڑی ۔ ہَتھ وِچ تَسبیح ۔ جَپدا جاوے مَولا نام نام
حُسن جوانی ۔ دُنیا فانی ۔ ہر شے آنی جانی ۔ رہے مَولا نام نام
لَوک بُپاری ۔ پیار دے وَیری ۔ عِشقے دی رَمز نوں جانَن نہ ۔ رہے مَولا نام نام
اَوکھیاں راہواں پہنچ نہ پاواں ۔ لَمبیاں نے مَنز لاں پیار دِیاں ۔ رہے مَولا نام نام